حکمران جماعت تحریک انصاف کے پارٹی فنڈز میں مالی بے ضابطگیوں اور غیر ملکی ذرائع سے فنڈز وصولی کے متعلق فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں پچھلے تقریباٍ چھ سال سے زیر سماعت ہے۔ فارن فنڈنگ کیس تحریک انصاف کے سر پر لٹکتی ہوئی ایک ایسی تلوار ہے جو کسی بھی وقت تحریک انصاف پر گر کر نہ صرف بطور جماعت تحریک انصاف کا وجود خطرے میں ڈال سکتی ہے بلکہ فارن فنڈنگ کیس ثابت ہونے کے بعد تحریک انصاف کے تمام اراکین اسمبلی اور سینٹ بھی نااہل ہو سکتے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس تحریک انصاف کے دامن پر ایک ایسا دھبہ ہے جس کو تحریک انصاف نے مٹانے کی بجائے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف چھ سال سے کیس کا سامنا کرنے کی بجائے مختلف حیلوں بہانوں سے کیس کو لٹکائے رکھنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کے ہی ایک بانی رکن اکبر ایس بابر نے سال 2014 میں الیکشن کمیشن میں ایک درخواست جمع کروائی جس میں اکبر ایس بابر نے الزام لگایا کہ تحریک انصاف نے غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی افراد سے بے نامی بینک اکاونٹس کے ذریعے پارٹی فنڈ وصول کیا ہے جبکہ آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی افراد سے پارٹی فنڈز وصول نہیں کر سکتی۔
اکبر ایس بابر کے مطابق وہ الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کی غیر ملکی کمپنیوں، غیر ملکی بینک اکاؤنٹس اور ہنڈی کے ذریعے منتقل کئے جانے والے غیر ملکی فنڈز کی تمام تر تفصیل الیکشن کمیشن کو فراہم کر چکے ہیں۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ فراہم کئے گئے ان شواہد کی بنیاد پر تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو منتطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
تحریک انصاف کی جانب سے شروع سے لے کر اب تک اس کیس کو لٹکانے کے لئے تاخیری حربے استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ سال 2014 سے لے کر اب تک تحریک انصاف پانچ مرتبہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر چکی ہے۔ ہر مرتبہ ہائیکورٹ کی جانب سے رٹ مسترد ہونے کے بعد کسی نئے نکتے کو اٹھا کر نئی رٹ دائر کر دی جاتی ہے کہ الیکشن کمیشن پارٹی اکاؤنٹس کی چھان بین کا اختیار نہیں رکھتا۔ تحریک انصاف کی اب تک کی تمام رٹ پٹیشنز اسلام آباد ہائیکورٹ مسترد کر چکا ہے۔ ان میں سے ایک رٹ پٹیشن میں یہ درخواست بھی کی گئی کہ اس کیس کی سماعت کو خفیہ رکھا جائے جس کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسترد کر دیا۔ سال 2014 سے لے کر اب تک الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار نوٹس جاری کئے جانے کے باوجود تحریک انصاف الیکشن کمیشن کو بینک اکاؤنٹس کی تفصیل اور دوسرا ریکارڈ فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
مارچ 2018 میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کی چھان بین کے لئے ایک سکروٹنی کمیٹی قائم کی تھی جس کا سربراہ الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل قانونی معاملات کو بنایا گیا جبکہ ممبران میں ڈائریکٹر جنرل آڈٹ دفاعی امور اور کنٹرولر اکاؤنٹس پاکستان ائر فورس شامل تھے۔ سکروٹنی کمیٹی کے ساتھ درجنوں میٹنگز کے باوجود تحریک انصاف نے اکاؤنٹس کی مکمل تفصیل اور ریکارڈ فراہم نہیں کئے جس کی وجہ سے سکروٹنی کمیٹی کا کام بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔ تاہم موجود ریکارڈ کی بنیاد پر کی جانے والی انوسٹیگیشن سے یہ بات سامنے آئی کہ پورے ملک میں تحریک انصاف کے تئیس (23) بینک اکاونٹ موجود ہیں جبکہ الیکشن کمیشن میں صرف آٹھ اکاؤنٹس ظاہر کئے گئے ہیں۔ پچھلے سال سٹیٹ بینک نے بھی الیکشن کمیشن کی ہدایت پر تحریک انصاف کے اٹھارہ ایسے بینک اکاؤنٹس کی نشاندہی کی جو کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہیں۔ مبینہ طور پر ان اکاؤنٹس میں غیر ملکی کمپنیوں سے آنے والے فنڈز جمع ہوتے رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف ان اکاؤنٹس کی تفصیل فراہم کرنے سے مسلسل انکاری ہے۔ پچھلے سال سٹیٹ بینک کی جانب سے ان اکاؤنٹس کی نشاندہی کے بعد امید ہو چلی تھی کہ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے تیزی کے ساتھ اس معاملے کو نبٹایا جائے گا لیکن معاملہ جوں کا توں ہے اور تادم تحریر غیر معینہ مدت تک کے لئے تعطل کا شکار ہے۔
فارن فنڈنگ کے متعلق قانون بالکل واضح ہے ۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017 کے مطابق کوئی غیر ملکی شہری یا غیر ملکی کمپنی کسی پاکستانی سیاسی جماعت کو فنڈز فراہم نہیں کر سکتی۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت جس پر غیر ملکی ذرائع سے فنڈز وصول کرنا ثابت ہو جائے اس کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ قانون کے مطابق کسی سیاسی جماعت کے تحلیل ہونے کی صورت میں اس کے تمام صوبائی اور وفاقی اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت بھی منسوخ ہو جائے گی۔
تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس ایک ایسا خطرناک کیس ہے جو تحریک انصاف کی بطور ایک سیاسی جماعت بقا کو ختم کر سکتا ہے لیکن تمام تر شواہد کی موجودگی کے باوجود یہ کیس تاخیر کا شکار ہے۔ فارن فنڈنگ کیس تحریک انصاف کے لئے ایک ایسا مسلسل خطرہ ہے جو کسی بھی وقت تحریک انصاف کو ختم کر کے تاریخ کا حصہ بنا سکتا ہے لیکن مقتدر حلقوں کا لاڈلا ہونے کی بنا پر عمران خان اور ان کی تحریک انصاف ان کے دوسرے کرپشن کیسز کی طرح فارن فنڈنگ کیس میں بھی انصاف کے کٹہرے سے کوسوں دور ہیں اور انصاف کے نام پر بنائی جانے والی پارٹی خود اپنے آپ کو انصاف سے مبرا سمجھتی ہے۔
تحریک انصاف سے زیادہ یہ ملکی مفاد کے تخفظ کے ذمہ دار اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہونے کی بات ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت ملک کی حکمران ہے جس کے خلاف غیر ملکی ذرائع سے رقوم وصول کرنے کا الزام ہے اور مکمل ثبوت موجود ہونے کے باوجود کوئی کاروائی نہ ہونا ملکی سلامتی کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ذرا سوچیئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...