سپائنا بیفیڈا (Spina Bifida)
فولک ایسڈ کی گولی کبھی کھائی یا نام تو سنا ہوگا؟ آج ہم دیکھیں گے فولک ایسڈ ہر حاملہ ماں کو کیوں دیا جاتا ہے۔ نہ دیا جائے تو کیا ہو سکتا ہے۔
آپ نے اپنے آس پاس دیکھا یا ایسا سنا ہوگا کہ بچہ پیدا ہوا۔ اسکی کمر میں پھوڑا تھا۔ آپریشن ہوا۔۔اور نیچے والا دھڑ مفلوج ہوگیا۔ پیشاب و پاخانہ پر اب بچے کا کنٹرول نہیں۔ نہ ہی چل سکتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ کونسی بیماری ہے؟ اسکی وجوہات، بچوں کا لائف سٹائل اور علاج کیا ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں یہ کیا ہے ۔
یہ ایک نیورل ٹیوب ڈیفیکٹ ہے۔
جسے سپائنا بیفیڈا Spina bifida کہتے ہیں۔
جو پیدائشی طور پر بچوں میں ہوتا ہے۔ اس میں بچے کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ٹھیک سے جڑ نہیں پاتے۔ اور حرام مغز ایک پھوڑے یا غبارہ کی شکل میں کمر کے نچلے حصے میں جسم سے باہر نکل آتا ہے۔ اس کی وجہ سے جسم کے نچلے حصے کی حرکات متاثر ہوتی ہیں۔
اس مرض والے بچوں کی دنیا بھر میں ایورج عمر 30 سے 40 سال ہے۔ دنیا بھر کے اعداد و شمار میں یہ بچے ایک ہزار میں 0.5 سے 2 بچے تک ہو سکتے ہیں۔
ماں حاملہ ہوئی۔ پانی سے خون بنا، خون سے گوشت بنا اور پھر حضرت انسان کی جسمانی نشوونما روح سے پہلے شروع ہوئی۔ جب باری آئی سپائنل کالم میں موجود سپائنل کارڈ کی تو وہ کسی جگہ سے ٹھیک طرح جڑ نہیں سکا۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی ایک زپ کی طرح بند ہوتی ہے۔ اور اس بیماری میں کوئی مہرہ Vertebrae ٹھیک سے دوسرے مہرے سے جڑا نہیں ہوتا۔
پوسٹ کے ساتھ لگی فوٹو دیکھیں۔ اور پڑھنے میں جہاں مشکل پیش آئے پھر فوٹو دیکھ لیں۔
ایک ریڈیالوجسٹ دو سے تین ماہ کے حمل میں ہی بتا دیتا ہے کہ یہ مسئلہ ہے۔ خیر بچہ پیدا ہوتا ہے۔ کمر پر نچلے حصے میں ایک نیلے یا سرخ سرخ رنگ کا جھلی نما غبارہ سا ہوتا ہے۔ جس میں سیری برو سپائنل فلیوڈ ہوتا ہے۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ نسیں Nerves بھی جو سپائنل کارڈ کے ساتھ نیچے جا رہی ہوتی ہیں۔ جسم سے باہر اس غبارے میں آجاتی ہیں۔
ایسا ہو تو۔ آپ دیکھیں گے متاثرہ بچے کی ٹانگوں کی حرکت نہیں ہے۔ یا بہت ہی کم ہے۔ فوراً بچے کو کسی نیورولوجسٹ یا نیورو سرجن کے پاس لے کر جائیں۔ وہ دیکھے گا کہ مسئلہ کس حد تک سنگین ہے۔۔آپریشن فوراً کرنا ہوتا ہے۔ نہیں تو انفیکشن جسم میں داخل ہوکر دماغ تک جا سکتا ہے۔۔جس سے بچے کی اسی دن موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس غبارے پر عموماً اسکن نہیں ہوتی۔
آپریشن ہوگیا۔ جو نسیں نیچے والے دھڑ ٹانگوں باؤل اور بلیڈر کو کنٹرول کر رہی تھیں۔ وہ کٹ گئیں یا زخم کو سینے میں دب گئیں۔ اب آپریشن کے بعد بھی ٹانگوں میں حرکت نہیں ہے۔ یہ نارمل ہے۔ آپریشن ہو یا نہ ہو یہ ہونا ہی ہوتا ہے۔ بیماری کی شدت کیسی تھی آپریشن کیسا ہوا یہ تعین کرتا ہے کہ نچلے دھڑ کا نقصان کتنا ہوگا۔
کچھ بچوں میں یہ پھوڑا یا غبارہ نہیں ہوتا۔ بلکہ کمر کے نچلے حصے پر بالوں کا ایک گچھا ہوتا ہے۔۔یا ایک ابھار ہوتا ہے اور اس کے اوپر اسکن ہوتی ہے۔ یہ سپائنا بیفیڈا کی تین اقسام ہیں۔
یوں تو اسکی دو بڑی اقسام ہیں۔ سپائنا بیفیڈا اوکلٹا
Spina bifida occulta
اور دوسری سپائنا بیفیڈا اوپرٹا
Spina bifida opera
اوکلٹا میں کمر پر بالوں کا ایک گچھا سا ہوتا ہے۔ یہ اس بیماری کی معمولی قسم ہے۔۔اس میں کوئی آپریشن نہیں کروانا۔ سپائنل کارڈ نیچے بلکل ٹھیک ہے۔ پوسٹ کے ساتھ لگی فوٹو دیکھیں۔
دوسری قسم اوپرٹا میں آگے دو مزید اقسام ہیں ایک ہے می ننگو سیل Meningocele جس میں صرف سپائنل کارڈ میں چلنے والا پانی مہروں سے باہر نکل کر جسم سے باہر ابھار کی شکل میں آجاتا ہے۔۔اس پر اسکن ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہو سکتی۔۔مگر اس میں نسیں نہیں ہوتیں جو نچلے دھڑ کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اگر پھوڑے پر اسکن ہو تو آپریشن نہ کروائیں۔ آپریشن کروا کر مزید خرابی ہوگی۔
اوپرٹا کی دوسری اور اس بیماری کی سب سے شدید قسم ہے مائیلو می ننگو سیل Myelo meningocele۔ اس میں حرام مغز بمع ساری نسیں سارا جسم سے باہر آجاتاہے۔ اور آپریشن سے پہلے ہی نچلا دھڑ تقریباً مفلوج ہوتا ہے۔ آپریشن کے بعد کچھ بہتری کی امید ہوتی ہے۔ جو کئیر کرنے سے آ بھی جاتی ہے۔
اس شدید والی قسم یعنی Myelomeningocele میں تین چیزیں دیکھنے اور سمجھنے کی ہیں۔
پہلی بات: ٹانگوں میں طاقت نہیں ہوتی۔ یا بہت کم طاقت ہوتی ہے۔۔اپریشن کے بعد بھی وہی حالت رہتی ہے۔ کچھ بچوں کی ٹانگوں میں طاقت ہوتی بھی ہے۔ ایسا نہیں کہ سب ہی مفلوج ہوں گے۔ کتنی نسیں دبی اور کٹی ہیں۔ یہ طے کرے گا کہ ٹانگوں میں حرکت کتنی ہوگی۔ بہت سے بچے آپریشن کے بعد سہارے اور بغیر سہارے کے چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ کئی تو بھاگنا تک شروع کر دیتے۔
دوسری بات یہ کہ آپریشن کے بعد ان کی ٹانگوں اور کولہوں میں کچھ محسوس کرنے Sensation کی صلاحیت کم یا بلکل بھی نہیں ہوتی۔ پیروں ٹانگوں اور کولہوں پر ایک جگہ پڑا رہنے سے زخم بن جاتے ہیں۔ جو ناسور کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ کئی بچوں کو بائیک پر بٹھایا جاتا پاؤں سائیلنسر پر لگتا۔ کیونکہ محسوس تو کچھ ہوتا نہیں پاؤں جل جاتا اور زخم ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ زخم کو ٹھیک کرنے کا حکم تو دماغ نے بھیجنا ہے۔ اور اس سے رابط ہی منقطع ہوتا۔ زخموں سے حتی الامکان ان بچوں کو بچائیں۔
تیسری اور اہم بات یورین کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ کچھ بچوں کا ہوتا بھی ہے۔ کچھ نالی لگا کر یورین پاس کر لیتے۔۔کچھ نالی لگائے ہی رکھتے۔ نالی لگانا ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ کچھ پیمپر لگائے رکھتے۔ آپریشن کے بعد کسی یورالوجسٹ کو ملیں۔۔وہ ایک ٹیسٹ کرے گا جسکا نام ہے
Urine dynamic studies
یہ لازمی کروائیں۔ اس سے گردے مثانہ وغیرہ کی صحت اور فعالیت کا اندازہ ہوگا۔ ایک بات جان لیں یورین کو کنٹرول کرنے کا مسئلہ ساری عمر رہے گا۔ یہ مکمل ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
وجوہات کیا ہیں؟
بہت سے کیسز میں اس کی وجوہات نامعلوم ہیں۔ کچھ جنیٹک فیکٹرز ہوتے ہیں۔ اور ایک وجہ وٹامن فولک ایسڈ کی کمی بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر فیملی ہسٹری ہے تو زیادہ امکان ہیں خاندان میں کوئی اور بچہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ فیملی ہسٹری ہونے پر کزن میرج بلکل نہ کریں۔
لڑکی شادی کے فوراً بعد ماں بننا چاہتی ہو تو شادی سے تین ماہ قبل 0.4mg فولک ایسڈ کی گولی روز کھانا شروع کر دے۔ یہ کوئی دو تین روپے کی گولی ہے۔ اگر حمل کی طرف جانے والی کنواری یا ایک دو بچوں کی ماں کو ہائی بلڈ پریشر ہے مرگی ہے شوگر ہے ٹی بی ہے تو فولک ایسڈ کی ڈوز ڈاکٹر سے مشورہ کرکے بڑھا لیں۔ ڈاکٹر سے حمل سے پہلے مشورہ ضرور کریں۔ یہ گولی نو ماہ پورے حمل میں روزانہ کھائیں۔ فولک ایسڈ سبز پتوں والی سبزیوں میں پایا جاتا ہے۔ پالک میتھی ساگ وغیرہ کھائیں۔ مگر گولی ہر لڑکی حمل میں سو فیصد کھائے۔
سپائنا بیفیڈا کے ساتھ دو کنڈیشنز عموماً جڑی ہوتی ہے۔ ایک ہے کلب فٹ Club foot یعنی پاؤں ٹیڑھا ہونا یا ایڑھی زمین پر نہ لگنا۔ اور دوسرا ہائیڈرو سیفلس Hydrocephalus۔ ہائیڈرو سیفلس میں دماغ کے اندر سیری برو سپائنل فلیوڈ جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور دماغ کا سائز بہت بڑا ہونا شروع جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایک نالی جسے شنٹ Shunt کہتے ہیں دماغ سے ڈال کر پیٹ میں اس جگہ جوڑ دیتے جہاں اس پانی نے آکر جذب ہونا ہوتا۔ تو مسئلہ کسی حد تک ٹھیک ہوجاتا ہے۔
سپائنا بیفیڈا کے ساتھ یہ دونوں کنڈیشنز یا ان میں سے ایک یا کوئی بھی نہیں ہو سکتی۔
مینجمنٹ کیسے کرنی ہے؟
جن بچوں کی ٹانگوں میں کوئی جان ہے ہی نہیں۔ ان کو چلانے کی کوشش نہ کریں یہ ان پر زیادتی ہوگی۔ میں نے کئی بچے دیکھے نیم حکیم مالش دیتے۔ اور کئی ڈاکٹر تو آپریشن تک کر دیتے کہ بچہ چلنے لگے گا۔ مگر یہ سب غلط ہے۔ ٹانگ کا آپریشن بلکل نہیں کروانا کسی بھی صورت میں یہ انتہائی سنگین غلطی ہوگی۔ مسئلہ ٹانگوں میں نہیں بلکہ انکو ملنے والے سگنلز میں ہے۔ جب انکو حرکت کرنے کا دماغ سے جاری ہونے والا حکم ہی نہیں ملنا تو وہ کیسے حرکت کریں؟
جو بچہ نہیں چل سکتا وہیل چیئر دیں۔ چھوٹے بچوں کو پاور وہیل چیئر دیں موٹر والی۔ واکر دیں کرچز دیں۔ ٹانگ میں کچھ جان ہے تو بریس لگا دیں۔۔ بریس کی کئی اقسام ہیں AFO, AKFO, HKAFO جیسی ٹانگ ویسی بریس لگوائیں۔ اب تو دنیا میں چند بچوں کو ربوٹک ایک یا دو ٹانگیں بھی لگائی گئی ہیں۔ بچہ روبوٹ کی طرح چلتا پھرتا ہے۔ یہ ری ہیبلی ٹیشن کے ایکسپرٹ بتاتے ہیں۔ کہ چلانے کی کوشش کریں یا نہیں۔ ان کی بات مانیں۔ اپنے تجربے پلیز نہ کریں۔
بچے کو جیسا ہے دل سے قبول کریں۔ ٹھیک کرنے کی عقلمندانہ کوشش کریں۔ کسی ان پڑھ جراح و ہڈی جوڑ والے کے پاس جا کر بچے کو تکلیف نہ دیں۔ یہ بچہ ساری عمر ایسے ہی رہنے والا ہے۔ اس کے لیے خود کو تیار کریں۔ اس کے بدلے خدا کی ذات آپکو بہت نوازنے والی ہے۔ یہ ایک دکھ ہے تو کئی سکھ بھی اس کے ساتھ آئیں گے۔ انشاء اللہ
دنیا میں اب تک اس بیماری والے چار بچوں کے آپریشن پیدائش سے پہلے ہی ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک دو سال قبل امریکہ کی ایک ریاست پین سیل وینیا Pennsylvania کے شہر فیلے ڈیلفیا Philadelphia کے مرکزی سرکاری چلڈرن ہسپتال میں ہوا۔ جو لوگ امریکہ میں رہتے وہ جانتے ہونگے یہ ہسپتال یونیورسٹی آف پین سیل وینیا کے کیمپس کی مغربی دیوار کے بلکل ساتھ واقع ہے۔ یہ ہسپتال امریکہ میں بچوں کے ہسپتالوں میں دوسرے نمبر پر اچھا ہسپتال ہے۔ اور پوری دنیا میں اسکا شمار ٹاپ 10 میں ہوتا احمد
دنیا کا سب سے بہترین بچوں کا ہسپتال
Boston Children’s Hospital
ہے۔ جو امریکہ میں ہی ہے۔ اس ہسپتال کے پاس تین ہزار سائنس دانوں کی ٹیم ہے۔۔جو مسلسل ریسرچ کرکے بچوں کی بیماریوں کی وجوہات اور جدید علاج دریافت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس ہسپتال سے آپ اپنا جین اور ڈی این اے ایڈیٹ کروا سکتے ہیں۔ پورے امریکہ میں جنیٹک ٹیسٹنگ اور جنیٹک انجینئرنگ کی سروسز بھی سب سے اچھی اسی ہسپتال کی ہیں۔۔
خیر ایک حاملہ ماں جس کے پیٹ میں سپائنا بیفیڈا اوپرٹا مائلو می ننگو سیل بچہ تھا کو Philadelphia کے ہسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹرز کی ایک پوری ٹیم جس میں کارڈیالوجی کے سرجن، یورالوجی کے سرجن، گیسٹرالوجسٹ، اسکن سرجری کے پروفیسر سرجن، نیورولوجی کے سرجن اور دیگر بھی تقریباً تمام فیلڈز کے سرجنز کو آپریشن کے لیے تیار کیا گیا۔ ہسپتال کی بہترین اور نیشنل ایوارڈ یافتہ نرسیں مددگار عملے میں شامل ہوئیں۔
یہ حمل کا چوبیسواں 24 ہفتہ تھا۔ آپریشن ہوا۔ بچہ دانی جسم سے باہر نکال کر پیٹ کے نچلے حصے پر رکھ دی گئی۔ مگر بچہ دانی کو جسم سے الگ نہیں کیا گیا۔ وہ ماں کے جسم سے جڑی ہوئی تھی۔ بچے کے گرد موجود جھلی سے لائیکر یعنی پانی ایک انجیکشن کی مدد سے نکالا گیا۔ جھلی کو چھوٹا سا کٹ لگایا گیا۔ بچے کے دل کی دھڑکن کو بڑھ جانے پر ٹھیک کیا گیا۔ پلاسینٹا کو فری رکھا گیا کہ آکسیجن اور خون کی سپلائی کسی لمحے بھی رکنے نہ پائے۔ بچے کو باہر کی آکسیجن نہیں دینی تھی۔ کمر پر موجود غبارے کو انتہائی مہارت سے کاٹ کر سب سے پہلے سپائنل کارڈ کو ٹانکے لگا کر بند کیا گیا۔ پھر مہرے بند کیے گئے۔ پھر اسکن کو سیا گیا۔ پھر جھلی کو جدید ٹیکنالوجی کے تحت بند کر دیا گیا۔ کہ اس میں پانی نیچرل طریقے سے پھر سے بننا شروع ہو جائے۔
بچہ دانی ماں کے پیٹ میں رکھی گئی۔ اور پیٹ پر ٹانکے لگا دیے گئے۔ الحمدللہ آپریشن کے بعد ماں اور بچہ دونوں بلکل ٹھیک تھے۔ ہسپتال میں جشن کا سا سماں تھا۔ حمل کے سینتسویں 37 ہفتے بچے کو ڈیلیور کرنے کا پلان ہوا۔ آپریشن ہی ہونا تھا۔ آپریشن ہوا۔ بچہ کلب فٹ کے ساتھ پیدا ہوا۔ مگر کمر بلکل ٹھیک ہو چکی تھی۔ ٹانگوں میں حرکت بھی تھی۔ بچہ اب دو سال کا ہے اور سہارے کے ساتھ چل رہا ہے۔۔امید ہے ایک سال تک بغیر کسی بھی سہارے کے چل سکے گا۔ والدین اور اس آپریشن میں شامل ڈاکٹروں کی بنائی گئی ویڈیو یوٹیوب پر رکھی ہے آپ دیکھ سکتے ہیں۔
سائنس ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ فیٹس سرجریز اب عام ہو رہی ہیں۔ میڈیکل کے عالمی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ سپائنا بیفیڈا کی فیٹس سرجری کو دنیا بھر میں پھیلایا جائے گا۔ پاکستان میں بھی بے شمار ماہر ڈاکٹرز ہیں وہ سٹیپ لیں تو کوئی ایک کیس کرکے مثال بنا سکتے ہیں۔ جس کے بعد راہ کھل جائے گی۔ مگر کوئی اتنا سر درد نہیں لیتا۔ دوسرا اس آپریشن کی کاسٹ کئی ملین ہو سکتی ہے۔
ابھی یہاں پاکستان میں پیدائش کے بعد ہی آپریشن ہوتے ہیں۔ اور اکثریت میں مس ہینڈلنگ سے بچہ عمر بھر کے لیے معذور ہوجاتا ہے۔ آپریشن کے بعد انتہائی نگہداشت کی ضرورت کئی سال تک ہوتی ہے۔ جو بچے کو نہیں مل پاتی۔ کہیں مالی مشکلات اور کہیں ماہرین کا نہ ہونا ان بچوں کو سماج کا کارآمد حصہ بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
ایسے بچوں کی شادیاں عموماً نہیں کی جاتیں۔ اکثریت میں انکا ری پرو ڈکٹویو Reproductive سسٹم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کا ہوتا بھی ہے۔ یہ بچے ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، ٹیچر ، سائنسدان ، رائٹر، بلاگر، کالم نگار، فری لانسر اور جو چاہیں بن سکتے ہیں۔ بس جس میں ان کو زیادہ چلنا پھرنا نہ پڑے۔
ہر حاملہ لڑکی کو فولک ایسڈ ضرور دیں۔ جسے نہیں پتا اسے گائیڈ کریں۔ اور ایک سپائنا بیفیڈا بچے کے بعد دوسرا بچہ پیدا کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ ایک کے بعد دوسرے بچے میں بھی سپائنا بیفیڈا ہونے کا امکان ہوگا۔ میرے پاس ایک بچہ سکول پڑھنے آیا وہ دو بہن بھائی سپائنا بیفیڈا کا شکار تھے۔ دونوں کو ہم نے سکول سے وہیل چیئرز دیں۔ بہت ہی غریب لوگ تھے۔ لڑکے کا ابو پیسے جوڑ جوڑ کر ٹیکسی کرواتا کبھی سلطان باہو کے دربار اور کبھی کسی پیر کے پاس بچوں کو لے کے جاتا۔ میں اسے منع کرتا، سمجھاتا، کہ یہ میڈیکل کنڈیشن ہے۔ مگر وہ نہ مانتا کہ اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں ولی کی دعا ضرور سنے گا۔ ایک سال کے بعد وہ لوگ کہیں دوسرے شہر شفٹ ہو گئے۔