“Amor Fati”
مارکس اوریلس میڈیٹیشنز میں کہتا ہے کہ فطرت کو معاملات اور چیزوں کو تبدیل کرتے رہنا اور عدم یقینی کی صورتِ حال پیدا کرنا بہت پسند ہے۔ لیکن انسان کا دماغ یہ دو چیزیں یعنی تبدیلی اوراس سے پیدا ہونے والی عدم یقینی (uncertainty) کو شدید ناپسند کرتا ہے۔ تو کیا کیا جائے؟ رونما ہونے والی تبدیلی سے نظریں چرائی جائیں یا اس کے خلاف جاکر جنگ لڑی جائے؟؟ دونوں صورتوں میں فطرت کا کچھ نہیں جانا، نقصان ہر صورت میں انسان کو ہے۔ ایسے میں اسٹائک فلسفی ایک نظریہ پیش کرتے ہیں جسے “امور فاٹی” (amor fati) کہتے ہیں، جسکا مطلب ہے کسی بھی کام یا حالات کے “نتائج” چاہے آپ کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں اسے “قسمت کا لکھا سمجھ کر دل و جان سے قبول کر لینا”۔
کہنا یقیناً آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ زندگی میں اچھی چیزیں کبھی آسان نہیں ہوتیں، آسان صرف سستے پلیژر ہوتے ہیں!
اگر آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسان چاہے تو کچھ بھی کرسکتا ہے تو پھر آگے مت پڑھیے، ‘امور فاٹی’ آپ کے لیے بیکار خیال ہے۔ جرمن فلسفی نطشے (Nietzsche) جنہیں اسٹائیسزم سے کوئی دلچسپی نہیں ،کے فلسفہ میں بھی ‘امور فاٹی’ پر کافی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔
انسان چونکہ ہر کام کرنے سے پہلے نتائج (outcomes) کے متعلق ضرور سوچتا ہے اور اسے سوچنا بھی چاہیے لیکن مسئلہ تب درپیش آتا ہے جب ہمیں کچھ مخصوص نتائج کی ‘امید’ ہو یا پھر ‘ڈر’ ہو۔ نتائج سے ہماری یہ پرانی اٹیچمنٹ اکثر ہمیں پریشان (anxious) کرتی ہے۔ اسٹائک فلسفی ایپکٹیٹس کہتا ہے کہ اگر ہم کسی ایسی چیز کی خواہش کرتے ہیں جس کے نتائج ہمارے کنٹرول میں نہیں تو ان نتائج سے مخصوص امید لگانے سے ہمیں تکلیف پہنچ سکتی ہے، آپ کے منصوبے یا خواہشات چاہے کتنے ہی مثبت کیوں نہ ہوں، ان کے نتائج کسی صورت میں آپ کے کنٹرول میں نہیں، اس لیے جو ایکشن آپ لے سکتے ہیں ضرور لیں اور سہل انداز میں ، اور جو نظرانداز کرسکتے ہیں اسے نظر انداز کردیں۔
اب یہ بھی یقیناً کہنا آسان ہے لیکن کرنا….. مشکل!
اسٹائک کہتے ہیں انسان فطرتاً ایسی چیزوں کی طرف جھکتا ہے جو اسکی زندگی کو بہتر بناتے ہیں، جیسا کہ اچھا کھانا، دولت، اچھے دوست اور ہمسفر، جو کہ ہر گز غلط نہیں، کیونکہ اگر انسان بہتر سے بہترین کی تلاش میں نہ ہوتا تو آج ہم اس ڈیجیٹل انقلاب تک نہ پہنچتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان سب چیزوں کا حصول یا انہیں کھو دینے کا ڈر ہمیں پریشانی (anxiety) کی حالت میں رکھتا ہے۔ جب کہ اسٹائک کا ماننا ہے کہ انسان کی خوشی کا دارومدار باہری اشیاء سے زیادہ اسکی ذہنیت (mindset) پر ہوتا ہے، آپ کا وہ دوست جو آپ سے زیادہ کامیاب ہے لیکن مطمئن نہیں، اور اسے ہمیشہ مستقبل کی سوچ ستاتی ہے، آپ اپنے کچھ منصوبوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن مستقبل کی سوچ آپ کو روکے رکھتی ہے، چونکہ ہم مستقبل کو قابو نہیں کرسکتے تبھی اسے سوچ کر ہلکان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں، اسٹائیسزم ہمیں نتائج (outcome) کی اس سے ہونے والی پریشانی (anxiety) سے لڑنے کے کچھ طریقے بتاتا ہے، آئیے انہیں زیرِ بحث لاتے ہیں:
* اسٹائک فلاسفر سینیکا ہمیں تجویز کرتا ہے کہ جن حالات یا معاملات سے آپکو خوف آتا ہے یا پریشانی ہوتی ہے، اسکا وقت آنے پر سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی اسکی پریکٹس کی جائے۔ سوچئے آپ کو کس بات کن حالات سے خوف آتا ہے؟ آپ کو ڈر لگتا ہے کہ اگر آپ سج سنور کر باہر نہیں گئے تو کوئی آپ کو اہمیت نہیں دے گا؟ ایک دن اپنے اس خوف کا سامنا کریئے اور یونہی عام سے کپڑوں اور حالت میں باہر جائیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ آپ کو اکیلے رہنے سے ڈر لگتا ہے؟؟ کبھی کبھار اکیلے رہ کر دیکھیے، بنا دوستوں کے باہر جا کر دیکھیے۔ ڈر لگتا ہے کہ فلاں چیز نہ رہی تو کیسے گزارا کروں گا؟ ایک دن اسکے بغیر رہ کر دیکھیے۔ کسی خاص جگہ، اسٹیٹس، لوگ، کھانا، چیز سے اٹیچمنٹ ہے تو کسی دن ان کے بغیر رہنے کی پریکٹس کریں۔
ڈاکٹر وکٹر فرینکل کی مشہور تھراپی “متضاد ارادہ” (paradoxical intention) میں آپ اپنے خوف یا پریشانی سے بھاگتے یا اسے دباتے نہیں بلکہ بہت سہل انداز میں آہستہ آہستہ اسکا سامنا کرتے ہیں۔ اور سدھارت گوتم بھی ہمیں اپنے جذبات یا احساسات کو دبانے یا اگنور کرنے کی بجائے اسکا مشاہدہ کرنا سکھاتا ہے میڈیٹیشن کے ذریعے۔سینیکا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسکا تعلق اشرافیہ طبقہ سے تھا، ایک امیر آدمی کے لیے سب سے بڑا خوف دولت کا چھن جانا ہے، سینیکا کبھی کبھار سوکھی روٹی پانی کے ساتھ کھاتا اور زمین پر سوتا اور خود سے کہتا کہ “کیا یہی وہ زندگی ہے جس کا خوف مجھے ہر وقت پریشان رکھتا ہے، اسے جی کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کس حد تک تکلیف ہے”۔ اگر آپکو کوئی چیز پریشان، فضول، خوف دیتی ہے تو زندگی میں ایک بار اسکو آزمائیں ضرور……… کیا پتہ آپکا خوف ہی آپکا ٹیلنٹ ہو!
* آپ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ تبدیلی کوئی بھی ہو ہم انسان اسے کبھی بھی بہت جلدی خوش آمدید نہیں کہتے۔ آپ میں سے کتنے ایسے لوگ ہونگے جن کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہوگا اور اس وقت آپ نے لعن طعن کا سہارا لیا ہوگا کہ ‘میرے ساتھ ہی ایسا کیوں’ ، لیکن وقت گزرنے پر جب کچھ نتائج سامنے آئے ہونگے تو اسکا شکر بھی ادا کیا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی ہمیشہ خود کو توازن میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ آپ زندگی اور فطرت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نہیں روک سکتے جس پر ایپکٹیٹس کہتا ہے کہ اس بات کی خواہش رکھنا کہ وہی ہو جو آپ نے سوچا ہے سے بہتر ہے کہ جو بھی ہونا ہے وہ ہوجائے اور آپ اپنے معاملات کو سنبھال کر واپس زندگی نامی سفر کو شروع کرسکیں۔ چائینیز لوگ بھی بحران کو ایک نئے موقع کی نظر سے دیکھتے ہیں، کبھی کبھار کچھ نیا تشکیل دینے کے لیے پرانے نظریات کا ٹوٹنا ضروری ہوتا ہے۔ اس ٹور پھوڑ سے تکلیف ضرور ہوتی ہے، اور تکلیف کو برداشت کرنا یقیناً آسان نہیں لیکن آپ کے پاس اور کوئی حق انتخاب (option) بھی نہیں!
* تین سائیکالوجسٹ نے تجربہ کیا(لنک کومنٹ میں ہے) لاٹری جیتنے والے، افراد جو کسی ایکسیڈنٹ میں معذور ہوگئے تھے، اور وہ جنہوں نے نہ لاٹری جیتی اور نہ ہی معذور تھے، تجربہ اس بات پر تھا کہ ان تین گروپ میں کون زیادہ خوش ہے۔ ظاہر سی بات ہے جنہوں نے لاٹری جیتی وہ زیادہ خوش تھے۔ لیکن تقریباً ایک سال بعد ان گروپ کے افراد کا انٹرویو لیا گیا، اور اس ایک سال میں تینوں گروپ کی خوشی کے تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا۔ وقت کے ساتھ ہمارے غم ہوں یا خوشیاں، اپنی نارمل اسٹیٹ میں واپس آجاتی ہیں، ان خوشیوں اور غم کی جانب ہمارا مائینڈ سیٹ بہت معنی رکھتا ہے، اگر آپ حالات کو قبول کرکے ان کے گرد ‘معنی’ تراشنے کا فن جانتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ آپ اپنے ذہنی سکون کو برقرار رکھ پائیں۔ اسٹائک کہتے ہیں کہ خوشی “اسٹیٹ آف مائینڈ” ہے، یعنی آپ حالات کو کس نظریے سے دیکھتے ہیں اسکا اثر ہوتا ہے آپ کی زندگی پر۔ چیلنج کو موقع کی نظر سے دیکھتے ہیں یا عذاب، یہ آپ کی دماغی حالت پر منحصر ہے اور یہی ہمارے اختیار میں ہے، نہ کہ باہری حالات۔ اب آپ پھر کہیں گے کہ یہ مشکل کام ہے، اور ہمیں اس بات سے انکار بھی نہیں کہ کٹھن ہے، لیکن آسان صرف سستے پلیژر ہیں!
* سدھارت گوتم کہتا تھا کہ “حال” میں رہنا ذہنی سکون برقرار رکھ سکتا ہے۔ لیکن یہ حال میں رہنا کیا ہے؟مستقبل کی سوچ اور ماضی کا پچھتاوا انسانی دماغ کی خصلت ہے لیکن ہم ذہین مخلوق ہیں، عقل اور منطق سے اپنے آوارہ ذہن کو حال میں لانے کا فن جانتے ہیں، اور میڈیٹیشن بھی یہی فن سکھاتا ہے کہ کس طرح آپ نے” نتائج “ (outcome) سے خود کو الگ (detach) کرکے بس اس ٹاسک پر فوکس کرنا ہے جو آج ہے، جو ابھی ہے اور آپ اسے انجام دے رہے ہیں، میڈیٹیشن آپ کو اسی کی پریکٹس کراتا ہے۔ خود کو نتائج سے الگ کرکے اپنا کام کرنے میں بہت سکون ہے، آپ پریشانی (anxiety) سے ضائع ہونے والی انرجی بچا کر اپنے ٹاسک پر لگا سکتے ہیں۔ یہ پریکٹس ہے اور اس تک جانے کے لیے ٹیڑھے رستے ہیں، پیچیدگیاں ہیں، لیکن یہ ایک فن ہے جس پر عبور حاصل کرنا ہمارے آوارہ دماغ کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہر کام کرتے وقت یہ سوچنا “مجھے کیا ملے گا”، “ اسکا کیا نتیجہ ہے”، آپکو اس کام کی گہرائی، جڑ میں جانے سے روکتا ہے۔
ہم اکثر پوچھتے ہیں کہ یہ کروں گا تو کیا ملے؟ یوں ہوگا تو کیا ہوگا؟ یہ سوالات یقیناً غلط نہیں لیکن ان سوالات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا آپ کو اپنے مقصد کی جانب اپنا سو فیصد دینے سے روک سکتا ہے، کیونکہ نتائج کی ضرورت سے زیادہ پرواہ آپ کی کریٹوٹی اور پروڈکٹوٹی کو نقصان دیتی ہے، آپ کی قیمتی انرجی تقسیم ہوجاتی ہے اور وہ بھی ایسے سوالات پر جو آپ کے مکمل اختیار میں بھی نہیں!