اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کتنی تھیں۔ بیس، یا بیس سے بہت زیادہ یا بیس سے کم وہ عورتیں جو کراچی میں مفت آٹا لینے کی خواہش میں ہجوم کے پیروں تلے کچلی گئیں، جتنی بھی تھیں، مرکر ثبوت چھوڑ گئی ہیں کہ پاکستان نااہلوں کے ہاتھ میں ہے اور نا اہلی بھی ایسی جس کے ارد گرد بددیانتی کا حاشیہ کھنچا ہوا ہے۔
آپکا کیا خیال ہے لاٹھی چارج کے بعد بھگدڑ میں مرنے والی ان عورتوں نے ’’وہاں‘‘ سب سے پہلے کون سا کام کیا ہو گا؟ جب لوگ جنازہ پڑھ کر واپس چلے گئے۔ دفن شدہ عورتوں نے کم از کم چار افراد کے خلاف ضرور ایف آئی آر کٹوائی ہو گی۔ صدر، وزیراعظم سندھ کا گورنر اور سندھ کا وزیراعلیٰ ان عورتوں کا موقف یقیناً یہ ہو گا کہ ان حکمرانوں کا فرض تھا کہ ہمارے گھروں میں راشن پہنچاتے اگر نہیں پہنچا سکتے تھے تو حکومت چھوڑ دیتے۔
جس ملک میں ریل کے حادثے پر ریلوے وزیر نے کہا ہے کہ ’’میں کیوں استعفیٰ دوں، میں کوئی ڈرائیور تھا اور یہ بیان تاریخ کا حصہ بن گیا ہو، اس ملک میں اگر مرکز کے حکمران اور صوبے کے والی قہقہہ مار کر یہ کہہ دیں کہ کیوں، ہماری ذمہ داری کیوں تھی؟ ہم کوئی راشن انسپکٹر تھے؟ تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن یہ بات عمر فاروق اعظمؓ نہیں کہہ سکتے تھے۔
آج مغربی ممالک میں ہر بیروزگار شخص کو سرکاری رقم سے گزارہ الائونس ملتا ہے اور ہر نومولود بچے کا وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے۔ ہم میں سے کتنوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ ہر شہری کا گزارہ الائونس اور ہر نومولود بچے کا وظیفہ سب سے پہلے عمر فاروق اعظمؓ نے مقرر کیا تھا کیا آپ وہ مشہور واقعہ بھول گئے جب رات کو بچہ روتا تھا اور چپ نہیں کرتا تھا۔ آپ ماں سے بچے کے رونے کا سبب پوچھتے تھے۔ بالآخر اس نے بتایا کہ میں اسے دودھ نہیں پلانا چاہتی کیوں کہ عمرؓ شیر خوار بچوں کو وظیفے نہیں دیتا۔ صبح کی نماز پر حضرت عمرؓ نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور کہا ’’افسوس ہے عمرؓ پر … نہ جانے کتنے مسلمان بچوں کا خون اس کی گردن پر ہے۔ پھر اعلان کیا کہ ہر نومولود بچے کو وظیفہ دیا جائے گا خواہ وہ شیر خوار ہو یا نہ ہو۔
تو کیا ہر ضرورت مند کو اس کا وظیفہ اور راشن اس کے گھر یا محلے میں پہنچانا حاکم کا فرض نہیں؟ اگر یہ کام حیدر کرار کرم اللہ وجہہ اور عمر فاروق اعظمؓ کر سکتے ہیں تو آج کے حکمرانوں کی انکے سامنے کیا حیثیت ہے؟ حیدر کرار کرم اللہ وجہہ جو عید کے دن جو کی سوکھی روکھی تناول فرما رہے تھے۔ اور حضرت عمرؓ جن کے بارے میں حرّام بن ہاشم کعبی اپنے والد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ رجسٹر لئے چلے جا رہے تھے‘ انہوں نے ہر شادی شدہ عورت اور ہر غیر شادی شدہ لڑکی کو بلایا اور اس کا وظیفہ اپنے ہاتھ سے اسے دیا۔ پھر وہاں سے عسفان پہنچے اور ایک ایک کا وظیفہ پہنچایا‘‘۔ پھر انہوں نے حضرت خدیفہ کو لکھا کہ لوگوں کے وظیفے اور روزیاں انہیں دے دی جائیں۔ حذیفہ کو اسلئے لکھا کہ وظائف کے سارے رجسٹر مدینہ میں نہ تھے۔ وہ ان شہروں کے حاکموں کے پاس تھے۔ جن شہروں کے وظیفہ خواروں کے نام ان رجسٹروں میں درج تھے۔ چنانچہ یمن کا رجسٹر والی یمن کے پاس اور بصرہ کا رجسٹر بصرہ کے حکمرانوں کے پاس تھا اور اسی طرح باقی سب صوبوں کے رجسٹر صوبوں کے حکام کے پاس تھے۔ یہ اس لئے تھا کہ ہر شخص کو اسکے اپنے شہر ہی میں وظیفہ ملے۔ مرکز (مدینہ) میں حضرت عمرؓ خود وظیفے پہنچاتے تھے اور صوبے کا گورنر یہ کام صوبے میں کرتا تھا۔
آپکا کیا خیال ہے کہ پاکستان کے حالات کب بدلیں گے؟ شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جو اس بارے میں پر امید ہو اور وہ پرامید ہو بھی کس طرح سکتا ہے جب ہمارا بالائی طبقہ … خواہ حکومت کرنے والا یا اپوزیشن کرنیوالا … ایک اور ہی دنیا میں رہتا ہے۔ جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ جب تک دو کام نہیں ہونگے، اس ملک کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔ ایک یہ کہ حکمران چھوٹے گھروں میں اٹھ آئیں بالکل اس طرح جیسے ڈنمارک، اسرائیل برطانیہ اور جرمنی کے حکمران رہتے ہیں اور بازار سے سودا سلف خود خریدیں اور دوسری یہ کہ سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات ہوں!
کاش میاں نوازشریف ہر اتوار کو ایک چھوٹی سی کار ڈرائیو کر کے اپنے گھر کا سودا سلف اکبری منڈی سے خود خریدیں اور کاش الطاف حسین ہر اتوار کو اپنے گھر کا سودا سلف کراچی کی ایمپریس مارکیٹ سے خود خریدیں، یہی دو لیڈر ہیں جن پر اس وقت اہل پاکستان کی نظریں جمی ہیں۔ رہا عمران خان تو اس کے ذہنی افق کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے رہنے کیلئے تین سو کنال اور ایک روایت کیمطابق چار سو کنال پر گھر بنایا ہے۔ اسے ابھی تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ طالبان اچھے ہیں یا برے۔
تو پھر آپ کا کیا خال ہے کیا ان دونوں تبدیلیوں کے واقع ہونے کا امکان مستقبل قریب میں ہے؟ یعنی حکمرانوں کا چھوٹے گھروں میں منتقل ہو جانا اور سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا انعقاد! اگر میں یہ کہوں کہ اس کا امکان مستقبل قریب تو کیا، مستقبل بعید میں بھی نہیں، تو کیا آپ لکڑی اٹھا کر مجھے مارنے کو دوڑیں گے؟بالکل اس طرح جس طرح جرأت لکڑی اٹھا کر انشا کو مارنے دوڑا تھا۔ جرأت نابینا تھا، انشا آیا تو دیکھا جرأت فکر سخن میں غرق ہے، پوچھا تو جرأت نے بتایا کہ مصرع ہوا ہے
…
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
انشا نے فوراً گرہ لگائی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
اس پر جرأت لکڑی اٹھا کر مارنے کو دوڑا
آپ مجھے مارنے کو دوڑیں یا نہیں، اتنا سوچئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی کے اندر انتخابات ہوں اور پارٹی کی رہنمائی ایک خاندان سے باہر نکل جائے؟ نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! پیپلزپارٹی پر بھٹو خاندان ہی کی سردار ی ہو گی۔ مسلم لیگی نوازشریف برادران کی جاگیر ہی رہے گی۔ تحریک انصاف پر ہمیشہ عمران خان ہی بادشاہی چلائیگا۔ ایم کیو ایم اعلیٰ تعلیم یافتہ، شہری اور فیوڈلزم سے پاک ہونے کے باوجود الطاف حسین ہی کی جیب میں رہے گی۔
رہا حکمرانوں کا محلات کو خیر باد کہنا۔ تو اس کا بھی کوئی امکان نہیں۔ شان و شوکت اور انتہا درجے کا تعیش…ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے۔ اس سے تربیت اٹھان اور بیگ گرائونڈ کا بھی پتہ چلتا ہے، ایوب خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان کا گورنر عبدالمنعم خان ایک گھٹیا پس منظر سے آیا تھا وہ اپنے دوستوں کو گورنر ہائوس کے پلنگ اور پلنگ پوش دکھا کر فخر کیا کرتا تھا۔ اسی طرح کی حرکتیں ماضی قریب میں ہوئیں۔ جنرل مشرف اور شوکت عزیز کے درمیان مہنگے ڈیزائن سوٹوں کا مقابلہ ہوتاتھا۔ کیمبل پور کے علاقے میں نو دولتیے کے بارے میں کہتے ہیں کہ عصر کے وقت اس کا پیٹ بھرا ہے۔ ان لوگوں نے شاید زندگی میں پہلی بار کپڑے دیکھے تھے، ایک ایک سوٹ لاکھوں روپے کا اور وہ بھی سینکڑوں کی تعداد میں —–جس نے کچھ دیکھا ہوتا ہے، وہ اس طرح آپے سے باہر نہیں ہوتا، ٹونی بلیر نے جوتوں کا ایک جوڑا اٹھارہ سال تک پہنا۔ اور شوکت عزیز نے اس ملک کو جوتے کی طرح پہنا، وزیر خزانہ اور وزیراعظم … آٹھ سال تک … اور اب یہ ملک ایک لطیفہ بن چکا ہے۔ اگر ٹیلی فون آپ کے نزدیک پڑا ہے تو ذرا ابھی اور اسی وقت ون سیون یعنی 17 ڈائل کیجئے۔ آپ کو آواز آئیگی… ’’آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ ون سیون سے رجوع فرمائیں۔‘‘ یہ ہے وہ پی ٹی سی ایل جو ’’نجی‘‘ شعبے کو بیچ دی گئی اور جہاں ایک ایک افسر کی تنخواہ اور مراعات اس قدر ہیں کہ امریکی بھی رشک کرتے ہیں۔
آپ لکڑی اٹھا کر مجھے مارنے کو ضرور دوڑیں لیکن ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائے جانے والے ان گنت ٹاک شوز کے ان میزبانوں کا کیا کرینگے جو ہر روز ہارے ہوئے سیاستدانوں اور آسودہ حال ریٹائرڈ جرنیلوں کو بلا کر عوام کی سماعتوں پر سوار کرتے ہیں اور یہ ہارے ہوئے سیاست دان اور آسودہ حال ریٹائرڈ جرنیل اس قدر بولتے ہیں اس قدر بولتے ہیں کہ صاف پتہ چلتا ہے انکے پیٹ پھولے ہوئے ہیں۔کیا اس ملک میں اثاثوں کی چھان بین کبھی نہیں ہوگی؟
بیس عورتوں نے جو مفت آٹا لینے گئی تھیں اور بھگڈر میں ماری گئیں، تدفین کے فوراً بعد ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔