فقہ کی عدالت میں نابالغ بچی کے ساتھ ریپ کی سزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم، ڈاکٹر مشتاق صاحب، اپنے مقالے،‘The Crime of Rape and the Hanafi Doctrine of Siyasa’، میں امام سرخسی کی کتاب، 'المبسوط' کے حوالے سے نابالغ بچی کے ریپ کی سزا کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“If a person coerces a minor girl for sex causes damage to her, hadd punishment will not be imposed on him because the act lack essential condition of zina, but he will be given ta'zir and he will also be liable to pay one-third of diyah as well as mahr (dower). But if he is to pay full diya, he will not be asked to pay mahr.” (Pakistan Journal of Criminology, pg, 176-177)
ترجمہ: اگر کوئی شخص نابالغ بچی کے ساتھ زبردستی جنسی عمل کرے، اور اس میں بچی کونقصان پہنچا دے، تو اس پر کوئی حد نہیں (یعنی جرم ثابت ہو چکا،مگراس کے باوجود اس شخص پر کوئی حد نہیں لگائی جائے گی)، وجہ یہ ہے کہ زنا کی ضروری شرط پوری نہیں ہوئی، (شرط پوری کیوں نہیں ہوئی، تفصیل آگے آتی ہے)، تاہم، اس شخص کو تعزیرًا سزا دی جائے گی، اور وہ بچی کو ایک تہائی دیت اور مہر دینے کا پابند کیا جائے گا، لیکن اگر اسے پوری دیت دینی پڑے، تو اس سے مہر دینے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
ڈاکٹر مشتاق اپنے مقالے میں اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر آگے نکل گئے ہیں، گویا انھوں نے اس جزئیے کی خاموش تائید فرمائی ہے۔
اس جزئیے پر مولاناعمار خان ناصر صاحب اپنی کتاب "حدود و تعزیرات: چند اہم مباحث"، میں تبصرہ فرماتے ہیں:
"فقہی ’نکتہ رسی‘ کی دلچسپ ترین مثال اس جزئیے میں ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نابالغ بچی کے ساتھ زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی، لیکن اگر زنا کے نتیجے میں بچی کی دونوں شرم گاہیں آپس میں مل جائیں تو زانی حد سے مستثنیٰ قرار پائے گا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ زنا کی حد تب واجب ہوتی ہے جب یہ فعل کامل صورت میں واقع ہوا ہو اور فعل کے کامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا محل بھی کامل ہو۔ چنانچہ اگر زنا کے نتیجے میں بچی کی دونوں شرم گاہیں آپس میں نہیں ملیں تو یہ اس کی دلیل ہے کہ محل اس فعل کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اگر شرم گاہیں مل گئی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محل جماع سرے سے اس فعل کا متحمل ہی نہیں تھا، اس لیے زنا کا فعل کامل صورت میں واقع نہیں ہوا اور اس پر حد نہیں لگائی جا سکتی۔یہ جزرسی غالباً کسی داد کی محتاج نہیں ہے۔"
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کہا کیا جا رہا ہے۔ یعنی بچی اگر کچھ بڑی ہے کہ وہ مرد کایہ ظلم کسی طرح سہار گئی، اور چار گواہوں کی گواہی سے جرم ثابت بھی ہو گیا تو مجرم پر شرعی حد یعنی کنوارا ہو تو سو کوڑے اور شادی شدہ ہو تو سنگساری کی سزا نافذ کی جائے گی۔ لیکن اگر بچی اتنی چھوٹی ہے کہ مرد کے ظلم کو پوری طرح سہار نہیں سکی (خواہ اس میں اس پر قیامت بیت جائے) تو چونکہ زنا کا یہ عمل زنا کی فقہی تعریف پر پورا نہیں اترا، اس لیے چار گواہوں کی گواہی سے جرم ثابت ہو جانے کے بعد بھی اس پر شرعی حد نہیں لگائی جائے گی۔ البتہ قاضی صاحب اس کو تعزیرًا کوئی بھی سزا دے سکتے ہیں، نیز بچی کے عضو کو نقصان پہنچانے پر ایک تہائی دیت اور مہر دلوایا جائے گا۔ لیکن پوری دیت دلوانے کی صورت میں مجرم کو مہر بھی معاف کر دیا جائے گا۔
فقہ کی رو سے شرعی پوزیشن یہی ہے۔ یعنی ایک چھوٹی بچی جو نسبتًا ایک بڑی بچی کے مقابلے میں اس جنسی عمل میں زیادہ تکلیف سہے گی، اس کے مجرم کے لیے شرعی سزا مزید کم ہے!
حاشا و کلا، خدائے دانا کی شریعت ایسی نامعقولیت سے پاک ہے۔ یہ وہ فقہی فہم ہے، جس کی بنیاد اصول فقہ ہے جو منطقِ یونان کے غیر حقیقی اور غیر فطری اصولوں پر استوار ہے۔ خدا کی شریعت اتنی اندھی بہری اور ناانصاف بنا دی گئی کہ ہر صورت میں وہ مجرم کو فائدہ دیتی ہے ، لیکن متاثرہ بچی کو انصاف نہیں دیتی۔ خدائے دانا کی شریعت کو نامعقول ثابت کرنے کے بعد پھر ایک قاضی کے صواب دیدی اختیارات کی پخ سے اس صریح ناانصافی کی تلافی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی جو انصاف خدا کے ہاں سے نہیں ملا، اس کی تلافی قاضی کے ذریعے سے کرائی جائے گی!
یہ بحث ہم نے یہاں کی ہی نہیں کہ شرعی شھادت کا نصاب عملًا پورا ہونا بھی ناممکنات میں سے ہے، کہ چار عاقل، بالغ، مسلم، عادل مردوں کا وقوعہ کے وقت موجود ہونا اوراور سارا عمل اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھنا عملی دنیا میں ہو نہیں سکتا۔ مزید یہ کہ خود متاثرہ بچی کی گواہی اس کے نابالغ اور مونث ہونے بنا پر حد شرعی کے نفاذ کے لیے شریعت کے لیے قابل قبول ہی نہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے شریعت مجرم کو فائدہ دینا چاہتی ہے۔ پھر یہ ناممکن اگر ممکن کر بھی دیا جائے تو اس کے بعد بھی وہ صورت حال بنتی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ شریعت کے ماتھے پر اس صریح ناانصافی کا کلنک لگا کر پھر قاضی کے ذریعے سے یہ سارے داغ دھونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فقہ نے شریعت کی جو پوزیشن بنا کر دی ہے، وہ ہر لحاظ سے عقل و فطرت اور انصاف کی روح کے سراسر خلاف ہے۔
یہ ہے وہ فقہ، جسے شریعت کے نام پر نافذ کرانے کے لیے ملک گیر تحریکیں چلائی جاتی ہیں، اور جس کے آنے پر خلاف راشدہ کا دور واپس آ جانے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ اس کے نافذ ہو جانے کے بعد بچیوں کے ریپ کرنے والے کنوارے کوشش کیا کریں گے بچی وہ ڈھونڈیں جو ان کے ظلم کو سہار سکے اور موقع پر چار گواہ بھی موجود رہیں جن کی گواہی کی بنا پر وہ فقہی عدالت سے سو کوڑوں کی سزا پا کر قاضی صاحب کی تعزیری سزاؤں سے محفوظ بھی رہ سکیں۔
خدا کی شریعت اس ظلم اور اندھے پن سے سے بری ہے۔ فقہ کا یہ فہم اصول فقہ سے آیا ہے جو یونان کی منطق کے غیر فطری اور غیر حقیقی اصولوں پر استوار ہوئی تھی۔اس میں لفظ پکڑا جاتا ہے، پورے کلام اور اس کے سیاق و سباق سے اسے غرض نہیں ہوتی۔ لفظ کو زندہ زبان سے نکال کر اسے ایک اصطلاحی مفہوم پہنایا جاتا ہے پھر اس اصطلاحی مفہوم کی تنگنائی سے اطلاقات کا دائرہ تنگ کیا جاتا ہے۔ فقہ میں زنا کی ایک تعریف مقرر کی گئی ہے۔ چونکہ چھوٹی بچی سے کامل طریقے سے جنسی عمل پورا نہیں ہوتا، چاہے اس میں اس کی تکلیف کئی گنا زیادہ کیوں نہ ہو، یہ زنا کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ جب یہ زنا نہیں، تو شرعی حد جاری کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرز فکر نے خدا کو ایک ریاضیاتی فقیہ کی طرح بنا کر اس کی شریعت کو بے دست و پا کر دیا ہے۔
شریعت کی اصل پوزیشن کیا ہے؟
اسی لفظ، 'زنا'، کو زبان کے عام استعمال کے لحاظ سے برتیں تو مسئلہ سادہ اور بالکل فطری نہج پر آ جاتا ہے، اور خدا کی شریعت سے ناانصافی کا یہ تاثر بھی بے بنیاد قرار پاتا ہے جو فقہ نے اس کے سر منڈھ دیا ہے۔ وہ یوں کہ زبا ن کے عام استعمالات میں جب زنا کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ کتنا جنسی عمل پورا ہو تو زنا کہلائے گا۔ جب ایک شخص نے زنا کے ارادے سے کسی خاتون یا بچی کے ساتھ اپنی طرف سے زنا کی پوری کوشش کر ڈالی تو وہ اس بنا پر زنا کی تعریف سے خارج نہیں ہو جائے گا کہ یہ عمل کتنے فیصد کم پورا ہوا تھا۔ عام زبان میں اسے زنا کرنا ہی کہتے ہیں۔ ایسے مجر م پر جرم ثابت ہوجانے اور مجرم کے حالات میں کوئی رعایت نہ پائے جانے کی صورت میں زنا کی حد نافذ کی جائی گی۔
دوسری بات یہ کہ یہ عمل اگر زبردستی کیا گیا ہو تو یہ فساد فی الارض کے زمرے میں شامل ہو جائے گا، اس لیے کہ چوری، اگر ڈاکہ بن جائے، یا قتل، دہشت گردی بن جائے تو انھیں فساد فی الارض کے جرائم میں سے شامل سمجھا گیا ہے کیونکہ یہ جان اور مال کے خلاف چوری اور قتل سے زیادہ بڑی تعدی ہے، تو زنا، جب زنا بالجبر بن جائے، عصمت دری جب سرعام یا اجتماعی طور پر کی جائے، یا کسی کی ایسی ویڈیو بنا کرانٹر نیٹ پر چڑھا دی جائے، جس سے اس کی عزت کا جنازہ نکل جائے، وغیرہ، تو یہ بھی آبرو کے خلاف عام زنا سے زیادہ بڑی تعدی ہے۔ شرعی سزاؤں کا منشا جان، مال اور آبرو کا تحفظ ہی تو ہے۔ زنا بالجبر کے معاملے میں محض زنا کے لفظ کی وجہ سے اس کے لفظی مفہوم تک محدود نہیں رہا جائے گا۔ فعل کی شناعت جرم کی نوعیت میں اضافہ کر دے گی۔ یہ نتیجہ عقل و فطرت کے بالکل مطابق ہے اور قرآن اس کی تائید کر رہا ہے۔
نابالغ بچی کے معاملے میں چونکہ زنا، زنا بالجبر کا ہی معاملہ ہو سکتا ہے، کیونکہ بچی اس عمل کی متحمل نہیں، تو اس میں چار شرعی گواہوں کی شرط بھی نہیں رہے گی۔ اور بچی کی اپنی گواہی کے ساتھ ہر وہ شھادت، جس سے عدالت اس جرم کے وقوع پر مطمئن ہو جائے، اس جرم کے ثبوت کے طور پر پیش کی جائے گی، اور مجرم کو قرآن میں بیان کردہ فساد فی الارض کی عبرت ناک سزاؤں میں سے کوئی سزا دی جائے گی۔ یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کرنا، عبرت ناک طریقے سے صلیب دینا، بے ترتیب ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، یا جلا وطن کرنا۔
یہ ہے وہ نتیجہ جو لفظ نہیں، بلکہ پورے کلام کو زندہ زبان کی حیثیت سے برتنے کے نتیجے میں عقلی اور فطری طور پر سامنے آتا ہے۔ اس میں کلام کو اس کے پورے سیاق و سباق، اور موقع و محل کے ساتھ سمجھا جاتا ہے نہ کہ محض لفظ کو پکڑ کر نتائج نکالے جاتے ہیں۔ زبان کے بارے میں یہ وہ فطری اصول ہیں جن کی یاددہانی فکر فراہی نے کرائی ہے۔ وہ زبان کو منطق نہیں، نطق سمجھتی ہے، اور زبان کو اس کے اپنے استعمالات کے لحاظ سے دیکھتی ہے۔
کلام کے ان فطری اصولوں کی رو سے خدا کی شریعت کو دیکھا جائے تو اس پر ناانصافی کا وہ الزام بے بنیاد ٹھہرتا ہے جو دراصل فقہ کی بے توفیقی سے پیدا ہوا جس کے مطابق ایک زیادہ چھوٹی بچی سے زیادہ بڑی زیادتی کرنے والا مجرم زیادہ رعایت کا مستحق قرار پاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“