فطرت ہی تو زندگی ہے
خوشی ،غم اور دکھ یہ وہ احساسات ہیں جو زندگی کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں،کبھی خوشی تو کبھی غم ،کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان روزمرہ کی سرگرمیوں سے تنگ آجاتا ہے،جب ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے تو انسان ابنارمل حرکتیں کرتا ہے۔وہ غلطیوں پر غلطیاں کئے جاتا ہے،شدید غصے کا اظہار کرتا ہے،دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوست بھی اسے برے لگنا شروع ہوجاتے ہیں،ہر اچھی بری بات پر وہ لڑتا جھگڑتا ہے۔اسے اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہا ہے اور کیوں کررہاہے؟ یہ وہ کیفیت ہے جب ازیت دینا اور ازیت سہنا انسان کی مجبوری ہوتی ہے۔اس سماج میں کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایسی کیفیت میں خطرناک جرم کر بیٹھتے ہیں۔دنیا میں جتنی بھی قتل و غارت ہوتی ہے وہ اسی کیفیت میں ہوتی ہے۔یادرکھیں یہ وہ کیفیت ہے کہ انسان برین ہیمرج کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔پاکستانی سماج میں زیادہ تر انسان مستقل اس صورتحال کا شکار ہیں،اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تشدد ،انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے ۔اس معاشرے میں جس انسان پر نگاہ دوڑائیں وہ بے چین ہے،دکھ ،تکلیف اور غم کا شکار ہے ،کوئی غربت کی وجہ سے پریشان ہے ،کوئی امارت کی وجہ سے اس لئے پریشان ہے کہ دولت کے سمیٹنے کے علاوہ اسے زندگی انجوائے کرنے کا آرٹ نہیں آتا،کوئی اس وجہ سے پریشان ہے کہ وہ بے روزگار ہے۔ہر انسان ہی یہاں مسائل میں الجھا ہوا ہے ۔ گزشتہ روز میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت میں مبتلا تھا ،طبعیت میں عجیب سی بے چینی تھی ،زندگی شدید بوریت کا شکار تھی ،ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے زندگی سے خوشی اور دلکشی اچانک غائب ہو چکی ہے،ایسا لگا جیسے تخلیقی قوت نام کی کوئی چیز نہیں،کچھ نیا اور مختلف نہیں ہورہا تھا ۔ ٹریفک کی ہنگامہ خیزی،شہری ماحول کا شور و غل ،دفتر کی روٹین کی زندگی سے اکتا گیا تھا ۔دوستوں سے ملنے اور بات چیت کرنے کو دل نہیں کررہا تھا ،پڑھنے لکھنے سے بھی جی اٹھ گیا تھا ۔سمجھ نہیں آرہی تھی کہ زندگی کے رنگ کیسے بحال کئے جائیں۔اچانک زہن میں کوئی خیال سا آیا ،صبح سویرے گھر سے نکل پڑا،صبح کا وقت ،بے چین طبعیت اور خاموش شاہراہ پر سفر کرتا چلا گیا۔سڑک پر چلتے چلتے اچانک محسوس ہوا کہ طبعیت بہتر ہوناشروع ہو گئی ہے ،سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی ،پرندوں کی فطری موسیقی کانوں میں رس گھولتی نظر آئیں،ایسے لگا جیسے اچانک میں دوزخ سے جنت کی طرف رواں دواں ہوں۔ٹہلتے ٹہلتے پارک پہنچ گیا ،اب منظر ہی مختلف تھا ،درختوں کی انگڑائیاں ،پنچھیوں کی دلفریب اڑانیں ،صبح سویرے واک کرتے خوبصورت لوگ ،ایک حسین ماحول میرے سامنے رقص کرتا نظر آرہا تھا ۔ گلاب کے پھولوں کی کی کیاریاں ،ایسے جوان پھول جن کو دیکھتے ہی دل باغ و بہار ہوگیا۔ نغمےگاتیں سحر زدہ کردینے والی جھیل،اس میں اٹھکیلیاں کرتی اور لہلہاتی رنگین چھوٹی بڑی کشتیاں،جھیل کے اس پار مصنوعی پہاڑ،چاروں اطرف زندگی رقص کرتی نظر آئی۔ فطرت کے حسین جلوے ،آنکھ مچولی کرتا سبزہ ہی سبزہ جو آنکھوں کو ٹھنڈک پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔حسین فطرت کلاسیکل رقص پیش کرتی نظر آرہی تھی ،اسی دوران ایک خوبصورت خاتون مغربی ٹریک سوٹ زیب تن کئے میرے دل و دماغ کو ورغلاتی نظر آئی۔ فطرت کا حسن ٹھاٹھے مارتا نظر آرہا تھا،پہلی مرتبہ ایسے لگا جیسے میں موت سے زندگی کی طرف وآپس لوٹ آیا ہوں۔مجھے جسمانی ورزش اور واک کرنا پسند نہیںٕ، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جب ایک ہی جگہ پر بہت سے لوگ ایک ہی انداز میں چل پھر رہے ہوں تو مجھے
گھٹن محسوس ہونے لگتی ہے،ایسے لگتا ہے جیسے میں آزاد انسان نہیں ہوں،اس لئے میں ہمیشہ اس طرح کے ماحول میں منفرد طریقہ واردات اختیارکر لیتا ہوں۔ایک دم زہن میں خیال آیا کہ پھول کی کیاریوں کے درمیان آلتی پالتی مار کر بیٹھا جائے،پھولوں کی کیاریوں کے درمیان جاکر بیٹھ گیا اور اپنا ہی تخلیق کردہ یوگا مشقیں کرنے لگا۔ پھول،سبزہ،آسمان کی نیلاہٹ ،جادوئی جھیل،رنگ برنگی کشتیاں اور میں ۔ آنکھیں بند کئے ،دماغ اور روح کو آپس میں گلے لگائے بدھا کی طرح پھولوں کی کیاری میں بیٹھا تھا۔بہت دیر تک اس کیفیت میں رہا،اچانک محسوس ہوا جیسے آسمان پر اڑ رہا ہوں اور نیچے زمین پرنیم برہنہ حسینائیں مجھے آوازیں دے رہی ہیں،وہ کہہ رہی تھی وآپس لوٹ آؤ،اور میں ان کی آوازوں کے جادو میں بدمست بے پرواہ پنچھی کی مانند محو پرواز تھا۔اس مرحلے سے آزادی ملی تو میں نے کیاری سے گلاب کا پھول توڑا اور سونگھنا شروع کردیا، دیر تک گلاب کے پھول کی خوشبو سونگھتا رہا،اب میں پہلی مرتبہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔زہن سے زہریلے خیالات کا پیالا خالی ہونا شروع ہوچکا تھا ، نئے نئے آئیڈیاز اس پیالے میں آنا شروع ہو چکے تھے ،فرسٹریشن جسم و روح سے غائب ہوچکی تھی ،اندر کا شرارتی بچہ باہر فطرت کے نظاروں میں مسکرا رہا تھا،جب میں گلاب کے حسین پھول کو سونگھ رہا تھا تو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ وہ حسین پھول اپنی تازگی و دلکشی میرے اندر انڈیل رہا ہے ۔۔۔۔اور میری منفی سوچ اپنے اندر جذب کررہا ہے۔اب میں نے ننگے پاؤں سبزے سے مزین میدان میں واک کرنا شروع کردی،۔سبزے پر چلنے سے ایسے لگا جیسے میرے اندر کے انسان کو زمین نئی زندگی سے نواز رہی ہے ۔۔۔۔۔اب میری روحانی دنیا میں کائنات کے تمام رنگ سما چکے تھے،اس کے بعد میں خاموشی سے بنچ پر بیٹھ گیا۔سوچا یہی تو زندگی ہے ،فطرت ہی تو زندگی ہے،فطرت نہیں تو کچھ نہیں، پہلی مرتبہ زندگی کے فطری رنگوں کا احساس ہوا۔جدید گھر، جدید آلات و آلائشیں،سڑکوں پر چیختی چلاتی گاڑیاں ،ہنگامہ خیزی،شور شرابہ وغیرہ یہ تو زندگی کی حقیقی نعمتیں نہیں ہیں۔ یہ تو انسان کے اندر کے حسن کو تباہ کررہی ہیں۔ پارک کو دھوپ ہر طرف سے گھیر چکی تھی،میں نے دھوپ کی طرف شرارتی نظروں سے دیکھا،پارک سے خاموشی سے اٹھا اورپیدل گھر کی طرف چل پڑا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔