فلم "مسافر"مورخہ 20 اگست سن 1976 میں ملک گیر نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ موجودہ نسل اس فلم سے ناواقف ہے۔ آج ہم اپنے پڑھنے والوں کو اس فلم کے بارے میں مختصراً بتائیں گے۔
سن 1976 میں بننے والی یہ فلم جس کے انگریزی ورژن کا نام ’’Beyond the Last Mountain‘‘ ہے، پاکستان کی فلمی تاریخ کی پہلی انگریزی فلم بھی کہلاتی ہے۔ اس فلم کی عکس بندی اردو اور انگریزی زبانوں میں الگ الگ کی گئی تھی۔ فلم کے ہدایت کار اور کہانی نویس جاوید جبار تھے، موسیقی سہیل رانا نے ترتیب دی تھی اور فلم میں شامل گانوں کے بول عبید اللہ علیم نے تخلیق کیے تھے۔
فلم میں ہیرو کا کردار عثمان پیرزادہ نے ادا کیا تھا جبکہ ہیروئن شمیم ہلالی تھیں۔ یہ دونوں فنکار آج بھی ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں جلوہ گر ہو رہے ہیں۔
"فلم مسافر" وطن لوٹنے والے ایک ایسے دردمند نوجوان کی کہانی تھی جس کے باپ کو مشکوک حالات میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ جب یہ نوجوان اپنے باپ کے قاتلوں کی کھوج میں نکلتا ہے تو اس پر مُلک کی سیاسی اور سماجی زندگی کے کئی گمبھیر راز فاش ہوتے ہیں۔
اُس زمانے کے لحاظ سے یہ فلم اپنی کہانی اور ہدایتکاری کے حوالے سے ایک منفرد فلم تھی جس نے فوراََ ہی دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی۔ یہ فلم 1976 میں ممبئی کے پہلے بین الاقوامی فلمی میلے میں بھی دکھائی گئی تھی۔
اس فلم کی نسبت سے ہماری کچھ یادیں بھی وابستہ ہیں۔ ہم اُس وقت "فیڈرل کیپٹل ایریا" کے آخری سرے پر رہتے تھے جہاں سے "نارتھ ناظم آباد" کی "پہاڑی" صاف نظر آتی تھی۔ ہم بچے اکثر شام کو مغرب کے وقت "پہاڑی" کے پیچھے سورج کے ڈوبنے کا منظر دیکھا کرتے تھے، اُس سمے پہاڑی کی طرف کا آسمان گہرا سنہرا اور سرخی مائل ہو جاتا تھا جو ہم دیکھنے والوں کو بہت بھلا لگتا تھا۔
ہمارے والد صاحب کے پاس ایک طاقتور دوربین تھی، ایک دن انہوں نے اپنی وہ دوربین نکالی اور ہم سب بچوں کو گھر کی بالکونی میں لے گئے، وہاں بالکونی پہ لے جا کر انہوں نے ہم سے کہا کہ اب دیکھو سامنے پہاڑی پر کیا لکھا ہے۔۔۔؟ وہ جاوید جبار کی فلم’ مسافر‘ کے انگریزی ورژن Beyond The Last Mountain کا اشتہار تھا جس کو ہم دوربین کی مدد سے دیکھ رہے تھے۔ پہاڑ پر میلوں لمبی یہ انگریزی کی عبارت تحریر کرنا ہمارے لئے اُس وقت بھی حیرت کی بات تھی اور آج بھی ہے!!!!
“