وہ بچہ، مایوس اور لنگڑاتا ہوا اس اندھیرے دالان میں کھڑا تھا جب کہ اس کا باپ اسے اونی کوٹ پہنانے کی کوشش کررہا تھا۔اس کا سیدھا ہاتھ آستین کے اندر لٹک رہا تھا، پھر بھی باپ نے کوٹ کے بٹن لگا کر اسے آگے دھکا دے دیا جہاں زرد ، دھبوں بھرا ہاتھ ادھ کھلے دروازے سے اسے لینے کے لیے آگے بڑھا۔
“یہ تو اس کے ناپ کا نہیں ہے،” دالان سے ایک اونچی آواز سنائی دی۔
” ٹھیک ہے۔ خدا کے لیے اسے برابر کر لینا ،” باپ بڑبڑایا۔ ” ابھی صبح کے چھے بجے ہیں۔” وہ ابھی تک غسل خانہ والا چغہ ( bathrobe) پہنے ننگے پیر تھا۔ اور جب اس نے بچے کو باہر کرتے ہوے دروازہ کو بند کرنے لگا تو اسے وہاں ایک بڑا سا داغدار ڈھانچہ ، سبز رنگ کے لانبے کوٹ اور ٹوپی پہنے دکھائی دیا۔
” اور اس کا اور میرا ٹیکسی کا کرایہ ،” خاتون نے کہا۔ “اور دونوں طرف کا کرایہ چاہیے ۔”
وہ اپنی خواب گاہ میں گیا ، اور جب واپس آیا تو دیکھا کہ وہ خاتون اور بچہ دونوں کمرہ کے بیچ کھڑے تھے۔ خاتون اپنے ہاتھوں میں کچھ بیکار سامان لیے تھی۔” مجھے یہاں پڑے سگریٹ کے بچے ہوے ٹکڑوں کی بو بالکل پسند نہیں اگر کبھی مجھے تمھارے ساتھ زیادہ وقت بیٹھنا پڑے تو ،” بچے کے کوٹ کو ٹھیک کرتے ہوے اس نے کہا ۔
“یہ سکے لے لو ،” باپ نے کہا۔ پھر اس نے دروازہ پورا کھول دیا اور انتظار کرنے لگا۔
خاتون نے پیسے گنے ، کوٹ کے اندر حفاظت سے رکھ لیے ، گرامو فون کے قریب لٹکی واٹر کلر سے بنی تصویر کے قریب سے گذرنے لگی۔” میں جانتی ہوں وہاں کس وقت پہنچنا ہے ،” اس نے غور سے تصویر کے بنفشی رنگ کے ٹوٹے ٹکڑوں پر پڑی سیاہ دھاریوں کو دیکھتے ہوے کہا۔ “ مجھے جانا ہوگا۔ میری شفٹ رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک ہوتی ہے اور وائین سٹریٹ(Vine Street) پر کار سے جانے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔”
” اوہ ، اچھا ،” باپ نے کہا۔ “ٹھیک ہے ۔امید کرتا ہوں وہ اسی رات آٹھ یا نو بجے تک واپس آجائے گا ؟”
” ہو سکتا ہے کچھ دیر بھی ہو جائے”اس نے جواب دیا۔ “ہم دریا پر علاج کے لیے جا رہے ہیں۔ اور یہ مبلغ یہاں بہت کم آتا ہے۔ میں نے اسے ایسے ہی تو پیسے نہیں دیے۔” تصویر کی طرف سر ہلاتے ہوے اس نے کہا ، “ کاش یہ تصویر میں نے بنائی ہوتی۔”
“ٹھیک ہے ، مسز کونین (Mrs. Connin) ، پھر ملتے ہیں ،” دروازہ پر ہاتھ سے طبلہ بجاتے ہوئےاس نے کہا۔
خواب گاہ سے ایک بے سری آواز آئی ، “ برف کی تھیلی دینا۔”
“ بہت افسوس کی بات ہے ، اس کی ماں بیمار ہے ،” مسز کونین نے کہا۔ “ ویسے کیا شکایت ہے؟”
“ پتہ نہیں ،” وہ بڑبڑایا۔
“ ہم مبلغ سے کہیں گے کہ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اس نے اس طرح کے کئی لوگوں کا علاج کیا ہے۔ محترم بیول سمرز(Reverend Bevel Summers) ۔ ہو سکتا ھیکہ تمھاری بیوی کو کسی وقت اس سے ملنے کے لیے جانا بھی پڑے ۔”
“ ہو سکتا ہے، “ اس نے کہا۔” شام میں ملتے ہیں ،” یہ کہتے ہوے ، انھیں جانے کے لیے وہیں چھوڑ کر ، وہ اپنی خواب گاہ میں چلا گیا ۔
چھوٹا لڑکا مسز کونین کو ، بہتی آنکھوں اور بہتی ناک کے ساتھ گھور رہا تھا۔وہ ایک لانبے چہرے ، آگے نکلی ہوئی ٹھوڈی اور ادھ کھلی آنکھوں والا ، چار یا پانچ سال کا لڑکا تھا۔لگتا تھا گونگا اور بیمار ہے ، جو کسی بھیڑ (sheep) کی طرح باہر جانے کے انتظار میں ہو۔
“ تم ضرور اس مبلغ کو پسند کروگے ،” خاتون نے کہا۔ “ محترم بیول سمرز۔ تمھیں اسے حمد پڑھتے ہوے سننا چاہیے۔”
اچانک خواب گاہ کا دروازہ کھلا اور باپ نے سر باہر نکال کر کہا ،” خدا حافظ ، بوڑھے آدمی۔ خوش رہو ۔”
“ خدا حافظ ،” کہتے ہوے لڑکا اچھل پڑا جیسے بندوق کی گولی لگی ہو۔
مسز کونین نے واٹر کلر تصویر پر دوبارہ نظر دوڑائی ، پھر وہ باہر دالان میں چلے گیے ، لفٹ کی گھنٹی بجائی۔ “ میں ایسی تصویر نہیں بنا سکتی تھی ،” مسز کونین نے کہا۔
باہر سڑک کے دونوں طرف خالی ، غیر روشن عمارتوں نے سرمئی صبح کو مسدود کر رکھا تھا۔” کچھ ہی دیر میں سب صاف ہو جائیگا ،” خاتون نے کہا ، “ لیکن اس سال دریا کے پاس یہ آخری تبلیغ ہوگی۔ تمھاری ناک صاف کر لو ، مست (Sugar Boy)لڑکے۔”
لڑکا اپنی آستین سے ناک صاف کرنے لگا لیکن مسز کونین نے اسے روک دیا۔ “ یہ اچھی بات نہیں ہے ،” اس نے کہا۔ تمھارا رومال کہاں ہے ؟”
اس نے اپنے ہاتھ اپنی جیبوں میں ڈالے اور جھوٹ موٹ تلاش کرنے لگا ، جب تک مسز کونین انتظار کرتی رہی۔ “ کچھ لوگ بڑے لا پرواہ ہوتے ہیں اپنے بچوں کو باہر بھجواتے ہوے ،” مسز کونین نے کافی شاپ کی کھڑکی کے شیشہ میں اپنا عکس دیکھتے ہوے سرگوشی کی۔” آپ فراہم کردیں۔ “ اس نے اپنی جیب سے سرخ اور نیلے پھولوں والا رومال نکال کر لڑکے کی ناک صاف کرنے لگی۔” ناک چھینکو،” خاتون نے کہا اور لڑکے نے ناک صاف کی۔ “ تم اسے رکھ سکتے ہو ۔ اپنی جیب میں رکھ لو۔”
لڑکے نے رومال کو تہہ کر کے احتیاط سے جیب میں رکھ لیا اور پھر وہ چل پڑے۔ کونے میں ایک بند دوائیوں کی دوکان کے پاس جھک کر کار کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔مسز کونین نے اپنے کوٹ کا کالر اونچا کیا جو پیچھے اوپر ٹوپی تک پہنچ گیا۔ ان کی آنکھیں بند ہونے لگی تھیں جیسے کہ وہ دیوار سے ٹیک لگا کر سوجائینگی۔لڑکے نے مسز کونین کا ہاتھ دبایا۔
“ تمھارا نام کیا ہے ؟ “ خاتون نے نیم خوابیدہ آواز میں پوچھا۔ “ میں سواے تمھارے خاندانی نام کے اور کچھ نہیں جانتی ۔ مجھے تمھارا اصلی نام جاننا چاہیے تھا۔”
لڑکے کا نام ہیری ایشفیلڈ(Harry Ashfield) تھا اور اس نے اُس دن سے پہلے کبھی اپنا نام تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ “ بیول ،” اس نے کہا۔
مسز کونین دیوار کا سہارا چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گیں۔” یہ کیسا حسن اتفاق ہے !” خاتون ے کہا۔ “ میں نے بتایا تھا نا کہ اس مبلغ کا بھی یہی نام ہے !”
“بیول ،” لڑکے نے دوبارہ کہا۔
وہ حیران ہو کر لڑکے کو دیکھنے لگی جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو۔ “ میں چاہونگی کہ آج ہی تمھاری ملاقات مبلغ سے ہو جاے،” خاتون نے کہا۔ “ وہ کوئی عام مبلغ نہیں ہے ۔ وہ ایک معالج بھی ہے۔ویسے وہ مسٹر کونین کے لیے کچھ نہیں کرسکا ۔ مسٹر کونین کو اس پر بھروسہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ ایک بار کسی بھی چیز کو آزماتا ضرور تھا۔اپنے حوصلہ پر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔”
خالی سڑک پر ٹرام کار دور ایک زرد دھبے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔
“ وہ پھر سرکاری دواخانہ چلا گیا ، “ مسز کونین نے بتایا ، “ اور ڈاکٹرس نے اس کے پیٹ کا آپریشن کیا۔میں اس سے کہتی رہی جو کچھ اس کے پاس باقی بچا ہے ، اس کے لیے خدا کا شکر ادا کرے لیکن وہ کہتا رہا وہ کسی کا شکرگذار نہیں ہوگا۔اورمیں نے بھی صاف صاف کہہ دیا ،” خاتون نے سرگوشی کی ،” بیول !”
وہ ٹرام کار کی پٹریوں کے پاس جاکر انتظار کرنے لگے۔ “ کیا وہ میرا علاج کریگا ؟” بیول نے پوچھا۔
“ تمھیں کیا ہوا ؟”
“ مجھے بھوک لگی ہے ،” آخر اس نے طۓ کیا۔
“ کیا تم نے ناشتہ نہیں کیا؟”
“ اس وقت تک مجھے بھوک نہیں لگی تھی ،” لڑکے نے جواب دیا۔
“ ٹھیک ہے ۔ جب ہم گھر جائینگے تب کچھ کھالینگے ،” مسز کونین نے کہا۔ “ میں خود تیار ہوں ۔”
وہ کار میں داخل ہو گیے اور ڈرائیور سے کچھ سیٹوں پیچھے بیٹھ گیے اور مسز کونین نے بیول کو اپنی گود میں بٹھا لیا ۔ “ اب ایک اچھے بچہ کی طرح بیٹھو ،” خاتون نے کہا “ اور مجھے کچھ دیر سونے دو۔ میری گود سے نکل کر مت جانا۔” اور پھر مسز کونین نے سر پیچھے لگا دیا اور آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ، منہ کھل گیا جہاں سے چند لانبے منتشر ، کچھ سنہرے اور کچھ اس کے چہرے سے بھی زیادہ کالے دانت دکھائی دے رہے تھے ؛ پھر سیٹی کی سی آواز آنے لگی ، جیسے کوئی پرترنم ڈھانچہ ہو۔کار میں ان کے اور ڈرائیور کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔اور جب لڑکے نے دیکھا کہ وہ پوری طرح سو چکی تھی ، اس نے وہ پھولوں بھرا رومال نکالا ، اسے کھولا ، پھر احتیاط سے تہہ کر کے کوٹ کے اندر کی جیب میں رکھ لیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ خود بھی سو گیا۔
مسز کونین کا گھر ٹرام کے ٹریک سے کوئی آدھا میل دور ، ٹار پیپر اور اینٹوں اور ٹین کی چھت سے بنا پیش گاہ کے ساتھ، سڑک سے لگی تنگ گلی میں تھا۔پیش گاہ میں تین چھوٹے لڑکے ،مختلف قد و قامت اور ایک ہی جیسے داغدار چہرے لیے کھڑے تھے، اور ان کے ساتھ ایک دراز قد لڑکی سر پر بہت سارے الیومینیم کے کرلرس (curlers) لگاے جو چھت کی طرح چمک رہے تھے ، کھڑی تھی۔تینوں لڑکے ان کے پیچھے چلے آے اور بیول کے بعد دروازہ بند کردیا۔ وہ اس کی طرف بغیر مسکراے خاموشی سے دیکھے جارہے تھے۔
“ یہ بیول ہے ،” مسز کونین نے اپنا کوٹ نکالتے ہوے بتایا۔” یہ اتفاق ھیکہ اس کا نام بھی مبلغ جیسا ہی ہے۔ اور یہ لڑکے ، جے سی (J.C) ، اسپائیوی(Spivey)، اور سنکلیر( Sinclair)ہیں ، اور وہ پیش گاہ میں کھڑی سارہ ملڈریڈ(Sara Mildred) ہے۔ اور بیول ، اپنا کوٹ اتار کر پلنگ کے پایہ پر ٹانگ دو۔
تینوں لڑکے بیول کو کوٹ نکالتے ہوے اور پلنگ کے پایہ پر ٹانگتے ہوے دیکھتے رہے ۔ پھر کچھ دیر کوٹ کو کو گھورتے رہے اور اچانک دروازہ سے باہر نکل کر پیش گاہ میں کانفرنس کرنے لگے۔
بیول کمرے کا جائیزہ لینے لگا۔اس کا کچھ حصہ باورچی خانہ تھا اور باقی حصہ خواب گاہ۔ویسے سارا گھر دو کمروں اور دو دالانوں پر مشتمل تھا۔اس کے پیر کے پاس ، فرش کے دو تختوں کے درمیان ایک ہلکے رنگ کے کتے نے نچلے حصہ کے ساتھ اپنی پیٹھ کھجائی تو اس کی دم ہلنے لگی۔ بیول اچھل پڑا۔لیکن کتا بھی تجربہ کار تھا ، وہاں سے فوری ہٹ گیا تھا۔
دیواریں کیلنڈروں اور تصویروں سے بھری پڑی تھیں۔وہاں دو تصویریں گول فریم میں لگی ہوئی تھیں، ایک بزرگ مرد اور ایک بزرگ خاتون کی جن کے دانت گر چکے تھے۔ اور دوسری تصویر ایک ایسے شخص کی تھی جسکی گہرے بالوں کی بھنویں ناک پر پل بناتی ہوئی ایک دوسرے سے مل چکی تھیں۔ اور باقی چہرہ جیسے ڈھلتی ہوئی چٹان۔
“ یہ مسٹر کونین ہیں ،” مسز کونین نے اس چہرے کو سراہتے ہوے چولھے کے پاس سے پلٹ کر بتایا ، “ لیکن اس نے اس مبلغ کو کبھی پسند نہیں کیا ۔” بیول مسٹر کونین کی تصویر سے ہٹ کر پلنگ کے اوپر لگی دوسری رنگین تصویر کی طرف متوجہ ہو گیا جس میں ایک آدمی سفید چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ اسکے لانبے بال تھے اور سر پر سونے کا دائیرہ بنا تھا۔اور وہ لکڑی کے تختہ کو کاٹ رہا تھا جبکہ کچھ بچے وہاں کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔وہ اس تصویر میں دکھائی دینے والے شخص کے بارے میں پوچھنے ہی والا تھا کہ تینوں لڑکے دوبارہ کمرے میں داخل ہوے اور اشارہ سے اس سے کہنے لگے کہ وہ بھی ان کے ساتھ چلے۔ویسے تو وہ بستر پر لیٹ کر آرام کرنا چاہتا تھا لیکن تینوں لڑکے خاموشی سے اپنے داغدار چہروں کے ساتھ ، اس کے انتظار میں وہیں کھڑے رہے۔ اور پھر کچھ لمحوں کے بعد ان کے پیچھے کچھ فاصلہ سے ، پیش گاہ سے ہوتے ہوے گھر کے پیچھے ایک کونہ کی طرف ،چل پڑا۔آگے وہ جنگلی خس وخاشاک کے میدان سے گذرتے ہوے ، ایک پانچ مربع فٹ پر خنزیر کے بچوں سے بھرے ، خنزیر خانہ پر لے آے تاکہ اسے اس کی پریشانی سے نجات دلا سکیں۔وہاں پہنچ کر انھوں نے پلٹ کر دیکھا اور دیوار سے ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگے۔
وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا ، قصداً دونوں پیر زمین پر زوروں سے مارتے ہوے جیسے اسے چلنے میں تکلیف ہو رہی ہو۔ایک مرتبہ جب اس کی آیا اسے پارک میں چھوڑ کر کہیں چلی گئی تھی ، تب کچھ اجنبی لڑکوں نے اس کی پٹائی کی تھی۔ اس وقت اسے بالکل پتہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا۔اسے تو تب پتہ چلا جب سارا واقعہ ہو چکا تھا۔وہاں اسے کچرے کی بدبو آرہی تھی اور ساتھ ہی کسی جنگلی جانور کی آوازیں بھی۔خوف سے بے رنگ چہرہ لیے وہ ہمت کے ساتھ خنزیر خانہ سے بس کچھ قدم پر ٹھہر کر انتظار کرنے لگا۔
تینوں لڑکے وہیں کھڑے تھے۔لگ رہا تھا جیسے انھیں کچھ ہوگیا ہو۔وہ اس کے سر سے اوپر ، اس کے پیچھے دیکھنے لگے کہ جیسے اس کے پیچھے کوئی آرہا ہو ، اور وہ ڈر کی وجہ سے پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔لڑکوں کے چہروں کے داغ ہلکے ہو چکے تھے اور ان کی سرمئی آنکھیں کانچ کی طرح ساکن ہو چکی تھیں۔صرف ان کے کان آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ کچھ نہیں ہوا تھا۔ آخر درمیان میں کھڑے لڑکے نے کہا ، “ وہ ہمیں مارڈالے گی،” شکستہ اور ٹوٹے ہوے وہ خنزیر خانہ پر چڑھ گیے اور لٹکتے ہوے جھک کر نیچے دیکھنے لگے۔
بیول حواس باختہ لیکن پرسکون سا زمین پر بیٹھ گیا اور ان کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔
خنزیر خانہ پر بیٹھے لڑکوں میں سے ایک نے درشت نظروں سے دیکھتے ہوے اس سے کہا ،” اے لڑکے ،” اور پھر ایک لمحہ کے بعد کہا ، “ اگر تم اوپر چڑھ نہیں سکتے ہو اور ان خنزیروں کو دیکھ رہے ہو تو تم وہ نیچے کا لکڑی کا تختہ اٹھاؤ اور اسی سمت دیکھتے رہو۔” اس نے یہ پیشکش ہمدردانہ جذبہ کے تحت کی تھی۔
بیول نے کبھی سچ مچ کا خنزیر نہیں دیکھا تھا۔اس نے صرف تصویروں میں دیکھا تھا کہ یہ چھوٹے ، دبیز اور گلابی رنگ کے جانور ہوتے تھے ، جن کی دم تیڑھی ، مسکراتے چہرے بو ٹائی کے ساتھ۔بیول نے آگے جھک کر تختہ کو کھینچا۔
“ زور لگا کر کھینچو،” سب سے چھوٹے لڑکے نے کہا۔ “ وہ نرم اور بوسیدہ ہے۔ اس میں سے وہ کیل نکال دو۔” اس نے آسانی سے وہ سرخی مائل کیل نرم لکڑی سے نکال لی۔
“ اب تم وہ تختہ اٹھا لو اور اپنا چہرہ …….” کوئی ہلکی سی آواز سنائی دینے لگی تھی۔
بیول نے ویسے ہی کیا ، اور ایک اور سرمئی ، گیلے اور بدبودار چہرہ نے اس کے چہرے کو ڈھکیل کر اسے نیچے گرا دیا اور تختہ کو کھرچنے لگا۔کسی نے خراٹوں کی آوازوں کے ساتھ اس پر پھر حملہ کیا ، اسے الٹا دیا اور پیچھے سے اسے دھکا دے کر آگے بڑھایا ، چیختے ہوے اس نے چھلانگ لگائی۔
تینوں لڑکے جہاں تھے وہیں سے دیکھتے رہے۔جو لڑکا خنزیر خانہ پر بیٹھا تھا ، اس نے وہ نکلا ہوا تختہ اپنے لانبے پیر سے واپس کھینچ لیا۔ انکے بے رونق چہرے ، روشن تو نہیں ہوسکے ، البتہ ان کی پریشانی کچھ کم ہوتی دکھائی دے رہی تھی جیسے کہ کوئی بہت بڑی ضرورت کچھ حد تک پوری ہوچکی ہو۔” بیول کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ ماں کو بالکل اچھا نہیں لگے گا۔”
مسز کونین ، جو ، پچھلے دالان میں تھیں ، بیول کو پکڑ لیا جب وہ سیڑھیوں تک پہنچا۔خنزیر جو اس کے پیچھے بھاگتا چلا آ رہا تھا ، گھر کے اندر پہنچ کر ہانپتا ہوا خاموش بیٹھ گیا ، لیکن بچہ تقریباً پانچ منٹ تک روتا رہا۔اور جب بالآخر مسز کونین نے بچہ کو خاموش کیا تو پھر اسے اپنی گود میں بٹھا کر ناشتہ کروایا۔لانبے پیروں والا خنزیر کا بچہ ، کبڑا سا اور جس کا ایک کان بھی کٹا ہوا تھا ، پچھلے دالان کی دو سیڑھیاں چڑھ کر، افسردگی سے چہرہ جھکاے دروازہ کے باہر کھڑا رہا۔
“ دور ہوجاؤ !” مسز کونین چیخیں۔” وہ جو آگے کھڑا ہے وہ اس گیس اسٹیشن کے مسٹر پیراڈائیس (Mr Paradise) کی بہت مدد کرتا ہے ،” انھوں نے کہا۔” آج تم انھیں شفا خانہ پر دیکھوگے۔ اس کے کان کے اوپر کینسر تھا ۔ وہ ہمیشہ یہاں آیا کرتا تھا مبلغ کو دکھانے کے لیے لیکن اس کا علاج نہیں ہو پایا۔”
خنزیر کا بچہ کچھ لمحے انھیں ترچھی نظروں سے دیکھتا رہا اور پھر آہستہ سے چلا گیا۔ “ میں اس سے نہیں ملنا چاہتا ،” بیول نے کہا
* * * * *
وہ سب دریا کی طرف جانے کے لیے نکل پڑے ____ مسز کونین بیول کے ساتھ سب سے آگے ، تینوں لڑکے ان کے پیچھے پہلو بہ پہلو چل رہے تھے اور وہ دراز قد لڑکی سارہ ملڈریڈ سب سے آخر میں تاکہ اگر کوئی سڑک پر چلا جاےتو وہ آواز لگا سکے۔ دور سے وہ دو نوکدار سروں کے ساتھ کسی پرانی ٹوٹی پھوٹی کشتی کا ڈھانچہ دکھائی دے رہے تھے ، جو کسی شاہراہ کے کنارے آہستہ آہستہ تیر رہی ہو۔سفید اتوار( White Sunday____ ایسٹر کے بعد آنے والا ساتواں اتوار) کا سورج کچھ فاصلہ سے ان کے پیچھے چل رہا تھا ، تیزی سے بادلوں کے جھاگ سے اوپر اٹھتے ہوے جیسے کہ وہ ان سے آگے نکل جانا چاہتا ہو۔ بیول ، مسز کونین کا ہاتھ تھامے کنارے سے چلتے ہوے نیچے سنہری اور کاسنی گھاٹی میں دیکھتا جارہا تھا جہاں سمنٹ اور پتھر سے بنا تودہ گرپڑا تھا۔
اسے خیال آیا کہ وہ بہت خوش قسمت تھا کہ اس بار اسے مسز کونین جیسی آیا ملی جو اس کو ایک دن کے لیے باہر لیجا رہی تھی ، بجاے کسی عام آیا کے جو گھر میں ہی محدود ہوتی یا زیادہ سے زیادہ کسی پارک میں لیجاتی۔گھر سے باہر نکلنے پر ہی انسان کو زیادہ جاننے کا موقع ملتا ہے۔اور اسی دن اس کو پتہ چلا کہ اسے کسی نجار ( لکڑی کا کام کرنے والا) نے بنایا جس کا نام عیسیٰ علیہ السلام (Jesus Christ) تھا۔ پہلے وہ سوچا کرتا تھا وہ سلیڈوال (Sladewall) نامی ڈاکٹر ، پیلی مونچھوں والا فربہ شخص جس نے اسے کچھ ٹیکے دیے تھے اور سوچا کہ اس کا نام ہربرٹ (Herbert) تھا ، لیکن وہ ضرور ایک مذاق تھا۔جہاں وہ رہتا تھا ، وہاں اس طرح کے مذاق ہوا کرتے تھے۔اگر اس نے پہلے کبھی اس بارے میں سوچا ہوتا تو شائد وہ سمجھتا کہ “جیسس کرائیسٹ “ ایک لفظ تھا جیسے “ اوہ” یا “ لعنت”(damn) یا “ یا خدا” یا ایسا کوئی شخص جس نے انھیں کسی وقت دھوکا دیا ہو۔جب اس نے مسز کونین سے پوچھا تھا ان کے بستر کے اوپر کس کی تصویر تھی ، تو مسز کونین کا منہ تعجب سے کھلا رہ گیا۔ اور تب اس نے بتایا کہ “ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے”، اور بیول کو مسلسل دیکھتی رہی تھی۔
کچھ ہی منٹوں بعد وہ اٹھیں اور کمرے سے ایک کتاب لے آئیں۔ “ یہ دیکھو،” انھوں نے پہلا صفحہ پلٹاتے ہوے بتایا کہ ، “ یہ میری پڑدادی کی ملکیت تھی ۔ اور اب میں اسے کسی قیمت پر خود سے علٰحیدہ نہیں کرسکتی۔” وہ کسی دھبوں والے صفحہ پر خاکی سیاہی سے لکھی تحریر پر انگلی دوڑانے لگیں۔ “ ایماّ سٹیوینس اوکلے(Emma Stevens Oakley) ، ۱۸۳۲،” انھوں نے بتایا۔” کیا ہمیں کچھ لینا نہیں چاہیے ؟ اس کا ہر لفظ ایک ناقابل تردید سچ (gospel truth) ہے ۔” پھر مسز کونین نے اگلا صفحہ پلٹا اور اسے نام پڑھ کر سنایا : “ بارہ سال سے کم عمر کے قارئین کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی۔” اور پھر انھوں نے بیول کو ساری کتاب پڑھ کر سنائی۔
وہ ایک ہلکے خاکی رنگ کی سنہرے کناروں والی ، تصویروں سے بھری ، چھوٹی سی کتاب تھی جس سے کسی شیشہ صاف کرنے والے سفوف کی سی بو آرہی تھی۔ایک تصویر میں نجار کسی آدمی کو راستہ دینے کے لیے خنزیروں کے ہجوم کو بازو ہٹا رہا تھا۔وہ سچ مچ کے سرمئی اور بدبودار خنزیر تھے ، اور مسز کونین کا کہنا تھا کہ جیسیس (Jesus) نے اس ایک شخص کے راستہ سے سارے جانوروں کو ہٹا دیے۔کہانی ختم کر کے مسز کونین نے بیول کو فرش پر بٹھا دیااور کتاب اسے دے دی کہ وہ دوبارہ تصاویر دیکھتا رہے۔
علاج کے لیے جانے سے پہلے بیول نے وہ کتاب ، مسز کونین کی نظروں سے بچا کر ، کوٹ کے اندر کی جیب میں رکھ لی۔ جس کی وجہ سے کوٹ ایک جانب زیادہ لٹک گیا بہ نسبت دوسری جانب کے۔ساتھ چلتے ہوے اس کا ذہن خوابیدہ سا اور پرسکون تھا ، اور جب وہ شاہراہ سے لال مٹی والی کچی سڑک پر آگیے جو ہنیسکل(honeysuckle ) کی جھاڑیوں کے درمیان مڑ جاتی تھی ، بیول نے چھلانگیں لگانی شروع کردیں اور مسز کونین کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا جیسے وہ دوڑ کر سورج کو اپنے قبضہ میں کرلینا چاہتا تھا جو ان سے آگے چل رہا تھا۔
وہ تھوڑی دیر کچی سڑک پر چلتے رہے پھر کاسنی رنگ کے پودوں سے بھرے میدان سے گذر کر وہ سایہ دار جنگل میں داخل ہو گیے جہاں ہر طرف صنوبر کے کانٹوں نما پتے بکھرے پڑے تھے۔ بیول اس سے پہلے کبھی کسی جنگل میں نہیں گیا تھا ، اس لیے بڑی احتیاط سے دونوں جانب بار بار دیکھتے ہوے جیسے وہ کسی اجنبی ملک میں داخل ہو گیا ہو۔پھر وہ گھڑ سواری والے راستہ پر چلنے لگے جو مڑ کر پہاڑی کے نیچے چٹختے ہوے سرخ پتوں سے گذرتا تھا۔ اور ایک بار ، جب اس نے پھسل جانے کے ڈر سے درخت کی ڈالی کو پکڑ لیا تو اسے درخت کے اندھیرے سوراخ میں دو سبز مائل سنہری منجمد آنکھیں دکھائی دیں۔ پہاڑی کے نیچے اچانک گھنا جنگل ایک کھلی چراگاہ میں کھل جاتا ہے جہاں دور سیاہ اور سفید گائیں نقطوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں ، اور قطار در قطار نیچے جاتے ہوے راستہ ایک وسیع نارنجی چشمہ پر ، جس میں سورج کا عکس کسی بڑے سے ہیرے کی طرح دکھائی دے رہا تھا ،پہنچتا تھا ۔
چشمہ کے کنارے کچھ لوگ کھڑے گا رہے تھے۔ان کے پیچھے بڑی بڑی میزیں سجائی گئی تھیں اور سڑک پر کچھ کاریں اور ٹرک کھڑے تھے جو دریا کے کنارے سے وہاں پہنچے تھے۔بیول اور مسز کونین نے تیزی سے چراگاہ کو عبور کیا کیونکہ مسز کونین نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ سے سایہ کرتے ہوے دیکھ لیا تھا کہ مبلغ پہلے ہی سے پانی میں کھڑا تھا۔انھوں نے ٹوکری میز پر رکھی ، تینوں لڑکوں کو آگے لوگوں کی بھیڑ میں بڑھا دیا(knot of people) کہ کہیں وہ کھانے میں دیر نہ کردیں۔پھر وہ بیول کا ہاتھ تھام کر راستہ بناتے ہوے سامنے کی طرف چلی گئی۔
مبلغ تقریباً دس فٹ دور چشمہ کے پانی میں کھڑا تھا جہاں پانی اس کے گھٹنوں تک تھا۔وہ ایک دراز قد نوجوان ، خاکی پتلون پہنے جس کو لپیٹ کر اس نے پانی کی سطح سے اوپر کر لیا تھا۔وہ نیلے شرٹ کے ساتھ سرخ رومال گلے میں پہنے تھا ، لیکن ٹوپی نہیں پہنی تھی۔اور اس کے ہلکے رنگ کے بال کچھ اس طرح کٹے تھے کہ لانبی قلمیں اس کے گالوں کے گڑھوں کی طرف مڑ جاتی تھیں۔ چہرے کی ہڈیاں دکھائی دے رہی تھیں جن پر دریا سے سرخ روشنی منعکس ہو رہی تھی۔وہ اس وقت کوئی انیس سال کا لڑکا دکھائی دے رہا تھا۔وہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کیے اور سر کو تھوڑا سا پیچھے جھکاے ، بہت اونچی اور گونجدار آواز میں گا رہا تھا ، وہاں گانے والوں سے بھی اونچی آواز میں ۔
مبلغ نے بہت اونچے سُر پر اپنے حمدیہ گیت کا اختتام کیا اور پھر نیچے پانی میں دیکھتے ہوے اور اپنے پیر بدلتے ہوے خاموش کھڑا رہا ۔ پھر اس نے سر اٹھا کر کنارے پر کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا۔ وہ سب ایک دوسرے کے قریب کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ ان کے چہرے تو پرسکون تھے لیکن امید بھری نظروں سے مبلغ کی طرف اپنی نگاہیں جماۓ تھے۔ اس نے دوبارہ پانی کے نیچے اپنے پیر بدلے۔
“ شائد میں جانتا ہوں کہ آپ سب یہاں کیوں آے ہیں،” اس نے اونچی اور گرجدار آواز میں کہا ،” یا ہوسکتا ھیکہ میں نہیں جانتا۔”
“ اگر آپ جیسیس کرائسٹ کے لیے یہاں نہیں آے ہیں تو آپ میرے لیے نہیں آے ہیں۔ اگر آپ یہ دیکھنے کے لیے آے ہیں کہ کیسے اپنے دکھ اس دریا میں بہا سکتے ہیں تو آپ جیسیس کرائسٹ کے لیے نہیں آے ہیں۔ آپ اپنے دکھ اس دریا میں نہیں بہا سکتے ،” مبلغ نے کہا۔” میں نے کبھی کسی سے ایسا نہیں کہا۔” وہ خاموش ہو گیا اور اپنے گھٹنوں کو دیکھنے لگا۔
“ میرے خیال سے آپ نے ایک مرتبہ ایک خاتون کا علاج کیا تھا !”مجمع سے ایک اونچی آواز آئی۔ “ میں دیکھ چکا ہوں کہ وہ عورت جو پیر وں سے معذور تھی ، کھڑی ہو کر سیدھی چلنے لگی تھی !”
مبلغ نے ایک کے بعد ایک دونوں پیر پانی سے باہر نکالے۔ لگ تو رہا تھا ، لیکن اس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔” اگر آپ اس مقصد سے آے ہیں تو بہتر ہوگا کہ آپ واپس اپنے گھر چلے جائیں ،” مبلغ نے اس شخص سے کہہ دیا۔
پھر اس نے اپنا سر اٹھایا اور دونوں ہاتھ پھیلا کر چیخ اٹھا ، “ لوگوں سنو ! جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ کوئی اور نہیں بس ایک دریا ہے اور وہ زندگی کا دریا(The River of Life) جو جیسیس کرائسٹ کے خون سے بنا ہے ( Jesus’ Blood)۔ وہی دریا ہے جس میں تمھیں اپنے دکھ بہانے ہیں ، عقیدہ کا ، یقین کا اور ایمان کا دریا ، زندگی کا دریا ، محبت کا دریا ، جیسیس کرائسٹ کے اعلٰی ، سرخ خون کا دریا ، لوگوں !”
اس کی آواز نرم اور نغمگیں ہو گئی۔” تمام دریا اسی ایک دریا سے نکلتے ہیں اور واپس وہیں جاتے ہیں جیسے کہ وہ بحر ہو ، اور اگر آپ لوگ یقین کریں تو ، آپ اپنے دکھ اس دریا میں ڈال سکتے ہیں کیونکہ یہ دریا تو بنا ہی ہے گنہگاروں کے گناہوں کو اپنے ساتھ بہا لیجانے کے لیے۔ یہ دریا تو خود دکھوں سے بھرا ہے ، صرف دکھ ، کرائسٹ کی حکومت کی طرف بڑھتے ہوے ، دھلتے ہوے ، مٹتے ہوے ، لوگوں ، آہستہ آہستہ جیسے یہاں دریا کا پرانا سرخ پانی میرے پیروں کے اطراف ہے۔”
‘ سنو ،” وہ گانے لگا، “ نئے عہدنامہ کی دوسری جلد میں ، میں نے پڑھا مارک(Mark the Evangelist )نے ایک ناپاک آدمی کے بارے میں لکھا ہے ، اور لوقا (Luke) نے ایک نابینا شخص کے بارے میں لکھا ہے ، اور یوحنا(John) نے ایک مردہ آدمی کے بارے میں لکھا ! لوگوں سنو ! اسی خون نے ،جس نے اس دریا کو سرخ کیا ہوا ہے ،اس کوڑھی کو ٹھیک کیا ، اس نابینا شخص کو بینائی عطا کی اور مردہ شخص اٹھ کر چھلانگیں بھرنے لگا ! تم لوگ جو تکلیف میں ہو ،” مبلغ نے چیخ کر کہا ، “ اپنی ساری تکلیفوں کو اس خون کے دریا میں بہا دو ، اس دکھوں کے دریا میں ڈال دو ، اور دیکھو کیسے وہ کرائسٹ کی حکومت کی طرف چلے جاتے ہیں۔”
جب مبلغ لوگوں کو تلقین کر رہا تھا ، بیول کی نیم خوابیدہ آنکھیں بہت اونچائی پر اڑتے ہوے ، خاموشی سے اور آہستہ سے دائرے بناتے ہوے دو پرندوں کو دیکھ رہی تھیں۔ دریا کے اس پار سرخ اور سنہرے سسافراس(sassafras-شمالی امریکہ میں پایا جانے والے ایک قسم کے درخت) کے جھنڈ ، اور ان کے عقب میں نیلے درختوں سے بھری پہاڑیاں اور کہیں کہیں خط اُفق پر جھکتے ہوے صنوبر کے درخت۔ ان سے پیچھے ، بہت دور ، پہاڑی کی ایک جانب شہر ، مہاسوں کے جھرمٹ کی طرح ، طلوع ہو رہا تھا۔پرندے چکر کاٹتے ہوے نیچے آنے لگے اور سب سے اونچے صنوبر کے درخت پر کندھوں کو جھکا کر بیٹھ گیے جیسے وہ آسمان کو سنبھال رہے ہوں۔
“ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہی وہ زندگی کا دریا ہے جس میں تمھیں اپنے دکھ بہا دینے ہیں تو پھر چلے آؤ ،” مبلغ نے کہا ، “ اور اپنے دکھ یہاں ڈال دو۔ لیکن یہ مت سوچنا کہ یہ آخری ہے ، کیونکہ یہ قدیم سرخ دریا یہاں ختم نہیں ہوتا۔ یہ قدیم سرخ دکھوں سے بھرا دریا ، لوگوں ، آہستہ آہستہ کرائسٹ کی حکومت کی طرف جاتا ہے۔یہ قدیم سرخ دریا بپتسمہ ( Baptism ۔ انسان کو روحانی طور پر صاف کرنے کی عیسائیت کی ایک متبرک رسم) کے لیے اچھا ہے ، یہ دریا غلط عقیدوں کو بہا دینے کے لیے اچھا ہے ، یہ تمھارے دکھوں کو بہا دینے کے لیے اچھا ہے ، لیکن یہ نہ سمجھنا کہ یہ مٹی کے ساتھ گندہ پانی بچا سکتا ہے۔ اس ہفتہ میں اس میں کئی بار غوطہ لگاتا رہا ،” مبلغ نے بتایا۔” منگل کو میں قسمت والی جھیل( Fortune Lake) میں تھا ، اگلے دن آئڈیل جھیل ، اور جمعہ کو بیوی کے ساتھ لولاویلو ایک بیمار شخص کو دیکھنے کے لیے۔ان لوگوں نے کبھی شفا دیکھی ہی نہیں تھی ،” کہتے ہوے مبلغ کا چہرہ کچھ دیر کے لیے سرخ ہوگیا۔ “ میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ کبھی علاج نہیں کروائینگے۔”
جب وہ بات کررہا تھا ایک لہراتا ہوا پیکر تتلی کی طرح آگے بڑھا ___ ایک بزرگ خاتون پھڑپھڑاتے ہاتھ اور ڈگمگاتا سر لیے جو لگتا تھا کسی بھی وقت گر پڑیگا ، کسی طرح سے خود کو سنبھالتے ہوے وہ کنارے پر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ پانی میں گھمانے لگی۔پھر وہ اور جھکی اور اپنے چہرے کو پانی میں ڈبو دیا ، اور با لآخر وہ اٹھ کھڑی ہوئی ، پوری طرح سے بھیگی ہوئی ؛ ابھی تک لڑکھڑاتی ہوئی ، ایک دو بار چکر لگاے جب تک کوئی اس تک پہنچ گیا اور اسے کھینچ کر واپس اپنے جتھے میں لے گیا۔
“ اس راستہ پر وہ گذشتہ تیرہ سالوں سے گذرتی رہی ہے ،” کسی کی کرخت آواز آئی۔ “ ٹوپی ادھر دے دو اور اس بچہ کو اس کے پیسے دے دو۔وہ اسی لیے یہاں کھڑا ہے۔” گرجدار آواز جو دریا میں کھڑے اس بچے کی سمت اشارہ کر رہی تھی ، ایک بڑی جسامت والے بوڑھے شخص کی تھی جو کسی بہت بڑے پتھر کی طرح ایک قدیم سرمئی رنگ کی موٹر گاڑی کے سامنے والے حصہ پر بیٹھا تھا۔اس کی سرمئی ٹوپی ایک جانب کے کان پر پوری طرح سے جھکی ہوئی تھی جب کہ دوسری جانب کا کان کھلا تھا جس کی وجہ سے اس کی کنپٹی کا ابھار صاف دکھائی دے رہا تھا۔وہ آگے جھک کر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ اس کے گھٹنوں اور ادھ کھلی آنکھوں کے درمیان جھول رہے تھے۔
بیول نے ایک مرتبہ اس کی طرف دیکھا اور پھر مسز کونین کے کوٹ کے اندر خود کو چھپا لیا۔
دریا میں کھڑے لڑکے نے بوڑھے شخص کی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ اٹھا کر مکا بنایا ۔” جیسیس پر یقین کرو یا شیطان پر!” وہ چیخا۔ “ کسی ایک کے لیے اپنی گواہی دینا !”
“ میں اپنے خود کے تجربہ سے جانتی ہوں ، “ لوگوں کے ہجوم سے ایک پراسرار نسوانی آواز آئی ، “ میں جانتی ہوں کہ یہ مبلغ علاج کرسکتا ہے۔ میری آنکھیں کھل چکی ہیں ! میں جیسیس کے لیے گواہی دونگی !”
مبلغ نے فوری اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاے اور وہ سب جو اس نے دریا اور کرائسٹ کی حکومت کے بارے میں کہا تھا ، دوہرایا ۔ بمپر پر بیٹھے بوڑھے شخص نے سبق سکھانے کے انداز میں اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔ بیول بار بار مسز کونین کے پیچھے سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
لبادہ اور خاکی کوٹ پہنے شخص نے آگے جھک کر پانی میں ہاتھ ڈبوے ، انھیں جھٹکا اور سیدھا ہو گیا۔ایک خاتون اپنے بچے کو لیکر کنارے پر بیٹھ گئی اور بچے کے پیروں پر پانی سے چھڑکاؤ کیا۔ ایک اور شخص آگے بڑھا ، کچھ فاصلہ سے کنارے پر بیٹھ گیا ، جوتے نکالے اور پانی میں کچھ دور چلا گیا ،اپنی گردن کو پیچھے جھکاے کچھ دیر کھڑا رہا پھر واپس کنارے پر آ کر جوتے پہن لیے۔سارے وقت مبلغ حمد یہ گیت گاتا رہا اس بات سے بے خبر کے وہاں کیا ہو رہا تھا۔
جیسے ہی مبلغ نے حمد گانا ختم کیا، مسز کونین نے بیول کو اوپر اٹھا کر کہا، “ سنیں ، مبلغ ، میں شہر سے اس لڑکے کو لائی ہوں جس کی میں دیکھ بھال کرتی ہوں۔ اس کی ماں بیمار ہے اور یہ چاہتا ھیکہ آپ اس کی ماں کے لیے دعا کریں۔ اور اتفاق دیکھیں __ اس کا نام بھی بیول ہے ! بیول ،”مسز کونین نے پلٹ کر لوگوں کو دیکھتے ہوے کہا ، “ بالکل اسی کی طرح۔ ہے نا یہ اتفاق ، اگرچہ کہ ؟”
لوگوں میں کھسر پھسر ہونے لگی تھی ۔ بیول نے پلٹ کر ان چہروں کی طرف دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہے تھے ، اور سارے دانت دکھا کر ہنسنے لگا۔ “ بیول ،” مبلغ نے بڑی زندہ دلی سے آواز دی۔
“ سنو ،” مسز کونین نے کہا ، “ کیا تمھارا بپتسمہ ہوگیا ، بیول ؟”
اس نے صرف دانت دکھا دیے۔
“ میرے خیال سے اس کا بپتسمہ نہیں کیا گیا ،” مسز کونین نے ابرو چڑھا کر مبلغ سے کہا۔
“ اسے میری طرف اچھال دو ،” مبلغ نے کہا اور ایک قدم آگے بڑھاکر بیول کو ہاتھوں میں تھام لیا۔
اس نے بیول کو اپنی بانہوں میں لیکر اس کے مسکراتے ہوے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ بیول نے اپنی آنکھوں کو مزاحیہ انداز میں گھمایا اور ایک جھٹکے سے چہرے کو مبلغ کے چہرے کے بالکل قریب کردیا۔ “ میرا نام بیووووول(Bevvvuuuuul) ہے، “ اس نے اونچی اور گہری آواز میں کہتے ہوے زبان اپنے ہونٹوں پر پھیری۔
مبلغ بالکل نہیں مسکرایا۔ اس کا پتلا چہرہ سخت اور اس کی چھوٹی سرمئی آنکھیں بے رنگ آسمان کا عکس دکھائی دے رہی تھیں۔کار کے بمپر پر بیٹھا بوڑھا زوروں سے ہنسنے لگا اور بیول نے مبلغ کے کالر کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اس کے چہرے سے مسکراہٹ پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ کوئی مذاق نہیں تھا۔جہاں وہ رہتا تھا وہاں تو ہر بات ہی مذاق ہوا کرتی تھی۔مبلغ کے چہرے کو دیکھ کر اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ مبلغ نے جو کچھ کہا اور کیا وہ بالکل بھی مذاق نہیں تھا۔” میری ماں نے مجھے یہ نام دیا تھا،” اس نے جلدی سے کہا۔
“ کیا تمھارا بپتسمہ کیا گیا ہے ؟ “
“ وہ کیا ہے ؟” اس نے آہستہ سے کہا۔
“ اگر میں تمھارا بپتسمہ کردوں تو،” مبلغ نے کہا ،” تم اس قابل ہوجاؤگے کہ کرائسٹ کی حکومت میں جاسکو۔ اور، بیٹا ، تم دکھوں کے دریا میں دھل کر زندگی کے گہرے دریا میں چلے جاؤگے۔کیا تم ایسا چاہوگے؟”
“ ہاں ،” بچہ نے کہا ، اور سوچا ، وہ دوبارہ اس فلیٹ میں نہیں جائیگا ، بلکہ دریا کی تہہ میں چلا جائیگا۔
“ تم دوبارہ پہلے جیسے نہیں رہوگے،” مبلغ نے کہا۔ “ تم بھروسہ کروگے۔” پھر اس نے اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کیا اور بیان کرنا شروع کیا اور بیول اس کے کندھوں کے اوپر سے دریا میں بکھرے سفید سورج کے ٹکڑوں کو دیکھنے لگا تھا ۔اچانک مبلغ نے کہا ،” ٹھیک ہے ، اب میں تمھارا بپتسمہ کرنے جارہا ہوں ،” اور بغیر کسی انتباہ کے بیول کو مضبوطی سے پکڑ کر گھما دیا اور اس کا سر پانی میں ڈبو دیا اور بپتسمہ کے کلمات پڑھنے تک ڈبوے رکھا۔پھر ایک جھٹکے سے اوپر اٹھایا اور سختی سے ہانپتے ہوے بچہ کی طرف کچھ دیر دیکھتا رہا۔بیول کی آنکھیں سیاہ اور پھیلی ہوئی تھیں ۔ “ اب تم اپنا محاسبہ کرنا شروع کرو ،” مبلغ نے کہا۔ “ اس سے پہلے تم نے کبھی اپنا محاسبہ نہیں کیا۔”
چھوٹا بچہ اتنا گھبرا گیا تھا کہ وہ رو بھی نہیں پا رہا تھا۔اس نےمٹی بھرا پانی تھوک دیا اور اپنی گیلی آستین سے آنکھیں اور چہرہ صاف کیا۔
“ اس کی ماں کو مت بھولنا،” مسز کونین نے آواز لگائی۔” وہ چاہتا ھیکہ تم اس کی ماں کے لیے دعا کرو ۔وہ بیمار ہے ۔”
“ او خدا،” مبلغ نے دعا شروع کی ، “ ہم اس کے لیے دعا کر رہے ہیں جو بڑی تکلیف میں ہے اوراس بات کی گواہی دینے کے لیے وہ یہاں نہیں ہے ۔ کیا تمھاری بیمار ماں اسپتال میں ہے ؟” مبلغ نے پوچھا۔ “ کیا وہ تکلیف میں ہے ؟ “
بچے نے مبلغ کو گھور کر دیکھا۔ “ وہ تو ابھی تک اٹھی نہیں ،” اس نے مدہوش سی آواز میں کہا۔ “ وہ نشہ کے خمار میں ہے۔” ہوا اتنی خاموش تھی کہ سورج کے ٹکڑوں کے پانی سے ٹکرانے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔
مبلغ غصہ بھی ہوا اور حیران بھی۔اس کے چہرے سے سرخی غائب ہو چکی تھی اور آسمان کی سیاہی اس کی آنکھوں میں دکھائی دینے لگی تھی۔” دریا کے کنارے سے ایک زوردار قہقہہ کی آواز آئی اور مسٹر پیراڈائیس (Mr. Paradise) نے چیخ کر کہا ،” ہا ہا ! ایک مصیبت زدہ عورت کا علاج کیا جاے جو نشہ کے خمار میں ہے ! “ اور اپنے گھٹنے پر گھونسے لگانے لگا۔
“ اس کے لیے بڑا مصروف دن تھا ،” مسز کونین نے اپارٹمنٹ کے دروازہ پر کھڑے ہوکر اندر چل رہی تقریب کو دیکھتے ہوے کہا۔ “ میرے خیال سے اسے سو جانا چاہیے ، کافی دیر ہوچکی ہے۔” بیول کی ایک آنکھ بند ہوچکی تھی اور دوسری آدھی بند ؛ ناک بہہ رہی تھی اور وہ منہ سے سانس لے رہا تھا۔گیلا کوٹ پوری طرح ایک طرف لٹک رہا تھا۔
مسز کونین کو یقین تھا کہ سیاہ پتلون میں وہی ہوگی __ لانبی سیاہ اطلس کی پتلون ( britches) اور کھلی سینڈل اور سرخ رنگے پیر کے ناخن۔ وہ آدھے صوفہ پر ، ہوا میں ٹانگ پر ٹانگ ڈالے اور سر کو ہاتھ کے سہارے پر رکھے ، لیٹی تھی ۔وہ اٹھی نہیں۔
“ ہیلو ہیری ،” اس نے کہا۔ “ کیا واقعی تمھارا دن بہت مصروف تھا ؟” اس کا چہرہ بے رنگ ، لانبا اور سپاٹ تھا اور بال سیدھے ، آلو کی رنگت لیے تھے۔ وہ پیچھے ہٹ گئی۔
اس کا باپ پیسے لینے کے لیے چلا گیا۔ اندر دو جوڑے تھے۔ان میں سے ایک، گوری رنگت ، سنہرے بالوں (blond) اور نیلی۔ بنفشی آنکھوں والا شخص ، اپنی کرسی سے آگے جھکا اور کہنے لگا ، “ ہاں تو ، ہیری ، بڑے آدمی ، تمھارا دن بہت مصروف تھا ؟”
“ اس کا نام ہیری نہیں ہے ۔ یہ بیول ہے ،” مسز کونین نے کہا۔
“ اس کا نام ہیری ہے ،” اس نے صوفہ سے آواز لگائی۔” کیا آپ میں سے کسی نے بیول نام سنا ہے؟”
چھوٹے بچے کو بہت نیند آرہی تھی ، وہ اپنے ہی پیروں پر جھکنے لگا ، اس کا سر جھکتا ، مزید جھکتا چلا گیا ؛ اس نے خود کو اچانک پیچھے کھینچا اور ایک آنکھ کھول دی ؛ جبکہ دوسری جیسے پھنس گئی ہو۔
“ اس نے صبح ہی مجھ سے بتایا تھا کہ اس کا نام بیول ہے ،” مسز کونین نے حیران ہو کر کہا۔” بالکل ہمارے مبلغ کی طرح۔ سارا دن ہم دریا کے کنارے تعلیمات اور علاج میں مصروف رہے۔اس نے بتایا کہ اس کا نام بیول تھا مبلغ کی طرح۔یہی کہا تھا اس نے مجھ سے۔”
“ بیول !” اس کی ماں نے کہا۔ “ یا خدا ! کیا نام ہے !۔”
“ اس مبلغ کا نام بیول ہے اور اطراف میں اس سے بہتر مبلغ کوئی نہیں۔ “ مسز کونین نے کہا۔” اور مزید یہ کہ ،” مسز کونین نے زوردار آواز میں کہا ، “ اس نے اس صبح اس بچہ کا بپتسمہ بھی کردیا ہے!”
اس کی ماں اٹھ کر سیدھی بیٹھ گئی۔” کیا گستاخی ہے ! “ وہ بڑبڑائی۔
“ اس کے علاوہ ،” مسز کونین نے کہا ،” وہ ایک معالج بھی ہے اور اس نے تمھارے لیے بھی دعا کی ھیکہ تم جلد ٹھیک ہوجاؤ۔”
“میرا علاج !” وہ چیخی ۔ “ خدا کے لیے بتائیں میرا کیسا علاج ؟”
“ تمھاری تکلیف کا ،” مسز کونین نے سردمہری سے کہا۔
اس کا باپ پیسے لے کر واپس آچکا تھا اور مسز کونین کے قریب کھڑا اسے دینے کے لیے انتظار کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں سرخ رنگ کی لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔ “ کہتی رہو ،” اس نے کہا ، “ میں اس کی بیماری کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔قطعی طور پر اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی ……” اس نے نوٹ مسز کونین کی طرف بڑھایا اور ہچکچاتے ہوے کہا۔ “ دعاؤں سے علاج کم مہنگا ہوگا ،” اس نے آہستہ سے کہا۔
مسز کونین نے وہیں کھڑے ہوے کمرے کا جائزہ لیا، ایک ڈھانچہ کے وجود کی طرح ہر چیز کو دیکھتے ہوے۔پھر ، بغیر پیسے لیے وہ مڑی اور اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی چلی گئی۔ اس کے باپ نے گھوم کر ایک مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ کندھے اچکاۓ۔باقی سارے لوگ ہیری کو دیکھ رہے تھے۔بچہ لڑکھڑاتے ہوے خواب گاہ کی طرف جانے لگا۔
“ ہیری ، یہاں آؤ،” اس کی ماں نے اسے بلایا۔ اس نے بغیر آنکھیں کھولے خود بہ خود اپنی سمت بدل دی۔ “ مجھے بتاؤ دن میں کیا ہوا تھا،” اس کے قریب آنے پر ماں نے کہا۔ پھر وہ اس کا کوٹ نکالنے لگی۔
“ مجھے نہیں پتہ،” وہ بڑبڑایا۔
“ تم ضرور جانتے ہو ،” ماں نے کہا اور محسوس کیا کہ اس کا کوٹ ایک جانب وزن کی وجہ سے جھک گیا تھا۔اس نے کوٹ کے اندر کی جیبوں کو کھولا تو وہ کتاب اور گندہ رومال باہر گر پڑے۔” یہ چیزیں تم نے کہاں سے لیں ؟”
“ مجھے نہیں پتہ ،” کہتے ہوے اس نے انھیں فوری اٹھا لیا۔ “ یہ میری ہیں۔مسز کونین نے دیا تھا مجھے۔”
ماں نے گندہ رومال نیچے پھینک دیا اور کتاب اس کی پہنچ سے اوپر اٹھا لیا۔اور اسے پڑھنا شروع کیا اور کچھ لمحوں کے بعد ہی اس کے چہرے پر ضرورت سے زیادہ مزاحیہ تاثرات دکھائی دے رہے تھے۔وہاں موجود دوسرے لوگ ، ٹہلتے ہوے اس کے کندھوں کے اوپر سے کتاب کی طرف دیکھنے لگے تھے۔” میرے خدا ،” کسی نے کہا۔ـ
ان میں سے موٹے شیشوں کی عینک پہنے ،ایک شخص نے کتاب میں جھانک کر کہا ، “ بہت قیمتی ہے۔” “ یہ تو کتابوں کے ذخیرے میں جمع کرنے والی شۓ ہے،” کہتے ہوے اس نے کتاب لے لی اور دوسری کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔
“ جارج (George) کو وہ کتاب لے کر چلے مت جانے دینا،” لڑکی نے کہا۔
“ میں کہہ رہا ہوں یہ بہت بیش قیمت ہے،” جارج نے بتایا۔” 1832۔”
بیول نے اپنی سمت دوبارہ تبدیل کی اور خوابگاہ کی طرف سونے کے لیے چلا گیا۔کمرے میں داخل ہو کر اس نے دروازہ بند کرلیا اور اندھیرے میں ہی بستر پر جا کر بیٹھ گیا ، جوتے نکالے اور خود رضائی کے اندر چلا گیا۔ ایک منٹ کے بعد ہی روشنی کی کرن کے ساتھ اس کی ماں کا خاکہ سا کمرے میں داخل ہوا۔اس کی ماں پیروں کی انگلیوں پر چلتے ہوے اس کے بستر کے کنارے پر بیٹھ گئی۔ “ اس بیوقوف مبلغ نے میرے بارے میں کیا کہا ؟” ماں نے سرگوشی کی۔ “ تم کون کون سے جھوٹ بولتے رہے ہو آج ، میرے پیارے؟”
بیول نے آنکھیں بند کرلیں اور اسے ماں کی آواز بہت دور سے سنائی دے رہی تھی ، جیسے کہ وہ دریا کے اندر ہو اور ماں کنارے پر۔ ماں نے اس کے کندھے کو ہلایا۔ “ ہیری ،” ماں نے جھک کر اس کے کان کے قریب منہ لیجا کر کہا،” مجھے بتاؤ کہ اس نے کیا کہا۔” پھر ماں نے اسے کھینچ کر اٹھایا اور بٹھا دیا اور اسے لگا کہ جیسے کسی نے اسے پانی کے اندر سے اوپر کھینچا ہو۔ “ بتاؤ مجھے،” ماں نے سرگوشی کی اور اس کی بدبودار سانس بیول کے چہرے پر پھیل گئی۔
اس نے دیکھا کہ اندھیرے میں کوئی انڈے جیسا بے رنگ چہرہ اس کے قریب تھا۔ “اس نے کہا میں اب وہ نہیں ہوں ،جو تھا ۔” وہ بڑبڑایا۔ “ میں اب اپنا حساب کرنے لگا ہوں۔”
ایک سکنڈ کے بعد ہی ماں نے اسے تکیہ پر لٹا دیا۔ وہ کچھ دیر اس پر جھکی رہی اور اپنے ہونٹوں سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر وہ اٹھی ، ہلکے سے لہراتے ہوے اس روشنی کی کرن سے ہوتے ہوے باہر چل گئی۔
* * *
بیول جلد نیند سے بیدار نہیں ہوسکا ۔ ویسے جب وہ بیدار ہوا ، اس وقت تک بھی سارا اپارٹمنٹ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ کچھ دیر وہ اپنی ناک اور آنکھیں صاف کرتا لیٹا رہا۔ پھر وہ اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔سورج کی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی جو کھڑکی کے شیشہ کی وجہ سے مزید دھندلی ہو چکی تھی۔سڑک کی دوسری طرف ایمپائر ہوٹل سے کوئی سیاہ فام صفائی کرنے والی عورت کسی اونچی کھڑکی سے اپنے دونوں ہاتھوں کو تہہ کیے ان پر اپنا چہرہ رکھے نیچے دیکھ رہی تھی۔وہ اٹھا ، جوتے پہنے غسل خانہ میں چلا گیا ، اور پھر سامنے کے کمرے میں۔دو خستہ بسکٹوں پر مچھلی کی لبدی(anchovy paste) لگائی ، جو وہاں رکھی تھی اور کھا لیا ، پھر وہاں بوتل میں پڑی ادرک کی شراب پی لی، اور اپنی کتاب ڈھونڈنے لگا لیکن وہ اسے ملی نہیں۔
سارا اپارٹمنٹ خاموش تھا سواے ریفریجریٹر کی ہلکی سی بھنبھناہٹ کی سی آواز کے۔ وہ باورچی خانہ میں گیا۔ وہاں اسے کچھ ڈبل روٹی کی پرت کے بچے ہوے ٹکڑے دکھائی دیے ۔ اس نے ان ٹکڑوں پر بہت سارا مونگ پھلی سے بنا مسکہ( peanut butter) لگایا اور باورچی خانہ کے اسٹول پر چڑھ کر بیٹھ گیا آہستہ آہستہ سینڈوچ کھاتے ہوے ، اپنی آستین سے بار بار ناک صاف کرتے ہوے۔سینڈوچ کھانے کے بعد اس نے چاکلیٹ ۔دودھ پیا۔ وہ تو ادرک کی شراب پینا چاہتا تھا لیکن بوتل کو کھولنے والا آلہ پتہ نہیں ان لوگوں نے کہاں رکھ دیا تھا۔ اس نے ریفریجریٹر کو کھول کر اس میں رکھی چیزوں کا کچھ دیر جائزہ لیا ___ کچھ مرجھائی ہوئی ترکاریاں جو وہ بھول چکی تھیں ، کچھ بھورے رنگ کے سنترے جو اس نے خریدے تو تھے لیکن ان کا رس بنایا نہیں ؛ تین چار قسم کی پنیر اور ایک کاغذکی تھیلی میں کچھ انجانی اور عجیب سی چیز ؛ اور باقی پورک کی ہڈی رکھی تھی۔وہ ریفریجریٹر کا دروازہ کھلا چھوڑ کر اندھیرے دالان میں چلا آیا اور صوفہ پر بیٹھ گیا۔
اسے یقین تھا کہ وہ ایک بجے تک باہر سردی میں رہیں گے ، اور دوپہر کے کھانے کے لیے کسی ہوٹل چلے جائینگے۔وہ اتنا اونچا نہیں تھا کہ سب کی طرح کرسی پر بیٹھ کر میز سے کھانا کھا سکے ، اس لیے ویٹر اس کے لیے اونچی کرسی لائیگا ، لیکن اب وہ اونچی کرسی کے لیے کافی بڑا تھا۔وہ صوفہ کے بیچ بیٹھا ،اسے ایڑیوں سے مارتا رہا ۔ پھر کھڑا ہو کر کمرہ کا چکر لگایا ، راکدان کی طرف دیکھا جو سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا تھا ، جیسے کہ یہ ان کی عادت ہو۔اس کے اپنے کمرے میں کچھ پھٹی ہوئی تصویروں کی کتابیں اور ٹوٹے پھوٹے کھیلنے کے لکڑی کے ٹکڑے پڑے تھے۔ نئے کھلونے اور نئی کتابوں کو حاصل کرنے کے لیے پرانی چیزوں کو توڑنا پڑا۔ ویسے کسی بھی چیز کے لیے اسے زیادہ محنت کرنی نہیں پڑتی سواے کھانے کے ؛ تاہم وہ کوئی موٹا بچہ نہیں تھا۔
اس نے طۓ کیا کہ کچھ راکدان وہ فرش پر خالی کردیگا۔اگر وہ کچھ ہی راکدان کو فرش پر خالی کریگا تو ماں سوچے گی کہ وہ خود ہی نیچے گر پڑے ہونگے۔ اس نے دو راکدان خالی کیے اور راک کو قالین پر انگلی سے گھسنے لگا۔پھر وہ کچھ دیر کے لیے فرش پر لیٹ گیا ، پیروں کو ہوا میں اوپر کیے ان کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے جوتے ابھی تک گیلے تھے اور پھر وہ دریا کے بارے میں سوچنے لگا۔
آہستہ آہستہ اس کے چہرہ کے تاثرات تبدیل ہونے لگے جیسے کہ وہ بتدریج ایسا دکھائی دینے لگے گا جو وہ نہیں جانتا تھا کہ کبھی ویسا دکھائی دیا ہو۔پھر اچانک ہی اسے یاد آگیا کہ وہ کیا کرنا چاہتا تھا۔
وہ کھڑا ہو گیا اور پنجوں پر چلتا ہوا ان کی خواب گاہ میں داخل ہو کر مدھم روشنی میں کھڑا ہوگیا اور اس جیبی کتاب کو ڈھونڈنے لگا۔ اس کی نظریں بستر سے نیچے لٹکتے ہوے ماں کے ہاتھ سے ہوتی ہوئی اس کے باپ کے بناے سفید ٹیلہ سے اور پھر بھری ہوئی الماری کے بعد اس جیبی کتاب پر جاکر رک گئیں جو کرسی کے پیچھے لٹک رہی تھی۔اس نے کار۔ٹوکن (car-token) اور کچھ زندگی بچانے والے ربر ٹیوب لیے اور اپارٹمنٹ سے باہر نکل کر کار لے لی۔اس نے سوٹ کیس نہیں لیا کیونکہ وہاں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جسے رکھنے کے لیے سوٹ کیس کی ضرورت ہو سکتی تھی۔
وہ کار سے اتر کر نیچے کی سڑک پر جانے لگا جہاں وہ اور مسز کونین ایک دن پہلے گیے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہاں گھر پر کوئی نہیں ہوگا کیونکہ تینوں لڑکے اور وہ لڑکی اسکول جا چکے ہونگے اور مسز کونین صفائی کے لیے۔ وہ ان کے صحن سے گذر کر اس راستہ پر چلنے لگا جس پر چل کر وہ دریا پر گیے تھے۔وہ کاغذی اینٹوں والے گھر بہت دور تھے اور کچھ دیر بعد مٹی کی سڑک ختم ہوگئی اوروہ شاہراہ کے کنارے چلنے لگا تھا۔ سورج ہلکا زرد ، اونچائی پر پہنچ گرم ہوچکا تھا۔
وہ کُٹیا سے گذرا جس کے سامنے نارنجی رنگ کا گیس پمپ تھا ،لیکن وہ بوڑھا نظر نہیں آرہا تھا جو دروازہ میں کھڑا بغیر کسی مقصد کے باہر دیکھا کرتا تھا۔مسٹر پئراڈائیس سنترے کی شراب پی رہا تھا۔وہ بوتل کے اوپر سے ترچھی نظروں سے اونی کوٹ پہنے ایک چھوٹے سے پیکر کو سڑک کے راستہ نیچے غائب ہوتے ہوے دیکھ رہا تھا : پھر اس نے خالی بوتل بنچ پر رکھ دی ، ابھی تک ترچھی نظروں سے دیکھ رہا تھا ، پھر اس نے آستین سے اپنا منہ صاف کیا۔وہ کُٹیا کے اندر گیا اور ایک فٹ لانبی اور دو انچ موٹی کالی مرچ ۔پودینہ کی چھڑی کینڈی شیلف (candy shelf) سے اٹھا کر پتلون کی پچھلی جیب میں ٹھونس لی ۔ پھر وہ اپنی کار میں بیٹھ کر آہستہ آہستہ شاہراہ پر ڈھلان کی طرف اس لڑکے کے پیچھے کار لیجانے لگا۔
جب تک بیول کاسنی رنگ کے جنگلی پودوں سے بھرے میدانی علاقہ تک پہنچا وہ دھول میں اٹا اور پسینہ سے شرابور ہو چکا تھا اور اب ہلکے سے دوڑتے ہوے جتنی جلدی ہو سکے ، وہ اس جنگل کو عبور کر لینا چاہتا تھا۔ایک بار جنگل میں داخل ہونے کے بعد باہر کا راستہ ، جس پر ایک دن پہلے وہ گیے تھے ، ڈھونڈنے کے لیے وہ ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف دوڑتا رہا۔ بالآخر اسے صنوبر کے درختوں کی قطار یں مل گیں اور وہ ان کے ساتھ ساتھ نیچے ڈھلان پر پگڈنڈی پر چلتا رہا جو درختوں کے ساتھ مڑتی ہوئی نیچے چلی جارہی تھی۔
مسٹر پیراڈائیس نے اپنی کار پیچھے سڑک پر چھوڑ دی اور اپنی پسندیدہ جگہ پر چلا گیا جہاں وہ اکثر بغیر چارہ لگاے ماہی گیری کی ڈور پانی میں ڈالے بیٹھا کرتا تھا، مسلسل دریا کے بہتے پانی کو دیکھتے ہوے۔ دور سے اگر کوئی دیکھتا تو محسوس کرتا جیسے ایک بڑا سا پتھر آدھا جھاڑیوں میں چھپا وہاں رکھا ہو۔
بیول نے تو اسے بالکل نہیں دیکھا۔وہ تو صرف سرخی مائل زرد چمکتے ہوئے دریا کو دیکھ رہا تھا اور کوٹ اور جوتوں سمیت اس میں چھلانگ لگادی اور غٹا غٹ بہت سارا پانی منہ میں لے لیا ، کچھ نگل لیا اور باقی تھوک دیا ، اور پھرسینہ تک پانی میں کھڑا ہوگیا اور اپنے اطراف دیکھنے لگا۔ مدھم نیلے رنگ کا آسمان ہر طرف صاف اور یکساں دکھائی دے رہا تھا __ سواے ایک سوراخ کے جو سورج نے بنایا ہوا تھا ___ اور کناروں پر درختوں کے سروں نے جھالر بنا دی تھی۔اس کا کوٹ سطح آب پر اس کے اطراف ایسے تیر رہا تھا جیسے کوئی ہنستا ہوا کنول کا پتہ ، اور وہ خود سورج کو دانت دکھاتا کھڑا رہا۔اس نے ارادہ کرلیا تھا کہ وہ مزید مبلغوں کی باتوں سے بیوقوف نہیں بنے گا بلکہ وہ خود ہی اپنا بپتسمہ کریگا اور اس کو اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک وہ کرائسٹ کی حکومت کو اس دریا میں پا نہیں لیتا ۔ اب وہ مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس نے فوری اپنا سر پانی میں ڈبویا اور آگے بڑھنے لگا۔
ایک لمحہ کے بعد ہی وہ ہانپنے لگا اور تھوکتے ہوے بے ربط سی آوازیں نکالنے لگا اور پھر اس کا سر دوبارہ سطح آب پر نمودار ہوگیا ؛ وہ پھر پانی کے اندر چلا گیا اور دوبارہ اس کی وہی حالت ہو گئی۔شائد دریا اسے اپنے اندر رکھنا نہیں چاہتا تھا۔اس نے پھر کوشش کی اور اوپر آگیا۔ اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔یہی طریقہ تھا جب مبلغ نے اسے پانی کے اندر ڈالا تھا ___ اسے اس طاقت سے سختی سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو اسے اوپر پھینک دیتی تھی۔وہ ڑک گیا اور اچانک کچھ سوچنے لگا : یہ ایک اور مذاق تھا ، صرف ایک اور مذاق ! اس نے سوچا اتنی دور وہ بیکار ہی چلا آیا اور پھر وہ پانی کو مارنے لگا ، چھپاکے مارنے لگا اور دریا کے گندے پانی کو پیروں سے ٹھوکر مارنے لگا۔وہ چل تو رہا تھا لیکن اس کے قدموں کے نیچے کچھ نہیں تھا۔دکھ اور شدید غصہ میں وہ چیخ اٹھا۔ تب ہی اسے ایک چیخ سنائی دی اور اس نے پلٹ کر دیکھا تو اسے وہاں ایک دیو قامت خنزیر ، سرخ اور سفید لکڑیوں کو ہلاتے ہوے اور چیختے ہوے اس کی طرف اچھلتا ہوا ، بڑھتا دکھائی دیا۔بیول نے پانی میں ڈبکی لگائی اور پانی کے بہاؤ نے جیسے اپنے لانبے نرم ہاتھوں سے اس بار اسے تھام لیا اورتیزی سے آگے بڑھا دیا۔ ایک لمحہ کے لیے وہ حیرت زدہ سا ہو کر رہ گیا: لیکن چونکہ وہ تیزی سے آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا اور جانتا تھا کہ وہ کہیں پہنچ رہا ہے۔ اس کا سارا ڈر اور غصہ غائب ہو چکے تھے۔
مسٹر پیراڈائس کا سر بار بار پانی کی سطح سے اوپر اٹھ رہا تھا۔ بالآخر ، بہت دور پانی کے بہاؤ کی طرف وہ بوڑھا آدمی کھڑا ہوگیا ، کسی قدیم پانی کی عفریت کی طرح ، خالی ہاتھ ، دریا کی گہرائی میں دیکھتا رہا جہاں تک وہ اپنی مدھم آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا۔
Original Title : The River
Written by:
Flannery O’Connor (March 25, 1925 – August 3, 1964) was an American novelist, short story writer and essayist. She wrote two novels and thirty-two short stories, as well as a number of reviews and commentaries.
***
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 386 : دریا
تحریر: فلینری اوکونار (امریکا)
ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی( نیوزی لینڈ)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...