97 لاکھ آبادی والے ہنگامہ خیز قاہرہ میں دودن گزارنے کے بعد 5 لاکھ آبادی والے لکسر میں آیا تو یہ شہر پرسکون سا لگا۔قیمتوں کے لحاظ سے بھی سستا ہے۔ مشرقی افریقی حصہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی رنگت نسبتا سانولی تھی اور حلیہ بھی دیہاتی سا۔ شہر کا ریلوے سٹیشن مرکزی جگہ ہے جو کہ فرعون کے مقبرے سے مشابہہ ہے۔
وادی الملوک روانگی:
لکسر شہر میں آنے کی واحد وجہ ان زیر پہاڑ مقبروں کو دیکھنا تھا جن میں چار ہزار سال تک فرعون اپنی طرف سے دنیا سے چھپ کر لافانی ہو چکے تھے۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ دنیا ان کو یہاں سے نکال کر ان پر ٹکٹ لگادے گی اور موجودہ مصری معیشیت کا ایک بڑا حصہ ان کی وجہ سے چلے گا۔ حکمرانوں کی اتنی لمبی سوچ دیکھ کر ان پر رشک آیا کہ ہمارے بھی حکمران بھی ایسی لمبی سوچ کیوں نہیں رکھتے۔
ایک بجے دوپہر ہوٹل سے نکل کر سامنے دریائے نیل کے کنارے سڑک پر چلا گیا کہ یہاں سے ٹیکسی لیتا ہوں۔ ایک رنگ برنگی ٹیکسی روکی اور عربی میں اس سے وادی الملوک جانے کا کرایہ دریافت کیا۔ اس نے دو دفعہ بلیک رے بین اتاری اور پھر پہنی مطلب پاکستانی عربی ناکافی تھی۔ انگلش ٹرائی کی تو معاملہ سمجھ میں آگیا اور 250 پونڈز میں دو گھنٹے کے لئے 1976 ماڈل نئی نکور ٹیکسی چل پڑی۔ ٹیکسی والے سے تھوڑی دیر کی گفت و شنید کے بعد ذرا سی فائین ٹیوننگ کرکے ہماری اور اس کی دیہاتی عربی میچ کر ہی گئی تو تفصیل سے وہ مصر کی بجائے اپنے ذاتی حالات سنانے لگا کہ آج کل کن مشکلات کا شکار ہے۔ ٹورسٹ ٹریپ میں پڑھ چکا تھا کہ جذباتی کہانیوں کا شکار نہیں ہونا۔ آخر اسے کہا کہ بھائی میرے یہ قصے مجھے لکھ کر واٹس اپ پر بھیج دینا اس وقت یہ بتاو فرعونوں کو لکسر شہر سے 28 کلومیٹر دور دفن ہونے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ اس کے گھورنے سے محسوس ہوا کہ غصہ کررہا ہے۔
ویلی آف دی کنگز یا وادی الملوک اور لکسر شہر کو دریائے نیل جدا کرتا ہے۔ مغربی کنارے پر واقع اس علاقے کو مقبروں کی وجہ سے تھیبن نیکروپولس کہتے ہیں اور یہاں دفن فرعونوں کا تعلق مصری تاریخ کے نئی بادشاہت (نیو کنگڈم) 1550 BC سے 1077 BC تک ہے۔ یہ قاہرہ کے اہرام میں دفن خوفو اینڈ سنز کے زمانے سے تقریبا ایک ہزار سال بعد کا دور ہے۔
تقریبا چالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ویلی آف دی کنگز پہنچے تو حسب توقع ٹورسٹس کی ایک بڑی تعداد اس ٹکٹ گھر کے باہر موجود تھی جو اس ویلی کا داخلی دروازہ بھی تھا۔ 10 ڈالرز کی بہت ساری ٹکٹس میرے حوالے کردی گئیں جو بعد میں معلوم ہوا کہ دس ڈالرز میں انٹری ٹکٹس اور صرف 3 مقبروں میں جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ دیکھنے ہیں تو اور ٹکٹس لینی پڑیں گی۔
ٹکٹ گھر سے اس ویلی کا آخری حصہ ایک کلومیٹر دور تھا اور وہاں جانے کے لئے ایک ٹرام 5 پونڈز میں دستیاب تھی۔ ویلی میں داخل ہوا تو گنبد نما پہاڑوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ کچھ پہاڑ عمودی بھی تھے۔ ایک جگہ رامسس 4 لکھا نظر آیا۔ اس طرف گیا تو نزدیکی پہاڑ کے اندر ایک راستہ نظر آیا جو اس پہاڑ کے نیچے جارہا تھا۔ ٹکٹ چیکر کو ٹکٹ دکھائی تو اس نے پنچ کرکے دے دی۔ ایک چھ فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ اونچی راہداری مزید گہرائی میں جارہی تھی۔ زاویہ ایسا تھا کہ چلنے میں آسانی ہورہی تھی۔ اس راہداری کی دیواروں پر قدیم ڈرائینگ کھدی ہوئی تھی جن میں اس کنگ کے بارے میں واقعات و حالات بیان کئے گئے تھے۔ جانوروں اور پرندوں کی تصویریں بہت اچھی حالت میں تھیں اور مختلف رنگوں سے اس کو خوبصورت بنایا گیا تھا۔ 50 میٹر کے بعد یہ راہداری ایک خوبصورت کمرے میں کھلی جس کے درمیان میں رامسس 4 کا تابوت پڑا تھا اور ممی شاید نکال کر قاہرہ کے عجائب گھر منتقل کی جاچکی تھی۔یہ لائم سٹون سے بنایا گیا تھا۔ قاہرہ میں پائے جانے والے تابوت جن کو Sarcophagus کہا جاتا ہے زیادہ تر لائم سٹون گریفائٹ اور ماربل سے بنے ہوئے تھے۔
اس چھ میٹر چوڑے اور اتنے ہی لمبے مربع شکل کے کمرے کی اونچائی دس فیٹ سے زیادہ تھی اور دیواروں کے ساتھ ساتھ چھت بھی بہت عمدہ طریقے سے رنگین پینٹنگز سے سجائی گئی تھی۔ فرعون کے مقبرے کو دیکھنے کا شوق اپنی جگہ لیکن اس کمرے اور راہداری کو جس مہارت سے بنایا گیا تھا یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ آج کل کے مستری بھی بعض اوقات مبارک باد دے دیتے ہیں کہ آپ کی جگہ اوپر والی سایڈ سے ایک فٹ بڑھ گئی ہے گارڈر بدلوا لیں اور انہوں نے چار ہزار سال پہلے زیر پہاڑ ایسی برابر تراش کی کہ ایک انچ کا فرق بھی کہیں نہیں پڑنے دیا۔ پرفیکشن کی اپنی مثال آپ تھا یہ مقبرہ۔ تابوت کے گرد تین چکر لگائے جب یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی بھٹکتی روح یا بدروح نہیں نکلنے والی تو واپسی کی راہ لی۔
ان پہاڑوں کی تہہ میں اب تک 64 مقبرے دریافت ہوچکے ہیں اور ان کو نقصان سے بچانے کے لئے بہت سست روی سے مزید کھدائی کا کام جاری ہے۔ مقبروں کے لئے نمبرز لگانے کی ترتیب KV یعنی Kings Vally سے شروع ہوتی ہے اور جس ترتیب سے دریافت ہوئے اس کا نمبر KV کے ساتھ شامل کردیا جاتا ہے۔ اس حساب سے KV-1 رامسس 7 کا مقبرہ ہے اور KV-64 نہمس بستت نامی ایک گلوکارہ کا مقبرہ ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق مزید مقبروں کی تلاش کے لئے اب ناسا کی مدد لی جارہی ہے تاکہ غیر ضروری کھدائی سے اجتناب ہوسکے۔ زیادہ تر مقبرے سابقہ ادوار میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے بند ہوگئے تھے۔
رامسس 2 اور 9 کے مقبرے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ باقی کے مقبرے باہر سے ہی دیکھنے ہونگے کیونکہ 3 سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے۔ توت انخ آمون Tutankhamun کا مقبرہ یہاں کا سب سے مشہور مقبرہ ہے جو 19 سال کی عمر میں مر گیا اور اپنے گولڈن ماسک اور کفن کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔ یہ فرعون اخیناتن Akhenaten کا داماد تھا۔
اس پوری وادی کا ایک دورہ کیا تو یہاں آئے تین گھنٹے گزر چکے تھے اور میں حساب لگا چکا تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور اپنی نیند پوری کرچکا ہوگااور مزید 100 پونڈز کا بھی حقدار قرار پائے گا کیونکہ اس ٹرپ کے لئے صرف 2 گھنٹے کی بات ہوئی تھی۔
الیکٹرک ٹرین پانچ منٹ میں واپس ٹکٹ گھر گیٹ کے پاس لے آئی تو ڈرائیور واقعی سو رہا تھا۔اس کو اٹھایا تو خلاف توقع مسکرا بھی دیا۔ نیند اور تنخواہ کا دن بڑے بڑے غم مٹا دیتے ہے۔
ڈرائیور نیند پوری کرنے کے بعد فل فارم میں تھا۔ اپنی لاڈو رانی کار کی تعریفیں کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا رہا تھا کہ فلسفی اقبال (علامہ اقبال) کا بہت بڑا فین ہے اور ام کلثوم کی آواز میں ان کی عربی شاعری اس کی پسندیدہ ہے۔ ثبوت کے طور ہر یو ایس بی میں کلام اقبال لگا دیا۔ پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ علامہ اقبال رح نے عربی شاعری بھی کی ہے اور مصریوں کی فیورٹ ہے۔
راستے میں ایک ریسٹورنٹ سے دو عربی شوارمے لئے جو ہم دونوں کے ڈنر کے لئے کافی تھے۔
لکسر ٹیمپل:
دریائے نیل کے کنارے اور لکسر شہر کے مرکزی حصے میں واقع اس ٹیمپل کو 1400 BC میں فرعون امن ہوٹپ amenhotep نے بنانا شروع کیا اور تت انخ آمون کے دور سے لے کر رامسس 2 کے دور میں مکمل ہوا ۔
اس دور میں لکسر مصر کا دارلحکومت تھا اور اسی ٹیمپل میں بادشاہوں کی تاج پوشی ہوتی تھی۔ یہاں حیرت انگیز طور پر انڈین سیاح بھی کافی تعداد میں نظر آئے اور باخدا پورے مصری ٹور میں کوئی ایک پاکستانی مرد ،خاتوں ،زندہ یا شادی شدہ بھی نظر نہیں آیا۔ واحد پاکستانی نمائیندہ کے طور پر کافی دیر فخر کیا اور اس تاریخی ورثے سے پاکستانی بے رغبتی کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ سکندر اعظم بھی ہزاروں سال پہلے میری طرح اس ٹیمپل کا چکر لگا چکا ہے یہ جان کر کافی خوشی ہوئی کہ ہم پلہ ہونا معمولی بات نہیں۔
ان غیرمعمولی مقامات دیکھنے کا الگ ہی نشہ تھا اور اسی نشے میں دھت باہر کھڑی ایک بگھی 50 پونڈز میں بک کروائی کہ سٹی ٹور کروائے گا۔ یہ شہر فیصل آباد کے گھنٹا گھر ایریا سے بڑا نہیں ہے۔ رات کی ٹھنڈی ہوا دریائے نیل کے کنارے ٹپ ٹپ چلتا گھوڑا اور دن بھر کی تھکاوٹ سے چور میاں اصل سیٹ کی بجائے کوچوان کے برابر اس کی سیٹ پر ہی بیٹھ گیا کہ اصل مزہ تو کوچوان لے رہا ہے۔ 15 منٹ کی گردوری کے بعد اس کو ہوٹل چھوڑنے کا کہا۔ ہوٹل کے نزدیک ایک گنا جوس کارنر نظر آیا تو کوچوان کو رکنے کا کہا اور پچاس پونڈز دے دیئے۔ کہنے لگا یہ تو ہوگئے میرے اب گھوڑے کو بھی کچھ نا کچھ دے دو۔ ٹورسٹ ٹریپ کی لسٹ میں یہ بھی شامل تھا اس لیے اس کوچوان سے کہا کہ اگر گھوڑا کہے گا تو دے دیتا ہوں۔ کوچوان نیچے اترا اور گھوڑے کو سمجھانے لگا کہ کچھ تو ہنہنا دو جب گھوڑا نہیں مانا تو میاں جی نے اصرار کیا کہ یہی ایک صورت ہے ۔ کوچوان نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر آواز نکالی تو 20 پونڈز کا حقدار قرار پایا۔ دونوں پارٹیاں ہنستے کھیلتے گلے لگ کر الوداع ہوگئیں۔ بگھی کا یہ سفر موج مستی اور فن سے بھرپور سفر تھا۔
گنے کا رس پینے کے بعد واپس اپنے ہوٹل پہنچا جہاں سے اب چیک آوٹ کرنا تھا کہ رات 11:30 پر قاہرہ کی فلائٹ تھی۔ 20 منٹ کی ڈرائیو اور 150 پونڈز میں ٹیکسی والا ائیر پورٹ چھوڑ آیا۔ ائیر اجپٹ 737 فلائٹ تھی اور تقریبا سب ہی ٹورسٹس تھے۔
فلائٹ مقررہ وقت پر روانہ ہوئی۔ قاہرہ ڈومیسٹک ٹرمینل پر اتر کر ٹیکسی پکڑی اور رات 3 بجے سیدھا سینٹ جارج ہوٹل پہنچا۔ مصری ہوٹلوں میں کمرے کے اندر وائی فائی نہیں ہوتا جبکہ پانچویں فلور پر واقع اس کمرے میں باہر سے کسی نزدیکی فلیٹ کا فری وائی فائی دستیاب تھا اس لئے یہی کمرہ ڈیمانڈ کیا۔ ہوٹل لابی میں انٹرنیٹ دستیاب ہوتا ہے۔ نیپال میں بھی یہی معاملہ تھا۔ چھ گھنٹے کی نیند مجھے صبح کا فری ناشتہ بھی کروا سکتی تھی جو دس بجے بند ہوجاتا تھا۔
قاہرہ میں آخری دن:
آج قاہرہ کا الوداعی وزٹ کرنا تھا کہ ابھی امام شافعی، حضرت زینب کے مزارات پر نہیں گیا تھا اور لوکل مارکیٹ سے شاپنگ بھی باقی تھی۔ ٹیکسی والے کے مشورے پر پہلے حضرت زینب رض بنت علی رض کے مزار پر گیا۔ مسجد اور مزار ایک ہی عمارت تھی۔
روایات کے مطابق سانحہ کربلا کے بعد سیدہ زینب رض مصر بھجوا دی گئیں تھیں اور یہاں نو ماہ گزارنے کے بعد ان کا یہیں انتقال ہوا اور ان کی قبر پر مزار اور ساتھ ایک مسجد بنا دی گئی۔ جبکہ شعیہ حضرات کے نزدیک ان کا مزار دمشق شام میں ہے۔ یہاں پر موجود لوگوں کی عقیدت اور جذباتی لگاو دیکھنے کے قابل تھا۔ کچھ لوگ شلوار قمیض میں بھی نظر آئے جو شاید پاکستانی یا انڈین تھے اور اپنے جذبات کا اظہار سلام پیش کرکے کر کررہے تھے۔ وقت کم ہونے کے باوجود کافی وقت اسی سکون آور ماحول میں بیٹھا رہا۔ ظہر کی نماز ادا کی دوستوں کا سلام پیش کیا اور باہر نکل آیا۔ یہ ایک بارونق جگہ تھی جہاں سستی شاپنگ اور کھانے پینے کی دکانیں تھی۔ لنچ مصری کشری سے کیا، کچھ شاپنگ کی۔ العروسہ چائے پسند آئی تھی اس لئے ایک کلو خریدی۔ ٹیکسی پکڑ کر حضرت امام شافعی رح کے مزار کی طرف روانہ ہوگیا۔ ان کا مزار پرانے قاہرہ میں واقع ہے جہاں سینکڑوں سال پرانے گھر واقع ہیں جن کو گرانے کی بجائے محفوظ کرلیا گیا ہےاور لوگوں کو نئے علاقوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ مزار کے قریب کچھ علاقہ آباد ہے اور کافی گنجان ہے جیسے پرانے لاہور میں آگئے ہوں۔
مزار کے پاس پہنچا تو کنسٹرکشن کا کام جاری تھا ۔ مزار کی عمارت کے اندر مسجد کھلی تھی لیکن مزار کا داخلی راستہ بند تھا جہاں قبر واقع تھی۔ مسجد میں گیا تو ایک پرانی لیکن نفیس مسجد نظر آئی۔ لکڑی اور پتھر سے یہ مسجد وہی ہے جس میں بیٹھ کر امام شافعی رح نے احادیث مرتب کیں اور دوسرے دینی کام سرانجام دیئے۔ نماز عصر ادا کی اور باہر نکل آیا۔ مسجد سے باہر ان کا حجرہ بھی ابھی تک اچھی حالت میں تھا۔
اگرچہ مزار کے اندر نہیں جاسکا لیکن اس جگہ کی برکات محسوس ہوئیں۔
مصر کے شیڈول میں شامل سب کام ہوچکے تھے بلکہ اس سے زیادہ انجوائے کرلیا تھا اور اینڈ از ویل آل از ویل کے محاورے کو حقیقت جان کر مصریوں کا متشکر ہوا۔ مصر ایک غریب ملک ہے لیکن ان کی تاریخ بہت امیر ہے شاید دنیا میں سب سے امیر۔ اس کے عام لوگ مہذب بااخلاق مددگار اور دل والے ہیں۔ مصر میں مہنگائی اتنی ہی ہے جتنی پاکستان میں اس لئے یہاں آنا اور چند دن انجوائے کرنا سب کے لئے بہت اچھا تجربہ ہوگا۔
فرعونوں سے چند دنوں میں اچھی خاصی وابستگی ہوگئی تھی کہ ان کے اردگرد گھوم کر اور ان کے مقبروں میں بھی جا کر دیکھ لیا اور کسی فرعون نے اعتراض نہیں کیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسیت یک طرفہ نہیں تھی۔ 4 دن جیسا کم وقت لے کر یہاں آنا واقعی کم تھا کہ ابھی اسکندریہ اور شرم الشیخ نہیں جاسکا۔ نہر سویز جیسی نایاب چیز بھی نہیں دیکھ سکا لیکن جو کچھ دیکھ پایا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔