صنعتی دور میں بڑے سٹرکچر بننے کا ٓاغاز تھا۔ یہ کام کاسٹ آئرن سے کیا جاتا کیونکہ فولاد کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کا اچھا طریقہ ابھی دریافت نہیں ہوا تھا۔ اس کو بنانے کے لئے پِگ آئرن کو گرم کر کے ہتھوڑوں سے کوٹا جاتا جس میں بہت زیادہ افرادی قوت لگتی۔ اس مہنگے فولاد کے بجائے بڑے سٹرکچر سستے کاسٹ آئرن سے بنتے۔ اس کی کمزوریوں کا کچھ اندازہ تو تھا جو ایک حادثے میں نمایاں ہو گیا۔
یہ حادثہ سکاٹ لینڈ میں 28 دسمبر 1879 کو ہوا۔ دنیا کا سب سے لمبا پل ٹے ریل برج سردی میں چلنے والی تیز ہوا کا مقابلہ نہ کر سکا اور گر گیا۔ اس پل پر سفر کرنے والی ٹرین دریا میں جا گری۔ اس ٹرین پر سوار مسافروں اور عملے میں سے کوئی بھی نہ بچا۔ یہ طے ہو گیا کہ کاسٹ آئرن یہ کام نہیں کر سکتا۔
فولاد میں اگر ایک فیصد کاربن ہو تو مضبوط فولاد، اگر زیادہ ہو جائے تو نازک اور بے کار۔ یہ ایک فیصد تک کیسے رکھا جائے؟ فولاد کے پل مضبوط ہوں گے، اسپر تو اتفاق تھا، لیکن بڑی مقدار میں اس معیار کا فولاد بنانا بڑا چیلنج تھا۔
ایک روز برطانوی انجینیر ہنری بیسمر نے اعلان کیا کہ وہ اس کے طریقے تک پہنچ چکے ہیں جس سے یہ ٹنوں فولاد بنا سکتے ہیں۔ بیسمر کا پراسس بڑا سادہ تھا۔ پگھلے ہوئے لوہے میں ہوا کو پھونکنا تا کہ آکسیجن کاربن کے ساتھ ری ایکٹ کر کے اس کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شکل میں نکال دے۔ اس کے لئے کیمسٹری کا علم چاہیے تھا جس نے پہلی مرتبہ فولاد کو کیمسٹری کی بنیاد پر کھڑا کر دیا۔ آکسیجن اور کاربن کے اس ری ایکشن سے حرارت بڑی مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے بڑھنے والا درجہ حرارت فولاد پگھلی حالت میں رہتا ہے اور صنعتی سکیل پر استعمال ہو سکتی ہے۔
بیسمر کے پراسس کے ساتھ بس ایک مسئلہ تھا۔ یہ کام نہیں کرتا تھا۔ یا کم سے کم جن لوگوں نے اس کی کوشش کی، وہ نہیں بنا سکے۔ بھاری سرمایہ کاری کے بعد صرف بھربھرا لوہا ہی بنا۔ یہ سرمایہ کار بیسمر کے پیچھے تھے لیکن بیسمر کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا کہ کبھی تو یہ پراسس کامیاب ہو جاتا تھا اور کبھی بالکل ہی ناکام۔ لیکن وہ اپنی ٹیکنالوجی پر کام کرتے رہے۔ ایک اور برطانوی میٹالرجسٹ رابرٹ فورسٹر موشے کے ساتھ انہوں نے ایک نئی تکنیک بنا لی۔ بجائے اس کے کہ کاربن کو ایک فیصد رکھنے کی کوشش کی جائے، اس نئے تکنیک میں تمام کاربن نکال لیا گیا جس کو واپس حساب کے ساتھ ڈال دیا جاتا۔ یہ کام کرتا تھا اور دہرایا جا سکتا تھا۔
بیسمر نے دوبارہ اس میں لوگوں کی دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن سرمایہ کار جو پہلے ہی بھاری نقصان اٹھا چکے تھے، انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ بیسمر کی شہرت بطور دھوکہ باز ہو چکی تھی۔ بیسمر نے بالآخر خود اپنا ہی فولاد بنانے کا کارخانہ لگا لیا۔ چند سال بعد ہنری بیسمر اینڈ کمپنی اتنا سستا فولاد پیدا کر رہی تھی کہ دوسروں کو اس سے لائسنس لینا پڑا۔ اس عمل کی کامیابی سے فولاد کی قیمت دسواں حصہ رہ گئی۔ یہ ہر قسم کے استعمال کے لئے عام ہو گیا۔ اس نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ بیسمر انتہائی امیر ہو گئے۔ بیسمر سٹیل دنیا کی سب سے بڑا سٹیل مینوفیکچررر بن گیا اور دنیا میں مشینوں کا دور شروع ہو گیا۔
آئفل ٹاور سے لے کر ریلوے کے نیٹورک تک اگلے سو سال تک فولاد کی تیاری اسی طریقے سے ہوئی۔ اس وقت تک کے پسماندہ امریکہ کے صنعتی عروج کے پیچھے ایک ہاتھ اس عمل کا تھا۔
فولاد میں چند دہائیوں بعد ابھی ایک بڑی اور نئی جدت ابھی آنی تھی جس کے پیچھے ایک بڑی جنگ کی تیاری کے دوران ہونے والا خوش قسمت حادثہ تھا۔ اس نے فولاد کے کئی نئے استعمال ممکن کر کے اس کو گھر گھر پہنچا دیا۔
یورپ میں سٹیل کے سٹرکچرز کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب
Structural Analysis of Historical Constructions by Koen Van Balen