فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
۔۔۔
اقبال کے اس شعر میں ایک عجب اور بہت تلخ حقیقت واضح نظرآرہی ہے۔ ہم جب کچھ کرتے ہیں تو ہم اپنا ہرہر کام انفرادی سطح پر انجام دے رہے ہوتے ہیں، چاہے وہ کام اپنی نوعیت میں اجتماعی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم افراد ہیں۔ اور فرد سے فرد مل کر جماعت یا معاشرہ بنتاہے۔ میں اگر ٹریفک سگنل توڑ رہا ہوں تو یہ میرا انفرادی عمل ہے۔ میرا ہر ہر عمل میرا ذاتی عمل ہے، جو میری ذات کی تعمیر یا تخریب کا باعث بنتاہے۔
بعض اوقات ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں کہ افراد کو ان کے گناہوں کی سزائیں نہیں ملتیں۔ ہم کئی مرتبہ سوچتے بھی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ سچ مچ میں مجرم ہوتے ہیں لیکن وہ پھر بھی بچے رہتے ہیں۔ عام محاورہ کی رُو سے اللہ نے ان کی رسی لمبی چھوڑ رکھی ہے۔ خدا نے اسے ڈھیل دے رکھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ تو بغیر سزا کا ذائقہ چکھے ہی اپنی تمام زندگی گزار کر مربھی جاتے ہیں۔ کتنے ہی عیاش اور بدطینت بادشاہ تاریخ میں گزرے ہیں جنہوں نے انفرادی طور پر کسی قسم کی دنیاوی سزا کا ذائقہ نہیں چکھا۔
انفرادی طور پر بعض اوقات فطرت افراد کو نظرانداز کردیتی ہے۔ لیکن ایک اُصول حتمی ہے اور غیر متبدل ہے کہ
فطرت ملّت کے گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔
اقبال کی اسرارخودی اور پھر رموز بے خودی علی الترتیب اسی شعر کے مصرعوں کی نہایت باریک بین وضاحت پر مشتمل ہیں۔
دراصل انسان عجولا ہے یعنی جلد باز۔ وہ ہتھیلی پہ سرسوں جمانا چاہتا ہے۔ اپنی دعائوں کا فوری نتیجہ اپنے دشمنوں سے فوری بدلہ، اپنی آرزوؤں کی فوری تکمیل، اپنی حسرتوں کی فوری تسکین ، وہ ہر چیز فوری طور پر چاہتا ہے۔ بڑے شہروں میں بسنے والے ہر شخص کو ہر وقت ہر کام سے دیر ہو رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کسی ظالم اور گہنگار شخص کا انجام دیکھنے کے لیے یوں بیتاب ہوتا ہے کہ بعض اوقات بے سوچے سمجھے ہی بولے چلا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے…خدا ظالموں کو کیوں نہیں پکڑتا یہ غریبوں کا حق چھینتے ، ان پر جورو ستم روا رکھتے اور انہیں حقیر جانتے ہیں۔ ‘‘ وہ دیکھتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر ظالم افراد پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ خدا بھی ظالموں کے ساتھ ہے۔ لیکن حقیقت ایسی نہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ :۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
’’امام ابنِ خلدون ‘‘ نے سب سے پہلے قوموں کی کی زندگی پر قلم اٹھایا ۔ اکتشافات ِ ابنِ خلدون ؒ میں سر فہرست یہ بات ہے کہ ’’قومیں اپنے اعمال کی سزا بہت جلد بھگتتی ہیں۔ ابنِ خلدون ؒ کے نظریہ کو حضرت علامہ اقبالؒ نے بڑے خوبصورت شعرکا پیراہن دیا ہے:۔
آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے؟
شمشیر و سناں اول طائوس و رُباب آخر
قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’قل سیر وا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃالمکذبین…کہہ دو کہ زمین میں سیر کرو !اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا‘‘…فطرت سنتِ خلّاقِ عالم کو کہتے ہیں۔ یعنی اللہ کی عادت اور یاد رکھیے! اللہ کی عادت کبھی نہیں بدلتی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے … لاتبدیل لِسنۃ اللہ…اللہ کی عادت کبھی نہیں بدلتی۔ اور اللہ کی عادات کیا ہے؟…فطرتِ عالم۔ یایوں کہہ لیجیے ! کہ عالمِ فطرت ۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبات میں ایک جگہ لکھا ہے:۔
’’عالم فطرت کی آنکھ اپنی ضروریات کا مشاہدہ کرلیتی ہے‘‘
یہ گویا اللہ کی آنکھ ہے جو یہ دیکھتی ہے کہ اب زمین کے کس کونے میں کس طرح کی قوم کی ضرورت ہے۔ سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے الفاظ دیکھیے!جو اس نے اپنے کتاب تہذیبوں کے تصادم میں لکھے ہیں:۔
’’عالمی طاقت کا وہ دھارا جو صدیوں مشرق سےمغرب کی طرف بہتا رہا
اب شمال سے جنوب کی طرف بہنے لگے گا‘‘
فطرت کی آنکھ بدستور دیکھ رہی ہے کہ کون سی ملّت کیا کچھ کرنے میں مصروف ہے۔ بے شک علامہ اقبالؒ نے اپنے شعر میں یہ حقیقت بتائی کی فطرت کبھی کبھی افراد سے اغماض بَرت لیتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی تو علامہ اقبالؒ ہی نے ہمیں بتائی ہے کہ،
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
ثابت ہوا کہ ملّت افراد سے بنتی ہے۔ افراد کی غلطیاں ملت کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اور افراد کے گناہ ملت کے گناہ۔ بابل و نینوا اور سُدوم اور ممفس کے باشندوں نے عطیہء خداوندی کا اسراف کیا ۔ تو وقت نے ان اقوام کو بھی صفہء ہستی سے مٹادیا ۔ قرآنِ کریم میں ایسی اقوام کے لیے فخسفنا… پس ہم نے (انہیں ) زمین میں دھنسا دیا کے الفاظ استعمال ہوئےہیں۔ … زمین میں دھنسا دیا سے یہی مراد ہے کہ وہ پیٹ کے بل رینگنے والے کیڑوں کی طرح زمین کی مٹی میں دھنس کر رہنے پر خوش تھے۔جس طرح کیڑے مکوڑے زمین میں سوراخ بنا کر رہتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ زمین میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اپنے پیٹ اور افزائشِ نسل کے لیے جیتے ہیں ان کیڑے مکوڑوں جیسے ہیں جو زمین میں دھنس چکے ہیں۔ انسان کا مقام پیٹ اور نسل کی فکر سے بلند تر ہے۔ وہ اسی وقت ایک انسان کہلانے کا حقدار ہے جو اپنے معاشرے میں کسی ایسے نظریاتی اجتماع کا حصہ بن کر رہے جس کے اعمال و افعال میں انسانی اخلاقیات پائی جاتی ہوں۔ وہ ایسے قافلے کا راہرو بنے جس کا احساسِ زیاں زندہ ہو جو اپنی منزل سے باخبر اپنے راستوں سے آگاہ اور اپنے مقاصد سے واقف ہو۔
جو کوئی قوم محض اپنی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگ جائے اور قوم کا ہر فرد اشیائے مادی کے حصول کی خاطر تن من دھن کی بازی لگا دے تو گویا وہ قوم دھنس گئی۔ اس کے برعکس جب کوئی قوم ارضی پیوستگی سے چھٹکارا پالے زمین کے رشتے ناطے اور مال و دولت اس کا نصب العین نہ ہوں تو اسے خود بخود قوتِ پرواز حاصل ہوجاتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے،
’’وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین
تم بلندی پر ہوگے اگر تم مومن ہو‘‘
ارتقائے حیات کا یہ دھارا فطری قوانین کے تابع ہوکر چلتا ہے۔ جیسے زہر سے موت اور شہد سے زندگی ملتی ہے ویسے ہی اقوام کو زندگی اور موت ملتی ہے۔ فطرت کبھی قوم کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی ۔ اندلس کے مسلمانوں نے خود کو زمینی خوہشات کا اسیر کرلیا تو مٹا دیے گئے ۔ بغداد اور دہلی کے محلّات میں اِطلس و کمخواب کے بھاری پردے لٹکے تو گویا ملتِ اسلامیہ کی بصارت پر بھی بھاری پردے پڑ گئے ۔
علامہ اقبال کی تمام تر شاعری اور نثر اسی ایک سبق پر مبنی ہے کہ زمین کا قرب سمٰوٰت سے دوری کا باعث بنتا ہے ۔ جو کہ انسانیت کے لیے موت ہے اور سمٰوٰت کا قرب زمین سے دوری کا باعث بنتا ہے جو کہ انسانیت کے لیے اعزاز ہے۔
؎ مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے
لیکن اس موضوع پر سب سے آسان علامہ اقبالؒ کی وہ نظم ہے جس کا عنوان ہے…’’ابو العلاء معرّی‘‘…
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معرّی
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہومات
یہ خواں تروتازہ معرّی نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحبِ غفران و لزومات
اے مرغکِ بیچارا ! ذرا یہ تو بتا تو !
تیرا وہ گناہ کیا تھا ہے یہ جس کی مکافات
افسوس ! صد افسوس ! کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
تقدیر کا یہ قاضی ’’فطرت‘‘ ہے جو ملتوں کو جرم ضعیفی کی سزا بڑی سنگین دیتا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ ملتیں افراد سے بنتی ہیں ۔ بے شک بعض اوقات فردِ واحد اپنی طبعی عمر میں اپنے اعمال کی سزا نہیں پاتا ۔ لیکن اس کے جرائم ملت کے جرائم کی فہرست میں شمار کر لیے جاتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔