یہ مچھر کے کاٹنے سے شروع ہوا تھا۔ ایک مچھر جو بازو پر بیٹھا، اپنا منہ گوشت میں گاڑا اور خون چوسنا شروع کیا۔ جب خون مچھر کی طرف جا رہا تھا تو دوسری سمت میں چند طفیلی کیڑے جا رہے تھے۔ یہ فلیریل نیماٹوڈ کے لاروے تھے۔ یہ خون میں تیرتے ہوئے اس شخص کی ٹانگوں اور دوسرے اعضاء تک جا پہنچے اور لمف نوڈ میں جگہ بنا لی۔ اگلے ایک سال میں یہ بڑے ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے ہزاروں نئے کیڑے روزانہ پیدا کرنا شروع کئے۔ اگر ڈاکٹر اس کا الٹراساوٗنڈ دیکھ لے تو اس کو کئی ملین ہلتے وورم نظر آ جائیں گے۔ لیکن کئی ملین کیڑے جسم میں ہونے کے باوجود اس شخص کو کوئی ایسی علامات نہیں جس سے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت محسوس ہو۔ لیکن یہ بدل جائے گا۔ جب یہ مرنا شروع ہوئے تو سوجن شروع ہو گئی۔ انہوں ننے لمف کا بہنا بھی روک دیا۔ ٹانگیں یا بازو یا دوسرے اعضاء پھولنا شروع ہو گئے۔ ران بڑھ کر اتنی بڑی ہو گئے جتنا کہ پیٹ تھا۔ یہ شخص اب کوئی کام نہیں کر سکتا۔ کھڑا ہونے میں دشواری ہے۔ اب تمام عمر یہ بیماری اور اس کے ساتھ معاشرے سے دھتکارے جانا قسمت بن گیا۔ یہ شخص تنزانیہ کا کسان ہو سکتا ہے، انڈونیشیا کا مچھیرا یا انڈیا کا چرواہا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اب وہ دنیا کے ان کئی ملین لوگوں کا حصہ ہے جو لمفاٹک فلارئیاسس کے مریض ہے۔ وہ بیماری جس کو ایلیفینٹیاسس بھی کہا جاتا ہے اور گرم مرطوب علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ تین قسم کے کیڑے اس کے قصوروار ہیں۔ ایک اور کیڑا جو اسی طریقے سے سیاہ مکھیوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ جسم پر ناقابلِ برداشت خارش اور آنکھوں میں بینائی چلی جانے کا باعث بنتا ہے اور اس کو “دریائی اندھاپن” کہا جاتا ہے۔
یہ دونوں بیماریاں، جنہیں ملا کر فلارئیاسس کہا جاتا ہے دنیا بھر میں عام ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ لوگ ان کا شکار ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ان کا کوئی علاج نہیں تھا۔ لارول کیڑوں کو کم رکھ کر علامات کو کنٹرول رکھنے کا طریقہ تو تھا لیکن بالغ کیڑوں کے خلاف کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ اور چونکہ ان بالغوں کی عمر نیماٹوڈ کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے اور کئی دہائیاں زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس لئے مریض کے پاس باقاعدہ علاج کرواتے رہ کر علامات کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کے سوا چارہ نہیں تھا۔
مارک ٹیلر، جو کہ ایک پیرسٹولوجسٹ ہیں، انہوں نے اس پر 1989 میں تحقیق شروع کی۔ ان کو حیرانی اس کی تھی کہ نیماٹوڈ کے جسم میں ہونے سے دوسری بیماریاں بھی ہیں لیکن کوئی بھی دوسری بیماری زیادہ تنگ نہں کرتی۔ اس میں ایسی خاص بات کیا ہے جو اس قدر سوجن کا باعث بنتی ہے۔ ان کو تحقیق کے دوران پتا لگا کہ اس کیڑے کو ایک اور جاندار کی مدد حاصل تھی۔ یہ مائیکروب وول باکیا ہے۔ دنیا میں پایا جانے والے سب سے عام بیکٹیریا۔ اس کیڑے کے اندر رہنے والا وول باکیا اپنے جینوم کا ایک تہائی حصہ کھو چکا تھا اور اپنے میزبان سے ہمیشہ کے لئے بندھ چکا تھا اور اسی کے اندر اپنی زندگی گزارتا تھا۔ جو یہ کیڑے مرتے ہیں تو یہ جراثیم مریض کے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ جراثیم انسانن کو تو بیمار نہیں کر سکتے لیکن ہمارا دفاعی نظام ان کی یلغار دیکھ کر حرکت میں آ جاتا ہے۔ اس کیڑے اور اس میں پائے جانے والے جراثیم کے خلاف برپا ہونے والی اس جنگ کا نتیجہ اس سوجن کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس میں بدقسمتی یہ کہ اگر کیڑوں کو مار دیا جائے تو معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ مرتے کیڑوں میں سے جراثیم دفاعی نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ تو پھر کیا کیا جائے؟
یہاں پر دلچسپ طریقہ ڈھونڈا گیا۔ کیوں نہ ان کیڑوں کو کچھ کہا ہی نہ جائے اور براہِ راست ان میں بسنے والے بیکٹیریا پر حملہ آور ہوا جائے۔ لیبارٹری میں کئے گئے ٹیسٹ میں ٹیلر اور ساتھوں نے معلوم کیا کہ اگر اس کیڑے میں بسنے والے جراثیم کو مار دیا جائے تو نہ صرف جراثیم ختم ہو جائیں گے بلکہ خود یہ کیڑا بھی۔ بالغ کیڑے مزید بچے پیدا کرنا بند کر دیں گے اور مرنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ عمل سست رفتار ہے اور اٹھارہ مہینے لیتا ہے لیکن سست موت بھی موت ہی ہے۔ اور مرنے والے کیڑوں کے جسموں میں آزاد ہونے والے بیکٹیریا نہیں ہوں گے تو یہ ایک صاف موت ہو گی۔
نوے کی دہائی میں ٹیلر اور ان کی ٹیم نے اس کی دوائی کے فیلڈ میں تجربات شروع کر دئے۔ فلارئیسس کے مریضوں کو ڈوکسی سائیکلین نامی اینٹی بائیوٹک دے کر۔ گھانا میں دیہاتوں میں دریائی اندھے پن کے مریضوں کو اور تنزانیہ میں لمفاٹک فلارئیسس کے مریضوں پر تجربہ کیا گیا، جس نے اچھے نتائج دئے۔ تین چوتھائی رضاکار اس سے صحت یاب ہو گئے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس بیماری کو ٹھیک کرنے کا اس سے پہلے کوئی طریقہ ہی نہیں تھا۔
لیکن ڈوکسی سائیکلین کوئی جادوئی دوا نہیں۔ بچوں کے لئے نہیں، حاملہ خواتین استعمال نہیں کر سکتیں۔ چونکہ ہفتوں تک دوا لینا ہوتی ہے تو کئی مریض درمیان میں علاج چھوڑ دیتے ہیں۔ کئی “متبادل” طریقہ علاج کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اگر ڈوکسی سائیکلین اچھا ہتھیار ہے لیکن ٹیلر کا خیال ہے کہ ہمیں مزید بہتر کام کرنا ہے۔
اس کے لئے انہوں نے 2007 میں ایک بین الاقوامی ٹیم بنائی جس کا نام اینٹی وول باکیا کنسورشیم تھا۔ اس کو بل گیٹس کی فاوٗنڈیشن نے 23 ملین ڈالر دے کر فنڈ کیا ہے۔ اس کا مشن بہتر دوا بنانا ہے۔ ہزاروں کیمیکلز پر تجربات کر کے ان کو ایک اچھا کیمیکل ہاتھ آیا جو مینوسائیکلین ہے، جس کے اپنے مسائل بھی ہیں۔ یہ زیادہ موثر ہے لیکن کئی گنا زیادہ مہنگا بھی۔ اس کے بعد سے یہ ٹیم ساٹھ ہزار کیمیکلز پر تجربات کر چکی ہے اور ان میں سے چند درجن امیدواروں کا انتخاب کر چکی ہے جن پر مزید تجربات کئے جائیں گے۔
اس سب کے دوران ٹیلر کی ٹیم نے ایک اور اچھوتے خیال پر کام کرنا شروع کیا ہے۔ اس کیڑے اور اس جراثیم کی آپس میں پارٹنرشپ آسان نہیں۔ ٹیلر کو پتا لگا کہ اگر اس کیڑے کے اپنے جسم میں وول باکیا کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے تو کیڑے کا اپنا مدافعتی نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ وہ ان کو حملہ آور سمجھ کر ان کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ یہ جنگ ان دونوں کو مار دیتی ہے۔ کیا ان کی آپس میں اس کشیدگی کو کھلی جنگ میں بدلا جا سکتا ہے؟ ان جراثیم کو مارنے کا سسٹم تو خود ان کیڑوں میں ہی ہے۔ کیا اس کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ان کی باہمی جنگ کروا کر ان دونوں کا صفایا کروا دیا جائے۔ اس وقت یہ ٹیم اس پر بھی کام کر رہی ہے اور یہ اہم کام ہے۔ اگر ٹیلر کی ٹیم اس میں کامیاب ہو گئی اور ان جانداروں کی آپس میں دس کروڑ سال پرانی پارنٹرشپ کو توڑ دیا اور ان دونوں کی طلاق کروا کر ان دونوں کو کامیابی سے ختم کر دیا تو یہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی ان کی زندگی لوٹا دینے کرنے کا سوال ہے۔
اس امید پر اور اس عزم کے ساتھ کہ مچھر کے کاٹنے سے شروع ہونے والا یہ چکر زندگیاں نہ نگلتا رہے، یہ ٹیم اس بیماری کے خلاف اپنی جنگ کر رہی ہے۔