(تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے نام)
’’عوامی جمہوریہ فن لینڈ‘‘ شمالی یورپ میں واقع ایک خود مختار اور آزاد فلاحی ریاست ہے۔ فن لینڈ کا ’’ہلسنکی‘‘ “Helsinki” شہر آبادی کے اعتبار سے فن لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ فنش دار الحکومت ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ فن لینڈ نے روس سے آزادی حاصل کرتے ہوئے اپنا پہلا یومِ آزادی 6/دسمبر 1917ء کو منایا۔ اِس کی سرکاری زبانوں میں “فنش” اور “سویڈش” شامل ہے۔ اِس کے جنوب میں خلیج فن لینڈ (سوؤمِن لاھتی)، شمال میں ناروے (نوریا)، مشرق میں روس (وینایا) اور مغرب میں سمندر اور سوئیڈن (روؤتسی) واقع ہیں۔ فن لینڈ کی کُل آبادی تقریباً 55 لاکھ اور جغرافیائی رقبہ تقریباً 338,455km² ہے۔ آپ سرِ زمین “فن لینڈ” کو جھیلوں کی سرزمین بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ قدرت نے اِسے تقریباً 187,888 انتہائی پُرکشش، دل نشین اور بے نظیر جھیلوں سے بڑی تعداد میں نواز رکھا ہے، جن کی بہتی جوانی کی کشش ہر سال متجسس سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو فن لینڈ میں اپنی طرف کھینچ لاتی ہے۔ لیکن آپ یقین کیجیے کہ اگر آج میرا قلم’’فن لینڈ‘‘ کے اِس رسمی تعارف کے حوالے سے جنبش میں آیا ہے، تو اِس جنبشِ قلم کی وجہ وہ بانہیں پھیلاتی، مچلتی ہوئی فنش جھیلیں نہیں بلکہ اِس کا وہ بہترین ملکی تعلیمی نظام ہے جو مجھے فن لینڈ کی اُن پُرکشش جھیلوں سے بھی زیادہ پُرکشش، مُتاثر کن اور دل فریب لگتا ہے جو اِسے صرف شمالی یورپ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بین الاقوامی تعلیمی نظاموں میں ممتاز، اعلا اور قابلِ تحسین بنا تا ہے۔
فن لینڈ2000ء سے 2018ء تک “PISA Test” میں لگاتار شرکت کر رہا ہے “PISA Test”
“Programme for International
Student Assessments Test”
کا مخفف ہے۔ یعنی کہ یہ دنیا کا سب بڑا عالمی امتحان ہے کہ جس میں خود کو تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ خیال کرنے والے ممالک کے 15 سالہ طالبان علم شرکت کرتے ہیں جن میں اُن کی فکری صلاحیتوں اور علمی قابلیتوں کو تین جدید ترین مضامین یعنی ریاضی، مطالعاتی قابلیت (Reading) اور سائنس کے ذریعے پڑکھا جاتا ہے۔ اِس عالمی امتحان کے نتائج سے نہ صرف کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام کی اعلا معیاری کا پتہ لگایا جاسکتا ہے بلکہ نتائج میں اعلا کارگردگی دکھانے والے ممالک کو سائنسی، فکری و علمی اعتبار سے ذہین و فطین اور روشن مستقبل رکھنے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نتائج اُن ممالک کی عزت و منزلت اور صنعت و تجارت پر براہِ راست اور بالواسطہ دونوں لحاظ سے بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اِسی عالمی امتحان میں فن لینڈ نے 2000ء تا 2012ء درجہ اول (1st Position) حاصل کرتے ہوئے، لگاتار 12سال تک اِس عالمی امتحان پر راج کیا ہے اور 2012ء کے بعد بھی 2018ء کے آخری “Pisa Test” تک فن لینڈ کے طلبہ کی کارکردگی اِس عالمی امتحان میں نہایت اعلا اور قابلِ تحسین رہی ہے جو فن لینڈ کے تعلیمی نظام کے بے نظیر و بہترین ہونے کی ایک ناقابل فراموش دلیل ہے۔
اگر میں فن لینڈ کے اِس قدر بہترین تعلیمی نظام کے پس منظر کو دیکھوں تو مجھے یہ بات نہایت واضح طور پر دیکھائی دیتی ہے کہ اُنھوں نے اِس راز کو پالیا ہے کہ اقوام کی لازوال بقا اور ناقابل تسخیر ترقی و خوش حالی فوجی اور عسکری قوتوں میں نہیں بلکہ علم کی طاقت میں ہوتی ہے۔ کوئی قوم جغرافیائی لحاظ سے اگر کسی فوجی و عسکری قوت کے اندھا دھند زور سے تباہ و برباد بھی کر دی جائے۔ لیکن وہ نظریاتی لحاظ سے تب تک مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹائی نہیں جاسکتی کہ جب تک کوئی اُس قوم کی قومی انفرادیت کے تحت علمی ذہانت کو مکمل طور پر ختم نہ کر دے اور فن لینڈ کا شمار تو اُن ممالک میں ہوتا ہے جو پچھلی چند ہی صدیوں میں کئی بار فوجی طاقت کے بل بوتے پر تباہ و برباد اور غیر اقوام کے غلام ہوچکے ہیں. یعنی فن لینڈ عظیم شمالی جنگ 1709ء کی روسی غلامی سے لے کر (روس-فن لینڈ) جنگ بندی 1944ء تک کئی بار مکمل طور پر جانی و مالی اعتبار سے تباہ حال، روسی غلام اور بدترین شکست کا شکار ہوچکا ہے، لیکن فن لینڈ نے جنگی انتقامات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو رواں رکھنے کی بجائے اپنی قومی انفرادیت کے تحت اپنی علمی ذہانت اور فکری قابلیت کو زندہ رکھا اور اپنے تعلیمی نظام کو یورپی ترقی یافتہ ممالک کی اندھی تقلید سے دُور رکھتے ہوئے اور اپنی فوجی طاقت کو اندھا دھند بڑھتے ہوئے، تباہ کن ایٹم بمز بنانے کی بجائے، اپنے ملکی تعلیمی نظام پر مالی اور نظریاتی اعتبار سے بھرپور توجہ دی اور آج فن لینڈ کا تعلیمی نظام دنیا کے سب سے بہترین تعلیمی نظام ہونے کا عالمی اعزاز اپنے نام کرتے ہوئے، دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی ایٹمی قوت Educational Atomic” “Power بن چکا ہے۔ میرے اِس دعویٰ کی غیر جذباتیت اور بلا تعصب حقانیت کا ایک سرسری اندازہ آپ اِن تین باتوں سے لگائیے کہ آج فن لینڈ میں شرح خواندگی دنیا میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً 99% ہے اور دیگر تعلیمی لحاظ سے نہایت طاقتور ممالک سے لے کر دنیا کے عالمی سُپر پاورز ممالک تک سب فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی کئی خصوصیات کو اپنے ہاں نافذ کر نے کے خواہش مند ہیں، نیز اِسی زبردست تعلیمی نظام کی بدولت آج فن لینڈ کا شمار دنیاے یورپ کے سب سے کم ترین بدعنوان ممالک میں ہوتا ہے کہ یہاں عدل و انصاف کا نظام عام سماجی سطح سے لے ملک کی اعلا سیاسی سطح تک مجموعی طور پر رائج ہے۔ تو آئیے، اپنی تحریر کا ذرا سا دھارا بدلتے ہوئے فن لینڈ کی اُن تعلیمی خصوصیات، اختراعات اور اصلاحات کا تفصیلی اور تقابلی تجزیہ کرتے ہیں کہ جو تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک سے لے کر ترقی یافتہ ممالک کے لیے یکسر مفید، مثالی اور متاثر کن نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
(1.)داخلے کی عمر:
فن لینڈ کے اسکولز میں صرف 7 سالہ بچوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے، یعنی فن لینڈ میں لازمی تعلیم کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے۔ اِس 7 سالہ عمر کی حد کے پیچھے میرے مطابق یہ حکمت کار فرما ہوسکتی ہے کہ بچے اِسی 7 سال کی ابتدائی عمر سے قبل شعوری اؤر لا شعوری طور پر اپنی بقیہ تمام زندگی کی تمام تر ترجیحات، جذبات اور نظریات کی سرسری اور ناپختہ بنیادیں رکھتے ہیں جو کہ پھر بقیہ زندگی کے ماحولیاتی اور نظریاتی اثرات کے ارتقائی منازل سے گزرتی ہوئی مزید پختہ ہو جاتی ہیں یا پھر بالکل ہی بے معنی سی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں. لہذا اِسی نُوعمری کے ابتدائی 7 سالہ دورانیے میں رسمی تعلیم سے بھی کئی گنا زیادہ غیر رسمی تعلیم یا ابتدائی گھریلو تعلیم مفید و مناسب رہتی ہے کہ بچے 7 سال تک کھیل ہی کھیل میں گھریلو غیر رسمی تعلیم اور دوستوں سے اپنے ذاتی مشاہدے اؤر آزادنہ تجزیے کی بنا پر، فطرت اور ثقافت کو محسوس کر تے ہوئے آزادنہ سوچ سکتے ہیں اور اپنی اِسی کم عمری کی نعمت کی بدولت، رسمی تعلیم کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہوئے، اپنے غیر معمولی اور غیر رسمی زاویۂ نگاہ سے دنیا کو دیکھ سکتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ اپنا بچپن بھرپور انداز میں آزادی سے جی سکتے ہیں. یوں اِن سارے مراحل سے گزر کر 7 سالہ فنش بچوں میں اسکول تک پہنچنے سے پہلے ہی لاشعوری اور شعوری طور پر علم دوستی، علمی تحقیق و جستجو کا رحجان پیدا ہوچکا ہوتا ہے. جب کہ اِس کے برعکس ہمیں دیگر ممالک میں 3 تا 5 سال تک کے کم عمر بچوں کو اسکولز میں داخل کروانے کی مثالیں ملتی ہیں، جو کہ نہ صرف کم سِن بچوں کے بچپن پر بے جا شدید دباؤ ڈالتے ہوئے اُن کی اُس پیدائشی آزادی پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے کہ جو اُنھیں قدرت نے بہ طورِ تحفہ و نعمت عطا کی ہے بلکہ ایک باپ کی نگاہِ شفقت اور ماں کی آغوش کو فراموش کرتے ہوئے قدرت الہیٰ میں تحریف کرنے کے بھی مترادف ہے۔
( 2.)غیر رسمی گھریلو/ابتدائی تعلیم:
فن لینڈ میں ایک ملازمت یافتہ فنش ماں کو بچے کی پیدائش پر حکومت کی جانب سے ملازمت سے، مکمل چار ماہ کی چھٹی کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور اگر اِس کے بعد بھی والدین میں سے کوئی ایک اپنے بچے کی نگہ داشت کے لیے ملازمت سے چھٹی لینا مناسب سمجھے تو اُسے مزید چھ ماہ کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ بہ آسانی ے دی جاتی ہے۔ نیز فنش حکومت کی جانب سے، اہلیت کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فنش والدین کو بچے کی پیدائش پر ایک خطیر رقم”Child benefit scheme” کے تحت دی جاتی ہے. یہ اسکیم بچے کے 17 سال کے ہونے تک جاری و ساری رہتی ہے. اِس سکیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اِس سے والدین کے لیے رسمی تعلیم سمیت غیر رسمی گھریلو تعلیم کی فراہمی کو مالی اعتبار سے بھی یقینی بنایا جاسکے. لہذا یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ میں والدین ابتدائی گھریلو تعلیم کو نہایت صحت مندانہ طریقہ سے بہ آسانی دیتے ہیں۔ گھریلو غیر رسمی تعلیم کے حوالے سے یہاں یہ بات بھی قابل غور اور دل چسپ ہے کہ فن لینڈ میں والدین کو بچوں کی پیدائش پر، حکومت کی جانب سے ضروری سامان نگہ داشت”Baby Box”کے ساتھ ساتھ ایسی تعلیمی ہدایات بھی دی جاتی ہیں کہ جس میں والدین کو بچوں کی غیر رسمی تعلیمی نشو و نما سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس تعلیمی نشو و نما کی اہمیّت کے حوالے سے فنش ماہرِ تعلیم (ایوا ہجالا)”Eeva Hujala” کہتی ہیں کہ: “ابتدائی گھریلو تعلیم زندگی بھر کی تعلیم کا پہلا اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ اعصابی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دماغ کی نشوونما کا 90% حصہ بچے کی زندگی کے ابتدائی پانچ سالوں کے دوران ہی تحریک و استعمال میں آجاتا ہے، اور 85% عصبی راستے”Nerve paths”اسکول جانے کی عمر یعنی 7 سال سے پہلے ہی نشو و نما پا جاتے ہیں۔ لہذا اِنھی تعلیمات کی آگاہی سے فنش والدین پچپن ہی سے اپنے بچوں کی اخلاقی اقدار اور ذہنی و فکری قابلیت کو پختہ بناتے ہوئے اُنھیں مستقبل کے ایک قیمتی ملکی سرمایہ میں ڈھال دیتے ہیں۔ اِس مقصد کے پیش نظر اکثر فنش والدین بچوں کو ابتدائی و غیر رسمی تعلیم “ڈے کیئر سنٹر” “Day care center”، کنڈرگارٹن “kindergarten”اور پِری اسکول “Preschool” کے ذریعے بھی دینا پسند کرتے ہیں۔ یہ تمام تعلیمی ادارے دیگر حکومتی اسکولز کی طرز کے سنجیدہ اور رائج العام تعلیمی ادارے ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی اِن اداروں کی ابتدائی تعلیم کو لازمی تعلیم سمجھا جاتا ہے. یہ فنش والدین کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو اِن اداروں کے ذریعے ابتدائی تعلیم فراہم کرے یا پھر بچوں کو گھریلو طرز پر مبنی ابتدائی غیر رسمی تعلیم فراہم کرے۔ آپ اِن نجی اداروں کو بچوں کے تفریخ خانے “Plays Grounds” بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں کھیل، مستی و کود میں ہی نہایت چھوٹی سطح پر بنیادی اخلاقی اور علم دوست تعلیمات کو کتابی الفاظ و لہجے کے بغیر صرف زبانی، عملی اور جدید و دل چسپ ٹیکنالوجیکل ذرائع سے سیکھایا جاتا ہے اور آگر آپ فن لینڈ میں اپنے بچوں کو کنڈرگارٹن ”kindergarten” بھیجتے ہیں تو فنش حکومت بچوں کی نگہ داشت کے لیے خصوصی اہتمام کرتی ہے اور ہر سال بچوں کے خرچے کے واسطے سالانہ تقریباً 3842 اِیورُوز کی خطیر رقم بھی والدین کے حوالے کرتی ہے۔ نیز کنڈرگارٹن عملے کا انتحاب بھی کم از کم بیچلرز کی تعلیم پر ہوتا ہے تاکہ بچوں کی نگہ داشت اور تربیت اعلا سطح کی ہو۔ اِن تربیتی اداروں کی ابتدائی و غیر رسمی تعلیم بچوں کے لیے کتنی کار آمد ہوتی ہے، اِس حوالے سے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی”Helsinki” کے محکمہ تعلیم سے وابستہ مشہور ماہر تعلیم اِیوا پینِٹیلا “Eeva Penttila” کہتی ہے کہ:”ہم دیکھتے ہیں کہ ڈے کیئر سنٹر “”Day Care Center”اور پِری اسکول “Preschool” میں بچوں کا داخلہ اُن کے لیے بہت اچھا ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہ جگہ نہیں ہے کہ جہاں والدین کام”Job”پر جاتے وقت اپنے بچہ پھینک جاتے ہیں۔ (تاکہ وہ بچے کی حفاظت اور نگہ داشت کی پریشانی سے آزاد ہو جائے۔) بلکہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں آپ کے بچے کھیلنے اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ نئے نئے دوست بنانے آتے ہیں۔ لہذا بہترین تعلیمی سمجھ بوجھ رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو ڈے کیئر سنٹر میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔”اور کنڈرگارٹن “kindergarten”کے متعل اِیوا پینِٹیلا “Eeva Penttila” کہتی ہے کہ”کنڈرگارٹن”kindergarten” میں بچوں کو بنیادی طور پر یہ سکھایا جاتا ہے کہ “سیکھا کیسے جاتا ہے۔؟” مطالعاتی قابلیت “Reading” اور ریاضی کے متعلق باضابطہ ہدایات سیکھانے کی بجائے اُنھیں فطرت، جان داروں اور زندگی کے دائرۂ کار کے متعلق سیکھایا جاتا ہے۔”
(3.)مفت مساوی تعلیم:
فن لینڈ میں تمام تر تعلیمی ادارے سرکاری تحویل یا نگرانی کے زیر اثر ہیں. یعنی فن لینڈ میں کوئی شخص تعلیم کی فراہمی کے نام پر ذاتی ملکیت کی نوعیت کے مہنگے ترین تعلیمی کاروباری اڈے”Private Education Sector’s”چلا ہی نہیں سکتا ہے. لہذا وہاں تعلیم کا حصول نہایت آسان، عام اور مفت ہے. نیز اسکول کی تعلیم سے وابستہ تمام اشیا مفت فراہم کی جاتی ہیں. مثلاً: کتابیں، بستے اور سامانِ اسٹیشنری”Stationery” وغیرہ مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہے کہ فنش اسکولز میں بہت زیادہ کتابوں، کاپیوں اور بھاری بھر کم بیگ کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے۔بہرحال اِسی مفت مساوی فنش تعلیم کی وجہ سے ہی فنش اسکولز کے مابین زیادہ داخلوں کی دوڑ اور اچھے اور برے اسکولز کی جاگیرداری قائم نہیں ہو پاتی ہے اور نہ ہی وہاں نجی اور حکومتی اسکولز کے اختلاف سے مختلف تعلیمی مسائل جنم لے پاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں تمام مالی طبقوں یعنی امرا، متوسطین اور غربا کے بچے ایک ہی جماعت میں کرسی سے کرسی جوڑ کر ہر حوالے سے مساوات پر مبنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
( 4.)یکساں تعلیمی نظام اور نصاب:
فن لینڈ کے تمام تر تعلیمی اداروں میں سرکاری سطح پر ایک ہی تعلیمی نظام اور نصاب رائج ہے اور اِسی طرح مالی یا نسلی برتری کی تمیز روا رکھے بغیر ہر فنش شہری کو یکساں تعلیمی نظام سے مستفید کیا جاتا ہے۔جس سے فنش طالبانِ علم میں مساوات اور انفرادی خود اعتمادی جیسی عظیم خصوصیات جنم لیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اِسی یکساں تعلیمی نظام کی برکت سے فنش طالبانِ علم میں بچپن ہی سے طبقہ واری سوچ کا خاتمہ کرنے کی حددرجہ کاوش کی جاتی ہے۔ یکساں نصاب اور یکساں تعلیمی نظام ہونے کے سبب وہ نظریاتی طور پر اپنی قومی یک جہتی کے زیرِ سایہ ترقی کرتے ہیں۔ نیزحکومتی رائج شدہ نصاب و نظام کو بدلتے ہر چند سالوں کے بعد زمانے کی جدت کے پیشِ نظر نئی سائنسی و فنی تعریفوں، ایجادات و اصلاحات کے مطابق ہم آہنگ کیا جاتا ہے اور تعلیمی نصاب مرتب کرتے وقت طلبہ کی ذہنی سطح اور رحجانات کو خوب مدنظر رکھتے ہوئے دل چسپ اور آسان فہم بنایا جاتا ہے۔ یہاں اِس ضمن میں یہ بات بھی نہایت اہم اور دل چسپ ہے کہ فن لینڈ میں تعلیمی نصاب صرف الفاظ کی صورت میں کتابوں کے ااوراق پر تحریر کردہ نہیں ہوتا بلکہ نصاب کا آدھا حصہ جہاں الفاظ کی صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہی نصاب کا تقریباً آدھا حصہ عملی کام “Practical work”پر مشتمل ہوتا ہے. یعنی کتاب میں جو فنش طلبا کو الفاظ کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے اُس کا عملی اطلاق”Practical Application” بھی کر دکھایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں میری عملی اطلاق “Practical Application”سے مراد خصوصاً سائنسی طریقہ کار کے حامل مضامین اور موضوعات ہیں جو کہ مشاہدے، تجربے و تجزیے کے قابل ہونے کی بنا پر عملی اطلاق کے قابل ہوتے ہیں. نہ کہ وہ مضامین یا موضوعات ہیں جو مجموعی طور پر عملی اطلاق ”Practical Application” سے بالاتر ہوتے ہیں۔ مثلاً معاشرتی علوم، تاریخ، ادب یا مذہبی مضامین جو صرف نظریات و واقعات کی دنیا میں، الفاظ کے پیراہن کو اُوڑھے ہوئے صرف کتابوں ہی کی صورت موجود ہوتے ہیں. اِن کے عملی اطلاق کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اُس زمانے میں ٹائم ٹریول “Time Travel”کے ذریعے طلبہ کو اُس موضوع سے منسلک زمانے میں پہنچا کر براہ راست آنکھوں دیکھا مشاہدہ کروایا جائے یا پھر کوئی ایسی مشین دریافت کی جائے جس میں یہ قابلیت ہو کہ وہ کُل جہاں کے ماضی کو روزِ ازل سے ایک فلم کی صورت میں پردہ اسکرین پر دکھا سکے. جب کہ فی الحال یہ دونوں ایجادات اور مشورے ناممکنات ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں. نیز یہ ک ادب کے قارئین کے لیے یہ سائنسی نظریات پر مبنی سائنسی مشورے ذرا مبہم اور غیر دل چسپ بھی ہوسکتے ہیں۔ لہذا خلاصہ کلام یہ کہ جیسا کہ آپ نے ملاخطہ فرمایا کہ معاشرتی علوم پر سائنسی علوم کی طرز کا پختہ عملی اطلاق”Practical Application” نہیں ہوسکتا. لہذا فن لینڈ میں اُن مضامین و موضوعات کو نوجوانوں کی ذہنی دل چسپی سے ہم آہنگ جدید ترین ذرائع (Mediums) سے سیکھا کر، عملی اطلاق کا ایک حد تک حق ادا کر دیا جاتا ہے. یعنی کہ Educational Animations, Cartoons, Documentaries, Flims & Games وغیرہ کے ذریعے معاشرتی علوم کو فنش طالبانِ علم کے ذہن میں نہایت آسانی اور دل چسپ طریقے سے فلما دیا جاتا ہے، جس سے معاشرتی علوم کے نظریات و واقعات اپنی ممکنہ اصل اور شفافیت سے طالب علموں کے ذہنوں میں دیر پا حافظے”Long-Term Memory” کا حصہ بن جاتے ہیں۔
(5.)دوپہر کا کھانا”School Meal”:
حکومتِ فن لینڈ 1948ء سے اپنے تعلیمی اداروں میں ہائی اسکولز کی سطح تک مفت دوپہر کا کھانا “”School meal” فراہم کر رہی ہے اور اِس حوالے سے فن لینڈ دنیا کا وہ سب پہلا ملک ہے کہ جس نے ایک وسیع پیمانے پر، یعنی اپنی ملکی سطح پر، شعبۂ تعلیم و تدریس کے لیے مفت خوراک رسانی کے نظام کو متعارف کروایا۔ فنش اسکولز میں موجود خوراک رسانی کا نظام School catering system اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اسکول کو ایسا متوازن، پُرکشش اور گرم کھانا فراہم کیا جائے جو طلبہ و اساتذہ سمیت سارے اسکولی عملے کی صحت مندی کے لیے ممد و معاون ہو اور خصوصاً طلبہ کی عمر اور رحجان کے مدنظر اُن کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے بہترین و مناسب ہو۔ یہ دوپہر کا کھانا ایک بڑی پلیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھانے کی پلیٹ کا آدھا حصہ تازہ سلاد اور پکی ہوئی سبزیوں پر مشتمل ہوتا ہے. جب کہ ایک اُبلے آلو، پاستہ یا چاولوں نے پلیٹ کا ایک تہائی حصہ گھیرا ہوتا ہے۔ آخری ایک چوتھائی حصے میں کٹی مچھلی کے گوشت کا ایک ٹکڑا یا “مارجرین”Margarin”اور بڑیڈ”Bread”ہوتا ہے۔(مچھلی کا گوشت صرف گوشت خور طلبہ کو اُن کی مرضی و پسند کی بنا پر فراہم کیاجاتا ہے۔) نیز مشروبات میں ایک پانی اور ایک دُودھ کا بھرا ہوا گلاس پینے کی خاطر فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دوپہر کے کھانے کے یہ وہ بنیادی اجزا ہیں جو کہ طبی لحاظ سے ایک نہایت متوازن اور صحت مند غذا کو جنم دیتے ہیں اور فنش طالبانِ علم کی ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی صحت کو توانا اور مضبوط بناتے ہوئے فن لینڈ کی تعلیمی ترقی کا ایک اہم راز ہے. اِسی بنا پر حکومتِ فن لینڈ اِس مفت کھانے”School meal” کی فراہمی کو مستقبل کی سرمایہ کاری کہتی ہے. جب کہ میرے مطابق اِس مفت کھانے “School meal”سے حکومت فن لینڈ اپنے مخصوص قومی و ثقافتی طرز پر مبنی مہذبانہ کھانے کے آداب کو اپنے بچوں کو عملی طور پر سیکھانے کی ایک کامیاب کاوش کرتی ہے. اور ساتھ ہی ساتھ فنش والدین کو اسکول لنچ کی تیاری کی کوفت سے بھی آزاد کرواتی ہے۔ بہرحال درج ذیل بالا کھانے کے منیو میں طلبہ کی پسند اور مقامی و موسمی تبدیلیوں کے پیشِ نظر اکثر مناسب ترامیم بھی کی جاتی ہیں. اور اِن ترامیم کے حوالے سے طلبا، والدین اور دیگر اسکولی عملے سے بھی مشاورت کی جاتی ہے۔ خاص تہواروں یا مخصوص دِنوں میں خاص غذاؤں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ذائقے کی یکسانیت دُور ہوسکے۔ بالآخر اساتذہ اور طلبا ایک ساتھ، دسترخوان پر بیٹھ کر لذیذ و من پسند کھانا تناول کرنے کے ساتھ ساتھ حد درجہ بے تکلفانہ اور دوستانہ تعلق کے شیریں بھرے، میٹھے جام، محبت بھری چُسکیاں لیتے ہوئے نوش فرماتے ہیں اور خصوصاً طلبا کھانے کے ساتھ ساتھ ایک خوش گوار اور صاف ستھرے ماحول میں اساتذہ کی علمی صحبت سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ مفت کا کھانا کھانے کے بعد طلبا برتنوں اور دسترخوان وغیرہ کی صاف صفائی بھی خود ہی اچھے طریقے سے کرتے ہیں. لیکن آپ پریشان نہ ہوئیے کہ یہ صاف صفائی مفت کے کھانے کے عوض یا نام نہاد نظم و ضبط کے نام پر ہرگز نہیں کروائی جاتی، بلکہ طلبہ کو زندگی کے عملی، گھریلو اور خصوصاً ازدواجی میدان میں ہر فن مولا بنانے کے لیے کروائی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ طلبا کو شعوری و لاشعوری دونوں لحاظ سے یہ باور کروانے کی بھی ایک بہترین کاوش ہے کہ کھانے کے برتن دھونا یا صاف ستھرائی کرنا مرد و عورت کی دو اجناس میں صرف ایک جنس یعنی عورت پر ہی بہ طورِ صنفی کردار، ہرگز فرض نہیں ہے، بلکہ مرد اگر فرصت تلے گھر میں برتنوں اور صاف ستھرائی کے بوجھ تلے دبی عورت کا ہاتھ بٹاتے ہوئے، ایک اچھے بیٹے، اچھے بھائی اور خصوصاً سب سے بڑھ کر ایک اچھے شوہر کی حیثیت سے برتن دھو لے یا گھر کی صاف ستھرائی کر لے تو اُس کی مردانگی کی شان میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اور نہ بہ طورِ صنفی کردار ایسا کرنا غیر فطری، معیوب یا گناہ و جرم کے ضمن میں آئے گا. یعنی آپ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی اِس حوالے سے کمال دُور اندیشی اور اعلا علمی قامت تو دیکھیے کہ بنیادی جبلی ضرورت کی بھوک مٹاتے، یعنی طلبہ کو مفت مزے دار کھانے کِھلاتے ہوئے بھی بہت کچھ سیکھا رہے اور برتن دلواتے بھی برابر سیکھاتے ہوئے تعلیم دیے جا رہے ہیں. لیکن تعلیم کا یہ طریقہ تدریس اتنا مزے دار اور دل چسپ ہے کہ عوام الناس کو گمان ہی نہیں ہوتا کہ کھلاتے، پِلاتے اور برتن دُھلواتے ہوئے بچہ کیا کیا کچھ شعوری اور لاشعوری طور پر سیکھ رہا ہے کہ جو اگر صرف وہ نصابی کتب کے رسمی الفاظ تلے سِیکھتا، تو اُسے یہ سب کچھ سیکھنے کے لیے خاصی طلب و محنت درکار تھی۔ بہرحال فنش طلبہ کھانے پینے اور برتن دھونے سے لاشعوری و غیر رسمی طور پر سیکھنے کے بعد دوبارہ رسمی و شعوری تعلیم کے حصول کے لیے، چاق و چوبند کمر کستے ہوئے، اپنی اپنی جماعتوں میں جا گھستے ہیں۔
(6.)اسکول کی وردی اور جسمانی آرائش و زیبائش:
فن لینڈ کے تمام تعلیمی اداروں میں اسکول کی ابتدائی تعلیم سے لے کر یونی ورسٹی کی اعلا تعلیمی سطح تک طالبانِ علم پر کوئی خاص وردی یا مخصوص یونی فارم کو مسلط نہیں کیا گیا ہے۔ گویا فنش طلبا اپنے سارے زمانہ طالب علمی میں اپنی پسند کا لباس پہننے میں مکمل طور پر آزاد ہیں کہ جس میں وہ خود کو پُرسکون اور محفوظ محسوس کریں اور اِسی طرح ناخنوں اور بالوں کو بڑھانے، رنگنے یا کسی بھی من پسندیدہ انداز “Style”میں رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہے. اور نہ ہی کوئی جسمانی زیبائش و آرائش پر قدغن لگائی گئی ہے۔ بس اِن سب آزادیوں کے پس منظر میں ایک بنیادی شرط کار فرما ہے کہ جسمانی زیبائش و آرائش اور لباس و حلیہ علاقائی اور معاشرتی اعتبار سے غیر مہذبانہ نہ ہوں۔ لہذا آپ کو فن لینڈ میں طلبہ من چاہے پاجامے اور ٹی شرٹز میں ملبوس، پُرانداز “Stylish” بالوں کے ساتھ اور خوب جسمانی آرائش و زیبائش میں سجے ہوئے اسکولز / کالجز آتے دکھائی دیں گے۔ یہ تمام غیر روایتی آزادیاں فنش طلبا کو سہل الحصول تعلیم پر راغب کرتی ہیں۔ نیز فنش تعلیمی ماہرین کے مطابق اصل مقصد تعلیم فراہم کرنا ہے لہذا ِان آزادیوں کو دینے سے تعلیم پر مجموعی طور پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ فنش طالبانِ علم کو لباس و زیبائش کی آزادی سے متعلقہ متوقع نقصانات کے پیشِ نظر علمی طور پر آگاہ کر کے اُن کی ذہن سازی ہی ایسی کر دی گئی ہے کہ وہ مجموعی طور پر اِن آزادیوں کے فطری و معمولی استعمال کی طرف ہی راغب رہتے ہیں. لہٰذا یہی وجہ ہے کہ صنعتِ آرائش “Cosmetics” کی عالمی منڈی میں فن لینڈ کا شمار ایک غیر اہم کاروباری منڈی کے طور پر ہوتا ہے کہ عام طور پر یہاں کے مقامی فنش مرد اور خصوصاً خواتین جسمانی آرائش و زیبائش کے معاملے میں معمولی حد سے آگے غیر معمولی نرگسیت یا خبط و جنون کا شکار نہیں ہیں۔ نیز لباس کے معاملے میں فن لینڈ کا شمار ایک اچھے فیشن ایبل ملک میں ہونے کے باوجود، خود پسندی یا نرگسیت کی غیر معمولی سطح پر فیشن پرست ملک کے طور پر ہرگز نہیں ہوتا ہے۔
اب اگرچہ فنش تعلیمی اداروں میں لباس و زیبائش سے متعلقہ یہ آزادیاں شاید آپ کے مذہبی یا معاشرتی و ثقافتی ادب و حیا کے تصور کے منافی ہوں لیکن فن لینڈ کے علاقائی اؤر معاشرتی تصورات کے مطابق عین مہذبانہ اور جائز ہیں. یعنی حاصلِ گفتگو یہ کہ آپ بنیادی طور پر اِس غیر روایتی طریقہ تدریس کو دیکھیے اور اپنے علاقائی اؤر ثقافتی نظریات کے پیش نظر اِس کا نفاذ کیجیے. نہ کہ لباس و زیبائش کے حوالے سے اِن تعلیمی آزادیوں کی اصل کو نظر انداز کرتے ہوئے نام نہاد نظم و ضبط یا جزوی اختلافات کے زیرِ اثر اخلاقی یا مذہبی فتوے لگانے شروع کر دیجیے کہ جس طرح تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ و ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی اداروں میں مخصوص لباس یعنی یونی فارم کو فتویٰ کی متشدد حد تک جبراً نافذ کرتے ہوئے رسمی تعلیم کے حصول کا ایک باقاعدہ اؤر لازم ملزوم حصہ بنا دیا گیا ہے کہ وہاں کے تعلیمی اداروں میں اگر کوئی بے چارا بھولا بھٹکا طالب علم بغیر یونی فارم کے داخل ہو جائے تو وہ داخل ہوتا تو ایک طالب علم کی حیثیت سے ہے لیکن نِکلتا اِک پِٹے ہوے مظلوم کی حیثیت سے ہے. یعنی یونی فارم کی خلاف ورزی کو، تعلیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور نام نہاد اساتذہ کی انا پرست آنکھوں میں کھٹکتی، حکم عدولی شمار کرتےے ہوئے کسی ذہنی یا جسمانی اذیت سے نواز کر دیگر طلبہ کے لیے سرعام نمونہ عبرت بنا دیا جاتا ہے اور اِس حوالے سے حدِ ستم تو یہ کہ جس پر شاید آپ کے لیے یقین کرنا بھی مشکل ہو جائے، لیکن آپ یقین کیجیے کہ اپنے متحرک قلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں کئی نام نہاد اعلا یونی ورسٹی تعلیم فراہم کرنے والے ایسے تنگ نظر تعلیمی ادارے بھی ہیں کہ جو اِس اعلا تعلیمی سطح پر بھی اپنے زیر تسلط طلبہ پر یونی فارم کی پابندی کو مخلوط تعلیم کے زیرِ سایہ مرد و خواتین طلبہ میں فطری کشش ثقل میں صرف ثقل پیدا کرنے کے لیے نام نہاد نظم و ضبط کے نام پر جبراً نافذ کرتے ہیں. جب کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کے طلبہ کی علمی زندگیوں میں یونی فارم صرف ایک ٹائی کی گرہ کو صیح طرح داری سے باندھنے کے ماسوا کسی کام نہیں آتا اور مرد و خواتین کی فطری کشش ثقل کو یونی فارم کی جبراً پابندی جیسے روایتی طریقوں سے یا کسی بھی اور طور سے ہمہ پہلو دبایا یا روکا ہرگز نہیں جاسکتا ہے، کہ آپ اِس حوالے سے بس طلبہ کو علمی طور پر اپنے معاشرتی و مذہبی نظریات تلے قائل کر کے اِس کشش ثقل کی لہروں کی سمت کو ذرا سا بدل کر، مہذبانہ بنا سکتے ہیں. و گر نہ آپ ہی بتلائیے کہ ایسا کون سا لباس ہے کہ جس میں سے مخالفِ جنس کی نظریں پار نہیں ہوسکتیں، نقشے اور راستے تراش نہیں لیتیں؟
لہٰذا یونی فارم کے حوالے سے میری ذاتی متناسب رائے یہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں کسی بھی سطح پر مخصوص لباس یعنی یونی فارم کو بہ طورِ قانون جبراً نافذ کرنے کی بجائے اِسے طلبہ کے آزادنہ اختیار پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ چاہے تو اپنا گھریلو لباس پہن کر آئے یا پھر کسی تعلیمی ادارے کا تجویز کردہ لباس تن ِزیب کرے کہ اِس طرح اُن طلبہ کے لیے بھی گنجائش نکل جائے گی جو کسی ذاتی، مالی یا نفسیاتی وجہ سے گھریلو ملبوسات پہن کر آنے میں قباحت و دقت محسوس کرتے ہیں اور اِس مزاج کے برعکس اُن طلبہ کے لیے بھی اِس رائے میں وسعت موجود ہے کہ جو طلبہ تعلیمی اداروں میں اپنے من پسندیدہ اور خوش نما گھریلو ملبوسات پہن کر آنے میں اطمینان و خوشی محسوس کرتے ہیں. بس اِس آزادنہ اختیار میں یہ ایک بنیادی شرط کار فرما ہونی چاہیے کہ لباس چاہے گھریلو ہو یا تعلیمی ادارے کا تجویز کردہ، رائج معاشرتی و ثقافتی نظریات سے بالکل ہی متصادم نہ ہو. کیونکہ بہ صورتِ دیگر ایک طالب علم خود ہی خواہ مخواہ معاشرتی منفی رویوں کو دعوت دیتے ہوئے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارے گا۔
(7.)فرشی صوفے”Bean Bags” اور من چاہے اطوارِ بیٹھک:
فنش اسکولز کی کلاسز میں بچوں کو روایتی کرسیوں پر بیٹھانےکی بجائے نہایت آرام دہ فرشی صوفوں “Bean bags” پر بیٹھایا جاتا ہے کیونکہ فنش ماہرینِ تعلیمی نفسیات کے مطابق بچے فرشی صوفوں”Bean bags”پر بیٹھ کر 20% زیادہ سیکھتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ فرشی صوفوں Beans Bags پر بیٹھنے کے علاوہ بھی طلبہ کسی بھی اپنی پسندیدہ مناسب حالت میں یعنی لیٹ کر، چلتے ہوئے، چار زانو بیٹھ کر یا ٹیک لگاتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ مقصد تو صرف بہترین طور پر پڑھنا اور سیکھنا ہی ہے۔ اب جو ہمارے تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ و ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے وقت مخصوص انداز میں بیٹھنے کے نام نہاد آداب رائج ہیں. اُن کی کھوکھلی مقصدیت کو دیکھ کر مجھے اکثر شدید طنزیہ ہنسی آجاتی ہے اور شاہد آج کے بعد آپ بھی اِس طنزیہ ہنسی کی گونج اپنے اندر محسوس کرنے لگیں۔ بہرحال المختصر یہ کہ آگر آپ فن لینڈ کی اسکولز کلاسز کا دورہ کریں تو وہاں بچوں کے پڑھنے کا انداز ہمارے تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ و ترقی پذیر ممالک کے روایتی، پُر تشدد اور نام نہاد نظم و ضبط کے عین برعکس نہایت ہی بے ترتیب اور غیر روایتی ہوگا۔
(8. ) تعلیمی اداروں کی کمرہ بند اور کھلی جماعتیں:
فن لینڈ کے تعلیمی اداروں میں یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف اپنے تعلیمی ادارے یا اپنی کلاس کی جغرافیائی حدود میں ہی قید ہو کر روایتی طریقے سے پڑھیں، بلکہ آپ ادارے یا اپنی کلاس سے باہر کسی بھی پُرسکون و دل نشین مقام پر کلاسز لیتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں. مثلاً ندی یا سمندر کے کنارے روح پرور رومانوی ہواؤں کے سنگ، جنگل میں سایہ دار درختوں کے سائے تلے یا پارک کے خوب صورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وغیرہ۔ کیونکہ فنش اساتذہ کا ماننا ہے کہ ہر جگہ پر سِیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے اور اِس اعتبار سے فنش طلبہ کے لیے فن لینڈ کی ساری زمین ہی ایک وسیع علمی درس گاہ “Class” کی حیثیت رکھتی ہے اور اِسی طرح فنش اساتذہ کو فن لینڈ کی ساری زمین پر تنے ہوئے ابر آلود آسمان کی طرح ہر آن و ہر جاہ علم و حکمت کے موتیوں کی برسات، برسانے کو تیار رہنا چاہیے۔ غرض یہ کہ فن لینڈ کی اِن بے سرحد جماعتوں کا مقصد یہ ہے کہ طالبانِ علم پتھروں کی بنی دیواروں کی قید سے نکل کر قدرت و ثقافت کی آزادنہ خوب صورتی کو محسوس کرتے ہوئے سیکھ سکیں اور بند کلاسز کے روایتی ماحول سے نکل کر آزاد کھلی فضاؤں میں دل چسپی، جستجو اور تجسّس کے ساتھ علم حاصل کر سکیں. یہاں اِس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فنش تعلیمی اداروں کی پتھروں کی چار دیواری سے بنی بند کلاسز بھی نہایت کشادہ، مُعطر، خوب صورت اور فنی، سائنسی و ٹیکنالوجیکل اشیا سے آراستہ ہوتی ہے اور کسی فنی نمائش گاہ، سائنسی تجربہ گاہ یا بازیچہ اطفال “Child’s Play Station “ کا منظر پیش کر رہی ہوتیں ہیں. اور فن لینڈ کے شدید سرد درجہ حرارت کے باوجود متناسب درجۂ حرارت کی فضا سے لبریز، طلبا کی آنکھوں کو بھاتی ہوئی روشنیوں کو سمیٹے ہوئے، شور کی آلودگی سے حد درجہ پاک ہوتی ہے۔ نیز ایک جماعت میں طلبہ کی اوسطاً تعداد تقریباً 20 ہوتی ہے جو کہ بہترین تعلم و تدریس کے حوالے سے فنش تعلیمی نظام کی دُور اندیشی تلے وسعتِ نظر کی نمائندہ مثال ہے۔ جب کہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں کلاسز پتھریلی دیواروں کی چار دیواری میں مقید 50,50 طلبا سے بھری ہوئی، ایک گھٹن زدہ ماحول کی عکاس ہوتی ہیں اور کئی کلاسز میں تو بنیادی سہولیات یعنی مناسب درجہ حرارت، بجلی، شور اور گرد و غبار سے پاک صاف ستھرا ماحول بھی موجود نہیں ہوتا ہے. ہاں البتہ بجلی کی بندشں تلے پنکھوں کے منجمد پَر اور بجھے ہوئے بلب، حبس زدہ دیواریں، شور کی آلودگی اور عجیب سی بو کے انتظامات ہر کلاس میں مساوات اور برابری کی بنیاد پر فراہم ہوتے ہیں اور اب جہاں تک ادارے سے باہر کسی جگہ پر کلاس لگانے یعنی پڑھنے، پڑھانے اور سیکھنے سیکھانے کا تعلق ہے تو تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اِس تصور کو دیوانے کی خیالی دنیا کے اُدھورے خواب سے تشبیہ دےے کر ، ایک طنزیہ قہقہہ یا جذباتی بھڑک لگاتے ہوئے نہایت بے دردی سے اُڑا دیا جاتا ہے۔
(9.)سزا کے متشدد نظام کی عدم موجودگی:
فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں میرے لیے اِک بے حد مُتاثر کن اور پُر کشش بات یہ بھی ہے کہ وہاں طلبہ کو اساتذہ یا انتظامی عملے کی جانب سے کسی بھی قسم کی سزا یا پُرتشدد رویے کا سامنا ہرگز نہیں ہوتا ہے. یعنی کہ فنش تعلیمی اداروں میں مار کٹائی، تذلیل یا کسی بھی حوالے سے جسمانی یا ذہنی تشدد کرنا نہ صرف قانونی جرم ہے بلکہ وہاں اجتماعی طور پر ہمیں اِس سزا کے متشدد نظام کا کہیں دُور دُور تک تصور بھی نہیں ملتا ہے۔ اِس کی ایک بڑی وجہ میرے مطابق یہ ہے کہ وہاں اجتماعی طور پر اساتذہ اور طالبانِ علم میں اعتماد اور محبت کے دوستانہ اور کسی حد تک بے تکلفانہ مضبوط رشتے قائم ہوتے ہیں۔ جو ایک طالب علم اور استاد کے درمیان تمام غلط فہمیوں، بداخلاقیوں اور پرتشدد رویہ جات کے درمیان ایک آہنی دیوار کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے سزا کے متشدد نظام کا خاتمہ کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ قانونی جرم ہونے کے ڈر سے بھی کوئی استاد غصے میں اپنے رتبہ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طالب علم کو ذہنی یا جسمانی طور پر ہراساں کرنے سے کُتراتا ہے. حاصلِ کلام یہ کہ فن لینڈ میں اساتذہ طلبہ کو نہایت با اخلاق اور پُرشفقت تدریسی طریقے کے زیر اثر تعلیم سے نوازتے ہیں. جو طالبان علم اور اساتذہ کے درمیان علمی مباحث اور سوالات و جوابات کے پُر امن اور باادب متواتر سلسلے کو جاری رکھتا ہے۔ جب کہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں سزا کے متشدد نظام کو عملی طور پر تعلم و تدریس کا ایک باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا ہے۔یعنی اِس وحشیانہ و غیر انسانی اَمر کو طلبہ کی نام نہاد، دُور اثر فلاح کے نام پر ایک عام طریقۂ تدریس اور جائز عمل میں بدل دیا گیا ہے. اِسی وجہ سے ہمیں اِن ممالک میں آئے روز اِس قسم کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک اور بد کردار جلاد نے استاد کے مقدس لبادے میں چھپ کر ایک طالب علم کو ذہنی یا جسمانی طور پر شدید زخمی کرتے ہوئے نظریاتی یا طبی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
(10.)ہوم ورک”Home Work”:
2016ء تک فن لینڈ کے اسکولز میں بہت کم ہوم ورک دیا جا تا تھا۔ جب کہ 2016ء کے بعد اِسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ تاکہ بچے اسکول سے چھٹی کے بعد اپنے خاندان، دوستوں اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو وقت دے سکیں اور ہوم ورک کے ذہنی دباؤ سے بالاتر ہو کر، اپنے ذاتی، عملی و نظریاتی مشاہدات کے زیرِ سایہ اپنے بچپن کو، خوب آزادنہ انداز میں جی سکیں. یہاں اِس ضمن میں یہ قابل توجہ پہلو بھی اخذ ہوتا ہے کہ ہوم ورک نہ دینے کی فنش تعلیمی اختراع سے آپ اِس بات کا اندازہ لگائیے کہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کے تحت اسکولز میں روزانہ کی بنیاد پر تعلیم کو دیے جانے والے تقریباً 4،5 گھنٹے “School Hour’s” ہی فنش طلبہ کے لیے مجموعی طور پر اِتنے موثر ہوتے ہیں کہ اِنھی چند تعلیمی گھنٹوں سے خوب مستفید ہونے کے بعد، اُنھیں مزید گھر کے لیے کسی الگ تعلیمی محنت “Homework” یا کسی الگ درس بہَ عوض معاوضہ یعنی”Tuition” وغیرہ کے اہتمام کی ضرورت ہرگز نہیں رہتی ہے۔ نیز یہ کہ اگر آج صرف اسکولی تعلیمی گھنٹوں “School Hour’s”پر منحصر فنش طلبہ، سابقہ ذکر کردہ اِن دونوں انتظامات کا انتظام کیے بغیر، ذہین و فطین عالمی طلبہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں تو اِس بات سے آپ فن لینڈ کے اسکولز میں دیے جانے والے اُن تقریباً 4٫5 موثر تعلیمی گھنٹوں کی اعلا علمی قابلیت، ارسالِ علم کی قوت اور تعلیمی صلاحیت کا اندازہ بھی بہ خوبی طور پر لگا سکتے ہیں۔ جب کہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اسکولی تعلیمی گھنٹوں “School Hour’s” کی قوتِ ارسال علم اور علمی قابلیت و صلاحیت کی ضعیفی اور کھوکھلاہٹ کا اندازہ آپ اِس بات سے بہ خوبی طور پر لگا سکتے ہیں کہ وہاں طلبہ کو اسکولی تعلیمی گھنٹوں School Hour’s” میں بغیر مناسب وقفۂ تفریح کے لگاتار پڑھانے کے باوجود، تدریس کردہ تعلیم کو امتحانی نقطۂ نظر سے تیار کروانے کے لیے، کم از کم دو تین گھنٹوں پر مشتمل تحریری و زبانی ہوم ورک دیا جاتا ہے کہ جس کی تکمیل کے لیے پھر طلبہ کے لیے الگ سے “Tuitions” کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اِس پر بھی اُن بچارے طلبہ کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ اُنھیں اسکول ہوم ورکز کے ساتھ ساتھ سالانہ امتحانات کی تیاری کے نام پر، الگ ٹیوشن ہوم ورکز دیے جاتے ہیں کہ جن کی تکمیل کے واسطے پھر وہ مظلوم طلبہ ٹیوشن سے واپس گھر آنے پر، راتوں کی نیندوں کو خود پر حرام کیے، گھٹنوں لکھنے اور رٹا لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور یوں اِن ہوم ورکز کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ایک طالب علم کو ایک ایسے ڈگری زدہ، روبوٹ نما انسان میں بدل دیتے ہیں، جو اپنے گھر کی چار دیواری میں، حلال و حرام کی تمیز سے نابلد، معاشی انقلاب لانے والی ایک نوکر روبوٹ مشین تو ضرور بن سکتا ہے لیکن معاشرے میں کسی بھی سطح پر نظریاتی انقلاب لانے والا اِک با اخلاق اؤر مُدبر انسان ہرگز نہیں، کیونکہ اِن اسکول اور ٹیوشن کے حد درجہ طویل اور کٹھن ہوم ورکز نے اُس طالب علم کا معصومانہ بچپن یا عہدِ شباب میں تجسس بھرا زمانہ ِطالب علمی، ذہنی تناؤ تلے بے دردی سے کچل دیا ہوتا ہے۔
(11.)جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم:
فن لینڈ کے اسکولز میں ٹیکنالوجی، جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ وغیرہ کا تعلیمی مقاصد کے لیے بھر پور استعمال کیا جا تا ہے اور طلبہ کو مختلف عوامی ویب سائٹز اور کئی مخصوص دل چسپ تعلیمی ایپس “Apps” مثلاً: یوٹیوب”Youtube”،گوگل” Google” فیس بک”Facebook”،پلانٹ نیٹ”Plant Net”،پکچر دِیس”Picture This”ڈولنگو”Doulingo”برڈ نیٹ،”Bird Net”وغیرہ اور دیگر بہت سی چھوٹی، بڑی تعلیمی ایپس سے تعلیم فراہم کی جاتی ہے. نیز علمی تحقیق و تعلم کے حوالے سے طلبہ کو وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ ویب سائٹس کا ہمہ پہلو استمعال سِکھایا جاتا ہے۔ لہذا فنش طلبہ درج بالا جدید ٹیکنالوجیکل ایپس سمیت اَن گِنت انٹرنیٹ عوامی ویب سائٹز اور جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے موبائلز Mobiles” ،”Tablets ” اور لیپ ٹاپز”Laptops”وغیرہ کے ذریعے مختلف تعلیمی اسینمٹسز”Assignments”اور پروجیکٹس”Projects” پر کام کرتے ہیں۔ نیز ہر فنش کلاس میں طلبہ کے لیے سفید یا سیاہ تحتے “White Or Black Board” کے ساتھ ساتھ اِک بڑی پردہ اسکرین “LCDS & Projectors”کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ جس کی مدد سے فنش استاتذہ دورانِ خطاب، اپنی بات کے فہم کے عکاس تصاویر و الفاظ کو تحتہ سیاہ پر منجمد اور پردہِ اسکرین پر رقص کرواتے ہوئے طلبہ کے اذہان میں گہرائی سے اُتار دیتے ہیں۔
اِس طریقۂ کار کا میرے مطابق سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ فنش طلبہ کی شخصیت میں ابتدائی زمانہ طالب علمی ہی سے ایک بہترین اور جدید ذہنیت کا مالک محقق جنم لے لیتا ہے جو نئے سوالات یا مسائل کو پیدا یا دریافت کرنے اور اِن کا حل جدید اطور سے فراہم کرنے میں ماہرانہ انداز کا حامل ہو جاتا ہے اور بہ حیثیتِ ایک طالب علم ٹیکنالوجی کا علمی مقاصد کے لیے مثبت استعمال اور دورانِ تحقیق باہمی مدد “Group Work” کے تحت قائدانہ اور دو بدو تعاون کی مثبت خصوصیات کا عملی مجسم بھی بننے لگتا ہے۔ پھر یہی جدید تحقیقی طریقہ کار، بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک فنش طلبہ کی ذہنی نشوونما کرتے ہوئے اُنھیں مستقبل میں عظیم مفکرین، مدبرین، سائنس دانوں اور اپنے اپنے شعبہ جات میں فن کار لوگوں کے علمی سانچوں میں ڈھال دیتا ہے اور آج شاید اِسی جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع پر منحصر جدید تحقیق نے فنش طلبہ کو اِس قابل کر دیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی دور میں دنیا کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں جس کی مثالیں تو بہت سی دی جاسکتی ہیں لیکن میری اِس بات کی حقانیت و تصدیق میں یہی چند دو امثال کافی ہیں کہ اربوں ڈالرز کا کاروبار کرنے والی مشہورِ زمانہ موبائل پروڈکشن کمپنی”Nokai” کے بانی بھی نوجوانانِ فن لینڈ ہیں اؤر عالمی طور پر کھیلے جانے والی “Angry Bird” اور”Clash of Clans” موبائل سافٹ وئیرز گیمز کے بانی بھی فنش فارغ التحصیل طلبہ ہی ہیں۔
(12.) تفریح و تعطیلات”Break & Holidays”:
تفریح”Break” کے حوالے سے فن لینڈ میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ “جو علم آپ مزے اور لطف کے بغیر سیکھتے ہیں اُسے آپ جلد ہی آسانی سے بھول جاتے ہیں” لیکن جب فن لینڈ کی اِس مشہورِ زمانہ کہاوت سے بے خبر ایک امریکی محقق نے فنش اسکولز کے مختلف اُوقات میں دورے کیے تو ہر بار یہی دیکھا کہ وہاں ہر وقت بچے شور و غل کرتے ہوئے، کھیل و کود میں مگن ہوتے ہیں۔ یہ دل چسپ منظر دیکھنے کے بعد وہ بہت حیران ہوا اور اسکول انتظامیہ سے پوچھا کہ “یہ پڑھتے کب ہیں اور اتنے اچھے نمبر کیسے لے لیتے ہیں۔؟” تو اُسے بتاتا گیا کہ یہاں طالب علموں کو ہر 45 منٹ کی کلاس کے بعد 15منٹ کی تفریح “Break” دی جاتی ہے. جب کہ فن لینڈ میں اسکول کا عموماً دورانیہ 9:00 یا 9:45 تا 2:00 یا 2:45 بجے تک، تقریباً 5 گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے. یعنی اِن 5 گھنٹوں میں بھی 15،15 منٹوں کی تفریحات کو ملا کر کل 75 منٹ کی تفریح “Break” وقفے وقفے سے دی جاتی ہے۔ اِن 15،15 منٹوں کی وقفہ دار تفریحات کے پیچھے، میری ذاتی رائے سے موافق یہ نفسیاتی حکمت کار فرما ہے کہ نفسیاتی تحقیق کے مطابق ہمارا ذہن توجہ کے ساتھ صرف 45 منٹ کی مسلسل آموزش کو ہی بہترین طریقے سے استعمال میں لا سکتا ہے اور اگر اِس کے بعد بھی مسلسل آموزش برقرار رکھی جائے تو آموزش یعنی سیکھنے کا عمل آہستہ آہستہ نہایت سُست رفتار اور بھرپور اُکتاہٹ تلے بے توجہی کا شکار ہو جاتا ہے. لہذا دوبارہ صحت مند، متوجہ اور دل چسپ آموزش اُسی صورت ممکن ہے کہ جب آپ ذہن کو تازہ کرنے کے لیے کم از کم 15 منٹ کا توقف فرماتے ہوئے ایک چھوٹی سی تفریح “Break” لے لیں. اور میری اِس بات کی تصدیق فنش اساتذہ کے اِس موقف سے بھی ہوتی ہے کہ بہ قول فنش اساتذہ: “15 منٹ کی تفریح کے بعد واقعی ہمارے طلبہ ذہنی طور پر تر و تازہ جسم کے ساتھ اُچھلتے کودتے ہوئے کلاسز میں داخل ہوتے ہیں. نیز ہفتہ و اتوار کی مکمل چھٹی اُنھیں ہفتہ بھر کی تھکن سے دُور کرتے ہوئے پھر سے تر وتازہ انداز میں سیکھنے پر راغب کرتی ہے۔
اب جہاں تک تعطیلات کا تعلق ہے تو فن لینڈ میں ایک تعلیمی سال کا دورانیہ صرف 190 دِنوں پر محیط ہے یعنی پورے سال میں ہفتہ اتوار کی، دیگر خاص تقریبات، تہواروں اور خاص موسمی وقفوں کی چھٹیاں ملا کر تقریباً چھ مہینے چھٹیاں ہوتی ہیں. گویا کہ اِس حساب سے یہ دنیا کے عالمی تعلیمی نظاموں میں سب سے چھوٹا تعلیمی سال بنتا ہے۔ لیکن آپ اِس حوالے سے یہ قابل فکر و دل چسپ پہلو تو ملاحظہ فرمائیں کہ دنیا میں سب سے کم تعلیمی دورانیہ رکھنے کے باوجود، دنیا میں سب سے شان دار و اعلا تعلیمی نتائج رکھنے کا راز صرف اہل فن لینڈ ہی جان پائے ہیں۔
(13.) بازیچہء اطفال”Child Play Grounds”:
فنش اسکولز میں بازیچۂ اطفال “Child’s Play Grounds” ٹیکنالوجی اور جسمانی کھیلوں کی سہولیات سے مزین ہوتے ہیں۔ نیز تفریح کے اوقات میں طلبہ کو کلاسز سے باہر بازیچۂ اطفال “Child’s Play Grounds” میں جاکر کھیلنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔جب کہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں بچوں کو بازیچۂ اطفال “Child’s Play Grounds”میں مختلف ٹیکنالوجی اؤر جسمانی کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے فقدان کا سامنا ہوتا ہے اور جہاں دیگر کئی ممالک میں تفریحی دورانیے “School Break Time” کو کم سے کم کیا جا رہا ہے تو وہیں تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں طلبہ کے تفریحی دورانیے کو اکثر بہ طورِ سزا منسوخ یا ملتوی کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں. اور اِس حوالے سے حدِ ستم تو یہ ہے کہ کئی تعلیمی مراکز میں دورانیہ تفریح نام کی کوئی چیز ہمیں سرے سے ہی نہیں ملتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف تفریح کے حوالے سے فن لینڈ میں اِتنی احتیاط بَرتی جاتی ہے کہ تفریح کے دورانیے میں طلبہ کے سر پر چڑھ کر بے جا روک ٹوک کرنے کی بجائے طلبہ کو کھیلتے وقت مکمل خود مختاری دی جاتی ہے۔ جب کہ ہمیں اِس کے عین برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اسکول کے تفریحی دورانیے “School Break Time” کے مابین بھی بے جا روک ٹوک اور اسکولز انتظامیہ کی بارعب غنڈہ گردی دیکھنے کو ملتی ہے۔
دراصل میرے مطابق تفریح کے حوالے سے ہمارے تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اِس قدر متشدد رویے اِس لیے ہیں کیونکہ کہ وہاں عام طور پر کھیل اور سِیکھنے کو دو الگ الگ چیزوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے. جب کہ نفسیاتی و سائنسی تحقیق سے آج یہ بات تجرباتی سطح پر بھی ثابت ہو چکی ہے کہ بچے کھیل کے ذریعے بھی بہت کچھ سِیکھتے ہیں اور وہ کچھ سیکھتے ہیں کہ جو شاید آپ اُنھیں رسمی اور باضابطہ تعلیم سے بھی نہیں سِکھا سکتے ہیں یا پھر اُس اعلا معیاری سے نہیں سکھا سکتے کہ جس اعلا معیاری سے وہ کھیل ہی کھیل میں مفت سیکھتے ہیں. نیز چھوٹے بچوں کے لیے کھیل “سیکھنے کے عمل” “Learning Activity” کی حوصلہ افزائی کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ نیز کھیل بچوں کو زیادہ دل چسپ انداز میں سکھانے، قائدانہ صلاحیتوں کو اُبھارنے اور اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ مضبوط تعلقات اِستوار کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے اور جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تب بھی کھیل سکھانے اور تخلیقی و جسمانی صلاحیتوں کو اُبھارنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کھیل اور آموزش (سیکھنے کا عمل) میرے مطابق اپنے تعلیمی فہم کے اعتبار سے ہرگز دو مختلف اشیا نہیں اور میری ذاتی رائے کے مطابق کھیل طلبا کے لیے سب اطوارِ تدریس میں سے سب سے زیادہ با اثر، آسان اور کامیاب طریقۂ تدریس ہے۔
(14.) ذہنی درجہ بندی:
فن لینڈ کے اسکولز میں طلبہ کی ذہنی سطح کے پیشِ نظر کسی بھی قسم کی ذہنی درجہ بندی کرنے کو جرم خیال کیا جاتا ہے۔ یعنی کہ وہاں طلبہ کو ذہنی سطح کی نام نہاد پیمائش کے مرحلے سے گزارتے ہوئے لائق یا نالائق اور سکشن A،B,C یا D جیسے طبقاتی درجوں میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ وہ اِس بات سے بہ خوبی طور پر آگاہ ہیں کہ ہر بچہ الگ الگ اکتسابی یا پیدائشی “God Gifted” خصوصیات کے ساتھ ذہین ہوتا ہے. یہ الگ بات ہے کہ وہ بچہ آپ کے تعلیمی یا معاشرتی اقدار کی وضع کردہ ذہانت کی ایک، دو یا چند مخصوص نشانیوں پر پورا نہ اُتر پائے، پھر اگرچہ وہ دیگر کئی حوالوں سے ذہانت کے اعلا ترین مراتب پر فائض ہو لیکن کیونکہ وہ مراتب آپ کی مخصوص معاشرتی یا تعلیمی اقدار میں غیر اہم یا بے معنی ہیں لہذا وہ بچہ آپ کے نام نہاد معاشرتی یا تعلیمی معیارات کے مطابق نالائق، کُند ذہن اور بے وقوف ٹھہرایا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ طبیعیات “Physics” یا ریاضی”Math” جیسے اعلا مراتب سائنسی مضامین میں دل چسپی یا توجہ نہ ہونے کے باعث اعلا کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا لیکن وہ مصوری “Painting”، موسیقی “Music”یا خطاطی”Calligraphy” جیسے اعلا فہم فنی مضامین میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے لیکن کیونکہ اب وہ سائنسی مضامین کی دوڑ میں پیچھے ہے لہذا تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کی پالیسی”چند میں فیل، سب میں فیل” کے تحت اُس بچے کے نالائق، کُند ذہن اور بے وقوف ہونے پر مہر لگا دی جائے گی. جب کہ اِس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے گا کہ وہ کن مضامین میں سائنسی فہم کے حامل بچوں سے بھی زیادہ ذہین و فطین ہے. اور پھر اِسی صرفِ نظر اور تنگ نظری کے سبب اُس پر کسی ایک مخصوص شعبے سے وابستہ چند مضامین جبراً مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں طلبہ کو ذہنی طبقاتی درجوں میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جاتا ہے اور ہر فنش طالب علم کو ذہین و فطین مانتے ہوئے اُسے پوری آزادی سے اپنے پسندیدہ مضمون میں ترقی کرنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں. گویا کہ تعلیمی ترقی کے سفر میں ایک فنش طالب علم کے اساتذہ یا والدین اُس پر ہرگز اِس طرح کی آرا مسلط نہیں کرتے کہ تمھیں صرف یہی چند مخصوص مضامین پڑھ کر مستقبل میں صرف اِسے فلاں شعبے سے منسلک ہونا ہے کہ اِس کے علاوہ تمھارے پاس انتحاب کے واسطے دیگر مضامین سے متعلقہ شعبہ جات ہرگز میسر نہیں ہیں۔ بہرحال اِس ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابلِ تحریر ہے کہ کیونکہ فن لینڈ میں ایک دوسرے سے مختلف علمی ذہنیت و فہم کے حامل طلبہ کو ایک ہی جماعت میں بِٹھایا جاتا ہے لہذا جب مختلف شعبہ جات یا مضامین میں ذہین لوگ ایک ہی جماعت میں علمی بیٹھک لگاتے ہیں تو اِن کے باہمی علمی مباحث اور خوش گپیوں سے نہ صرف تقابلِ علوم اور تخلیقی سرگرمیوں کے لیے ایک بہترین علمی فضا جنم لیتی ہے بلکہ یہی علمی فضا طلبا کو مخصوص دائرے سے باہر سوچنے، عملی مساوات اور خود اعتمادی جیسی عظیم مثبت خصوصیات عطا کرتی ہے اور یوں فنش تعلیم میں ذہنی طبقہ واری نظام کا جڑ سے خاتمہ ہوجاتا ہے۔
(15.)8 سالہ آزاد امتحانی دورانیہ:
فن لینڈ کے اسکولز میں طلبہ سے ابتدائی تقریباً 8 سالوں تک کسی بھی قسم کا معیاری، رسمی یا لازمی امتحان ہرگز نہیں لیا جاتا ہے۔ یعنی کہ اگر ایک بچے نے 7 سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ لیا ہے تو اُس سے پہلا باضابطہ تحریری امتحان تقریباً تقریباً 15 سال کی عمر میں لیا جائے گا۔ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے “Exam Free Period” میں اساتذہ خود ہی ایک طالب علم کی کارگردگی کے معیار کو پرکھتے ہوئے، اُس کی تعلیمی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور طلبہ کی غلطیوں اور کم زوریوں کو پُر امن علمی طریقے سے آگاہ کرتے ہوئے، اصلاح کی بھرپور کاوشیں کرتے ہیں. نیز اِس دورانیے میں بچے کی تعلیمی کارگردگی سے والدین کو بھی مکمل طور پر باخبر رکھا جاتا ہے۔ گویا اِس 8 سالہ آزاد امتحانی طریقہ کار سے معیاری، رسمی اور باضابطہ امتحانات لیے بغیر ہی ہر سال والدین کے سامنے زبانی مشاورت یعنی والدین-استاتذہ گفت و شنید”Parents-Teachers Meetings”کے ذریعے ایک سالانہ تعلیمی رزلٹ کارڈ رکھ دیا جاتا ہے۔ جب کہ اِس کے عین برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ و ترقی پذیر ممالک میں 3 تا 5 سالہ کم سن بچے کو اسکول میں داخلہ کروانے کے ساتھ ہی اُس سے ہر سال میں آئے روز، اَن گِنت چھوٹے، بڑے تحریری و زبانی امتحانات لیے جاتے ہیں اور خصوصاً سال کے تین ماہ بعد سہ ماہی امتحان “First Term Exam”میں ایک تہائی نصاب کا، پھر چھ ماہ بعد آدھے نصاب کا شش ماہی امتحان Mid or 2nd term exam کی صورت میں اور سال کے آخر میں اگلی جماعت میں منتقلی کا فیصلہ کن سالانہ امتحان Annual examination یعنی کل تین بڑے، لازمی اور باضابطہ امتحانات بچوں کو جس نفسیاتی دباؤ کے شکنجے تلے جکڑتے ہوئے لیے جاتے ہیں اُس کی مکمل روداد صرف ایک الگ مضمون کی ہی متحمل ہوسکتی ہے۔
تاہم مزید یہ کہ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے کے دوران فنش طلبہ کو بہترین آموزش و تعلم کے حوالے سے جو فوائد ہوتے ہیں اُن میں سب سے اہم اور بڑا فائدہ میرے مطابق یہ ہے کہ 7 تا 15سال کے کم عمر فنش طلبہ امتحانات کے ذہنی دباؤ و خوف سے بالکل آزاد ہوتے ہوئے صرف اور صرف بہترین طور پر سیکھنے اور سمجھنے پر اپنی بھرپور توجہ صَرف کرسکتے ہیں. یعنی اِس حوالے سے اُن کی اولین ترجیح بغیر سوچے، سمجھے لفظی رٹا لگاتے ہوئے امتحان میں اعلا نمبر یا درجے “Positions”حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اعلا معیار کی آموزش حاصل کرنا ہوتا ہے کہ جس آموزش کا اُنھیں مکمل ادراک اور عملی اطلاق معلوم ہو اور اِسی طرح یہ 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیہ فنش اساتذہ کو بچوں کی نظریاتی بنیاد میں ابتدائی چند اینٹیں رکھنے کے حوالے سے اِس غالب مقصد سے بھی آزاد کرتا ہے کہ جس کے زیر اثر تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کے اساتذہ اپنے کم عمر طلبہ کو اِس واحد غالب مقصد کے ساتھ پڑھاتے ہیں کہ اُن کے طلبہ امتحانات میں اچھے نمبروں کے ساتھ ساتھ، اُن کے نام پر سو فی صد کلاس رزلٹ کی ٹرافی بھی لے آئے۔ پھر چاہے اِن نمبروں کی دوڑ میں ایک کم عمر طالب علم کی ابتدائی نظریاتی بنیادیں چاہے کتنی ہی ناپختہ، کم زرو یا ادھوری نہ رہ جائے اِس سے انھیں کوئی خاص غرض نہیں کہ اُن کے نزدیک ایک کامیاب استاد کی تدریس کے حوالے سے ترجیح اول کے طور پر یہی کامیابی ہے کہ اُس کے زیر تعلیم ایک بچہ اچھے نمبر لے کر اگلی جماعت میں منتقل ہوجائے اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے سینے پر بھی اعلا نمبرز کا تمغۂ حسن کارکردگی بھی چمک جائے۔
نیز امتحانات کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فن لینڈ میں 15 سالہ عمر کے بعد شروع ہونے والے، زمانہ طالب علمی کے تمام چیدہ چیدہ باضابطہ امتحانات کے نتائج سرعام آویزاں ہرگز نہیں کیے جاتے ہیں تاکہ طلبہ کو احساسِ ندامت یا کم تری، مقابلہ بازی اور تکبر و حسد وغیرہ کے منفی جذبات سے بچاتے ہوئے اُن کی تعلیمی کارگردگی کو مکمل رازداری سے محفوظ بنایا جاسکے۔
(16.)رٹا بازی کی مزاحمت:
فن لینڈ میں لفظی رٹا لگانا اِک قابل مزاحمت تعلیمی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں میری لفظی رٹا لگانے کی اصطلاح سے مراد خصوصاً یہ ہے کہ ایسی معلومات یا علم جو طالب علم صیح غور و تفکر کیے بغیر، صرف تیز زبانی کے سہارے اِس توجہ سے یاد کرے کہ اُس کا ذہنی حافظہ بہ مشکل صرف الفاظ یا جملوں کی ترتیب کو محفوظ کر پائے نہ کہ معلومات یا علم کے حقیقی فہم یا مطالب کو سمجھے۔ لہذا اہلِ فن لینڈ بھی لفظی رٹا بازی کی اِسی تعریف کے پیشِ نظر یہ بات بہ خوبی طور پر جانتے ہیں کہ لفظی رٹا بازی سے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے طلبہ امتحانات میں بامشقت طریقے سے اعلا نمبر یا ایک کھوکھلی کاغذی سند تو حاصل کر سکتے تھے لیکن معلومات یا علم کے حقیقی فہم اور علمی اطلاق “Practical Application” کا عشر عشیر بھی حاصل کر نہیں پاتے ہیں کہ جس سے طالبانِ علم صرف انسان نما روبوٹ یا وکی- پیڈین طلبہ “Wikpedain Students” کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں. یعنی وکی- پیڈین طلبہ کی میری اِس نئی تجویز کردہ اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ جن طلبہ کے پاس دنیاے جدید کے سب سے مشہور اور بڑے “مخزن العلوم وکی-پیڈیا”Encyclopedia of Wikipedai” طرز کا الفاظ اور جملوں پر مشتمل منظم مواد تو بڑی تعداد میں موجود ہوتا ہے لیکن اُنھیں جملوں یا الفاظ پر مبنی علم کا زندگی میں عملی و نظریاتی اعتبار سے بر وقت و مناسب استعمال ہرگز معلوم نہیں ہوتا ہے۔ آپ اِس اصطلاح کو اِس مثال سے بھی کچھ یوں بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی کے عملی و نظریاتی ہر دو میدانوں میں وکی-پیڈین طلبہ کے پاس کثیر تعداد میں موجود، لفظی رٹا بازی کے سہارے حاصل کردہ معلومات کی مثال ایسے حسین مردہ جسم کی سی ہے کہ جس میں روح نہ ہو لیکن اُس کی ظاہری کھوکھلی خوب صورتی چند لمحوں کے لیے ظاہری حسن پرستوں کے لیے دل فریب بن جائے. البتہ روح نہ ہونے کے باعث وہ خوب صورت لیکن مردہ جسم جلد ہی اپنی بدبو کے باعث ظاہری حسن پرستوں کے لیے بھی آخرکار مستقل طور پر بے رغبتی اور ناپسندیدگی کا محور بن جائے. یعنی عین اِسی طرح لفظی رٹا باز، وکیپیڈین طلبہ بھی اپنے ظاہری یا کھوکھلے حسن کی بنا وقتی طور پر ظواہر پرست عوام الناس کو فریب دہی سے متاثر کرتے ہوئے ایک محدود پیمانے پر فائدہ تو دے دیتے ہیں لیکن مستقل طور پر ایک بے روح، مردہ علمی وجود ہونے کی بنا پر بہت جلد ہی لوگوں کے لیے بے رغبتی اور ناپسندیدگی کا محور بن جاتے ہیں۔ لہذا اِسی سارے مقدمے کے پیش نظر فنش اساتذہ اپنے طلبا کو مختلف موضوعات اور مضامین کو ایسے اطوارِ تدریس سے سکھاتے ہیں کہ وہ طلبہ کو اِس حد درجہ ذہن نشین ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے انداز یا الفاظ میں اُس متعلقہ موضوع کو نہ صرف بیان کرنے کی بدرجہ اتم صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ طلبہ میں اُس موضوع یا مضمون سے متعلقہ اِتنا اعلا قابلیت کا معیار پیدا کر دیا جاتا ہے کہ وہ نصابی کتب کے محدود دائرے سے ہٹ کر بھی اپنے آزادنہ زاویہ نگاہ سے اُس موضوع میں جدت پیدا کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔اِسی تخلیقی صلاحیت کی بنا پر ایک دل چسپ فرق بھی یہاں عرض کرتا چلوں کہ میرے مطابق فن لینڈ کی رسمی تعلیم اور دیگر تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کی رسمی تعلیم میں اِس حوالے سے یہی بنیادی فرق ہے کہ دیگر تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کے طالب علم نصابی کتب کی پیدا کردہ ایک محکوم مخلوق ہوتے ہیں. جب کہ فن لینڈ کے طالب علم نصابی کتب کے ایک جدت پسند خالق ہوتے ہیں۔
(17.)پیشہ ورانہ تعلیم:
پیشہ وارانہ تعلیم “Vocational Education” بنیادی طور پر ایسی تعلیم ہے کہ جو لوگوں کو مختلف ہنر یا ملازمتوں جیسے تجارت، دست کاری یا بہ طور ٹیکنیشن “Technician” کام کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ اِسی بنا پر پیشہ ورانہ تعلیم کو اکثر تعلیمِ ہنر، فنی یا تکنیکی “Technical” تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تعلیم عالمی سطح پر اُن طلبہ کے مالی مستقبل اور ذہنی ہم آہنگی کے لیے نہایت کار آمد تصور کی جاتی ہے کہ جن کا شوق عام رسمی تعلیم سے ہٹ کے تعلیمِ ہنر سیکھنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ پیشہ وارانہ تعلیم کا ایک عمومی تعارف ہے اور فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں اِسی پیشہ وارانہ تعلیم کو نہایت اعلا اہمیت و افادیت حاصل ہے. یعنی فن لینڈ میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو سائنسی علوم کی تعلیم کی طرح ہی قابل رشک اور عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایک فنش طالب علم کو اسکول کی نو سالہ ابتدائی تعلیم کے بعد سولہ سال کی عمر میں ہی یہ اختیار دے دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو باقاعدہ رسمی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرے یا پھر وہ اعلا یونی ورسٹی تعلیم کا انتحاب کرے. البتہ اعلا یونی ورسٹی تعلیم سے پہلے ثانوی تعلیم میں بھی فنش طلبہ کو پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر سے اخذ کردہ بنیادی فنی صلاحیتیں سِیکھا دی جاتی ہیں۔ جو کہ روز مرہ کی عملی زندگی میں اُن کے لیے نہایت معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مثلا: دیوار میں کیل لگانا یا سوراخ کرنا، لکڑی یا دیگر دھاتوں سے بنی اشیا کی مرمت کرنا اور مختلف پیشہ وارانہ ہتھیاروں کا عملی استعمال کرنا وغیرہ۔ جب کہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر صرف ملکی دساتیر “Constitutions” کے اُوراق تلے دب کے رہ گئی ہے اور ہمیں وہاں حکومتی سرپرستی میں رسمی پیشہ وارانہ تعلیم ہنر کا حقیقی طور پر، عملی نفاذ دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اُن ممالک میں عام طور پر بچوں کو پیشہ وارانہ تعلیم نہایت غیر صحت مندانہ اور غیر رسمی طریقے سے دی جاتی ہے. اور آج اِسی وجہ سے اُن ممالک میں عام معاشرتی سطح پر پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو اکثر مجموعی طور پر چائلڈ لیبر کے زیرِ اثر شمار کیا جاتا ہے۔ نیز پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کے طلبہ کو اَن پڑھ مزدور اور گنوار کہا جاتا ہے اور پیشہ ورانہ تعلیم ہنر کے کسی شعبے میں مہارت یافتہ آدمی کو سند یافتہ یا پڑھا لکھا آدمی کہنے کی بجائے ناخواندہ کاری گر کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ لہٰذا پھر اِسی طبقاتی تقسیم کی بنا پر اِن تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں ایک غیر رسمی پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر سے فارغ التحصیل کاری گر اور عام رسمی تعلیم سے فارغ التحصیل سند یافتہ آدمی کی ماہانہ آمدن، معاشرتی عزت و اقدار، رہن سہن اور طرزِ زندگی میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوجاتا ہے جو کہ امیر اور غریب کے بدترین طبقاتی نظام کو جنم دینے کا ایک اہم باعث بنتا ہے اور اِسی طبقاتی نظام کی بدولت پھر اُن ممالک میں عوامی سطح پر پیشہ وارانہ تعلیم ہنر کو نہ صرف سرے سے تعلیم ہی نہیں گردانا جاتا، بلکہ رسمی تعلیم کے مدمقابل اِس کی اہمیت کو نہایت پست ترین اور آخری درجوں میں رکھا جاتا ہے. المختصر یہ کہ تعلیمی حوالے سے پس ماندہ ممالک میں آج پیشہ ورانہ تعلیم مجموعی طور پر نہایت غیر صحت مندانہ اور چالڈ لیبر کے زیر اثر دی جاتی ہے. لہٰذا یہ صرف مالی مستقبل کے اعتبار سے غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کے لیے مختص کردی گئی ہے کہ حکمران طبقہ یا امرا اپنے بچوں کو غیر رسمی پیشہ وارانہ تعلیم سے نوازنے کو اپنی بدترین تذلیل اور خاندانی پستی شمار کرتے ہوئے اِسے کمین کی مفلوج تعلیم کہتے ہیں۔
(18.)غیر معمولی آموزش Phenomenal Based” Learning”:
2016-17ء میں فن لینڈ نے دنیا کے سب سے جدید، غیر روایتی اور انقلابی طریقۂ تدریس “غیر معمولی آموزش” “Phenomenal Based learning” کو متعارف کروایا اور آج جہاں فن لینڈ کا سارا تعلیمی نظام”غیر معمولی آموزش” “Phenomenal Based Learning” کے پُرکشش علمی مدار کے گرد گھوم رہا ہے، تو وہیں تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک سے لے کر، ترقی یافتہ ممالک تک سب اِس کی بے مثال تدریسی جدت و ندرت اور اعلا تاثیر کی بے تحاشہ کششِ ثقل کے علمی مدار میں جکڑتے ہوئے، مدح سرائی کرنے پر مجبور ہیں۔
دراصل غیر معمولی آموزش”PHBL” طریقۂ تدریس کا ایسا غیر روایتی، انقلابی اور عملی نظام ہے کہ جس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ طلبہ کو صرف کتابی معلومات یا درسی کتب “Textbooks”سے، مختلف اور الگ الگ مضامین و علوم کی تقسیم تلے سکھانا نہایت غیر مناسب اور روایتی تدریسی عمل ہے۔ لہذا غیر معمولی آموزش “PHBL” طریقۂ تدریس کے مطابق ہمیں طلبہ کو مختلف مضامین/علوم کو بہ حیثیت الگ الگ پڑھانے کی بجائے، مختلف مضامین و علوم کی وضع کردہ مخصوص سرحدوں کو توڑتے ہوئے اور مختلف مضامین و علوم کے نظریات کا غیر منقسم وسیع مطالعہ کرتے ہوئے، صرف ایک موضوع یا مسئلے کی وحدت تلے تقابلِ علوم کی تکنیک و طریقۂ کار سے پڑھنا چاہیے۔ یعنی اِس طریقۂ تدریس و تعلم میں تمام مضامین و علوم کو ایک موضوع و مسئلے کی یک جہتی تلے سمو کر تجزیہ و حل پیش کیا جاتا ہے. کیونکہ فنش تعلیمی ماہرین کے مطابق جب زندگی مختلف مضامین و علوم کی مخصوص سرحدوں میں قید ہو کر ترتیب وار امتحان نہیں لیتی، بلکہ آزادنہ طور کئی مضامین و علوم میں سے نظریات کو گھتم گھتا کرتے ہوئے مسائل کو اٹھائے دیتی ہے اور جب کسی انسان کو زندگی کے عملی میدان میں حقیقی مسائل درپیش آتے ہیں تو وہ اپنے تمام حاصل کردہ علوم سے بہ حیثیت کُل نتیجہ اخذ حاصل کرتے ہوئے رہ نمائی حاصل کرتا ہے تو پھر سیدھی سی بات ہے کہ دنیا کے روایتی طریقہ ہائے تدریس طلبہ کو کسی موضوع یا مسئلے کے تجزیے و حل کے واسطے، جزوی اعتبار سے یعنی الگ الگ مضامین سے جزوی نتائج تلے رہ نمائی کیوں دیتے ہیں؟ لہٰذا زندگی کے عملی میدان میں اِسی روایتی طریقۂ تدریس تلے غیر عملی رہ نمائی سے چھٹکارہ پانے کے لیے ہم نے زندگی کے عملی میدان کے حقیقی مسائل و موضوعات سے عین موافق طریقہ تدریس “غیر معمولی آموزش” “Phenomenal Based Learning” کو متعارف کروایا ہے۔
تاہم مزید یہ کہ طلبہ کو صرف کتابی معلومات یا دُرسی کتب “Textbooks” سے سِکھانا اِس حوالے سے بھی غیر مؤثر اور پریشان کُن ہے کہ اِس سے طلبہ اِس ذہنی اُلجھن میں گرفتار ہوجاتے ہیں کہ اِس کتابی یا لفظی معلومات کا حقیقی زندگی کے عملی میدان میں عملی اطلاق “Practical Application” کہاں ہے؟ لہذا غیر معمولی آموزش “PHBL” طریقۂ تدریس کے مطابق ہمیں طلبہ کو صرف کتابی اور لفظی معلومات دینے کی بجائے، اُن کی عمر اور ذوق کے پیشِ نظر، زندگی سے متعلقہ حقیقی موضوعات اور حقیقی مسائل”Real World Problems” دینے چاہئیں۔
غیر معمولی آموزش”PHBL” طریقۂ تدریس میں تحقیق و تعلم کے کئی مراحل ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے میں مسئلے یا موضوع کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر طلبہ اُس موضوع یا مسئلے پر باہمی تعاون “Group Work” کی مدد سے علمی تحقیقات کا آغاز کرتے ہیں اور دورانِ تحقیق مختلف مشاہدات اور تجربات کے تحت اُس موضوع یا مسئلے کا تفصیلی، تنقیدی اور تقابلی تجزیہ کرتے ہیں اور آخرکار سب طلبہ مل کر اُس مسئلے یا موضوع سے متعلق ایک ختمی نتیجہ یا جامع رپورٹ مرتب کرتے ہیں جس میں اُس مسئلے یا موضوع کا نہ صرف حل و جواب پیش کیا جاتا ہے بلکہ اُس زیرِ تحقیق مسئلے و موضوع کی تنقیدی و تقابلی نقطۂ نظر سے ساخت، تاریخ، احساسیت، وجوہات، اہمیت و افادیت، فوائد و نقائص پر بھی بھرپور روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ طلبہ اُس رپورٹ کی حقانیت مختلف مضامین/علوم کے نظریات اور طریقۂ کار سے بھی استفادہ کرتے ہوئے، بہ حیثیت کُلی ثابت کرتے ہیں اور سب سے آخری مرحلے میں یہ رپورٹ اساتذہ کو مختلف رائج طریقوں سے پیش کردی جاتی ہے اور پھر اساتذہ اِس رپورٹ کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اِس پر کوئی اصلاحی یا حوصلہ افزا تبصرہ فرما دیتے ہیں۔ اب جیسا کہ آپ نے یہ بہ غور ملاحظہ فرما ہی لیا ہوگا کہ “PHBL” طریقۂ تدریس و تعلم کے اِن سارے مراحل میں اساتذہ کا کردار معلومات کے فراہم کنندہ کی بجائے صرف پسِ پشت رہ نما یا رہ بر کی حیثیت سے کام کرتا ہے یعنی کہ اگر اِس حوالے سے یوں کہا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا کہ غیر معمولی آموزش “PHBL” طریقۂ تدریس میں طلبہ خود کو خود ہی سیکھاتے ہیں. اِس کی بجائے کہ وہ اپنے کسی استاد سے روایتی طور ہر سیکھتے ہوئے ہر آن اُس کے محتاج و لکیر کے فقیر بنے رہیں. اور یاد رہے کہ غیر معمولی آموزش “PHBL” ہمیشہ بنیادی طور پر عملی طریقۂ کار پر ہی منحصر ہوتی ہے. مگر ضروری نہیں کہ یہ آموزش ہمیشہ نہایت سنجیدہ طریقۂ کار سے سیکھی جائے بلکہ اکثر کھیل یا ظرافت کے طرز پر بھی منحصر ہوتی ہے۔ البتہ یہ اصول طے ہے کہ اگرچہ یہ سنجیدہ ہو یا مضحکہ خیز لیکن صرف لفظی و کتابی آموزش کی بجائے اِس کا دارومدار عملی اطلاق “Practical Application” اور حقیقی مسائل “Real World Problem’s” پر مبنی آموزش پر ہی ہوتا ہے۔
اگر غیر معمولی آموزش”PHBL” کے فوائد و ثمرات پر بات کی جائے تو اِس طریقۂ کار کے کثیر ترین اور جامع فوائد ہیں لیکن کیونکہ اِن سب کا مکمل احاطہ کرنا اِس مضمون میں ممکن نہیں لہذا صرف چند اہم اؤر بنیادی فوائد کا یہاں تذکرہ کرنا مناسب رہے گا۔ غیر معمولی آموزش “PHBL” طریقۂ تدریس فنش طلبہ میں نہ صرف تخلیقی، تقابلی اور تنقیدی سوچ کی نشو و نما کرتا ہے بلکہ اُنھیں جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم سے باہمی تعاون تلے اجتماعی تحقیق “Group Research” کرنے، طلبہ میں دوستانہ علمی ماحول کو برقرار رکھنے، عملی اور تجرباتی اعلا ذہنیت کی تعمیر و تشکیل کے ساتھ ساتھ دل چسپ اور دیر-پا آموزش کی ذہن نشینی کو بھی یقینی بناتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنھیں اساتذہ کے وضع کردہ دائرے کے باہر خود مختاری اور آزادی سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی بخشتا ہے۔ لہذا میں اِنھی سب اسباب و فوائد اور درج بالا سارے مقدمے کی بنا پر غیر معمولی آموزش “PHBL” طریقۂ تدریس کو کسی موضوع یا مسئلے میں ایک حد درجہ پی۔ایچ ڈی “PHD” کرنے کے مترادف سمجھتا ہوں اور اِسی ضمن میں غیر معمولی آموزش “PHBL” کی مختصر لیکن جامع اور آسان فہم تعریف بھی پیشِ خدمت ہے کہ غیر معمولی آموزش “PHBL” دراصل کسی مسئلے یا موضوع میں تنقیدی، تقابلی، تخلیقی اور عملی طریقہ کار سے اعلا فہم حاصل کرنے کا نام ہے. خلاصہ کلام یہ کہ اگر درج بالا تمام تر مقدمے کو ذہن نشین رکھ کر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ “PHBL”طریقۂ تدریس و تعلم نہ صرف صدیوں پرانے راویتی، بوسیدہ اور کتابی طریقۂ تدریس و تعلم کے مخالف علانِ جنگ کرتا ہے بلکہ یہ آج کا وہ ہمہ پہلو جدید ترین اور انقلابی طریقۂ تدریس و تعلم ہے کہ جو میرے مطابق مستقبل میں فن لینڈ کی سرحدوں سے باہر بھی تعلیمی لحاظ سے ترقی پذیر ممالک کا ایک متفقہ طریقۂ تدریس و تعلم گا۔
(19.) شعبۂ معلمی”Teaching Profession”:
تحریر کے اِس نکتے پر پہنچ کر میرے ذہن میں یہ مشہور محاورہ پوری شدت کے ساتھ گونج رہا ہے کہ : “شعبۂ معلمی، پیشۂ پیغامبری ہے۔” لیکن اگر آپ محاورات کی مثالی اور خیالی دُنیا سے باہر جھانک کر دیکھنا پسند فرمائیں تو آپ کو یہ ہیبت ناک منظر بھی دکھائی دے گا کہ آج تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں یہی پیشۂ پیغامبری، یعنی شعبۂ معلمی “Teaching Profession” اہل اور نا اہل کی تمیز کو روا رکھے بغیر عموماً سر عام نیلام ہو رہا ہے۔
لیکن مجھے اِس سے بھی زیادہ یہ بات قابلِ تشویش لگتی ہے کہ پس ماندہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں قانونی طور پر بھی ایک استاد کی اہلیت کو بھانپنے کا معیار تعلیمی اسناد پر مشتمل صرف ایک کاغذی سی-وی (Curriculum Vitae) “ پر ہی تو ہوتا ہے. یعنی عموماً وہاں اساتذہ کے انتخاب کے وقت صرف ایک کاغذی سی-وی میں درج تحریری قابلیت کو ہی کو مرکزی اور اولین ترجیح بنایا جاتا ہے اور اِس کے بعد دیگر تمام تر وہ عناصر کہ جو ایک اچھے استاد کے انتحاب میں انتہائی ضروری اور اہم ترین تصور کیے جاتے ہیں مثلاً: کسی اُمیدوار کی اخلاقی اقدار، علمی ذہانت، وسیع النظری “Out of Box Thinking”، جدت پسندی وغیرہ اور دیگر بہت سے نفسیاتی و علمی معیارات کو اکثر یا تو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے یا پھر اِن عناصر پر ایک سرسری اور نامکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ یعنی کہ انتحاب کے وقت ایک اعلا کاغذی سی-وی آنے کے بعد اِن تمام عناصر کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ جب کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں تعلیمی اسناد پر مشتمل اِن کاغذی سی-ویوں “CVs” کی علمی وقعت صرف برائے نام حیثیت کی حامل ہوتی ہے اور یہ کسی امیدوار کی علمی شخصیت کی مکمل عکاسی ہرگز نہیں کرسکتی ہے. کیونکہ آپ اِن ممالک میں مختلف تعلیمی اسناد کو لفظی رٹا بازی یا فریب دہی و نقالی سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ لہذا جہاں کی تعلیمی اسناد انسانی کردار یا ذہانت میں کوئی متوقع اور موثر تبدیلی لائے بغیر بھی آسانی سے حاصل ہو سکے، وہاں شعبۂ معلمی کے امیدوارں کی دیگر غیر تحریری قابلیتوں کو پرکھے بغیر اُسے صرف سی-وی میں درج تعلیمی اسناد کی بنا پر مسندِ تدریس یعنی استاد کے رتبے پر بیٹھا دینا، سراسر پیشۂ پیغامبری کی مقدسیت اور قوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو شعبۂ معلمی میں اِس طرح کے غیر ذمہ دارنہ اور مفلوج انتحاب کے زیرِ اثر تعلیمی اداروں میں استاد کے مقدس لبادے میں چھپے ہوئے، طلبہ کو ذہنی طور پر ہراساں کرنے والے جلاد بھی ملیں گے اور طلبہ کی چمڑی اُدھیڑ کے رکھ دینے والے پُر تشدد اندھے قاتل بھی۔
لیکن اِس کے عین برعکس اگر آپ فن لینڈ میں ہیں تو وہاں پیشۂ پیغامبری “Teaching Profession” کی یہ تذلیل آپ کو کہیں دُور دُور تک نظر نہیں آئے گی. کیونکہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں ایک استاد کا درجہ و رتبہ ہر اعتبار سے سب سے اہم اور بلند ترین ہوتا ہے اور اُنھیں بہ طورِ استاد تمام شعبہ جات سے وابستہ ماہرین کا خالق تصور کرتے ہوئے عزت و تکریم کی سب سے اُونچی مسند پر بٹھایا جاتا ہے کہ جہاں ریاست کے حاکم وقت سے لے کر عدلیہ کے حج اور فوج کے سپہ سالار تک سبھی حقیقی معنوں میں آداب بجا لاتے ہیں. اِسی بلند تکریم کے سبب حکومت کی جانب سے تمام اساتذہ کو خطیر تنخواہوں سے نوازا جاتا ہے۔ جو اساتذہ کی قابلیت، تجربے و عہدے کے اعتبار سے کم از کم 1,750 اِیورُوز تنخواہ سے شروع ہوتی ہوئی، عمومی اوسط تنخواہ 3,570 اِیورُوز سے گزرتی، اعلا ترین سطح پر 5,570 اِیورُوز تنخواہ تک جا پہنچی ہے کہ یہ خطیر رقم تنخواہیں کسی طور سے بھی دیگر تمام شعبہ جات سے وابستہ فنش ماہرین مثلاً: آرمی، ڈاکٹرز، انجنئیرز، پولیس، اور وکلا وغیرہ کی تنخواہوں سے کم نہیں ہیں بلکہ آگر آپ اِسے فنش معاشرے میں پیشۂ مُعلی کو عطا کردہ عزت و منزلت کے بھاری بھرکم وزن کے ساتھ، دولت کے ترازو میں تولیں، تو یقیناً آپ کو واضح طور پر صرف ایک فنش استاد کی اکیلی تنخواہ ہی سب تنخواہوں پر بھاری و بھرکم اور مقدم محسوس ہو گی۔
فن لینڈ میں اساتذہ کے تدریسی گھنٹےWorking Hoursایک دن میں 75 منٹ کی وقفہ دار تفریح تلے تازہ دم ہوتے ہوئے، تقریباً 4 گھنٹے، یعنی ہفتے میں صرف پانچ دن اور کُل بیس گھنٹے مقرر کیے گئے ہیں۔ تاکہ فنش اساتذہ مسلسل تدریس کے نفسیاتی الجھاؤ و دباؤ سے آزاد ہوکر، مختصر لیکن جامع وقت میں سلسلۂ تدریس کو اپنی پوری قابلیت، متانت و خوش اسلوبی کے ساتھ رواں رکھ سکیں. جب کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اساتذہ کے تدریسی گھنٹے “Working Hour’s” خطرناک ترین حد تک بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور وہ اِس طرح کے ایک دن میں ایک استاد کو صرف بہ مشکل 20,30 منٹ کی تفریح تلے لگاتار تقریباً 6,5 گھنٹوں تک پِیسا جاتا ہے پھر ٹیوشنز کے نام پر مزید 4,5 گھنٹوں تک الگ سے اُس کی حسبِ توفیق چٹنی پیسی جاتی ہے. جب کہ طلبہ سے لیے گئے آئے روز پرچوں کی جانچ پڑتال، حاضری رجسٹر کا ریکارڈ اور حسب موقع نہ جانے کیا کیا کچھ استاتذہ کے لیے الگ سے وقت طلب و دقیق ہوم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔
فن لینڈ میں اساتذہ سے محاسبہ و احتساب کا کوئی روایتی یا عملی نظام ہرگز موجود نہیں ہے۔ احتساب و محاسبہ کے مرحلے سے نہ گزارنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اُنھیں مطلق العنان بادشاہوں کی طرح، اُن کے اختیارات سمیت بالکل کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اُن سے غلط طریقۂ تدریس یا غیر ذمہ دارنہ رویے پر باز پرس کر سکتا ہے بلکہ یہ ہے کہ فنش والدین اپنے بچوں کے حوالے سے اساتذہ کی تدریس میں عدم مداخلت کا اصول اِس مضبوط اعتماد کے سہارے تلے اپنائے ہوئے ہیں کہ آگر ہمارے بچوں کا استاد فنش تعلیمی اداروں کے کھٹن انتحابی معیارات سے گزر کر منتحب ہوا ہے تو باقی پھر ہمیں اُس کے متعلق کسی بھی اخلاقی یا علمی پہلو سے تفتیش و محاسبہ کی ضرورت ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ تفتیشی کام ہم سے بہت پہلے باصلاحیت و ماہر تفتیشی افسران کر چکے ہیں. لہذا ہم اُن کے شفاف انتحاب تلے اپنے بچوں کے استاد پر مجموعی طور پر مکمل اعتبار و اعتماد کرتے ہوئے اُن کے طریقہ تدریس میں عدم مداخلت کے اصول کو اپناتے ہیں اور اُن کی اخلاقی اور علمی قابلیت پر اعتماد کرنے کے بعد، ہمارا یہ اعتراف عین حق بہ جانب ہے کہ ہم بہ حیثیت والدین اساتذہ کی طرح فنِ تدریس میں اتنے ماہر نہیں ہیں کہ اساتذہ کو یہ پڑھا سکیں کہ پڑھایا کیسے جاتا ہے؟ لہذا ایک فنش استاد جو بھی ہمارے بچوں اور اپنے طلبہ کے حق میں کرے گا، بہتر ہی کرے گا۔ عین اِسی طرح فنش والدین کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ اور اربابِ اختیار بھی ایک فنش استاد کے طریقۂ تدریس میں عدم مداخلت کی پالیسی کو اعتماد کی مضبوط رسی سے تھامے ہوئے ہیں کہ اُن کے بہ قول اگرچہ ہم ایک استاد کے انتحاب کے حوالے سے نہایت محتاط اور سخت ہیں لیکن ایک استاد کے انتحاب کے بعد بے جا مداخلت کیے بغیر اُس کو مکمل آزادی اور خودمختار انفرادیت کے ساتھ پڑھانے دینا اُس کا عین حق ہے۔ نیز ہمارا ایک استاد پر اِس قدر مضبوط اعتماد کی ایک اہم پس پردہ وجہ اساتذہ کو لگاتار دی جانے والی تربیتی ہدایات “Teachers Training” بھی ہے۔
شاید یہی وہ تمام وجوہات ہیں کہ فن لینڈ میں شعبۂ معلمی “Teaching Profession”میں داخل ہونا ہرگز کوئی آسان کام نہیں ہے. اور ہر روز فن لینڈ میں ہزاروں انتہائی اعلا سند یافتہ اور بھاری بھرکم سی-ویوں کے حامل افراد فنش شعبۂ معلمی میں بہ طورِ امیدوار، ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہیں لیکن اُن میں سے بہ مشکل صرف چند سو سب سے بہترین امیدوار ہی فن لینڈ کے تعلیمی اداروں کے ہمہ پہلو پرکھتے، انتحابی معیارات پر اُتر کر مسندِ معلمی یعنی استاد کے رتبے تک پہنچ پاتے ہیں۔ کیونکہ فن لینڈ میں آپ کو ایک استاد بننے کے لیے کم ازکم ماسٹر ڈگریMaster Dagree کے ساتھ ساتھ تدریس شروع کرنے سے پہلے لمبی مدت کا ایک تربیتی کورس بھی چاہیے۔ یہ تربیتی کورس “Teacher’s Training” کے ضمن میں شعبۂ مُعلمی کے امیدوارں کو پڑھایا جاتا ہے، جو کہ ملازمت کے بعد بھی ہر ہفتے میں دو گھنٹے تواتر اور باقاعدگی کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔ اِس تربیتی کورس”Teacher’s Training” میں استاتذہ کو بنیادی طور پر یہ سِکھایا جاتا ہے کہ پڑھایا اور سِیکھایا کیسے جاتا ہے؟ اور اِس مقصد کے لیے مختلف ماہرینِ تعلیم کی مدد لیتے ہوئے تمام نو وارد سمیت تجربہ کار اساتذہ کی بھی نہایت جامع علمی، نفسیاتی اور اخلاقی تربیت کی جاتی ہے جس میں اُنھیں مختلف اطوارِ تدریس اور تدریس اور طلبہ سے وابستہ نفسیاتی، اخلاقی اؤر دیگر تمام علمی پہلوؤں و مسائل سے مکمل طور پر آگاہ کیا جاتا ہے. تاکہ وہ اپنی جماعت میں ہر ذہنی معیار”Mental Level” کے طالب علم کے لیے ہر لحاظ سے ایک قابلِ فہم، مفید اور شفیق استاد ثابت ہو سکے۔ نیز میرے مطابق اساتذہ کو اِس تربیتی “Teacher’s Training”سیکھانے کے جو دو سب سے بڑے اور بنیادی فائدے ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ طلبہ اور اساتذہ کے مابین نسل در نسل آنے والے ذہنی فاصلوں”Generation Gabs”کے سبب جو مشکلات سِیکھنے اور سِکھانے کے حوالے سے رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں. اُن تمام ذہنی فاصلوں کو یہ تربیتی کورس حتی الامکان ختم کر دیتا ہے۔ جس کی بدولت اساتذہ زمانے کی جدت کے پیشِ نظر طلبہ کی جدید فکری اور نظریاتی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے بہترین طور پر سِکھانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ باہمی غلط فہمیوں اور بے جا تکلفات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔دوسرا بڑا فائدہ اِس تربیتی کورس “Teacher’s Training “ کا یہ ہوتا ہے کہ فنش اساتذہ دورانِ تدریس بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں. یعنی کہ یہ تربیتی کورس اُن میں کبھی ایک طالب علم کی متجسس اور محققانہ طبیعت کو مرنے نہیں دیتا، جس کی بدولت وہ اِس غرور اور فریب میں مبتلا نہیں ہو پاتے کہ بہ طورِ استاد اُن کا حاصل کردہ علم ہر قسم کی تنقید یا اصلاح سے پاک ہوتے ہوئے حرف آخر ہے۔ تاہم مزید یہ کہ فنش تعلیمی نظام کے زیرِ انتظام شعبۂ ء معلمی کے ضمن میں یہاں یہ غیر روایتی بات بھی قابل ذکر ہے کہ فنش اسکولز میں ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختص اساتذہ یعنی “Specialist Teachers” رکھنے کی بجائے، تمام مضامین کے لیے، 6سالوں تک، صرف ایک ہی استاد رکھا جاتا ہے جو کہ شاملِ ِنصاب تمام مضامین کو نہایت اعلا افہام اور ماہرانہ طریقۂ تدریس کے ساتھ پڑھاتا ہے. جب کہ اِس کے برعکس ہمارے روایتی تعلیمی نظاموں میں ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختص استاد”Specialist Teacher” کو رکھا جاتا ہے اور وہی روایتی دلیل دی جاتی ہے کہ “جس کا کام اُسی کو ساجھے”لہذا ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختص استاد “Specialist Teacher”رکھنا ہی بہتر ہے اور شاید تعلیمی لحاظ سے ترقی پذیر و پس ماندہ ممالک کے اسکولز منتظمین اِس حوالے سے اپنی جگہ پر بالکل سچے ہوتے ہیں کہ بہ قول اُن کے ہمارے پاس ایسے قابل اساتذہ کی شدید کمی ہوتی ہے جو کہ “ہر فن مولا” کے محاورے پر مصدق آتے ہوئے کئی سالوں تک شاملِ نصاب تمام مضامین کو بہ خوبی طور پر پڑھا سکے، لہذا ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختص اساتذہ “Specialist Teacher’s” رکھنا، ہماری آزادنہ مرضی نہیں بلکہ مجبوری ہوتی ہے۔ واقعی یہ دلیل اُن معاشروں میں کافی حد تک معقول اور قابلِ قبول ہوسکتی ہے کہ جہاں تدریسی نقطۂ نظر سے اساتذہ شاملِ نصاب مضامین میں سے صرف ایک یا بہ مشکل دو، تین مضامین میں ماہرانہ تدریسی خصوصیات کے حامل ہوں اور دیگر شامل نصاب مضامین میں نہ ہونے کے برابر یا سرسری سی واقفیت رکھتے ہوں لیکن جیسا کہ اُوپر بیان ہوچکا ہے کہ فن لینڈ میں اساتذہ کا علمی دائرہ کار نہایت وسیع النظر اور جامع العلوم ہوتا ہے لہٰذا وہ ایک سے زائد کئی مضامین/ علوم پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہوئے بہ آسانی تمام مضامین کو مختص استاتذہ “Specialist Teacher’s” سے بھی بہتر طور پر تدریس کر سکتے ہیں۔ بہتر طور پر اِس لحاظ سے کہ الگ الگ مضامین پڑھانے والے مختص اساتذہ جماعت میں صرف تقریباً 45 منٹ گزارتے ہیں اور اِس محدود دورانیے میں وہ ایک طالب علم کی ذہانت، شخصیت اور نفسیات کو صرف اپنے مضمون میں حاصل کردہ کارگردگی پر تولتے ہوئے اُس کے متعلق اچھی یا برُی رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر اُسی رائے کے تحت اُس سے شفقت آمیز یا تحقیر آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ جب کہ ظاہری سی بات ہے کہ کسی طالب علم کی مجموعی طور پر ذہانت، شخصیت اور نفسیات وغیرہ کو اِس قدر مختصر دورانیے میں ایک محدود نقطۂ نظر پر تولتے ہوئے، ایک نام نہاد تجزیاتی رائے دینا، صرف تنگ نظری پر مبنی جہالت کے ماسوا کچھ نہیں ہے. لیکن یہ تجزیاتی رائے دینا اُس 6 سالوں تک تمام مضامین پڑھانے والے، مستقل مزاج استاد کے لیے ہرگز کوئی مشکل کام نہیں ہے جو کہ ہر ایک الگ الگ مضمون میں اپنے ایک طالب علم کی کارگردگی کو بہ خوبی طور پر جانتا ہے اور اِسی بنا پر وہ اُس طالب علم کی مجموعی طور پر شخصیت، ذہانت و نفسیات کے متعلق نہ صرف ایک نہایت جامع رائے دے سکتا ہے، بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُسے کہاں، کس مضمون میں کتنی توجہ درکار ہے اور اُس کا مجموعی طور پر سِیکھنے اور سمجھنے کا ذہنی فہم کس معیار کا حامل ہے. لہذا میں نے بہ طورِ استاد کس مناسب انداز یا طریقۂ تدریس سے اپنے اِس طالب علم کے ذہنی معیار سے ہم آہنگ ہو کر فلاں، فلاں مضمون میں اِس کی کم زوریوں اور کج فہمیوں کو دُور کرنا ہے۔ المختصر یہ کہ فنش شعبۂ معلمی میں یہ 6 سالہ مدت ایک استاد اور طالب علم کے مابین ذہنی و دلی ہم آہنگی، پُرمحبت اور حد درجہ دوستانہ تعلقات کی فضا بندی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
(20.) تعلیمی امداد اؤر قرضے:
فن لینڈ میں طلبہ کو تعلیمی امداد یا قرضوں کی فراہمی کی ایک باقاعدہ تاریخ رہی ہے۔ جس کی ابتدا 1969ء میں طلبہ ا کو فنش حکومت کی جانب سے دیے جانے والے ابتدائی تعلیمی قرضوں سے ہوتی ہے۔ جب کہ بعد ازاں 1972ء میں طلبہ کو تعلیمی قرض کے ساتھ ساتھ تعلیمی امداد کی فراہمی کو باقاعدہ طور پر یقینی بنایا گیا۔ تعلیمی قرض کی واپس ادائیگی کو فنش طلبہ کے لیے مزید آسان اور معاشی بوجھ سے آزاد بنانے کے لیے 1983ء میں تعلیمی قرض پر رعایتی شرح متعارف کروائی گئی۔ 1992ء میں طلبہ کی مالی امداد کے حوالے سے ایک بڑی انقلابی اصطلاح نافذ کی گئی کہ جس کے تحت طلبہ کی تعلیمی امداد کے لیے تعلیمی قرض سے متعلقہ جو متناسب رقم مقرر کی گئی تھی، اُس رقم میں مزید اضافہ کر دیا گیا اور اِسے قانونی طور پر محصول کا پابند بناتے ہوئے تعلیمی قرض کی رعایتی شرح کو کمرشیل تعلیمی قرض “Commercial Student loan” میں بدل دیا گیا اور یوں فن لینڈ نے اِن سارے تاریخی تجربات کے سفر سے گزرنے کے بعد اپنے طلبہ کی مالی امداد کو طلبہ کی اہلیت کے معیار اور نتائج سے مربوط کر دیا. یعنی جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے طلبہ جو تعلیمی کارگردگی میں کچھ خاص مظاہرہ اور ترقی نہیں کر رہے ہیں تو وہ تعلیمی میدان میں مالی مدد کے اہل نہیں ہیں اور طلبہ کو عطا کردہ تعلیمی قرض کی واپس ادائیگی اُسی صورت میں ہی ضروری تصور کی جائے گی کہ جب طلبہ دیگر ذرائع سے کافی آمدنی حاصل کر رہے ہوں گے۔ دراصل فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں طلبہ کو مالی امداد دینے کا بنیادی مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ فنش طلبہ کو مستقبل میں ایک کام چور دولت پسند انسان بنایا جاسکے بلکہ یہ ہے کہ تمام فنش طلبہ کو مساوانہ بنیادوں پر حصولِ علم اور مستقبل میں ایک من پسندیدہ پیشہ اختیار کرنے کا بنیادی حق فراہم کیا جاسکے اور یہ کہ طلبہ بغیر کسی معاشی بوجھ کی کوفت کو برداشت کیے اپنی تعلیم کو مکمل معاشی آزادی کے ساتھ جاری و ساری رکھ سکیں اور اپنے زمانہ طالبِ علمی میں اپنی توجہ کو تقسیم کرتے ہوئے آمدنی کے دوسرے ذرائع پر توجہ نہ دیں سکے۔نیز آپ یوں سمجھ لیجیے کہ فنش حکومت کی طرف سے طلبہ کو عطا کردہ یہ تعلیمی قرض طلبہ اور فنش حکومت، دونوں فریقین کے لیے ایک بے حد منافع بخش اُدھار کی حیثیت رکھتے ہیں اور خصوصاً فنش حکومت کے لیے طلبہ کو فراہم کردہ یہ تعلیمی قرض اُس بہترین قومی کاروباری سرمایہ کاری” National Business Investment “کی حیثیت رکھتے ہیں کہ پھر جس کے بے حد کثیر منافع کو فن لینڈ بہ طورِ اِک خوشحال معاشی ریاست کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کئی دہائیوں تک کھاتی رہتی ہے۔
(21.) تعلیم پر خطیر مالی خرچ:
حکومتِ فن لینڈ نے اپنی G.D.P کا ایک خطیر حصہ شعبۂ تعلیم کے لیے وقف کر رکھا ہے اور فن لینڈ کے 2020ء کے قومی تعلیمی خرچ (National education budget) کے مطابق 6.8 بلین اِیورُوز”Euors” شعبۂ تعلیم و تہذیب کے لیے مختص کیے گئے تھے. نیز 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق حکومتی سطح پر 13.5 بلین اِیورُوز”Euors” تعلیم پر خرچ کیے گئے تھے. لہذا اِن تمام اعداد و شمار سے یہ بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ فن لینڈ اپنی G.D.P کے لحاظ سے حکومتی سطح پر تعلیم پر خرچ کرنے کے حوالے سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔ جب کہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک شعبہِ تعلیم کے لیے مختص معاشی تعلیمی بجٹ کو انتہائی قابلِ تشویش اور پست ترین سطح پر رکھتے ہیں اور پھر اِسی کم معیاری تعلیم کی فراہمی کے نتیجے میں امیر اور غریب کی علاحدہ علاحدہ تعلیم کا طبقاتی تصور اُبھرتا ہے کہ جس سے تعلیم اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ کر صرف نجی تعلیمی اداروں کی مہنگی لیکن ترقی یافتہ تعلیم اور حکومتی تعلیمی اداروں کی مفت لیکن پس ماندہ تعلیم کے درمیان ایک خود غرض اور کاروباری کھیل کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے. جب کہ ہم عموماً یہی سمجھتے ہیں کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک شعبۂ تعلیم کے لیے اِس قدر کم خرچ، معاشی تعلیمی بجٹ رکھنے کو اِس لیے مجبور ہے کہ مجموعی طور پر اِن ممالک کی معیشتیں کم زور اور بدحال ہیں اور وہ اعلا تعلیمی بجٹ کا بوجھ اپنے نازک معاشی کندھوں تلے نہ اُٹھا پائے گئی۔ جب کہ اعلا معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے، بد حال معیشت کا مسئلہ نہ تو کوئی بنیادی مسئلہ ہے اور نہ ہی کوئی اِتنا مشکل حل طلب مسئلہ ہے۔ کیونکہ انسانی تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کا بنیادی مسئلہ کم زور معیشتوں کا نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ شعبۂ تعلیم پر اپنی بھرپور قومی توجہ مرکوز نہ کرنے اور کاہلی و غفلت کی چادر اُورھتے ہوئے کم زور منصوبہ بندی کا ہوتا تھا. میری اِس بات کی دلالت پر ایسے کئی ممالک کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن کی معیشتیں جنگ و جدل کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ حال ہوگئیں. حتیٰ کہ وہاں بنیادی ضروریات کی فراہمی کی قلت نے بھی مستقل ڈیرے جما لیے، لیکن اُن ممالک نے اپنے شعبۂ تعلیم کو اپنے دیگر تمام ملکی انتظامی شعبہ جات پر فوقیت دیتے ہوئے ترسیلِ علم و تعلیم کو اپنا نصب العین بنایا اور آج دنیا کی طاقتور معیشتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ مثلاً اِس حوالے سے پہلا ملک تو بہ ذات خود زیرِ بحث ملک فن لینڈ ہی ہے کہ جیسا کہ اُوپر بیان ہوچکا ہے کہ عظیم شمالی جنگ 1709ء سے لے کر روس-فن لینڈ جنگ بندی 1944ءتک یعنی تقریباً ڈھائی سو سالوں کے فنش پُر انتشار دُروانیے میں فن لینڈ کی معیشت مکمل طور پر تباہ حال ہوچکی تھی لیکن فن لینڈ نے اپنی اِس تباہ حال معیشت کے باوجود اپنے تمام تر ملکی انتظامی شعبہ جات پر شعبۂ تعلیم کو فوقیت دیتے ہوئے نظریاتی و مالی اعتبار سے اپنی پھر پور قومی توجہ اِسی پر صَرف کر دی اور آج اپنے مختصر رقبے اور دنیا کی معاشی سُپر پاورز میں گھرے ہونے کے باوجود یورپ کی ایک خوش حال معیشت بن چکا ہے۔ اِس حوالے سے دوسری مثال جاپان کی ہے کہ جس کو جنگ عظیم دوم (45- 1939ء) کے بھیانک نتائج نے یورپی ممالک کی تباہ حال معیشتوں کی صف میں سرِ فہرست کھڑا کر دیا لیکن جاپان نے فن لینڈ کی طرح اپنے تمام تر ملکی انتظامی شعبہ جات پر شعبہِ تعلیم کو فوقیت دیتے ہوئے، اپنا نظریاتی نصب العین شعبۂ تعلیم کی اعلا معیاری کو بنایا اور آج دنیا کی نہایت طاقتور ترین معیشتوں کی صف میں امامت کے منصب پر فائز ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ اعلا معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے قوموں کی خوش حال یا بدحال معیشتوں کے اتار چڑھاؤ کا سلسلہ بنیادی اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اصل بنیادی مسئلہ کسی قوم کا تعلیم پر اپنی بھرپور اور مخلصانہ ارادی قوت کے ساتھ توجہ دینے یا نہ دینے کا ہے۔
(22)۔اخلاقی تربیت:
فنش تعلیم کے مقاصد کا محور و مرکز ایک طالب علم کی انسانی اقدار کے حوالے سے بہترین اخلاقی تربیت کرنا ہوتا ہے اور فن لینڈ میں اِسی بنیادی مقصد کے پیش نظر گھریلو غیر رسمی تعلیم سے لے کر اعلا ثانوی رسمی تعلیم تک تعلیمی نظام کا ایک طویل دائرہ کار چلایا جاتا ہے کہ آخر کار جس سے گزر کر ایک طالب علم اپنے تعلیمی سفر کے اختتام پر معاشرے کی توقعات کے مطابق ایک کامیاب انسان بنے یا نہ بنے، لیکن انسانی متفقہ اخلاقیات کے پیشِ نظر اور حقوق العباد کے ضمن میں ایک عاقل و ذی شعور انسان ضرور بن جاتا ہے۔ گویا کہ فن لینڈ میں تعلیمی مقاصد کی پس پردہِ روح بنیادی طور پر انسانی اقدار پر مشتمل اخلاقی تربیت ہی ہوتی ہے. لہٰذا فن لینڈ میں ایک بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی والدین اُس کی اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ صَرف کرتے ہیں اور خصوصاً اِس ضمن میں گھر کے بڑے بزرگ، اپنی پُرشفقت صحبت کے زیرِ سایہ، بچوں کو سبق آموز کہانیاں سناتے ہیں۔ نیز مجموعی طور پر معاشرے کے بھی تمام کردار مثلاً: ڈاکٹر، چوکیدار، مذہبی رہ نما، دوکان دار وغیرہ اپنے اپنے شعبہ جات میں عملی دیانت داری سے کام لیتے ہوئے، بچے کی عملی طور پر اخلاقی تربیت کرتے ہیں. یعنی کہ اِس حوالے سے ایک کم سن فنش بچے کے لیے پورا معاشرہ ہی پہلی اخلاقی درس گاہ کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ پھر اِسی طرح جب بچہ 7 سال کی عُمر کو پہنچتا ہے تو ترسیل اخلاقیات کا یہ فریضہ باقاعدہ ایک رسمی تعلیمی ادارہ یعنی اسکول سنبھال لیتا ہے. جہاں اُسے رسمی تعلیم کے زیرِ اثر اخلاقی تربیت دی جاتی ہے۔ بالآخر یونی ورسٹی کی اعلا ثانوی تعلیم تک پہنچنے تک ایک فنش طالب علم اخلاقیات کے معاملے میں اکمل و کامل ہرگز نہ سہی لیکن عاقل و بالغ ضرور ہو جاتا ہے اور اِس اخلاقی پختگی کا اجتماعی اور ریاستی سطح پر احساسیت کا اندازہ آپ اِن دو باتوں سے بھی بہ خوبی طور پر لگا سکتے ہیں کہ فن لینڈ میں ریاستی مجرموں کے لیے بنائے گئے قید خانے، پس ماندہ ممالک کے ہوٹلوں سے بھی بہت بہتر، آرام رساں اور پُرسکون ہوتے ہیں. نیز فن لینڈ میں تمام بےروزگار فنش شہریوں کو ریاست کی جانب سے ایک قابل اطمینان رقم ، ماہانہ مفت وظیفے کے تحت فراہم کی جاتی ہے۔ اب جہاں تک تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک کے تعلیمی نظاموں میں ترسیل اخلاقیات کا تعلق ہے تو تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں مقاصدِ تعلیم کا محور و مرکز صرف ملکی دساتیر کے دبے ہوئے خاموش اوراق تلے ہی ترسیل اخلاقیات رہ گیا ہے۔ آج درحقیقت وہاں منظر تو یہ ہے کہ عموماً اِن ممالک میں حصولِ تعلیم کا واحد بنیادی اور اہم مقصد طلبہ کو صرف ایک ملازمت یافتہ نوٹ چھاپنے والی “ATM” مشین میں بدلنا رہ گیا ہے. جس سے طلبہ کی اکثریت صرف ایک خود غرض دولت مند طبقے تک بہ مشکل پہنچ پاتی ہے اور پھر اِسی خود غرض نظام کی پیداوار یہ دولت مند شخصیات اخلاقی اقدار سے بالکل آزاد اور نابلد ہونے کی بنا پر جب اور جیسے چاہے اپنے سے معاشی لحاظ سے کم تر لوگوں کا استحصال کرتی ہیں۔گویا کہ آپ کو تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اخلاقیات کو عملی طور پر غیر اہم سمجھتے ہوئے پسِ پُشت ڈالنے والے، بڑے بڑے جاگیردار اور رئیس افراد تو کثیر تعداد میں ملیں گے لیکن شاید انسانی متفقہ اخلاقی اقدار کے معنوں میں صرف چند دولت مند انسان آپ کو کہیں دُور دُور تک دکھائی نہ دیں۔
(23.)ہر آن خوش مزاج طلبا:
اقوام متحدہ کی عالمی رپورٹ کے مطابق مملکتِ فن لینڈ مارچ 2018ء تا مارچ 2022ء تک یعنی سابقہ تقریباً 5 سالوں سے دنیا کے سب سے خوش حال ترین ممالک کی فہرست میں سے پہلے نمبر پر مسلسل برقرار ہے جب کہ 2018ء سے پہلے 2012ء کی پہلی عالمی خوش حال ترین ممالک کی رپورٹ تک فنش قوم نے تقریباً 160 اقوام کی فہرست میں کھبی بھی ساتویں نمبر سے نیچے جھک کر نہیں دیکھا، بلکہ ہر سال یہ آہستہ آہستہ پلکیں اُٹھاتی، سربلند ہوتی رہی کہ بالآخر 2018ء کی عالمی خوش حال ترین اقوام کی فہرست میں یہ درجہ اول کی مسند پر، اِتنے قاتل اور ستم ظریفانہ تبسّم کے ساتھ مسکراتے ہوئے جا بیٹھی کہ اب سابقہ 5 سالوں سے سب یورپی ممالک اِس کے سحرِ تبسم میں گرفتار ہیں۔ جب کہ میرے مطابق اِس سحرِ تبسم کو قائم و دائم رکھنے کے پس منظر میں خاص طور پر فن لینڈ کا تعلیمی نظام سامری منتر کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اِس طرح کہ فن لینڈ میں ابتدائی اسکول کے زمانے ہی سے بچوں کو ہر لحاظ سے خوش اور پُر اطمینان رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اِس مقصد کے پیشِ نظر ہر اسکول میں ایک فلاحی تنظیم “Welfare Team”سرگرم عمل ہوتی ہے جو بچوں کی خوشیوں کے حصول کے لیے کام کرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ آگر آپ فنش اسکولز میں طلبہ کا معائنہ کریں تو عموماً وہاں آپ کو تمام طلبہ نفسیاتی و جسمانی ہر دو اعتبار سے نہایت خوش و چست نظر آئیں گے۔ نیز اسکول میں فنون لطیفہ یعنی موسیقی، آرٹ، کرافٹ، مصوری وغیرہ سمیت جسمانی ورزش کی تعلیم پر بھی خاص زور دیا جاتا ہے۔ جب کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اگر ایک بچہ اسکول کے زمانہ طالبِ علمی میں خوش و خرم اور پُر اطمینان نظر آئے تو اُسے اساتذہ سمیت عزیز و اقارب کی مشکوک نگاہوں تلے تقریباً کچھ اِس قسم کے دھمکی آمیز طعنے آئے روز موصول ہوتے ہیں کہ” تمھاری اِس موج ، مستی اور بے فکری سے تو یہی لگتا ہے کہ آج کل تمھارا اپنی پڑھائی پر بالکل بھی دھیان نہیں ہے لہٰذا تم سُدھر جاؤ وگرنہ ہمیں سُدھارنا خوب آتا ہے۔” گویا کہ اُن ممالک میں ایک طالب علم کے عزیز و اقارب اور اساتذہ لاشعوری یا شعوری طور پر یہ جانتے ہوتے ہیں کہ ہمارے ملک کی پس ماندہ رسمی تعلیم بچوں کے لیے خاصی غیر دل چسپ، خشک اور مشکل ہے تو پھر یہ اِس پس ماندہ تعلیم کی بہ حثیت بے بس کڑی ہونے کے باوجود، اتنے خوش اور بے فکر کیسے ہوسکتےہیں۔ لہذا پھر یہی وجہ ہے کہ جب وہاں کسی بچے کے والدین اُس کو خوش یا کھیل و کود میں مگن دیکھتے ہیں تو ابتدائی سوالات ہی یہ کرتے ہیں “کہ اسکول کا ہوم ورک مکمل کر لیا کہ نہیں۔۔۔؟، کیا کل اسکول سے کوئی چھٹی ہے جو تم یوں سرعام جشن منا رہے ہو۔۔۔؟ لگتا ہے کہ آج تم نے اسکولز ٹیسٹز کی تیاری کچھ زیادہ ہی جلدی ہی کر لی ہے، شاباش۔۔۔!، آج بڑے خوش نظر آرہے ہو ہمیں بھی تو بھئی بتلاؤ کہ کن کن امتحانات”Tests” میں اچھے نمبر لے کر اسکول سے آ رہے ہو۔۔۔؟، خیر تو ہے، اچھل کود تو یوں رہے ہوں جیسے آج کا پرچہ”Exam” بہت اچھا رہا۔۔۔؟ اور اِسی طرح کے اسکولی زندگی سے جڑے اَن گِنت سوالات جن کو سن کر ایک طالب علم کو لاشعوری یا شعوری طور پر یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُس کی زندگی میں جائز و قانونی خوشی و اطمینان کا محور و مرکز صرف والدین کے سامنے میرے متعلق سب اساتذہ کی اچھی آرا، سب مضامین میں اعلا کارگردگی، امتحانات و پرچہ جات میں اعلا نمبرز کی کامیابی اور ہوم ورکز کی باقاعدگی وغیرہ سے ہی مربوط ہے۔ المختصر یہ کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں اسکول کے کام اور خوشی کے اوقات کو الگ الگ شمار کیا جاتا ہے اور جہاں تک موسیقی، رقص، کرافٹ، آرٹ اور جسمانی ورزش وغیرہ کی تعلیم وغیرہ کا تعلق ہے تو اُسے تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں شروع ہی سے اسکولز کی رسمی تعلیم کے دائرہ کار میں کوئی باقاعدہ طور پر سکھایا نہیں جاتا ہے۔ البتہ اِن سب علوم کے لیے الگ الگ مراکز قائم ہیں جو ہرگز اُن ممالک میں اسکول کی ابتدائی رسمی تعلیم کے ضمن میں نہیں آتے ہیں۔
(24.)جنسی تعلیم:
میرے مطابق “حصولِ خوارک اور حصولِ جنس” انسان کی ایسی دو بنیادی جبلی خواہشات اور بنیادی محرک ہیں کہ اول تو یہ کہ جن کی تسکین و تکمیل انسانی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے اور دوم یہ کہ اِنھی دو جبلی محرکات و خواہشات کے حصول کے لیے ایک انسان کسی نہ کسی سطح پر، پوری زندگی تا دم حیات مسلسل متغیر و متحرک رہتا ہے. نیز اِن دو بنیادی خواہشات اور محرکات کو ہمہ پہلو، مکمل طور دبانا کسی بھی انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں ہے. البتہ آپ صرف قوتِ علم کے تحت ہی اِن کی تکمیل و تسکین کا راستہ ذرا سا بدلتے ہوئے اپنے معاشرتی، ثقافتی و مذہبی نظریات تلے، اپنے طور پر اِنھیں مہذبانہ و شائستہ بنا سکتے ہیں۔ لہذا پہلے بنیادی و جبلی محرک یعنی خوراک کے ضمن میں آپ قوتِ علم سے آراستہ فنش تعلیمی نظام کی کامیاب کاوشیں اوپر نقطہ نمبر پانچ میں تفصیلی طور ملاحطہ فرما چکے ہیں۔ رہا اب دوسرا بنیادی و جبلی محرک یعنی “جنس” تو اِس ضمن میں قوتِ علم سے آراستہ ریاستِ فن لینڈ نے حصولِ جنس سے متعلقہ تمام پہلوؤں کو علمی قوت کے سہارے ذرا سا موڑتے ہوئے، اپنے ثقافتی و معاشرتی نظریات کے تحت مہذبانہ و شائستہ بنانے کے لیے اسکولز کی ابتدائی تعلیم سے ہی جنسی تعلیم کی فراہمی نو عمر طلبہ کے لیے لازمی قرار دی ہے۔ تاکہ نوعمر طلبہ اپنی جنسی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی اِن معمولات میں رسمی تعلیم کے محتاط اور محفوظ طریقے سے، فنش سماجی و ثقافتی نظریات کے زیرِ سایہ اور حیاتیاتی سائنس کی روشنی میں عاقل و بالغ ہو جائیں اور خود کو اور اپنے گرد و نواح کو جنسی امراض و جرائم سے محفوظ کرسکیں۔ جب کہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے ناخواندہ و پس ماندہ ممالک میں جنسی تعلیم کو رسمی تعلیم کے ضمن میں دینا نہایت معیوب، قابل مذمت اور اکثر جرم و گناہ کے صیغے میں تصور کیا جاتا ہے. اگرچہ کہ پھر یہ الگ بات ہے اِن ممالک میں جنسی تعلیم کو لے کر یہ بے جا متشدد اور نام نہاد پاکیزہ رویے صرف منافقت اور ظاہری شرم و حیا کے جہلانہ یا غلو پسندانہ تصورات پر مبنی ہوتے ہیں۔ جب کہ وہاں حقیقی منظر نامہ تو یہ ہوتا ہے کہ نوعمر طلبا کو جنسی تعلیم، رسمی تعلیم کے، محفوظ اور محتاط طریقوں سے فراہم کرنے کی جس قدر شدید مذمّت کی جاتی ہے۔ اُتنا ہی غیر رسمی انداز میں نہایت غیر محفوظ، مضر اور نا قابلِ اعتماد طریقوں سے بچے تک جنسی تعلیم بہم پہنچا دی جاتی ہے۔ اِس حوالے سے سب سے پہلا کردار ایک بچہ کے اُن عزیز و اقارب اور اہل محلہ کا ہوتا ہے کہ جو تعلقاتِ مرد و زن پر مشتمل نہایت واضح انداز میں بے ہودہ اور غلیظ گالیاں نکالتے ہیں کہ جب یہ گالیاں بچے کی قوتِ سماعت سے ٹکڑاتی ہیں تو وہ اپنی فطری متجسس روح کو حرکت میں لاتے ہوئے اِن گالیوں کے مطالب کو سمجھنے کی بھرپور کوششیں کرتا ہے. اور پہلی، دوسری یا تیسری بار نہ صحیح لیکن آہستہ آہستہ جلد ہی وہ اِن بے ہودہ گالیوں کے مطالب سے آگاہ ہوتے ہوئے جنسی تعلیم کے نہایت منفی پہلوؤں کو اخذ کرنے لگتا ہے۔ دوسرا کردار بچے کے اُن ہم جولیوں اور ہم عمر دوستوں کا ہوتا ہے کہ جو خود جنسی تعلیم کے حوالے سے اپنے ہم عمر دوستوں کی طرح نیم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اِس حوالے سے اپنی آدھی ادھوری، غلط و صیح معلومات اپنے ہم عمر دوستوں کو حیرانگی اور لطف کے ملے جلے تاثرات تلے، دل لگی یا اشتراک علم کی خاطر بتلاتے ہیں۔ تیسرا کردار جدید ٹیکنالوجی پر منحصر اُن جدید ذرائع ابلاغ، نیٹ، فلمز اور ڈراموں وغیرہ کا ہوتا ہے کہ جن تک رسائی ہونے سے اصل و نقل اور خیر و شر کی تمیز سے نابلد بچے اپنے نا پختہ فہم کے زیرِ سایہ یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں. بہرحال اِن تین اہم اطوار کے علاوہ بھی دیگر کئی غیر رسمی اور غیر محفوظ طریقوں سے بچے اِن ممالک میں جنسی تعلیم سے متعلقہ آگاہی حاصل کرتے ہیں. لیکن یہ آگاہی بھی اتنی غیر صحت مندانہ ہوتی ہیں کہ ایک بچہ جنسی تعلیم کے حوالے سے صیح اور غلط، مستند اور غیر مستند معلومات میں تمیز ہی نہیں کرسکتا ہے۔ نتیجتاً کئی بچے اِس مرحلے میں کوئی مستند رہ نمائی نہ ہونے کی صورت میں اکثر جنسی امراض و جرائم یا کم از کم ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس سے بچوں کی بہ حیثیت طالب علم خوش اسلوبی و متانت سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں بھرپور متاثر ہوتی ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ فن لینڈ میں فنش طلبہ کو باقاعدہ رسمی تعلیم کے محتاط اور محفوظ اطوار کے زیرِ اثر جنسی تعلیم فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں قدرت کی طرف سے عطا کردہ اِن فطری جنسی جذبات کو رسمی تعلیم کے محفوظ اور محتاط طریقوں سے سمجھ سکیں اور اِن جذبات کو بدرجہ اتم اپنے لیے اور بدرجہ دوم اپنے گرد نواح کے لیے ہمہ پہلو و ہمہ وقت، محفوظ اور پُرسکون بنا سکیں۔ نیز اسکولز و کالجز کی صحت مندانہ تعلیم کو ہر قسم کے جنسی مرض و جرم کے بغیر پوری متانت و خوش دلی کے ساتھ، فطری معمول کے مطابق جاری رکھ سکیں۔ اب اگرچہ آپ کو فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں رائج شدہ جنسی تعلیم کے نصاب سے اپنے مذہبی و سماجی عقائد کے زیرِ اثر اختلاف ہو لیکن اِن اختلافات کی بنا پر آپ اِس سارے کے سارے جنسی تعلیم کے تدریسی نظام کو غلط کہتے ہوئے، مکمل طور پر فراموش ہرگز نہیں کرسکتے ہیں. کیونکہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیاے جدید کے تمام مذاہب، اؤر ثقافتیں نظریاتی لحاظ سے اور مجموعی طور پر اِس بات پہ متفق ہیں کہ انسان کے جنسی جذبات کے اظہار کو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر حد درجہ پُرسکون اور دیگر انسانیت کے لیے محفوظ بنایا جائے۔لہذا تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ و ترقی پذیر ممالک میں آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظاموں کو فنش تعلیمی نظام کی اندھی تقلید سے بالاتر رکھتے ہوئے انسانی متفقہ اقدار کے پیشِ نظر، اپنے ثقافتی و مذہبی عقائد کی روشنی میں جنسی تعلیم کے اِس نظامِ تدریس کو اپنے ہاں نافذ کریں تاکہ معصوم بچوں اور نوعمر طلبہ کی جنسی زندگی کو ابتدا ہی سے سب کے لیے محفوظ اور ہمہ پہلو خوش حال بنایا جاسکے۔
(25.)ذہنی و جسمانی صحت:
فنش قوم اپنے طلبہ کی ذہنی و جسمانی صحت کی حفاظت و نگہ داشت کے متعلق بہت حساس قوم ہے اور اِس حساسیت کا اندازہ آپ اِس بات سے لگائیے کہ اہل فن لینڈ نے اپنے ملکی نظام نگہ داشتِ صحت”FHCS” کے ماتحت، طلبہ کی جسمانی و ذہنی تندرستی کو برقرار رکھنے کے لیے باقاعدہ ایک خصوصی تنظیم قائم کر رکھی ہے. 1954ء میں( قومی تنظیم برائے یونی ورسٹی طلبہ)”SYL”نے “Finish Student Health Service” یعنی (نگہ داشتِ صحت برائے فنش طلبہ) کے نام سے ایک ایسی تنظیم قائم کی جو لاکھوں فنش طلبہ کو نہ صرف جسمانی صحت و طبی نگہ داشت کی سہولیات فراہم کرتی ہے بلکہ طلبہ کی ذہنی تندرستی کو بھی ہر لحاظ سے ممکن بنانے کی کوشش کر تی ہے۔ دراصل طلبہ کی نگہ داشتِ صحت سے متعلقہ “FSHS” تنظیم خصوصاً اعلا تعلیم سے وابستہ بالغ نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی ہمہ پہلو صحت و تندرستی کی بنیاد پر قائم کردہ ایک فلاحی تنظیم ہے جو بالغ طلبہ کو دندان سازی، مختلف ذہنی کیفیات و صدمات، جسمانی تندرستی، تولیدی صحت اور جنسی مسائل وغیرہ کے متعلق جامع رہ نمائی و نگہ داشت فراہم کرتی ہے۔ یہاں اِس ضمن میں یہ بات بھی قابل ِذکرہے کہ فنش طلبہ اپنی صحت سے متعلقہ “FSHS” تنظیم کی کارگردگی کا جائزہ لینے، اصلاح و ترامیم کرنے اور تبلیغ و ترویج کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیم سے متعلقہ فیصلہ سازی میں بھی نہایت سرگرم ِعمل رہتے ہیں جو فنش طلبہ کی انسانی صحت سے متعلقہ اعلا فہمی کی بھی ایک نمائند ہ مثال ہے۔ نیز فنش طلبہ کی اِسی بہترین قدر دانی نے ہی آج فن لینڈ کو دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں کی فہرست میں امامت کے منصب پر فائز کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جب کہ اِس کے برعکس اگر ہم تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں طالبانِ علم کی صحت سے متعلقہ اقدامات کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے شاید یہی بات ہی آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دے کہ اِن ممالک میں عمومی طور پر طلبہ کے ذہنی صدمات و مسائل کو صحت کی کم زوری میں سرے سے ہی شمار نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ ذہنی کیفیات و مسائل وغیرہ کا تعلق براہ راست ظواہر سے نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ تو بنیادی طور پر انسان کے باطنی نظام کے ذاتی اؤر انفرادی تاثُر کی پیداوار ہوتی ہے اور اِن ذاتی و انفرادی تاثُرات کے تحت ذہنی کیفیات و مسائل کو تو صرف وہی افراد سمجھ سکتے ہیں جو اگرچہ سند یافتہ نہ ہوں لیکن باشعور اور حساس انسان ہوں۔ جب کہ عموماً اِن ممالک میں تعلیمی ادارے مجموعی طور پر ایسے لوگوں کے سپرد ہوتے ہیں جو اگرچہ سند یافتہ لیکن بے حس اور تنگ نظر انسان ہوتے ہیں۔ جو طلبہ کے ذہنی مسائل کو صحت کی کم زوری میں سرے سے شمار ہی نہیں کرتے اور صرف جسمانی صحت کی ظاہری خرابی کو ہی بہمشکل عدمِ تندرستی یعنی بیماری میں شمار کرتے ہیں. حاصلِ کلام یہ کہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں طلبہ کی ذہنی صحت کے ساتھ استحصال کرنے والے بدرجہ اتم خود تعلیمی ادارے ہی ہوتے ہیں کہ جس کا میں نہایت مفصل اور جامع بیان درج ذیل بالا کئی نقاط میں کر چکا ہوں۔ اب جہاں تک اِن ممالک میں طلبہ کی جسمانی صحت کا تعلق ہے تو عین ذہنی صحت کی طرح جسمانی صحت کے ساتھ استحصال کرنے والے بھی عموماً، پس ماندہ ممالک کے یہی تعلیمی ادارے ہی ہوتے ہیں جو کہ طلبہ کی نام نہاد، دُوراندیش فلاح کے نام پر جسمانی تشدد اور سزاؤں کو رواں رکھتے ہیں۔ نیز اِن ممالک میں طلبہ کی صحت سے متعلقہ کوئی خصوصی تنظیم نہیں ہوتی، بلکہ مقامی طلبہ عام ملکی صحت سے متعلقہ میسر سہولیات اور شفا خانوں ہی سے امیر اور غریب کے فرق تلے، زیرِ علاج رہتے ہیں۔
(26.)طلبہ کی رہائش و قیام :
جیسا کہ آپ کو سابقہ تمام نکات کے مجموعی فہم سے یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ فن لینڈ میں طلبہ کے لیے فکری اور نظریاتی اعتبار سے کس قدر فیاضی اور وسعتِ نظر موجود ہے۔ عین اِسی طرح فن لینڈ میں طلبہ کی رہائش و قیام کے لیے جغرافیائی اور زمینی وسعت بھی بے مثال اور مُتاثر کن ہے اور وہ اِس طرح کہ فن لینڈ کے ہر شہر میں طلبہ کی رہائش و قیام کے لیے ایک ہاوزنگ تنظیم Housing” Organization” سرگرمِ عمل ہوتی ہےجو کہ نہ صرف مقامی بلکہ بیرون ملک سے بھی تعلق رکھنے والے تمام طلبہ کو رہائش و قیام کے واسطے رہائشی کمرے”Flats” نہایت مناسب اور معقول قیمت پر فراہم کرتی ہے. فن لینڈ میں طلبہ کے لیے اِن ہاوزنگ تنظیموں کا زیادہ تر قیام 1960ء تا 1970ء کے اوائل میں عمل میں لایا گیا تھا اور آج سال رواں تک یہ اپنی تعلیمی خدمات کے تقریباً 82 سالوں میں طلبہ کو نہایت محفوظ اور بہترین طرزِ تعمیر پر مبنی رہائش گاہیں فراہم کرنے میں نہایت کامیاب و کامران رہی ہیں۔ یہ رہائش گاہیں عموماً کسی تعلیمی ادارے کے قریب ہی تعمیر کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ ہرگز صرف کسی ایک فنش تعلیمی ادارے کے طلبہ کے لیے مختص نہیں ہوتی ہیں بلکہ فن لینڈ کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے وابستہ تمام طلبہ کے لیے مساوی طور پر دستیاب ہوتی ہیں اور یہی وہ بات ہے کہ فن لینڈ میں تمام فنش طلبہ کو عطا کردہ مساوی رہائش و قیام کا حق نہ صرف اِسے عالمِ یورپ کی بلکہ کُل عالم کی طلبہ ہاوزنگ تنظیموں “Students Housing Organization’s” میں ممتاز و اعلا حیثیت سے سرفراز کرتا ہے۔ کیونکہ اِس کے برعکس دنیا کے زیادہ تر ممالک میں طلبہ کے لیے تیار کردہ رہائش گاہیں عموماً کسی ایک خاض تعلیمی ادارے کے زیر ِتسلط ہوتے ہوئے صرف اُسی تعلیمی ادارے کے طلبہ کے لیے مختص ہوتی ہیں اور پھر اِن رہائش گاہوں میں انتظامی معمولات سے لے کر صاف ستھرائی اور سب سے بڑھ کر ، نووارد طلبہ کے ساتھ ہراسگی “Ragging” کے جو مسائل ہیں وہ ایک الگ دکھ بھری داستان کے محتاج ہے۔
(27.)تعلیمِ بالغاں:
فن لینڈ میں ایک سڑک کے کنارے پر ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جس میں کچھ اِس طرح کی منظر کشی کی گئی ہے کہ ایک مطالعہ میں محو، شخص گہرے پانی میں غرق ہو رہا ہے لیکن تب بھی پڑھ رہا ہے یا اُسے دیکھ کر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پڑھو چاہے تم ڈوب ہی کیوں نہ رہے ہو۔ اب اگر آپ اِس فنش مجسمے کی زندہ روح یا عملی تصویر کو دیکھنے کے مشتاق ہیں تو آئیے آپ کو فن لینڈ کی غیر رسمی تحریک،”تحریک تعلیم ِبالغاں” سے متعارف کرواتے ہیں۔ فنش غیر رسمی تعلیمِ بالغاں میں معاشرے کے پڑھے لکھے، باشعور اور فارغ التحصیل اشخاص حصہ لیتے ہیں تا کہ وہ اپنی رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی کے آخری لمحات تک، کسی نہ کسی نئے کورس میں داخلہ لیتے ہوئے ہمہ وقت سیکھ سکیں۔ مثلاً: غیر رسمی تعلیم بالغاں سے مرعوب، فن لینڈ کے ضعیف العمر خواتین و حضرات نئی نئی زبانیں، دست کاریاں، فنون لطیفہ، علوم اور جدید مہارتیں وغیرہ سیکھنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ گویا کہ فنش سند یافتہ طلبہ، رسمی تعلیم کے اعتبار سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی اپنے زمانہ طالب علمی کو زندگی بھر کے عرصے پر محیط کیے، ہمیشہ سمجھتے اور سیکھتے رہتے ہیں. پھر وہ چاہے طبی عمر کے اعتبار سے جد امجد بن جائیں یا جد الاجداد، لیکن علمی عمر کے اعتبار سے وہ خود کو ہمیشہ ایک جوشیلے، گرم خوں، نوجوانوں کی مانند ہی سمجھتے ہیں اور علم کو سیکھنے کی دوڑ میں طبی عمر یا کسی بھی قسم کی بے جا معاشرتی قدر یا رویے کو خاطر میں لائے بغیر، فنش نو جوان طلبہ کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ عین اُسی پتھر کے مجسمے میں نصب، مطالعے میں محو شحص کی طرح کہ جس کی زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے موت کے بے کراں سمندر میں غروب ہو رہا ہے لیکن وہ اپنی عمر کے اِن آخری لمحات میں بھی کتاب کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا. مزید یہ کہ اگر آپ فن لینڈ میں غیر رسمی تعلیم ِبالغاں کے تاریخی پسِ منظر کو ملاحظہ فرمائیں تو صرف 1960ء میں ہی فنش تعلیم بالغاں کے مراکز کی تعداد دوگنی ہوکر تقریباً 280 تک پہنچ گئی تھی۔یہاں تک کہ آج یہ تعلیم بالغاں کے غیر رسمی مراکز فن لینڈ کی تمام بلدیات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، اور فن لینڈ میں نہایت وسیع پیمانے پر اپنی خدمات کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ اِس ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فن لینڈ میں شہریوں کی اپنی تعلیمی ضروریات کے پیشِ نظر اِس قسم کے بلدیاتی تعلیمی ادارے دنیا بھر میں اپنی طرز کے منفرد تعلیمی ادارے شمار کیے جاتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ عہد حال میں فن لینڈ کے تقریباً 140 اضلاع میں ایسے متحرک جامعات سرگرم عمل ہیں کہ جن میں پڑھائے جانے والے مضامین کا ایک تہائی حصہ غیر رسمی تعلیم بالغاں کی تشریح و توضیح کے لیے وقف کردہ ہے. نیز فن لینڈ میں تعلیم بالغاں کی فراہمی کے مقصد کے پیشِ نظر عوامی و حکومتی سطح پر خطیر مالی امداد بھی قابل تحسین ہے. اب اگر ہم فن لینڈ میں تعمیر و تعلیم بالغاں کے لیے کیے جانے والے اِن سارے انتظامات کے مقاصد پر بات کریں تو کیونکہ اُن سب مقاصد کا احاطہ کرنا اِس مضمون میں ممکن نہیں لہذا صرف ایک بنیادی مقصد ہی گوش گزار ہے کہ فن لینڈ میں تعلیم بالغاں کی فراہمی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مساوانہ شراکت داری کی بنیاد پر تمام فنش شہریوں کو زندگی بھر کے علمی ارتقا سے گزارتے ہوئے، موت کے نرغے تک فنش معاشرے کے لیے ایک مفید، پُر امن، انصاف پسند اور باشعور انسان بنایا جا سکے۔
مندرجہ ذیل بالا 27 نکا ت کی روشنی میں ہم فن لینڈ کے اِس روایت شکن اور زبردست تعلیمی نظام کے متعلق یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ فن لینڈ نے پوری دنیا کے قدامت پسند، بے بنیاد، کھوکھلے یا کم از کم سُست رفتار تعلیمی نظاموں کے سامنے ایک ایسا زبردست اصولی نظام تعلیم کھڑا کیا ہے جو کہ مجموعی طور پر دنیا کے تمام تعلیمی لحاظ سے ترقی پذیر و پس ماندہ ممالک کے لیے نظریاتی اختلافات کی بنا پر، آگرچہ مکمل طور پر اکمل و کامل نمونہ نہ صحیح، لیکن یکسر طور ایک مثالی اور مُتاثر کن نمونے کی حثیت رکھتا ہے. لہذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم فن لینڈ کی اِن بہترین اور اصولی تعلیمی خصوصیات، اصلاحات اور اختراعات کو فنش تعلیمی نظام کی اندھی تقلید سے بالاتر رکھتے ہوئے، اپنی نظریاتی و ثقافتی اقدار کے مطابق مناسبت، لچک اور جدت کے ساتھ نافذ کریں تاکہ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ و ترقی پذیر ممالک اپنے تعلیمی نظاموں میں موجود قدیم، کھوکھلی، لغو اور غلامانہ منفی تعلیمی اقدار سے چھٹکارا پاتے ہوئے خود کو ایک شان دار تعلیمی مستقبل رکھنے والے ممالک میں بدل سکیں.
***
مضمون نگار کے علمی و ادبی کوائف:
قلمی نام: محمود الحسن عالمیٓ
علمی و ادبی پہچان: افسانہ نگار، مضمون نگار، شاعر اور سرگودھا یونی ورسٹی پاکستان، بی-ایس-اردو چار سالہ ڈگری کے زیر اہتمام اِک طالب علم۔
سوانحی کوائف:
ولدیت: محمد انصر مغل
موجودہ اور پیدائشی شہریت: پاکستانی
مذہب: اسلام
موجودہ عمر:19 برس
موجودہ رہائش: محلہ رحمت آباد،سرگودھا روڈ گجرات،پنجاب-پاکستان۔