فلم ، الوہی قصے اور خدائی
( امریکی اداکار چارلٹن ہیسٹن پر ایک نوٹ )
بیسویں صدی کا آغاز اپنے ساتھ ’ فنون لطیفہ ‘ کی ایک نئی صنف ساتھ لے کر آیا تھا ؛ یہ ’ فلم ‘ کا میڈیم ہے ، ایک ایسا میڈیم جس میں ’ تخلیق ‘ ایک اجتماعی عمل ہے ۔ اس سے قبل فنون لطیفہ میں اس سے ملتا جلتا ایک اجتماعی عمل ’ ڈرامہ ‘صدیوں سے مروجہ رہا ہے ۔ یہ میڈیم تقریباً اسی کی طرز پر شروع ہوا تو جہاں ڈرامے میں لکھاری ، اداکار ، ہداہت کار اور منظر/ سیٹ بنانے والے اہم تھے وہیں فلم کے لئے عکاس اور تدوین کار بھی اہم ٹہرے ۔ ’ روشنی ‘ ڈرامے میں بھی اہم تھی لیکن فلم کے میڈیم میں اس کی اہمیت اور اجاگر ہو کر سامنے آئی اور ’ لائٹ اینڈ شیڈ ‘ بھی اس صنف کا ایک اہم جزو بنا ۔ ادب میں لکھاری اہم تھا لیکن ڈرامے اور فلم میں ’ ہداہت کاری‘ اور’ اداکاری ‘ نے ادیب/ شاعر کی حیثیت ثانوی کر دی ۔ جیسے فلمیں چارلی چپلن ( بطور اداکار)، پرتھوی راج ، صوفیہ لارین ، مدھو بالا اور اسی طرح کے دیگر اداکاروں / اداکاراﺅں کے حوالے سے یا پھر آرسن ویلز، ڈی سیکا ، ستیہ جت رے ، باربرا سٹرایسنڈ ، میرا نائر اور دیپا مہتہ جیسے ہدایت کاروں/ کاراﺅں کے نام سے شناخت پانے لگیں ۔
میں اِسی صدی کی چھٹی دہائی میں فنون لطیفہ کے اس میڈیم سے متعارف ہوا تھا ۔ یہ وقت خاموش ، بلیک انیڈ وائٹ اور رنگین فلموں کے امتزاج سے مزین تھا ۔ میں نے چارلی چپلن کی خاموش فلمیں بھی اس زمانے میں دیکھیں جن میں اس کی خاموش فلم ’ آمر‘ (The Great Dictator) مجھے آج بھی یاد ہے ۔ اس فلم میں چارلی چپلن نے ایک نائی ’ شُلز‘ اورآمر’ ایڈیناوئڈ ‘ کا ڈبل کردار ادا کیا تھا ۔ اس وقت میرے والد نے مجھے بتایا تھا کہ یہ فلم بنیادی طور پر طور پر نازی ہٹلر پر ایک طنز تھی ( ’ The Great Dictator ‘ سن 1940 ء کی فلم ہے ۔ چارلی چپلن اس کا فلمساز، ہدایتکاراور لکھاری بھی تھا ۔ یہ فلم پانچ آسکرز کے لئے نامزد ہو ئی تھی اور اس نے دیگر کئی ایوارڈ بھی حاصل کئے تھے ۔ 1940 ء میں گو ’ ٹاکیز‘ بنانے کا رواج عام ہو گیا تھا لیکن چارلی چپلن نے اسے ’ خاموش فلم ‘ کے طور پر ہی بنایا تھا ) ۔
خاموش فلموں کے زمانے کا ہی ایک اور مشہور فلم ڈائریکٹر’ سیسل بلونٹ ڈیمِلی ‘ ((Cecil B. DeMille ) بھی تھا ۔ مجھے اس کی کوئی خاموش فلم تو یاد نہیں لیکن اس کی فلم ’ سیمسن اینڈ ڈیلائلہ ‘ ( Samson and Delilah ) وہ پہلی فلم تھی جو میں نے سن 1960 ء میں دیکھی تھی ۔ یہ ایک ایسے طاقتور انسان کی کہانی ہے جس کی طاقت کا راز اس کے بالوں میں چھپا تھا جسے’ ڈیلائلہ‘ کی بے وفائی کی وجہ سے اپنے بالوں اور بینائی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ اس میں سیمسن کا کردار ’ وکٹر میچیور ‘ (Victor Mature) جبکہ ڈیلائلہ کا کردار ’ ہیڈی لیمار (Hedy Lamarr) نے ادا کیا تھا ۔ سیمسن اپنے بال بڑھ جانے پر اس مندر کو تباہ کر دیتا ہے جس میں اس مملکت کی عام آبادی اور حاکم بتوں کی پوجا کرتے ہیں ۔ اس فلم میں سیمسن اور شیر کی لڑائی کا ایک طویل منظر بھی ہے جس میں سیمسن شیر کو بنا کسی ہتھیار کے گلا گھونٹ کر مار دیتا ہے ۔ میرے والد نے مجھے یہ بتایا تھا کہ سیمسن ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمروں میں سے ایک تھا اور اس کا ذکر مسیحوں کی مقدس کتاب انجیل میں موجود ہے ۔ ( ’ سیمسن اینڈ ڈیلائلہ‘ 1949ء کی فلم ہے اور یہ پاکستان میں بہت بار سینماﺅں میں لگی اور اس نے ہر بار فلم بینوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا ۔ 1960 ء میں جب میں نے یہ فلم دیکھی تھی تب بھی یہ کئی ہفتوں تک ریگل سنیما میں لگی رہی تھی اور اس کے شو ’ہاﺅس فل‘ رہتے تھے ۔ پیراماﺅنٹ پکچرز کی یہ فلم لگ بھگ 3 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوئی تھی لیکن اس نے اپنے زمانے میں 25 ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا ۔ سیمسن شیر کو بنا کسی ہتھیار کے گلا گھونٹ کر مار دینا اس زمانے کی ’ تدوین ‘ کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے ۔ عبرانی ’دان‘ کونسا قبیلہ تھا ، سیمسن ’ ناظر‘ ( nazir ) کیوں تھا ، زمانہ عتیق کا فلسطین کیا معانی رکھتا ہے ، احاطُراور ساران کون تھے اور ڈےگون (Dagon) دیوتا اور اس کے مندر کی کیا ہمیت تھی ، انجیل میں اس قصے کی کیا اہمیت ہے ؟ یہ سب مجھے کافی بعد میں سمجھ آیا ) ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فلم کے علاوہ لاہور میں تفریح کے اور بھی ذرائع موجود تھے ۔ میلوں ٹھیلوں میں لوک قصوں پر مبنی ڈرامے دکھانے والے تھیئٹر بھی لگا کرتے تھے جن میں مرزا صاحباں ، ہیر رانجھا ، سوہنی مہینوال ، سسی پنوں جیسے قصوں کی ڈرامائی شکلیں پیش کی جاتی تھیں ۔ انہی میلوں میں ’موت کا کنواں ‘ اور ’ موت کا گولا ' جیسے پنڈال بھی سجتے تھے اور ہم لکڑی کے پھٹوں اور بالوں کے بنے موت کے کنویں یا لوہے کے جالی دار گولے میں ایک مرد ، ایک عورت اور ان کے ایک ایک شاگرد کو ’ پھٹ پھٹی‘ ( موٹرسائیکل) پر چکر لگاتے ہوئے دیکھا کرتے تھے ۔ یوں تو لاہورمیں کئی میلے لگا کرتے تھے لیکن ان میں اہم ترین دو ہوتے ہیں ؛ ایک داتا گنج بخش کے عرس کے موقع پرجبکہ دوسرا مادھو لال حسین کے عرس پرجو ’ میلہ چراغاں ‘ کے نام سے لگتا ہے۔ ان میلوں کا ایک لازمی جزو ’ سرکس ‘ بھی ہوا کرتی تھی جس کا بڑا اور اونچا تمبو دور سے ہی میلے میں آنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا تھا ۔ سرکس اس زمانے میں لاہور کی اس سالانہ صنعتی نمائش کا بھی اہم حصہ ہوا کرتی تھی جو ’ منٹو پارک ‘ ( جہاں اب مینار پاکستان ہے) میں لگا کرتی تھی ۔ ویسے تو دو تین مقامی سرکس کمپنیاں بھی تھیں لیکن غیر ملکی سرکس کمپنیوں میں سب سے مشہور ’ روسی‘ سرکس ہوا کرتی تھی ( اب ہمارے ہاں سرکس کا رواج قصہ پارینہ ہے اور لے دے کے ایک ہی سرکس’ لکی ایرانی ‘ کا نام سننے میں آتا ہے جو چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ہی اپنا پنڈال سجاتی ہے ) ۔
سرکس کا موضوع فلم کے میڈیم کے لئے اہم رہا ہے ۔ اُسی زمانے میں ''The Greatest Show On Earth ' نامی فلم لاہور میں لگی ۔ اس کی کہانی سرکس پر ہی تھی ۔ یہ فلم بھی سیسل بی ڈیملی کی ہدایتکاری میں بنی تھی اور میں اسی فلم کی وجہ سے چارلٹن ہیسٹن سے متعارف ہوا تھا ۔ چارلٹن ہیسٹن اس فلم میں ویسا ہی کردار ادا کر رہا تھا جیسا راج کپور کی فلم ’ میرا نام جوکر ‘ میں دھرمیندر نے ادا کیا ہے یعنی سرکس کے منیجر کا ؛ بریڈ بریڈن کی کہانی کے ساتھ سرکس کی سٹیج پر کیا ہوتا ہے اور اس کے بیک یارڈ میں کیا کیا گل کھلتے ہیں ۔ ایک بڑی سرکس کو چلانے میں اس کے منیجر کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب ’مفرور‘ سرکس میں جوکر یا ڈاکٹر کی شکل میں ملازمت اختیار کر لیں اور اسے ایف بی آئی جیسی ایجنسیوں کے ایجنٹوں سے بھی نپٹنا پڑے اور خود پر عاشق سرکس میں کام کرنے والی لڑکیوں کو بھی بھگتنا پڑے ۔ یہ سب اس فلم میں موجود تھا ۔ اس فلم نے لاہور میں کافی ہفتوں تک فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کئے رکھا تھا لیکن مجھے یہ فلم کچھ زیادہ پسند نہ آئی تھی ، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں کئی بار ’ لائیو‘ سرکس دیکھ چکا تھا ۔ ( سیسل بی ڈیملی نے ’ The Greatest Show On Earth‘ 1952 ء میں بنائی تھی ۔ یہ فلم بھی ’ سیمسن اینڈ ڈیلائلہ‘ کی طرح اُس کی ایک سپر ہٹ فلم تھی جس پر لاگت تو 4 ملین ڈالر کی آئی تھی لیکن اس نے 36 ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا ۔ )
اور پھر یوں ہوا ؛ لاہور شہر میں ہر طرف ’ بن حُر‘ کے پوسٹر اس طرح گلی گلی چسپاں ہوئے جیسے لاہور ایک انتخابی حلقہ ہو اور ’ جودھا بن حُر‘ اس سے انتخاب لڑ رہا ہو ۔ فلم بینوں کے درمیان اُس کی اُسی طرح بات ہونے لگی جیسے بھٹو جیسے کسی انتخاب لڑنے والے کا چرچا ہو ۔ ہوائی جہاز کے ذریعے ’ بن حُر‘ کی پرچیاں لاہور پر برسائی گئیں ۔ چھوٹے چھوٹے پہییوں والی ٹین کے بل بورڈ سجائے تکونی ہتھ ریڑھیاں بازاروں میں جا بجا نظر آنے لگیں ۔ ایڈوانس بکنگ شروع ہوئی تو پہلے چار پانچ ہفتوں کے لئے اپر سٹال ، گیلری اور بکس سب بُک ہو گئے ۔ اوڈین سنیما کو از سر نو رنگ و روغن کیا گیا ، اس کے ہال میں نششتوں کی مرمت اور پوشش بھی بدلی کی گئی ۔ لکشمی چوک سے منٹگمری روڈ والے چوک تک اس فلم کی جھنڈیاں یوں سجا دی گئیں تھیں جیسے عید میلادالنبی پر لاہور کے بازار سجا کرتے تھے ۔ میں نے اپنی ہوش میں کسی فلم کی اتنی بھرپور پبلسٹی پہلی بار دیکھی تھی ۔ اس سے قبل میں نے اگر کسی فلم کی قدرے غیر معمولی اشتہار بازی دیکھی تھی تو وہ فلم ’ Around the World in 80 Days ‘ کی تھی جس کے لئے ریگل سینما کے چلانے والوں نے فلم میں استعمال ہونے والے ’ اڑن غبارے ‘ جیسا ایک بہت بڑا غبارہ بنوایا تھا جس کے نیچے ٹوکری میں گڈے اور گڑیوں پر ویسا ہی میک اپ کیا گیا تھا جیسا فلم کے کرداروں ’ فلیز فوگ‘، ’ پیسی پارٹاﺅٹ ‘ اور ’ شہزادی اوآنڈا ‘ کا تھا ۔ یہ گیس بھرا غبارہ ریگل سینما کی چھت پر لگایا گیا تھا اور یہ دور دور سے سے نظر آتا تھا ۔
میرے والد نے کبھی ایڈوانس بکنگ کا سہارا نہیں لیا تھا اور نہ ہی وہ آغاز کے رش والے دنوں میں فلمیں دیکھنے کی عجلت کرتے تھے ۔ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے اور جب فلم کی ٹکٹیں باآسانی دستیاب ہوتیں تو وہ سینما کا رخ کرتے ۔ اردو/ ہندی اور پنجابی فلموں کی دفعہ بھی ان کی یہی عادت آڑے آتی جس پر ہماری والدہ اور بڑی بہنیں خاصی جُز بز ہوتیں تھیں ۔ میرا بھائی جو سب سے بڑا تھا اور بر سر روزگار تھا آزادانہ طور پر ہر دوسرے اتوار اپنے دوست جمیل کے ہمراہ فلم دیکھا کرتا تھا ۔ اسے نئی فلم دیکھنے کی جلدی ہوا کرتی تھی جس کے لئے وہ ایڈوانس بکنگ کرانے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا ۔
’ بن حر‘ لگنے والی تھی ، میں اسے جلد از جلد دیکھنے چاہتا تھا ۔ اپنے والد کی عادت کا مجھے پتہ تھا اس لئے مایوس تھا کہ میری خواہش پوری نہ ہو پائے گی ۔ جس جمعہ کو یہ فلم اوڈین سینما میں لگی ، جلتی پر تیل کا کام یہ ہوا کہ میرے والد نے مجھے ساتھ لیا اوردوپہر دو اڑھائی بجے اوڈین سینما پہنچ گئے ۔ عوام کا ایک ٹھاٹیں مارتا سمندر تھا جو سینما کے اندر باہر پھیلا ہوا تھا ۔ جن کو فرسٹ کلاس اور بارہ آنے والی ٹکٹیں مل گئیں وہ تو اندر ہال میں چلے گئے باقی وہیں اگلے شو پر پھر سے قسمت آزمائی کے لئے جمے رہے ۔ یہ ایک لمبی فلم تھی جس کے دن میں تین کی بجائے دو شو ہی ہوا کرنے تھے ہاں اتوار کو اس کے تین شو ہونا طے تھے۔ کھڑکی توڑ رش دکھا کرمیرے والد مجھے گھر واپس لے آئے ۔ اتوار میرے لئے ایک سرپرائز لے کر آئی دوپہر کا کھانا ختم ہوا تو میرے بھائی نے مجھے کہا ؛ '' بن حر دیکھنی ہے تو بوجی سے اجازت لے لو '' ، ہم اپنے والد کو ’ بوجی‘ کہا کرتے تھے ) ۔ وہ والد صاحب کے ڈر کی وجہ سے عام طور پر مجھے انگریزی فلم دکھانے کے لئے ساتھ نہیں لے کر جاتا تھا ۔ میری حالت دیدنی تھی ۔ میں نے والد اور والدہ کی طرف دیکھا ، وہ خاموش رہے۔ میں ان کی خاموشی کورضامندی جان کر اپنے کپڑے استری کرنے چلا گیا ۔ اڑھائی بجے بھائی کے دوست جمیل نے دروازے پر دستک دی اور ہم تینوں اوڈین سینما کے لئے نکل پڑے ۔ سینما سکوپ اور ٹیکنی کلر ’ بن حر‘ کی کہانی تو مجھے کچھ زیادہ سمجھ نہ آئی کیونکہ میرا بھائی اس فن سے ناواقف تھا جو میرے والد کو آتا تھا کہ سینما پہنچتے پہنچتے فلم کی پوری کہانی کا نقشہ دماغ میں سیٹ ہو جاتا تھا ۔ بہرحال رتھ کی دوڑ یں ضرور میرے ذہن میں رہیں جن میں سے ایک میں جودھا بن حر نہ صرف گورنر ’ گریٹس‘(Gratus) کو گھوڑے سے گرا دیتا ہے بلکہ دوسری میں’ میسالا ‘ (Messala) کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔ گھر واپسی پر رات سوتے سمے میرے والد نے مجھے اس فلم کی کہانی کے بارے میں کچھ چیدہ چیدہ باتیں بتائیں اور کہانی کا تعلق اس زمانے سے جوڑا جس میں حضرت یسوع مسیح حیات تھے ۔ مجھے صحیح طور پر تو یاد نہیں لیکن یہ فلم اوڈین میں غالباً گیارہ ہفتے تک لگی رہی اور بھرپور رش لیتی رہی تھی ۔ اس فلم کی وجہ سے میں ایک اور ہدایت کار ولیم وائلر اور اداکار سٹیفن بوائڈ سے واقف ہوا تھا ( بن حُر ’ Ben-Hur ‘ 1959 ء کی فلم ہے جس کا ہدایت کار ولیم وائلر تھا ۔ یہ امریکی فوجی جرنیل، وکیل و سیاستدان ادیب ’ لیو ویلس‘ کے 1880 ء کے ناول ’ Ben-Hur: A Tale of the Christ ‘ سے ماخوذ سکرپٹ پر بنائی گئی تھی جسے پہلے بھی 1907ء اور 1925 ء میں فلمایا گیا تھا ۔ یہ فلم 15 ملین ڈالر سے بنی تھی اور اس نے نہ صرف 150 ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا بلکہ 11 آسکرز حاصل کرکے ریکارڈ بھی قائم کیا تھا جن میں بہترین اداکار کا ایوارڈ چارلٹن ہیسٹن نے حاصل کیا تھا ۔ ’ لیو ویلس‘ کا ناول 2013 ء میں پھر فلمایا گیا لیکن یہ ایک اینیمیٹد فلم تھی ، 2016 میں اس پر پھر سے فلم بنائی گئی ہے جس میں ’ جیک ہسٹن نے جودھا بن حُر کا کردار ادا کیا ہے ۔ ولیم وائلر کی فلم ’ The Collector ‘1965 میں نے شاید 1970ء یا اس کے اوائل میں دیکھی تھی جو جان فاﺅلز کے اسی نام کے ناول سے ماخوذ تھی ۔ اس کی’ رومن ہالیڈے‘ 1953ء اور ’ ڈیٹکٹو سٹوری ‘ 1952ء میں نے بہت بعد میں وی ایچ ایس ٹیپ پر دیکھیں ۔ ولیم وائلر سولہ بار آسکر برائے بہترین ہدایت کار نامزد ہوا تھا لیکن اسے چار بار ہی یہ ایوارڈ جیت پایا تھا ۔ جولائی 1902ء میں پیدا ہوا یہ ہدایت کار 79 برس کی عمر میں جولائی کے مہینے میں ہی 1981ء میں فوت ہوا ۔ ولیم وائلر کے بارے میں چارلٹن ہیسٹن کا کہنا تھا ؛ ” وِلی وائلر کے ساتھ کام کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ’ ٹرکش باتھ ‘ لے رہے ہوں اور اس میں غرق کر دئیے جائیں لیکن جب آپ اس میں سے ابھریں گے توخود کو گلاب کے پھول جیسا لطیف محسوس کریں گے ۔ “ )
چارلٹن ہیسٹن کی اگلی فلم میں نے لاہور کے پلازہ سینما میں دیکھی۔ یہ ’ The Agony and the Ecstasy‘ تھی ۔ یہ پندرھویں/ سولہویں صدی کے مشہور مصور ومجسمہ ساز ’ مائیکل اینجلو‘ کی زندگی کے اس حصے پر مشتمل تھی ۔ اس کا سکرپٹ آرونگ سٹون کے اسی نام کے ناول سے ماخوذ تھا ۔ اس فلم میں ریکس ہیریسن نے پوپ ’ جولیس دوم ‘ کا کردار ادا کیا ہوا ہے جو مائیکل اینجلو کو ’ سسٹین چیپل‘ کی چھت مصور کرنے کے کام پر مامور کرتا ہے ۔ میرے لئے یہ فلم ایک طرح کا انکشاف تھا کہ اس گرجا گھر کی چھت کس مشکل سے موم بتیوں کی روشنی میں مصور کی گئی تھی اور پوپ کا رویہ اس عظیم مصور اور مجسمہ ساز کے ساتھ کتنا مخاصمانہ تھا جو اسے ہر وقت یہ احساس دلاتا رہتا تھا کہ وہ یہ کام مصور ’ رافیل‘ کو دے ڈالے گا ۔ اس فلم میں چارلٹن ہیسٹن کی اداکاری مجھے کچھ زیادہ اچھی نہ لگی تھی ( یہ فلم 1965 ء کی ہے اور اسے کیرل ریڈ نے ڈائریکٹ کیا تھا ۔ میں نے اس فلم کو ڈی وی ڈی پرجب دوبارہ دیکھا تب بھی میرا وہی تاثر برقرار رہا کہ چارلٹن ہیسٹن نے اس فلم میں اوور ایکٹنگ کی تھی) ۔
سن 1970ء کے اوائل میں اس کی فلم ' Planet of the Apess ' لاہور میں ریلیز ہوئی ۔ اب میں کالج میں پڑھتا تھا اور والد صاحب کے ساتھ فلمیں دیکھنے کی قید سے آزاد ہو چکا تھا لیکن میں اپنے والد کی تربیت کے زیر اثر تھا ؛ پہلے فلموں کے پوسٹرز تفصیل سے دیکھتا تھا ، اس کی سٹلز بھی غور سے دیکھتا ، عجلت نہ کرتا کہ جلد از جلد فلم دیکھ لی جائے اور عام طور پر آخری دنوں میں فلم دیکھتا ۔ ہال میں ایسی نششت چُنتا جس کے اردگرد اور آگے کی نششتیں خالی ہوتیں ۔ یہ فلم فرانسیسی ناول نگار ’پریری بول ‘ کے اسی نام کے ناول سے ماخوذ تھی ۔ سائنس فکشن کی کیٹیگری میں آنے والی اس فلم میں خلاءنورد جارج ٹیلر ( چارلٹن ہیسٹن) کا جہاز ایک انجان سیارے پر جا گرتا ہے جہاں انسانوں سے پہلے کی نسل ’ ایپ‘ بسی ہے ۔ یہ سحر فلم کے اختتام پر ٹوٹتا ہے جب ٹیلر خود کو آزاد کروا کر ساحل سمندر پر آتا ہے اور وہاں امریکی مجسمہ آزادی کے بکھرے ٹکڑے دیکھتا ہے تبھی اسے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ’ جوہری جنگ‘ کی وجہ سے زمین کی حالت اس جیسی ہے کہ انسان ختم ہو چکے ہیں اور اب وہاں ’ ایپس‘ کا راج ہے ۔ اس فلم میں امریکی اداکارہ ’ لنڈا ہیریسن ‘ چارلٹن ہیسٹن کے مد مقابل ’ نووا‘ کے نام سے ہیروئن تھی ۔ اس فلم کے سیکوئل میں چار فلمیں اور بھی آئی تھیں لیکن اس موضوع میں میری کوئی دلچسپی نہ تھی اس لئے میں نے انہیں نہ دیکھا ۔
چارلٹن ہیسٹن کی کچھ فلمیں میں نے بعد ازاں وی ایچ ایس ٹیپس اور ڈی وی ڈی پر بھی دیکھیں جن میں1961ء کی ’ ایل سِڈ‘ (El Cid) ، 1966ء کی ’ خرطوم‘ ( Khartoum) ، 1970ء کی’ جولیس سیزر‘ (Julius Caesar) قابل ذکر ہیں ۔ ’ ایل سڈ ‘ میں اس کے مد مقابل صوفیہ لارین تھی اور یہ فلم گیارویں صدی کے ہسپانوی سپہ سالار’ روڈریگو‘ کے بارے میں ہے جو ہسپانوی لوک ادب میں ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ’ خرطوم‘ مہدی سوڈانی کے بارے میں ہے جس کا کردار ’ لارنس اولیور‘ نے ادا کیا ہے جبکہ چارلٹن ہیسٹن نے برطانوی جنرل گورڈن کا کردار نبھایا ہے ۔’ جولیس سیزر‘ میں چارلٹن ہیسٹن نے مارک انتھونی کا کردار ادا کیا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ چارلٹن ہیسٹن نے اپنے فلمی کیرئیر میں تین فلموں میں مارک انتھونی کا کردار ادا کیا تھا ۔
یہ سن 1960/611 ء کی ہی بات ہے ؛ ریگل سینما لاہور میں ’ سالومن اینڈ شیبا ‘ اوراوڈین میں ’ بن حر‘ کی کامیاب نمائش کے بعد پیراماﺅنٹ پکچرز نے سیسل بی ڈیملی کی 1956 ء کی فلم ’ The Ten Commandments ‘ ریلیز کرنے کی ٹھانی ۔ اس کے لئے اوڈین سینما ہی منتخب کیا گیا ۔ یہ فلم حضرت موسیٰ کے بارے میں تھی ۔ مولویوں کے ڈر سے اس فلم کی کچھ زیادہ تشہیر نہ کی گئی اور ردعمل جاننے کے لئے اس فلم کا ایک پریمیئر شو اُس جمعہ کے دن سے دو روز پہلے منعقد کیا گیا جس سے اس فلم کو باقاعدہ ریلیز کیا جانا تھا ۔ فلم کا پریمیئر شو چلا لیکن اگلے روز کے اخباروں میں یہ خبر بھی جلی طور پر لگی کہ اوڈین سینما کو جلا دیا گیا ہے ۔ تفصیل میں یہ بات سامنے آئی کہ اس فلم میں حضرت موسیٰ سے خدا کی ہمکلامی دکھائی و سنائی گئی ہے اور خدا کی آواز کی نقل بھلا کوئی انسان کیسے کر سکتا ہے ۔ یہ فلم پھر کبھی پاکستانی سینماوٗں میں نہ پیش کی گئی ، میں نے یہ فلم بعد ازاں وی سی آر کا زمانہ آنے کے بعد وی ایچ ایس ٹیپ پر دیکھی ۔ اس فلم میں حضرت موسیٰ کا کردار چارلٹن ہیسٹن نے جبکہ فرعون ریمیسیس دوم کا کردار ’ یل برائنر ‘ نے ادا کیا تھا ۔ خدا کی آواز بھی چارلٹن ہیسٹن نے ہی ریکارڈ کروائی تھی ۔ 13 ملین ڈالر سے بنی اس فلم نے 120 ملین سے زائد کا بزنس کیا تھا ۔ یہ سات آسکرز کے لئے نامزد ہوئی تھی لیکن ’ خصوصی افیکٹس‘ کے لئے صرف ایک حاصل کر سکی تھی ۔
چارلٹن ہیسٹن اپنے فلمی کیرئیر کے ابتدائی دور میں جمہوریت پسند تھا اور 1972 ء تک ڈیموکریٹ امیدواروں کی حمایت کرتا رہا تھا ۔ وہ امریکہ میں نجی اسلحہ رکھنے کا بھی مخالف تھا ۔ وہ ویت نام جنگ کا بھی مخالف تھا لیکن پھر اس کی کایا پلٹ گئی وہ آرتھوڈوکس ’ ری پبلکنز‘ کا حامی ہو گیا اورنجی اسلحہ رکھنے کی حمایت میں بولنے لگا ۔ وہ حمل گرانے کے عمل کا بھی سخت مخالف رہا ۔ 1990–91ء کی گلف جنگ میں اس نے سی این این جیسے الیکٹرونک میڈیا کو یہ کہہ کر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ امریکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ 1990 کی دہائی کے آخری سالوں میں وہ کچھ ایسی ہی باتیں کرنے لگا تھا جیسی آج کل ڈونلڈ ٹرمپ کر رہا ہے ۔ 2003ء میں اس نے عراق جنگ میں امریکی حملے کی کھل کر حمایت کی تھی ۔
اسی سے زائد فلموں کام کرنے والا چارلٹن ہیسٹن 19900 کی دہائی کے وسط سے مختلف طبی مسائل کا شکار رہا اور عمر کے آخری حصے میں ’ Alzheimer ‘ کا شکار بھی ہوا ۔ وہ 84 برس کی عمر میں اپریل 2008ء کو نمونیہ کے کارن فوت ہوا ۔ اس کی میت کو جلایا گیا اور اس کی راکھ خاندان نے اپنے پاس محفوظ کر لی ۔
آج 20177ء میں جب میں اس پر یہ نوٹ لکھ رہا ہوں تو مجھے اس بات کا شدت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ’ سیمسن اینڈ ڈیلائلہ ‘ ،’ بن حُر‘ ، ’ایل سِڈ ‘ اور ’ دی ٹین کمانڈمنٹس ‘ جیسی شاندار تاریخی فلمیں اب شاید نہیں بن سکتیں کیونکہ نہ صرف دنیا کی عمومی سیاست اور اقوام عالم کا سماجی کلچر کچھ ایسا بدلا ہے کہ ایسے موضوعات پر فلم سازی کی گنجائش کم کم ہی رہ گئی ہے یا شاید کچھ ایسا بھی ہے کہ اب سیسل بی ڈیملی ، ولیم وائلر ، وکٹر میچیور ، یل برائنر اور چارلٹن ہیسٹن جیسے لوگ بھی نہیں رہے ہیں ۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔