برٹش نے سکھوں کو جب 1849 میں بالآخر شکست دے کر پنجاب کا بڑا حصہ قابو کر لیا تو ان کے پاس جنوبی ایشیا میں کوئی مقابلہ نہیں بچا تھا۔ تمام عسکری حریفوں کو مات دے دی گئی تھی۔ بنگال میں سراج الدولہ کو 1757 میں، فرانسیسیوں کو 1761 میں، میسور کے ٹیپو سلطان کو 1799 میں۔ مرہٹوں کو 1803 میں اور پھر 1819 میں شکستِ فاش دی گئی۔
ان عسکری فتوحات نے تکبر کو جنم دیا تھا۔ پہلی بار یہ تاثر بننے لگا تھا کہ ٹیکنالوجی، معیشت، سیاست اور کلچر میں برٹش کے پاس ہندوستان سے سیکھنے کو کچھ نہیں، سکھانے کو بہت کچھ ہے۔ یہ گفتگو اب ہونے لگی تھی کہ انگریزوں کا فرض ہے کہ ان نیم تہذیب یافتہ جاہل لوگوں کو مہذب بنائیں۔ یہ وہ وقت تھا جب میکالے نے کہا تھا کہ “ یورپ کی اچھی لائبریری کی ایک شیلف انڈیا اور عرب کے پورے لٹریچر پر بھاری ہے۔ سنسکرت میں لکھی گئی بہترین کتابیں برطانیہ میں پرائمری سکول کی کتاب کے مقابلے کی نہیں۔ جس طرح روس کو مہذب بنایا گیا ہے، ویسے ہندوستانی کو بھی بنایا جا سکتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان سینکڑوں زبانوں کا علاقہ تھا۔ ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہ کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ اس مسئلے کا حل مغلوں نے فارسی سے نکالا تھا۔ مغرب سے آنے والی یہ زبان ہندوستان کو جوڑنے کی زبان تھی اور ہندوستان میں پڑھائی جاتی تھی۔ یہ عوامی زبان نہیں تھی بلکہ اعلٰی تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان سمجھی جاتی تھی جو پنجاب سے بنگال تک استعمال ہوتی تھی۔ ادیب، شعراء، دانشور، علماء اس کا استعمال کرتے تھے اور یہ ہندوستان کی سرکاری زبان تھی۔
نئے آنے والے نئی زبان بھی لائے۔ 1837 میں فارسی کو ختم کر کے انگریزی کو سرکاری زبان بنا دیا گیا۔ برٹش انڈیا پر برٹش مزاج، روایات اوراقدار کے مطابق حکومت ہونا تھی۔ پچھلے آنے والوں کی زبان فارسی کا وقت ختم ہوا جو رفتہ رفتہ مٹ گئی۔ اس کی جگہ انگریزی نے لے لی جو ہندوستان کو اکٹھا رکھنے والی اور کاروبارِ حکومت چلانے والی زبان بن گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب “گورے مغل” ہمیں کم ہوتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں بیبیاں (انگریزوں کی مقامی بیویاں) کم ہوتی نظر آتی ہیں جو 1850 کے بعد تقریباً غائب ہو گئیں۔ اس کی وجہ کلچرل دوری تھی اور برٹش کا کلچرل برتری کا احساس تھا۔ ہندوستانی خاتون سے شادی کرنا اب کسی کو اپنے رفقاء میں مذاق بنوا دیتا تھا۔ ہندوستانی پاجامہ اب انگریزوں کے لئے شب خوابی کا لباس رہ گیا جسکو گھر سے باہر پہننے پر شرمندگی محسوس کی جاتی تھی۔ پگڑی اور بڑی مونچھیں ترک کر دی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیننگز کی تبلیغ جاری تھی اور 1852 میں انہیں دو اہم کامیابیاں ہوئیں۔ ایک ڈاکٹر چمن لال تھے جو بہادر شاہ ظفر کے ذاتی معالج تھے اور دوسرا ان کے دوست ماسٹر رام چندرا جو ماہر ریاضی دان تھے دہلی کالج میں پڑھاتے تھے۔ جیننگز نے بڑی عوامی تقریب منعقد کی جس میں یہ تبدیلی مذہب سب کے سامنے نمایاں دکھائی گئی۔ اس طریقے سے یہ بپتسمہ مقامی آبادی کے لئے خدشات کا باعث تھا۔ کئی معززین نے اپنے بچوں کو دہلی کالج سے اٹھا لیا۔ پرو برٹش علماء بھی اب خدشات کا شکار ہونے لگے۔ دہلی کے صدر الصدور (مفتی اعظم) مفتی صدرالدین آزردہ، جنہوں نے تیس سال تک مغل اور برٹش تعلقات مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اب اس نئے برٹش رویے سے نالاں تھے۔
کمبھ میلے میں شرکت کرنے والے سادھووٗں کو چیخ چیخ کر تبلیغ کرنا اور انہیں بتایا کہ وہ کیوں گمراہ ہیں۔۔۔ جیننگز کے یہ طریقے ہندوستانی مزاج سے میل نہیں کھاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہادر شاہ ظفر کا تعلق چشتیہ صوفی سلسلے سے تھا اور صوفی خانقاہوں اور مزارات پر آنا جانا رہتا تھا۔ ظفر خود کو صوفی پیر کہتے تھے اور مریدوں کو قبول کرتے تھے۔ دہلی اردو اخبار نے انہیں ایک جگہ پر “زمانے کا سب سے بڑا صوفی” بھی لکھا۔ دربار میں پیروں کا بھی آنا جانا رہتا تھا اور بادشاہ کو علاج کے لئے تعویذوں پر اعتقاد تھا۔
لیکن بہادر شاہ ظفر کے کردار کا ایک اور پہلو بھی تھا جو ان کی شاعری میں نظر آتا ہے اور یہ گہری صوفی شاعری اور تصورِ فنا ہے۔ مرزا غالب کو لکھے گئے ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ “علماء کا فقہی موشگافیوں تک محدود رہنا اور حیض و نفاس جیسے مسائل میں الجھے رہنا، اصل روحانیت کو دبا دیتا ہے۔ خدا تک پہنچنے کا راستہ کچھ اور ہے۔ یہ صوفی طریقہ سیکھنے میں ہے”۔
بہادر شاہ ظفر انتہاپسندی سے معاملہ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور مذہبی حساسیت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “مغل مسلمان اور ہندو آبادی کے مسلمان بادشاہ ہیں”۔ انکے قلعے میں ہولی بھی منائی جاتی تھی جس میں بادشاہ خود رنگ پھینکتے تھے۔ ہندو تہواروں پر محل کے ہندو افسران کو تحائف دیتے تھے اور دیوالی پر اپنے وزن کے برابر سامان خیرات کرتے تھے۔ ایک بار دہلی کے دو سو مسلمانوں نے ان سے استدعا کی کہ انہیں عیدالاضحٰی پر گائے کی قربانی کی اجازت دی جائے تو انہیں ڈانٹ دیا گیا، “اسلام میں قربانی صرف گائے کی ہی کرنا فرض نہیں۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانا آپ کا فرض اور ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ اور خاص طور پر اس وقت، جب آپ تعداد میں زیادہ ہوں اور پوزیشن میں طاقتور”۔
انیسویں صدی میں وقت کے ساتھ آرتھوڈوکس نظریات میں شدت آتی گئی۔ بہادر شاہ ظفر کا طریقہ تنقید کی زد میں آتا گیا۔ جس طرح برٹش مذہبی شدت پسند طاقت پکڑ رہے تھے، ویسے ہی مسلمان بھی۔ دونوں ایک دوسرے کو مضبوط تر کر رہے تھے اور دونوں کے آپس میں تصادم کے لئے راہ ہموار ہو رہی تھی۔
بادشاہ کے ایک بڑے نقاد سید احمد بریلوی تھے، جنہوں نے موجودہ خیبر پختونخواہ کے علاقے میں سکھوں اور برٹش سے جہاد شروع کیا تھا، جس میں ناکام رہے تھے۔ سکھوں اور افغانوں کی جنگیں ہوتی رہی تھیں اور دونوں کے درمیان علاقے ہاتھ بدلتے رہے تھے۔ سید احمد بریلی نے افغان مدد پر انحصار کیا تھا لیکن افغانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ سکھوں سے شکست کے بعد ان کی وفات 1831 میں ہوئی۔ان کے مجاہدین کے نیٹورک پشاور، انبالہ، دہلی اور پٹنہ تک پہنچ گیا تھا۔ ایک دوسری فکر شاہ ولی اللہ سے شروع ہوئی تھی جو صوفی طریقت کے خلاف تھی۔ ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز مفتی تھے (یہ دہلی کے کمشنر ولیم فریزر کے دوست اور ان کے استاد بھی تھے) اور پنجاب کے تاجروں پر انکا زیادہ اثر تھا۔
جیننگز کے طرز کی مذہبی شدت پسندی اور برٹش امپیریل ازم کے ردِعمل نے ان تحریکوں کو مضبوط کیا۔ آنے والے وقتوں میں ہر طرف کے انتہا پسند ایک دوسرے کے لئے تقویت کا باعث بنتے رہے۔