اگرہم یہ جملہ اچھی طرح سمجھ لیں تو ایکسٹرا ڈائمینشنز سمجھ آنا شروع ہوجاتی ہیں کہ،
’’ہم اپنی زندگی میں چوتھی ڈائمینشن کے مختلف کراس سیکشنز دیکھتے ہیں۔ جنہیں ہم تھری ڈی کی زندگی کا تسلسل کہتے ہیں، یہ فورڈی کے ، پلانکین سطح تک باریک کراس سیکشنز ہیں‘‘۔
کراس سیکشن کیا ہوتاہے۔ اگر آپ نے کبھی آلُو کی وہ والی چپس بنائی ہیں جو گول گول اور کاغذ کی طرح پتلی کاٹنی ہوتی ہیں؟ یقیناً آپ نے ’’لیز‘‘ کمپنی کی ’’پوٹیٹو چِپس‘‘ تو دیکھی ہی ہونگی۔ پچاس روپے کے لفافے میں انچاس روپے کی ہوا اور ایک روپے کے آلو ہوتے ہیں۔ خیر! کراس سیکشن اُسی چپس کے ایک ٹُکڑے کو کہا جاتاہے۔ اور یوں کہا جائیگا۔ یہ آلو کے کراس سیکشنز ہیں۔ کراس سیکشنز کسی بھی چیز کے ہوسکتے ہیں جیسے کہ سیب کے یا گاڑی کے؟ آپ نے گُردوں (کڈنیز) کے کراس سیکشنز دیکھے ہونگے تصویروں میں، کیوں کڈنیز کو درمیان میں آدھا کاٹے بغیر درمیان سے دکھانا ممکن نہیں۔ لیکن کڈنی کی مثال میں صرف دو ٹکڑے ہیں، کراس سیکشنز باریک سے باریک کاٹے جاسکتے ہیں، جیسے چِپس۔
’’ہم اپنی زندگی میں چوتھی ڈائمینشن کے مختلف کراس سیکشنز دیکھتے ہیں۔ جنہیں ہم تھری ڈی کی زندگی کا تسلسل کہتے ہیں، یہ فورڈی کے ، پلانکین سطح تک باریک کراس سیکشنز ہیں‘‘۔
یہ جملہ سمجھنا مشکل نہیں اگر ہم ’’ایڈوِن ایبٹ‘‘ ( 1884 Edwin Abbott ) کے مشہور ناول ’’فلیٹ لینڈ‘‘ کے کرداروں اور اُن کی نفسیات کو سمجھ لیں۔ ایڈون ایبٹ کے ناول میں ایک ایسی دنیا ہے جہاں کے سارے باشندے فلیٹ لینڈرز ہیں۔ یوں سمجھ لیں جیسے ایک بہت بڑا میز آپ کے سامنے پڑا ہے۔ جس کی اوپر سطح سفید ہے اور اس پر بے شمار متحرک ڈرائنگز ہیں۔ رنگین دائرے، ست رنگے پینٹاگونز، کالے مربعے، کاسنی مستطیلیں، لائنیں، نقطے، بے ڈھنگی شبیہیں ہر طرح کی ڈرائینگ لیکن سب چلتی پھرتی۔ سب کی سب زندہ مخلوقات۔ ساری جیتی جاگتی دنیا۔ سب کے اپنے اپنے گھر، گلیاں، محلے شہر بازار، دکانیں سب کچھ میز پر ہی بنا ہوا ہے۔ آپ میز کے پہلُو میں کھڑے اِس عجیب و غریب دنیا کا نظارہ کررہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک دائرہ جس کا نام ’’شہزاد‘‘ اور جو اپنے دوستوں میں بہادر ہے، اکیلا ایک ویرانے کی طرف جارہاہے۔ اُس کی شرط لگی ہے دوستوں کے ساتھ کہ وہ اکیلا جنگل میں جائیگا۔ وہ فلیڈ لینڈ کے جنگل کی طرف جارہاہے۔ وہ میز پر موجود ایک لمبی سڑک پر پھسلتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے کہ اچانک آپ کے دِل میں خیال آتاہے کہ، ’’اُسے پکار کر تو دیکھوں‘‘۔ آپ اس کا نام لے کر اُسے پکارتے ہیں۔
’’شہزاد!!!!!‘‘
آپ سوچ کر بتائیں۔ اس فلیٹ لینڈر دائرے کو کیسا لگے گا؟ آواز کس طرف سے آرہی ہے؟ اُسے لگے گا کہ آواز چاروں طرف سے آرہی ہے۔ وہ آپ سے پوچھتاہے،
’’کون!!!‘‘
آپ اُسے جواب میں کہتے ہیں، ’’میں تھری ڈائمینشنل ہستی ہوں اور تم ٹُو ڈائمینشنل ہستی ہو۔ تمہارا سارا جہان مجھے یوں دکھائی دے رہاہے جیسے ہتھیلی کی لکیریں‘‘۔
وہ دائرہ ڈر جائیگا۔ گھبرا کر آپ سے پوچھے گا، ’’یہ کیسے ہوسکتاہے؟ تم بھوت؟ تم کوئی فرشتہ ہو؟‘‘
آپ جواب میں کہتےہیں،
’’نہیں میں تھری ڈی کے جہان سے آیا ہوں۔ تم ٹُوڈی کے جہان میں رہتے ہو۔ ٹوڈی کا جہان فلیٹ ہے۔ تم میرے جہان کی ایک میز پر بنے ہوئے ہو۔ ایک ڈرائنگ ہو میری دنیا کی۔ میں تمہارا ہر نقطہ دیکھ سکتاہوں لیکن تم مجھے نہیں دیکھ سکتے‘‘
وہ آپ سے اصرار کرتاہے کہ آپ اپنا آپ اُسے کسی طرح دکھائیں۔ آپ اُسے کہتے ہیں،
’’ اچھا میں اپنی انگلی سے تمہارے سامنے کی جگہ کو چھُوتاہوں۔ تم دیکھ کر بتانا کہ تمہیں کیا دکھائی دیا؟‘‘
آپ اُنگلی سے اس کے سامنے کی جگہ کو چھوتے ہیں۔ آپ سوچ کر بتائیں اُسے کیا دکھائی دے گا؟ اسے ایک کراس سیکشن سا دکھائی دیگا۔ ٹُوڈی کا۔ جیسے ہم انگوٹھا لگاتے ہیں۔ اسے ہماری فنگر ٹِپ کا صرف پرنٹ ، یعنی ہمارے فنگر پرنٹ کی دھاریوں کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا۔
وہ اگر ہماری دنیا کا سیب دیکھنا چاہے گا تو ہم اپنی دنیا کا سیب اُسے کیسے دکھائینگے؟ فرض کریں آپ سیب اس کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیتے ہیں۔ وہ کیا دیکھے گا؟ وہ ٹُوڈی کی مخلوق ہے۔ ایک دائرہ ہے۔ جس کی کوئی موٹائی نہیں۔ وہ تیسری ڈائمیشن نہیں جانتا۔ وہ میز پر صرف دو ایکسز پر گھوم سکتاہے۔ چوڑائی کے رُخ پر یا لمبائی کے رُخ پر ۔ میز کی سطح پر حرکت کرتے ہوئے ڈرائنگ کے زندہ آبجیکٹس کے لیے اونچائی اور گہرائی کا کوئی تصور نہیں۔ فرض کریں آپ سیب کو اس طرح میز پر رکھتے ہیں کہ سیب آہستہ آہستہ میز کے آر پار ہوتا چلا جاتاہے۔ یعنی نچے دھنستا جارہاہے۔ اب وہ ننھی مخلوق (دائرہ) فقط کئی کراس سیکشنز دیکھے گا۔ سیب کے نیچے سے چھوٹے چھوٹے شیڈوز اور پھر سیب کا درمیانی (پیٹ والا) حصہ جب میز سے پار ہورہاہوگا تو اسے میز پر ایک بڑا سا دائرہ دکھائی دیگا اور جب سیب کا سَر میز میں ڈُوب رہا ہوگا تو اسے پھر ایک باریک کراس سیکشن دکھائی دیگا۔ آخر میں سیب اُس کے سامنے سے غائب ہوجائیگا۔ اس بیچارے ننھے زندہ دائرے کو ایک عجیب سی مخلوق نظر آئیگی۔ جو غائب سے اچانک نمودار ہوتی ہے اور پھر وہ شیپس بدلتی ہے۔ کبھی پتلی کبھی موٹی، کبھی اتنا بڑا دائرہ؟؟؟ خدا کی پناہ!! دائرے تو ہم بھی ہیں لیکن ہم تو ایک ہی سائز کے رہتے ہیں۔ یہ کیسی مخلوق تھی؟ جو مجھے غائب سے نظر آئی؟
وہ آپ سے پوچھتاہے،
’’کیا تم خدا ہو؟‘‘
آپ اُسے جواب دینگے،
’’ نہیں نہیں! میں خدا نہیں ہوں۔ میں تھری کی ڈنیا سے آیا ہوں۔ لیکن اُسے یقین نہیں آئے گا‘‘۔
یہ ایڈون ایبٹ کی کہانی کے کردار ہیں۔ انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ ناول ڈائمینشنز کو سمجھانے میں ہمیشہ بڑا مددگار رہاہے۔ کارل ساگان نے مسلسل اِس آئیڈیا کا استعمال کیا اور یہ جو اوپرمیں نے سیب کے کراس سیکشن والی مثال دی ہے یہ میں نے کارل ساگان کی ہی ویڈیو میں دیکھی۔
خیر! ہم واپس آتے ہیں۔ اپنے جملے کی طرف، جسے سمجھنے کی کوشش میں ہم نے اتنا وقت لگا دیا، جملہ یہ تھا،
’’ہم اپنی زندگی میں چوتھی ڈائمینشن کے مختلف کراس سیکشنز دیکھتے ہیں۔ جنہیں ہم تھری ڈی کی زندگی کا تسلسل کہتے ہیں، یہ فورڈی کے ، پلانکین سطح تک باریک کراس سیکشنز ہیں‘‘۔
اب یہ ہماری زندگیوں کی بات ہے۔ ایک شخص پیدا ہوا تب وہ ایک دن کا بچہ ہے، جب فوت ہوا اسی سال کا بابا تھا۔ اس نے اپنی سپیسٹائم میں رہنے والی، سپیسٹائم سے بُنی گئی، سپیسٹائم میں حرکت کرتی ہستی کا جو ہر ہر لمحہ گزارا ان میں سے ہرایک لمحہ ویسا ہی ایک کراس سیکشن ہے جیسا سیب یا آلُو کا ہم نے ٹُوڈی کے معاملے میں دیکھا۔ ہمارا بچہ چہرہ سیب کے نچلے حصے والی شکل جیسا ہے اور ہمارا بُڈھا چہرہ سیب کے غائب ہونے سے پہلے والی آخری کراس سیکشن ہے۔ ہم فورڈی سے تھری ڈی میں پلانکین کراس سیکشنز کی شکل میں نمودار ہورہے ہیں اور بتدریج فورڈی کی پلین پر ویسے ہی ہمارے کراس سیکشنز غائب ہوتے جارہے ہیں جیسے سیب کے ہوئے تھے۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“