لاہور کے عوام اگر شعور سے محروم ہوتے تو حکومتی امیدوار کو ڈیڑھ لاکھ یا سوا لاکھ ووٹ ملتے!
اس میں کیا شک ہے کہ شریف برادران کی حکومت نے لاہور شہر کو خوبصورت بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اسے آرام دہ بھی بنا دیا ہے۔ آدھے سے زیادہ شہر سگنل فری ہو گیا ہے۔ پلوں، انڈرپاسوں اور معیاری شاہرائوں کا جال بچھ گیا ہے۔ ابھی بہت کچھ ہو رہا ہے جو پایہ تکمیل کو پہنچا تو شہر کی حالت اور بھی بدل جائے گی!یہ خدمت کئی عشروں سے ہو رہی ہے۔ سالہا سال کی ریاضت ہے جو جاری ہے۔ مگر اہل لاہور کو تحفظات ہیں۔ لاہور کے تعلیم یافتہ طبقات کے ذہنوں میں اعتراضات ہیں۔ وہ موم کے پتلے نہیں۔ وہ جنوبی پنجاب کے مزارع ہیں نہ اندرون سندھ کے ہاری! اہل لاہور اہل لاہور ہیں! وہ ہر بات پر آمنّا و صدّقنا نہیں کہتے۔ اگر ایسا ہوتا تو نتیجہ وہ نہ ہوتا جو نکلا ہے۔
پاکستانی عوام عام طور پر اور لاہور کے لوگ خاص طور پر۔ آمریت کی کس شکل کو نہیں مانتے نہ ہی فریب کھانے کے لئے تیار ہیں! جنرل ضیاء الحق ٹیلی ویژن پر آ کر غریبوں کے غم میں روہانسے ہو گئے تھے۔ اسلام بظاہر ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ سائیکل پر سوار ہو کر دکھایا، نمازیں پڑھیں، پڑھوائیں، سیاست دانوں اور نوکر شاہی دونوں نے انگریزی سوٹ کوٹھریوں کے اندر پھینک دیئے اور واسکٹیں زیب تن کر لیں، سب کچھ ہوا مگر جنرل صاحب اپنے جانے کی بات نہیں کرتے تھے۔ الٹا اعلان کر دیا(وزارت خزانہ میں ایک اجلاس کی صدارت فرما رہے تھے) کہ میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں! بس یہ بات لوگوں کو ناپسند تھی۔ پاکستانیوں کا مزاج ایران یا مشرق وسطیٰ کے عوام سے یکسر مختلف ہے یہ ملک جمہوریت کی بنیاد سے اٹھا۔ آمریت عسکری ہو یا خاندانی، اس کے لئے قابل قبول نہیں!
مسلم لیگ نون کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی محبت لاہور کے لئے بجا! وزیر اعظم کے عہدِ اقتدار کا حساب کیا جائے تو نصف سے زیادہ کیا عجب لاہور میں گزرا ہو۔ افسر شاہی میں بھی لاہور گروپ کا نام ہی بار بار سننے میں آتا ہے مگر لگتا ہے خاندانی اثر و رسوخ اہل لاہور نے پسند نہیں کیا۔ لاہوریوں کو خدمت کے پردے میں ایک خاندان کی اجارہ داری منظور نہیں! بہتر ہزار ووٹ جو مسلم لیگ نون کو نہیں پڑے، معمولی تعداد نہیں! یہ بہتر ہزار بھی تو پلوں، انڈر پاسوں، شاہراہوں اور نئی نویلی بسوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وفاقی اسمبلی کے رکن حمزہ شہباز کس اعتبار سے ہر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے نظر آتے ہیں؟ ان کے پاس پنجاب حکومت کا عہدہ ہے نہ پارٹی کا۔ بطور پارٹی لیڈر کیا ان عمر رسیدہ رہنمائوں کا مقام اس نوجوان سے بلند تر نہیں جنہوں نے ساری عمر سیاست میں اور پارٹی کی خدمت میں گزار دی! کیا اہل لاہور چپ چاپ ان کے ہاتھ پر اس لئے بیعت کر لیں کہ وہ حاکم اعلیٰ کے فرزند ہیں؟
اہل لاہور کو یقینا اس طرز حکومت پر بھی اعتراض ہو گا کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ وفاق کے ہر معاملے میں دخل انداز ہیں! کبھی وہ غیر ملکی دورے کرتے ہیں جیسے وزیر خارجہ ہوں! کبھی چین کی بنوائی ہوئی تجارتی راہداری کے انچارج نظر آتے ہیں جیسے وزیر تجارت ہوں اور کبھی توانائی کے وفاقی وزیر کے فرائض سرانجام دیتے نظر آتے ہیں! یہ اسلوبِ حکومت لاہور کے پڑھے لکھے عوام کے دلوں میں جگہ نہ بنا سکا! اسے اتفاق کہیے یا بدقسمتی کہ لاہور میں رہنے والے لوگ سارے کے سارے ڈار ،خواجہ ،وائیں یا وانی نہیں! لاہور پورے صوبے کی کیا، پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ لاہور کو منی پاکستان کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا! اس میں پشاور اور گلگت سے لے کر کوئٹہ اور کراچی تک کے لوگ رہتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح لاہوری ہیں جیسے کوئی بھی لاہوری ہو سکتا ہے! وہ اپنے شہر سے محبت کرتے ہیں! لیکن وہ چاہتے ہیں کہ حکمران اپنے آپ کو ایک شہر کا، ایک شہر کے ایک حصے کا، ایک برادری کا نمائندہ نہ سمجھیں۔ اپنے ذہن کو فراخی دیں۔ تنگ حصار سے باہر نکلیں اور حکومت کو خاندانی معاملہ نہ قرار دیں!
اس الیکشن کے نتیجہ سے مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں کو اپنے اپنے سبق اخذ کرنے چاہئیں۔ دونوں کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ وہ جو فراز نے کہا تھا: تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا! دونوں جماعتیں انسانوں پر مشتمل ہیں، دونوں خوبیوں اور خامیوں سے بنی ہیں۔ مسلم لیگ اور حکومت پر تو اعتراضات ہر کوئی کرتا ہے اور کر رہا ہے، عمران خان کے نوجوان فدائیوں کو بھی بہت کچھ سوچنے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اب تو اس حقیقت پر کم و بیش میڈیا کا اجماع ہو چکا کہ خان صاحب جوش اختلاف میں توازن کا دامن چھوڑ دیتے ہیں!
پوپ کو ایک بار غصہ آیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ اٹلی میں رہنے والے مسلمان یا تو عیسائیت قبول کر لیں یا اٹلی سے نکل جائیں! مسلمانوں نے بھی جوابی سرگرمی دکھائی اور مقابلہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ بالآخر طے ہوا کہ پوپ مسلمانوں کے نمائندے سے مناظرہ کرے گا۔ مسلمانوں نے میٹنگ بلائی اور خوب سوچ سمجھ کر ایک مفتی صاحب کو مناظرے کے لئے منتخب کیا۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ پوپ کو عربی زبان نہیں آتی تھی اور مفتی صاحب انگریزی اور اطالوی سے نابلد تھے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ مناظرہ اشاروں کی زبان میں ہو گا۔ مقررہ وقت پر مناظرہ شروع ہوا۔ پوپ اور مفتی صاحب آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ پوپ نے ہاتھ اٹھایا اور فضا میں تین انگلیاں لہرائیں۔ مفتی صاحب نے مجمع پر ایک نظر ڈالی اور فضا میں انگشت شہادت بلند کی۔ اس کے بعد پوپ نے اپنی انگلی اپنے سر کے ارد گرد گھمائی۔ مفتی صاحب نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پوپ نے ایک بسکٹ اور شراب کا ساغر نکالا۔ مفتی صاحب نے اپنے بیگ میں سے سیب نکال لیا۔ اس پر پوپ ہاتھ جھاڑتا اٹھا اور اعلان کیا کہ مسلمانوں کے مفتی صاحب مناظرہ جیت گئے ہیں۔ وہ ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ مسلمان اٹلی میں جہاں چاہیں رہیں! دونوں طرف کے تماشائیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ پوپ کے ساتھیوں نے تفصیل پوچھی۔ پوپ نے بتایا کہ میں نے تین انگلیاں لہرا کرتثلیث(تین خدائوں کے عقیدہ) کا اعلان کیا۔ مسلمانوں کے مفتی نے جواب میں انگشتِ شہادت دکھائی جس کا مطلب تھا کہ خدا ایک اور وحدہُ لا شریک ہے! پھر میں نے انگلی سر کے گرد گھما کر بتایا کہ خدا ہمارے ہر طرف موجود ہے۔ مفتی صاحب نے زمین کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں ہمارے ساتھ بھی موجود ہے۔ پھر میں نے بسکٹ اور شراب دکھائے جس کا مطلب تھا کہ خدا نے ہمارے سارے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔ اس پر مفتی صاحب نے سیب نکالا جس کا مطلب تھا کہ آدم سے گناہ سرزد ہوا تھا۔ مفتی نے میری ہر دلیل کا ایسا جچا تلا ٹھوک بجا کر جواب دیا کہ میں تو عاجز آ گیا اور اپنی شکست تسلیم کر لی۔
دوسری طرف مسلمانوں نے مفتی صاحب سے روداد پوچھی۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کیا ہوا اور ہم کیسے فتح مند ہوئے۔ اس نے فضا میں تین انگلیاں لہرائیں جس کا مطلب تھا کہ مسلمان تین دنوں کے اندر اندر اٹلی چھوڑ دیں۔ میں نے ایک انگلی دکھائی کہ ایک مسلمان بھی یہاں سے نہیں جانے والا۔ پھر اس نے اپنے سر کے گرد انگلی گھما کر بتایا کہ ملک مسلمانوں سے خالی کرا لیا جائے گا۔ میں نے زمین کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہم یہیں ٹھہریں گے اور یہیں رہیں گے۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ایک مسلمان نے بے تابی سے پوچھا۔ ’’پھر اس نے اپنا کھانا نکالا جواب میں میں نے بھی اپنا لنچ نکال لیا۔
مسلم لیگ او رتحریک انصاف والے لاہور کے ضمنی الیکشن سے کیا کیا سبق حاصل کرتے ہیں، اس کا انحصار ان کی سمجھ بوجھ پر ہے! اکبر الٰہ آبادی نے اسی نکتے کو ایک اور پیرائے میں بیان کیا ؎
کہا فرعون نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست
فکرِ ہرکس بقدرِ ہمتِ اوست
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“