پاکستان میں فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت گری کچھ لوگوں کے نزدیک جنرل ضیا کے مارشل لا کی پیدا وار ہے اور اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھااور شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے لیکن پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ ایسے کسی موقف کی تائید نہیں کرتا۔ اس کے برعکس فرقہ پرستی اور فرقہ ورانہ فسادات ابتدا ہی سے پاکستان کی سیاسی و مذہبی تاریخ کا لازمی جزو رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے فوری بعد مذہبی سیاسی جماعتوں بالخصوص احرار نے فرقہ پرستی کے نعرے کے ارد گرد دیگر مذہبی عناصر کو جمع کیا اور احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردینے کے لئے پاکستان بالخصوص پنجاب کے عوام کو متحرک کرنے کے آغاز کردیا تھا۔ قیام پاکستان کے چھ سال بعد پہلا فرقہ ورانہ فسادات مارچ1953میں ہو ا جس میں متعدد احمدیوں ہلاک ہوئے تھے اور پنجاب کی شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں پہلے مارشل لا کی ذمہ دار مذہبی سیاسی جماعتیں اور فرقہ واریت تھی
1953 میں ہونے والے فسادات کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے تفصیل سے ان فسادات کے اسباب و وجوہات کا جائزہ لیا جو ان فسادات کوموجب بنے تھے۔تحقیقاتی کمیشن کی یہ رپورٹ اپنے مواد کے اعتبار سے ایک تاریخی دستاویز ہے کیونکہ اس میں نہ صرف ان فسادات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا گیا ہے بلکہ ان کے تاریخی پس منظر کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ منیر انکوائیری کمیشن رپورٹ کے نام سے موسوم سے اس تحقیقاتی رپورٹ کی اشاعت اس لئے بروقت ہے کہ وہ اسباب اور وجوہات ابھی تک موجود ہیں جو 1953 میں فرقہ ورانہ فسادات کا باعث بنی تھیں۔
منیر انکوائیری کمیشن رپورٹ میں 1953 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے جن اسباب کا ذکر کیا گیا ہے ان کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔مذہبی مخالفین کے خلاف فتوے دینا، اشتہارات، پمفلٹس، کتابوں اور تقاریر کے ذریعے ان کے نظریات کے بارے میں مبالغہ آمیز پروپیگنڈا کرنا، جلسوں،جلوسوں اور مذہبی کانفرنسوں میں تقریروں کے ذریعہ عوام کے مذہبی جذبات کو مشعل کرنے کا یہ عمل پورے زور شور سے جاری و ساری ہے۔ مذہبی مخالفین اور فرقہ واریت کا یہ پراپیگنڈا اب سوشل میڈیا پر منتقل ہوگیا ہے۔
منیر رپورٹ کا سب سے دل چسپ حصہ وہ ہے جس میں کمیشن نے مختلف فرقوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو طلب کیا اور ان سے اسلامی ریاست میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق بارے پوچھا اور کہ ان کے نزدیک مسلمان کی متعین تعریف کیا ہے؟ کمیشن کے نزدیک اگر مختلف فرقوں کے علما احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن میں نہ صرف اس یقین کی وجوہ بالکل واضح ہوں گی بلکہ وہ مسلمان کی تعریف بھی قطعی طورپر کرسکیں گے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ فلاں شخص یا جماعت دائیرہ اسلام سے خارج ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دعویٰ کرنے والے کے ذہن میں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ مسلمان کس کو کہتے ہیں۔ کمیشن نے مختلف الخیال علمائے کرام سے درخواست کی کہ وہ کم از کم شرایط بیان کردیں جن کی تکمیل سے کسی شخص کو مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہوجاتا ہے لیکن جن علمائے کرام کو یہ تعریف متعین کرنے کے لئے کہا گیا ان میں سے کسی ایک کی تعریف دوسرے سے نہیں ملتی تھی۔
مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صدر جمعیت العلمائے پاکستان، مولانا احمد علی صدر جمعیت علمائے اسلام، مولانا ابوالاعلی مودودی امیر جماعت اسلامی،مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ لاہور، حافظ کفایت حسین ادارہ تحفظ حقوق شیعہ، مولانا عبدالحامد بدایونی صدر جمعیت علمائے پاکستان، مولانا محمد علی کاندھلوی اورمولانا امین احسن اصلاحی وہ چند علمائے کرام تھے جن سے کمیشن نے مسلمان کی تعریف متعین کرنے کو کہا تھا لیکن ان کے جوابات سے معلوم ہوا کہ شیعوں کے نزدیک تمام سنی کافر ہیں اور اہل قرآن متفقہ کافر ہیں۔ ان کے جوابات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعہ، سنی،دیوبندی، اہل حدیث اور بریلویوں میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔
منیر انکوائیری تحقیقاتی رپورٹ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1950 کی دہائی تک پاکستان کی ریاست کو یہ احساس ضرور تھا کہ اس قسم کے واقعات اور فسادات کی تحقیق کرانا ضروری ہے۔چنانچہ احمدی فسادات کی وجوہات جاننے والے منیر انکوائری کمیشن نے نہ صرف ان فسادات کے اسباب کا تجزیہ کیا بلکہ اس وقت کے اہم علما سے انٹرویو کرکے ان مذہبی مباحث کو بھی پیش کیا ہے۔
فرقہ ورانہ فسادات اور قتل وغارت گری ہمارے روز کا معمول بن چکے ہیں لیکن اب ان کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی وقتا فوقتا قائم ہونے والے تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹس کو شایع کیا جاتا ہے۔ ان رپورٹس کے شایع نہ ہونے کی بنا پر و ہ عناصر ایکسپوز نہیں ہوتے جو ان فرقہ ورانہ فسادات اورقتل و غارت گری کے پس پشت متحرک ہوتے ہیں ٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...