:: فلم کی منفرد تہذیبی مزاحیہ اداکاری کی ایک مثال : "ںرالا" ::
=====================================
دو نرالے پاک و ہند میں بہت مشہور ھوئے۔ ایک تو ھندی زبان کے شاعر ‘نرالا‘ (1896۔1961) اور دوسرے پاکستانی فلموں کے مزاحیہ اداکار ‘ نرالا‘ تھے۔ نرالا اپنے نام کی مناسبت اور معنویت سے " انوکھے" اور "عجیب" ھی تھے۔ وہ دیکھنے میں سنجیدہ انسان دکھائی دیتےتھے مگر اندر سے چلبلے اور گدگدیاں کرنے والے انسان تھے۔ بہت اچھے لطیفہ گو تھے۔ نرالا نے ساٹھ سے اسی کی دہائی تک پاکستانی فلمی مزاحیہ کو جدا گانہ رنگ و روپ دیا۔ اس زمانے میں آصف جاہ، لہری، منور ظریف، رنگیلا، علی اعجاز اور ننھا ان کے ھم عصر مزاحیہ اداکار تھے۔ ان سب کا اپناا اپنا اسلوب اداکاری تھا۔ نرالا کا المیہ تھا کی ان کو لاھور کبھی راس نہ آیا۔ انھوں نے زیادہ تر کراچی میں ھی بنے والی فلموں میں کام کیا اور کامیاب رھے۔
نرالا کا اصل نام سید مظفر حسین زیدی تھا۔ وہ آٹھ/8 اگست 1937 میں بھارت کے صوبے یوپی کے شہر مراد آباد میں پیدا ھوئے۔ ان کے والد کا نام سید ظفر یاب حسین زیدی تھا۔ انکے چھوٹے بھائی کا نام بشارت حسین زیدی ھے۔ نرالا کی والدہ کا تعلق ایران سے تھا۔ لہذا نرالا فارسی بول لیا کرتے تھے۔
تقسیم ہندکے بعد ان کا خاندان کراچی آگیا۔ ان کا کنبہ عائشہ باوانی اسکول کے پیچھے ایبی سینیا لائنز ،شاہراے فیصل (سابقہ ڈرگ روڈ) میں ایک چھوٹے سے کرایے کے مکان میں رہائش پزیر ھوا۔
1970 میں نرالا ایک بھارتی خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ھوئے ۔ 1960 میں ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم "اور بھی غم ہیں" ، میں پہلی بار جلوہ گر ھوئے۔اور ان کی آخری فلم " چوروں کا بادشاہ" (1980) تھی۔ پاکستان کی پہلی اردو پلاٹنیم جوبلی فلم "ارمان" میں بہتریں اداکاری کی اور نگار ایوارڈ کے حق دار ٹھرے۔ اورنئی نسل کو کبوتروں کے زریعے عشق و محبت کی ترسیل کا منفرد اور آسان طریقہ بتایا۔ نرالا نے سو (100) سے زائد فلموں میں کام کیا۔ 1964 میں وہ روزینہ کے ساتھ لپٹن چائے کے اشتہار میں بھی آئے۔ ان کی یادگار فلموں میں سپیرن، مسٹر ایکس، شرارات، چھوٹی بہن، ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان،سمندر، ایسا بھی ھرتا ھے، ھونہار،پھر صبح ھوگی، دوراھا،زمین کا چاند، انسان اور گدھا، نواب زادہ، گھر داماد،راجہ، اجالا، انجانے راستے، وقت کی پکار، میرے لال، میرے بچے میری آنکھیں،جہان تم وہاں ھم، سالگرہ، بھر چاند نکلے گا، اسلام علیکم،بھر چاند نگلے گا، نصیب اپنا اپنا، جھک گیا آسمان، نیند ھمارے خواب تمھارے، بےایمان، انمول، سہرے کے پھول، دشمن، اسے دیکھا اسے چاھا، گنوار، دلربا، روٹھا نہ کرو، وغیرہ شامل ہیں۔
میں نرالا کو مظفر بھائی کہتا تھا وہ اس طور پر میرے پڑوسی تھے کہ وہ چند گلیاں چھوڑ کر میرے گھر کے قریب رھتے تھے ۔انکا گھر فیڈرل بی ایریا میں طاہرولا (عائشہ منزل) بلاک 6 کے قریب تھا۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ھے کہ مظفر بھائی شاعری بھی کیا کرتے تھے ان کا قلمی نام نسیم لکھنوی تھا۔ ان کی شاعری پر جگر مرادآبادی اور اختر شیرانی کا گہرا اثر تھا۔ انھوں نے مرثیے ، نوحے اور سلام بھی لکھے۔ مگر ان کا کوئی مجموعہ کلام چھپ نہ سکا۔
ایک دن میں نے مظفر بھائی سے پوچھا کہ آپ مشاعرہ کیوں نہیں پڑھتے !! تو کہنے لگے کہ "میں جب بھی مشاعرے میں گیا،اشعار سنانے سے پہلے لوگ میری شکل دیکھ کر قہقہے لگانے لگے۔ اس لیے میں اب مشاعرہ پڑھنے نہیں جاتا۔" ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ میں نے ایک دن مظفر بھائی سے دریافت کیا آپ مستقل طور پر لاہور کیوں منتقل کیوں نہیں ہو جاتے؟ تو کہنے لگے "وہاں دل نہیں لگتا اور ڈھنگ کا کام بھی نہیں ملتا۔ " نرالا کو کراچی سے بہت پیار تھا۔ میں ان سے اکثر کہتا تھا کہ آپ کو کراچی میں کیا فضائی آلودگی سونگھے بغیر سانس نہیں لی جاتی اور نہ کھانا ہضم ہوتا ہے آپ کراچی کی ہواوں میں ڑیزل سونگھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اگر آپ جنّت میں چلے جائین تو وہاں سے کراچی بھاگنے کی کوشش کریں گے۔" تو اس بات پروہ بہت ہنستے تھے۔ اور جواب میں کوئی شعر سنا دیا کرتے تھے۔
انھوں نے ٹیلی وژن کے علارہ اسٹیج اور پرائیوٹ ورائٹی پراگرامز بھی کئے۔ نرالا نے عمر شریف کے ڈرامے، " بکرا قسطوں میں" بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ عمر کا آخری حصہ معاشی پریشانیوں میں گزرا۔
نرالا نے کراچی میں9 دسمبر 1990 کو اس دنیا فانی کو خیرباد کہا۔ اور یہی پیوند زمین ھوئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔