’’بدھ کا دن آپ کے لیے مبارک ثابت ہوا :)‘‘
موبائل پر یہ الفاظ اور ان کے ساتھ مسکراہٹ کا نشان دیکھ کر اسے یاد تو آیا ہوگا کہ وہ بھی بدھ کا دن تھا۔ جب وہ ’’ہیک‘‘ کے آفس میں ایک اہم میٹنگ کو چيئر کر تھا۔اسے خدشہ تو تھا مگر پھر بھی نیب اور حساس ادارے کے عملدار جب رینجرز کے ہمراہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر میں داخل ہوئے؛ تب ان کا لہجہ سن کر اور باڈی لینگویج دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ معاملے کی نوعیت ایسی نہیں جیسی محفلوں میں ڈسکس ہوا کرتی تھی۔
تصور اور حقیقت میں کتنا بڑا فرق ہے؟ اس سوال پر وہ انیس ماہ تک سوچتا رہا۔ وہ جس کے لیے گرفتاری سے قبل احتساب ایک لفظ اور اسیری ایک تذکرہ تھی۔ وہ جس کو معلوم بھی نہ تھا کہ قید و بند کی تکالیف کسے کہتے ہیں؟ اس کی معلومات صرف اس قیدی تک محدود تھی جس کو اس نے اپنے ہسپتال میں ہر سہولت میسر کی تھی۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ اس کا وہ قیدی دوست ان مراحل سے گذر کر آیا تھا جب انٹروگیشن سے تنگ آکر اس نے اپنی زباں کو زخمی کردیا تھا۔
اچھے دن آتے ہی انسان برے دن بھولنے لگتا ہے مگر پھر بھی تلخ یادوں کے مٹنے میں ایک وقت لگتا ہے۔ اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس کے کچھ خیراندیش یہ بھی کہیں گے کہ ’’انیس ماہ کتنی جلدی گذر گئے!!‘‘ وہ ظاہری طور پر تو اس تبصرے پر مسکرائے گا مگر اپنے دل میں اس بات پر کبھی غم اور کبھی غصہ محسوس کرے گا۔ وہ شخص جو کئی دنوں تک آزادی اور اسیری کی کیفیت کے درمیاں جاگنے اور سونے کے تجربات سے گذرے گا۔ کبھی اسے لگے گاکہ اس کی قید ایک خواب تھی۔ کبھی اسے محسوس ہوگا کہ اس کی آزادی ایک خواب ہے۔
کچھ وقت کے بعد وہ انٹرویو دینا شروع کر دے گا۔ وہ پہلے تو غیر ملکی میڈیا کے گوروں کاانتظار کرے گا۔ء کیوں کہ ہر سیاسی قیدی رہائی کے بعد اپنے آپ کو بہت بڑا لیڈر سمجھنے لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ دنیا کے دید کا مرکز ہے۔ اس لیے وہ کچھ دن تو مغربی میڈیا کا منتظر رہے گا مگر جب اسے لگے گا فارین میڈیا اسے جان بوجھ کر فراموش کر رہا ہے تب وہ ملکی میڈیا سے بات چیت کرنے کے لیے رضامند ہوجائے گا مگر ان باتوں میں وہ باتیں نہیں ہونگی جو باتیں دوراں اسیری اسے کبھی رلاتی تھیں اور کبھی ہنساتی تھیں!!
ایسی باتیں تو انسان اپنے دوستوں سے بھی شےئر نہیں کرتا۔ قید صرف زمان اور مکان کا نام نہیں۔ قید صرف ماہ و سال کی گنتی نہیں۔ قید صرف پہرے پر بیٹھے ہوئے اہلکاروں کی تعداد اور ملاقات کے لیے آنے والے گھر والوں سے کی باتوں کا نام نہیں۔ قید ایک ناقابل بیاں کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت میں انسان احساس کے ایسے مراحل سے بھی گذرتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ناقابل شکست شخصیت کا مالک سمجھتا ہے اور کبھی کبھار وہ ایسے احساسات کے گھیرے میں آجا تا ہے جب وہ اپنے آپ کو ہزاروں ٹکڑوں میں ٹوٹا ہوا شخص سمجھتا ہے۔کبھی تو اسے لگتا ہے جیل سے باہر اس کے لیے محبت کا ایک سمندر موجزن ہے ۔ ایسے دن بھی آتے ہیں جب اسے لگتا ہے کہ اس کے لیے ہر شخص پریشان ہے۔ اور اسی اسیری کے دوراں ایسی راتیں بھی آتی ہیں جب اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ دنیا بہت خودغرض اور منافق ہے۔ جب کمرے میں ہلکا سا اندھیرا ہوتا ہے اور باہر روشنی میں بارش کی بوندیں ٹپ ٹپ کرتی رہتی ہیں تب ایک قیدی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے درخت سے کٹی ہوئی شاخ ہے اور یہ بارش اس کے لیے بیسود ہے۔ وہ جو سوکھ چکا ہے وہ کبھی سرسبز نہیں بن گائے گا۔ اس کیفیت کے دوراں اس قیدی کو یہ جملہ زہر میں بجھا ہوئے تیر کی طرح دل میں اترتا محسوس ہوتا ہے جب اسے کوئی کہتا ہے کہ ’’یہ وقت بھی گذر جائے گا‘‘ اس وقت اس کو لگتا ہے کہ وقت نہیں گذر رہا۔ وقت رک گیا ہے۔ وقت پرندوں کے پر نہیں۔ وقت بھیگی ہوئی چیونٹی کی طرح رینگ رہا ہے۔
وہ شخص جو اب جیل کی سند حاصل کرنے والا سرٹیفائیڈ سیاستدان بن گیا ہے۔ ایسی کیفیات سے تو اس کا گذر کچھ زیادہ ہی ہوا ہوگا جس کو معلوم ہی نہ تھا کہ سختی کس کو کہتے ہیں؟ سیاست سانپ اور سیڑھی والاکھیل ہوا کرتا ہے اس کو معلوم ہی نہیں تھا۔ اس نے تو صرف سیاست کا سکھ دیکھا تھا۔ اس کو کیا پتہ کہ سیاست کا دکھ کیا ہوتا ہے؟ اس کے لیے سیاست ایک پرتکلف پارٹی تھی۔ اس کے لیے سیاست مدھم موسیقی والی محفل تھی۔ اس کے لیے سیاست’’ بار بی کیو ٹو نائٹ‘‘ یا ’’ایک اور کیک‘‘ تھی۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ جب احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے تب زندگی بغیر چینی والی چائے اور بغیر نمک والا کھانا بن جاتی ہے۔
اس کی اسیری ایسے پاکستانی فلم کی طرح تھی جس میں انٹرویل تک بہت دکھ اور درد کی باتیں تھیں مگر انٹرویل کے بعد اس میں امیدوں اور خوشیوں کا آنا جانا شروع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں اس کی کی اسیری ابتدا میں بہت سخت تھی۔ جب وہ اسیری کے دوسرے دن تین ماہ کے لیے رینجرز کے زیر حراست رہا۔ جب وہ عدالت میں میڈیا والوں سے کہتا تھا کہ اسے کسی تعلق کے سبب اسیر کیا گیا ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ اس سبب کا نام کیا ہے؟
یہ بات اہم نہیں ہے کہ اسے اگست کے ماہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی اہم نہیں ہے کہ اگست کا موسم کراچی میں مون سون کا موسم ہوا کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ ان دنوں میں گرفتار ہوا تھا جب کراچی پر احتساب کے بادل امڈ آئے تھے اور اہم اداروں کا رکارڈ رینجرز کے پہرے اپنے تحویل میں لیا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ دہشتگردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے۔ یہ وہ دن تھے جب کسی کو دفتر سے اٹھایا جا رہا تھا اور کسی کو اےئرپورٹ سے گرفتار کیا جا رہا تھا۔ احتساب کے سخت موسم میں اس شخص کی گرفتار اصل میں ایک اور شخص کی گرفتاری کی تمہید سمجھی جا رہی تھی۔ یہی سبب تھا کہ اس کی گرفتاری پر حکومت سندھ ہل گئی تھی اور جاری آپریشن کی راہ میں بہت ساری رکاوٹیں پیدا ہوگئی تھیں مگر وہ آپریشن پہاڑ پہ لگی آگ جیسا تھا۔ وہ آپریشن سمندر میں اٹھے ہوئے طوفان کی طرح تھا۔ وہ آپریشن کسی کے روکے رکنے والا نہیں تھا جو آپریشن جو سیاست کے ساحل پر ایک تھکی اور شکستہ لہر کی طرح لوٹ رہا ہے۔
ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس ملک میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس ملک میں احتساب ایک موسم کا نام ہے۔ جس طرح موسم سرما میں پہاڑوں پر رہنے والے لوگ میدانوں میں آجاتے ہیں۔ جس طرح سرد ممالک کے پرندے برف باری کے ساتھ گرم پانی والے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ویسے ہی جب اس ملک میں احتساب کا موسم شروع ہوتا ہے ؛ تب بہت سارے سیاستدان بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور جب احتساب کا موسم آخری مراحل میں ہوتا ہے تب وہ واپس لوٹ آتے ہیں۔
وہ احتساب کا غیر معمولی موسم تھا جس کے باعث جگہ مقدمات کی لینڈ سلائڈنگ شروع ہوگئی تھی۔ جب قانون کے پیچیدہ راستے ملزموں کے لیے مشکل ہوگئے ہوگئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جو جہاں تھا وہ وہاں تک محدود ہوگیا۔ کسی کا ملک میں آنا مشکل ہوگیا اور کسی کا ملک سے جانا ناممکن ہوگیا۔
ہمارے ملک میں یہ عام جام ہوتا ہے جب سیاسی لینڈ سلائڈنگ کے سبب بارعایت راستے بند ہوجاتے ہیں اور ملکی حالات اس روسی نظم کی طرح نظر آتے ہیں جس کے بول ہیں:
’’آنا جانا بند ہوا
میں بھی راستے کی طرح
خاموش کھڑا ہوں‘‘
مگر سیاست ساکن نہیں رہتی۔ پھر تبدیلی آتی ہے۔ پھر امیدوں کے پتے جھڑتے ہیں۔ پھر موسم بدل جاتا ہے۔ اس موسم کو انجوائے کرنے کے لیے کوئی کافی کا کپ اٹھاتا ہے اور کوئی کافی کے کپ سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ایسے موسم میں کافی اور چائے کون پیتا ہے؟‘‘
احتساب کا موسم تو گذر گیا۔
کسی نے لینڈ کیا اور کسی نے ٹیک آف!!
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا
حالات ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں۔
زندگی سیاست کے پرانے ڈگر پر چل پڑی ہے۔
ایک مفرور لیڈر واپس لوٹ آیاہے۔
مداحوں نے اس کے سر پر سونے کا تاج سجایا ہے۔
ایک قیدی رہنما آزاد ہوگیا ہے
اور انیس ماہ کی قید کاٹنے کے بعد
وہ جب باہر آیا ہے تب اسے یہ شکایت بھی نہیں کی کہ
’’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘‘
وقت گذر رہا ہے مگر زمانہ بالکل بھی نہیں بدلا
اس ملک کے مقدر کی طرح!!
سیاست کرپشن کے کنارے پر بندھی ہوئی کشتی ہے
اس کشتی کے نیچے پانی بہتا رہتا ہے
مگر کشتی کا سفر رکا رہتا ہے
اور مایوس مسافر کی نظر کا منظر بدلتا ہی نہیں!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔