آج – یکم ؍جولائی؍ ١٩٢٣
کلام میں پختہ کلاسیکی شعور، مثبت فکر بیانی اور معروف شاعر” فضاؔ ابن فیضی صاحب “ کا یومِ ولادت…
فضاؔ ابن فیضی کا اصل نام فیض الحسن تھا لیکن فضا ابن فیضی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش یکم جولائی ۱۹۲۳ کو مئوناتھ بھنجن ( یوپی) میں ہوئی ۔ درس نظامیہ سے فاضل کی سند حاصل کی پھر الٰہ آباد بورڈ کے امتحانات میں شامل ہوئے ۔ اس کے بعد فضا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے ۔ عمر بھر مختلف طرح کے معاشی مشاغل میں گھرے رہے اور شاعری کرتے رہے ۔
فضا کی شاعری اپنے معاصرین سے بہت الگ قسم کی ہے ، ان کے یہاں بہت آسانی سے کسی تحریک یا کسی نظریے کی چھاپ تلاش نہیں کی جاسکتی ۔ فضا نے ایک آزاد تخلیقی ذہن کے ساتھ شاعری کی ان کے کلام میں ایک پختہ کلاسیکی شعور کے ساتھ نئے زمانے کی گہری حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایک پرفکر شعری بیانیہ ان کی نظموں اور غزلوں میں پھیلا ہوا ہے ۔
فضا نے زیادہ تر غزلیں کہیں لیکن ساتھ ہی نظم اور رباعی کی صنف کو بھی ان کے یہاں خاصی اہمیت حاصل رہی۔
فضاؔ ابن فیضی ، ١٧ جنوری ٢٠٠٩ء کو مئو ناتھ بھنجن میں انتقال کر گئے۔
فضا کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ کچھ یہ ہیں ۔
سفینۂ زرِ گل (غزلیں اور رباعیاں) شعلہ نیم روز ( نظمیں) دریچہ سیم سمن (غزلیں ) سرشاخِ طوبیٰ ( حمد ونعت اور نظمیں) پس دیوارِ حرف (غزلیں ) سبزہ معنی بیگانہ ( غزلیں )۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر فضاؔ ابن فیضی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
اب مناسب نہیں ہم عصر غزل کو یارو
کسی بجتی ہوئی پازیب کا گھنگھرو لکھنا
—
آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا
وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا
—
اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا
قطرہ گہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا
—
ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیلِ وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا
—
اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت
میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا
—
تجھے ہوس ہو جو مجھ کو ہدف بنانے کی
مجھے بھی تیر کی صورت کماں میں رکھ دینا
—
تو ہے معنی پردۂ الفاظ سے باہر تو آ
ایسے پس منظر میں کیا رہنا سر منظر تو آ
—
خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ
نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا
—
دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں
تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر
—
شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضاؔ
جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر
—
غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا
نہ آیا ہم کو برہنہ گزارشیں لکھنا
—
وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے
جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا
—
کہاں وہ لوگ جو تھے ہر طرف سے نستعلیق
پرانی بات ہوئی چست بندشیں لکھنا
—
ہر اک قیاسِ حقیقت سے دور تر نکلا
کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا
—
چند سانسیں ہیں مرا رختِ سفر ہی کتنا
چاہئے زندگی کرنے کو ہنر ہی کتنا
—
یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے
ہم ایسے لوگ خود اپنے سفر کی گرد ہوئے
—
ترے خلوص نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
کسی زمیں پہ رہوں، آسماں نظر آؤں
—
پِھرا ہُوں کاسہ لئے لفظ لفظ کے پیچھے
تمام عمر یہ سودا نہ سر سے نکلے گا
—
اس کے انا کی وضع تھی سب سے الگ فضاؔ
کیا شخص تھا کہ اپنے ہی تیور سے کٹ گیا
فضاؔ ابن فیضی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ