پاکستان اوربھارت کےپہلےتین آرمی چیفز صاحبان برطانیہ کی ملٹری اکیڈمی کےتربیت یافتہ تھے۔اسکےباوجودپاکستان کےدوآرمی چیفزنےقائدکی بات ماننےسےانکارکیا۔تیسرےنےمارشل لالگایا۔یعنی اپنےحلف کی خلاف ورزی کی۔جنرل میسروی نےکشمیرکےمعاملےمیں قائدکاحکم نہیں ماناتھا۔جنرل گریسی نےبھی یہی کیا۔
ایوب خان کےبعدپاک آرمی کے5آرمی چیفزانڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون کےتربیت یافتہ تھے۔ان5میں سے2نےمارشل لالگایا۔ایک نےاسکی ناکام کوشش کی۔موسی،یحیی،گل حسن،ٹکااورضیاڈیرہ دون کےتربیت یافتہ تھے۔اسکےبرعکس انکےہم عصربھارتی آرمی چیفزنےایسی کوشش نہیں کی۔سوال یہ ہےایسا کیوں ہوا؟
اگرتقسیم ہندسےقبل کی تاریخ دیکھی جائےتواس بات کاپتہ چلتاہےانگریزوں سےآزادی کی حامی جماعتوں کااتحادکانگریس سےرہا۔ان جماعتوں کےنظریات کانگریس سےقریب رھے۔خیبرپختونخواہ کےباچاخان ہوں،بلوچستان کےصمدخان،یاسندھ کےجی۔ایم۔سیدیاحسین مدنی ہوں۔انکی سیاست کانگریس کےپلیٹ فارم سےشروع ہوئی تھی۔
مسلمانوں کی منظم جماعتیں تحریک خاکسار،مجلس احرار،جماعت مسلمین یاجمیعت علمائےاسلام کبھی مسلم لیگ کیساتھ نظریاتی طورپرہم آہنگ نہیں رھیں۔مسلم لیگ کبھی منظم جماعت نہیں رہی تھی۔مسلم لیگ کی مکمل تنظیم سازی صرف بنگال میں موجود تھی۔اسی بات نےآگےچلکربنگال کی آزادی کی بنیادرکھی۔
مسلم لیگ کی مکمل تنظیم کہیں بھی موجودنہیں تھی۔1937کےالیکشن میں اسی وجہ سےلیگ کوبدترین شکست کاسامناکرناپڑا۔اس سےپہلےیہ بات بھی قابل ذکرہےپنجاب میں یونینسٹ پارٹی کیخلاف لیگ نےمجلس احرارجیسی شدت پسندمذھبی جماعت کیساتھ بھی اتحادکیا۔یہ اتحادسرفضل حسین کی موت تک قائم رہا۔
1946کےانتخاب میں مسلم لیگ کی فتح میں جماعت کےووٹ بنک کےعلاوہ الیکٹڈامیدواروں کی بدولت ممکن ہوئی تھی۔پنجاب سےیونینسٹ پارٹی کے55اراکین پنجاب اسمبلی لیگ الیکشن سے2ماہ قبل لیگ میں شامل ہوئے۔جن میں جماعت کےنائب صدرفيروزنون،سکندرحیات،جمال لغاری،علمدارگیلانی جیسےاحباب بھی شامل تھے۔
بیورکریسی اورفوج کی سیاست میں مداخلت قیام پاکستان سےپہلےشروع ہوچکی تھی۔مسلم افسران قائدسےملتےتھے۔مارچ1943 میں سکندرمرزانےقائدسےملاقات کی۔قائدنےسرحدمیں لیگی حکومت بنانےمیں مددکی درخواست کی۔25مئی1943کوسرحدمیں لیگ کی پہلی حکومت بنی۔جس کوانگریزحکومت اورسکندرمرزاکی حمایت حاصل تھی۔
فروری1947میں قائدنےسکندرمرزاکوقبائلی علاقوں میں لشکربنانےکی ہدایت کی۔اسکی وجہ یہی تھی اگرانگریزوں سےملاقات ناکام ہوئےتووہ جہادشروع کردیں۔اسکام کیلئےمسلم امراء نےپیسےبھی دیئے۔لشکراسوقت توکام نہ آیا۔مگرکشمیرکی آزادی کیلئےیہی لشکراستعمال میں لایاگیا۔سوبیوکریسی سیاست ذدہ تھی۔
26مارچ1947کوقائدنےبیان دیاہندوستان کی تقسیم افواج ہندکی تقسیم سےپہلےقبول نہیں ہوگی۔قائدکےاس مطالبےکی پہلےمخالفت ہوئی۔مگربعدمیں مان لی گی۔اسکےبعدسکندرمرزا کوڈیفنس سیکرٹری بھی قائدنےمقررکیا۔اسکےبعدسکندرمرزا نےفوج کوبھی سیاست زدہ کیا۔1951میں پنجاب کےالیکشن نےاس میں اضافہ کیا۔
1951میں پنڈی سازش کیس نےلیاقت علیخان کوفوج کےسامنےجھکنےپرمجبورکیا۔پنجاب کےانتخاب میں بیوروکریسی کودھاندلی کیلئےاستعمال کیاگیا۔اسوقت بنگال کےسواہرجگہ حکومت بیوروکریسی کی محتاج ہوچکی تھی۔اسکےبعدخیبر پختونخواہ کےالیکشن ہوئے۔اس میں بھی دھاندلی کی گئی۔یہاں سےفوج کی مداخلت شروع ہوئی۔
قیام پاکستان سےپہلےاوراسکے بعدسیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشی نےفوج کوسیاست میں ملوث ہونےپرمجبورکیا۔اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی تنظیم سازی کانہ ہوناتھا۔1954میں جب جگتوفرنٹ کی حکومت کاخاتمہ ہوا۔بنگال کی سیاسی جماعتیں سڑکوں پرتھیں۔اسکےبرعکس پنجاب اورسندھ میں ایساکچھ نہیں ہوا۔
مسلم لیگ میں شامل ہونےوالےسیاستدانوں کی اکثریت جاگیردارتھی۔الیکشن کےقریب لیگ میں شامل ہوئےتھے۔اس سےپہلےیہ سب کانگریس،احرار،ایگریرین پارٹی اوریونینسٹ پارٹی کاحصہ تھا۔جماعت بدلناانکی فطرت تھی۔اشاروں کی سیاست اس وقت بھی کی جاتی تھی۔سوتقسیم کےبعدیہی ہوا۔اب یہ فوج کےاشارےپرچلنےلگے۔
تقسیم پاکستان کےبعدمنظم سیاسی جماعت خدائی خدمتگار تحریک تھی۔المیہ یہ ہےاس جماعت کو1948میں کالعدم قراردیاگیا۔اسکےبعدپہلی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی آف پاکستان بنی۔جسکی بنیادجی۔ایم۔سید،باچاخان،صمد خان نےرکھی تھی۔مگراسکےلیڈران کوجیل بھیج دیاگیا۔سوسیاسی جماعتیں تنظیم سازی نہیں کرسکیں۔
1950کےعشرےمیں جوسیاسی جماعتیں منظم تھیں ان میں کرشک پارٹی،عوامی لیگ،کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان شامل تھیں۔1951میں پنڈی سازش کیس کےبعدکیمونسٹ پارٹی کیخلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔1958میں جب ایوب نےمارشل لالگایاتوکیمونسٹ پارٹی نےاسکےخلاف احتجاج کیا۔یہ جماعتیں بائیں بازوسےتعلق رکھتی تھیں۔
مارچ1951میں پنجاب،دسمبر1951میں سندھ،1953میں خیبرپختونخواہ اور1954کوبنگال میں الیکشن ہوئے۔پنجاب،سندھ اورخیبرپختونخواہ میں مسلم لیگ نےبیوروکریسی اورفوج کی مددسےالیکشن جیتے۔بنگال میں ایسانہیں ہوسکا۔بنگال کی حکومت کوصرف ڈیڑھ ماہ بعدگھربھیج دیاگیا۔بنگال کےالکیشن میں لیگ کاصفایاہواتھا۔
1954میں جب بنگال سےمسلم لیگ کوشکست ہوئی اسوقت یہ سوچ مقتدرحلقوں میں پروان چڑھی منظم سیاسی جماعتیں آمریت کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔اس لئے سوچاگیاسرکاری جماعت بنائی جائے۔جس میں موقع پرست سیاستدان شامل ہوں۔1956میں ریپبلکن پارٹی قائم کی گئی جس میں مسلم لیگ کےسابق اراکین شامل تھے۔
ریپبلکن پارٹی پاکستان کےدوسرےبیوروکریٹ آمرسکندرمرزاکی جماعت تھی۔بظاھراسکی قیادت ڈاکٹرخان صاحب کےپاس تھی۔یہ جماعت سکندرمرزاکےاقتدارسےجانےکےبعد ختم ہوگئی۔اسکےبعدایوب خان کویہ احساس ہوچکاتھاکہ منظم سیاسی جماعتیں انکی آمریت کیخلاف جدوجہدکرینگی۔سوانکاخاتمہ ضروری ہے۔
منظم سیاسی جماعتوں کوختم کرنےکیلئےایوب نے3کام کئے۔پہلےمنظم جماعتوں جن میں عوامی لیگ،کرشک پارٹی،کیمونسٹ پارٹی شامل تھی۔انکےخلاف آپریشن شروع کیا۔حسن ناصرسمیت کئی راہنماٹارچرسیلوں میں قتل ہوئے۔دوسراکام یہ کیاسرگرم سیاسی راہنماؤں کوکرپشن کےالزام پرنااہل کردیا۔یہ مائنس ون کاآغازتھا۔
ایوب نےتیسراکام یہ کیااپنی سرکاری جماعت بنائے۔جسےکنویشن مسلم لیگ کانام ملا۔پہلےاسکی صدارت کیلئےراجہ صاحب محمودآبادکانام پیش کیاگیا۔انکےانکارپرشفیق الزماں کواس عہدےپرفائزکیاگیا۔اس جماعت میں وہی لوگ شامل تھے۔جو1946کےالیکشن سےدوماہ پہلےلیگ میں شامل ہوئے۔یہاں سےہرآمرکو"ق"لیگ ملنےلگی۔
ایوب کےبعدہرآمرنےانکی پیروی کی۔یحیی عوامی لیگ کوتباہ کرتےہوئےملک توڑگئے۔ضیانےپی۔پی کوتوڑنےکی کوشش کی۔ریاستی آپریشن نےجماعت کوکمزورکیا۔مگرجماعت قائم ہے۔مگرمنظم نہیں رہی۔مقتدرحلقوں نےموجودہ دورمیں جس منظم جماعت کوختم کیا۔وہMQMہے۔جماعت کی تباہی میں اسکی قیادت بھی مجرم ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں اورانکی قیادت کی بڑی خامی یہی ہےجب انکوجماعت منظم کرنےکاموقع ملتاہے۔جب جماعت میں جمہوری شعورپروان چڑھنےلگتاہےسیاستدان مقتدرحلقوں سےمفاہمت کرلیتےہیں۔یہی غلطی بی۔بی شھیدنے1989اور2007میں کی۔جبکہ میاں صاحب نےپہلے1999اورپھر2019میں کی۔کاش یہ لوگ تاریخ سےسبق سیکھیں۔
سیاسی جماعتوں کومنظم ہونےکیلئےطلبہ اورمزدورونگزکومنظم کرناہوگا۔بنگال میں عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم بہت منظم تھی۔یہ جماعت کاہراؤل دستہ تھی۔جبکہ مزدورلوگ جماعت کےنظریاتی تشخص کےامین ہوتےہیں۔اسوقت جولوگ طلبہ یونین کی بحالی کی مخالفت کررھےہیں وہ سیاسی جماعتوں کومنظم نہیں دیکھناچاھتے۔
بنگال میں عوامی لیگ کیخلاف بدترین آپریشن کےباوجوداسکی بقاطلبہ اورمزدورونگز کی بدولت ممکن ہوئی۔عبدالہاشم،حسین شھید،فضل الحق جیسی قیادت کےبعدبھی جماعت قائم رھنےکی وجہ طلبہ تھے۔جنہوں نےجماعت کی قیادت کی۔1954کےالیکشن میں طلبہ راہنماؤں نےکئی نامورسیاسی راہنماؤں کوشکست دی تھی۔
نوجوانوں کوآگےبڑھنےکےمواقع بھٹوصاحب نےبھی فراہم کئے۔مگراسکےبعدوہ خودانہی روائتی سیاستدانوں میں گھرگئے۔یہی کام الطاف حسین نےکیا۔جن کوخمیازہ بھگتناپڑا۔نوازشریف نےایسی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔مگرمریم صاحبہ نےاسکی کوشش کی۔مگرمبینہ ڈیل کےبعدانکی خاموشی سےجماعت کاورکرمایوس ہے۔
حوالہ جات:
The military in Pakistan,image and reality,Brig,A.R.Siddique.
History of All India Muslim league.
Political parties in Pakistan.1947-1958.
Political parties in Pakistan.1958-1969.
Pakistan,history and politics.Books by Rafiq Afzal.
Quaid-e-Adam paper vol.7-8.
The ayub khan era.Lawrence Ziring.
Military state and society in Pakistan..Hassan Askari
The emergence of Pakistan.M.Ali.
Religion and politics in Pakistan..Leonard Binder
From plassey to Pakistan..Hamayun mirza.
شھاب نامہ،سیاسی اتحاداورپاکستانی سیاست پراثر۔سلیم یونس۔