کسی معاشرے کی تقدیر کو جاننے کے لیے اس طریقِ کار کو جاننا چاہیے جو وہ معاشرہ
اپنے ادیبوں ،شاعروں، فنکاروں اور دانش وروں کے باب میں اختیار کرے کہ یہی لوگ
معاشرے کی ذہنی زندگی کے نمائندہ ہوتے ہیں اور یہی اس کے خالق ۔ ذہنی زندگی جوافراد
کے ذہنوں سے مرکب ہو کر ایک منفرد ذہن کی حیثیت حاصل کرے ۔ آپ اسے معاشرے
کا”عقلی مزاج“ کہہ لیجیے۔
کوئی معاشرہ اپنے عقلی مزاج کے بغیر متعین اور مستحکم حیثیت حاصل نہیں کر سکتا۔ عقلی مزاج ہی معاشرے کو مختلف حیثیتوں سے استحکام اور امتیاز بخشتا ہے۔ جس معاشرے کا کوئی عقلی مزاج نہ ہو، اسے صیح ترین معنی میں ایک مکمل ومنظّم معاشرے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
ظاہر ہے کہ کسی معاشرے کا عقلی مزاج دفتروں ، دکانوں ، صنعت گاہوں ، عدالتوں ،
ہوٹلوں اور رقص گاہوں میں نہیں ، دانش وفن کی خانقاہوں میں جنم لیتا ہے ۔ چناں چہ معاشرے کی تقدیر دراصل معاشرے سے تعلق رکھنے والے فنکاروں اور دانش وروں سے وابستہ ہوتی ہے نہ کہ تاجروں ، وکیلوں ، کار پردازوں اور انجینئروں سے ۔ معاشرے کا عقلی مزاج اعلٰی مثالیوں کے شعور ، جمالیاتی صداقتوں کے احساس اور بعض اقدار کے احترام سے قوام حاصل کرتا ہے ۔اگر کوئی یہ کہے کہ اعلیٰ مثالیوں اور جمالیاتی صداقتوں کا وجود محض اوہام تراشی پرمبنی ہے تو ہم اس بات کو قبول کر لیں گے لیکن خود زندگی بھی کوئی صداقتِ ثابتہ نہیں جس سے انکار نہ کیا جا سکے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ زندگی خواہ جیسی بھی ہو، اپنے استحکام اور ارتقا کے لیے بعض اعلٰی مثالیوں کے شعور اور جمالیاتی صداقتوں کے ادراک کی محتاج ہے خواہ یہ
مثالیے اور صداقتیں محض اوہام ہی کیوں نہ ہوں ۔
روسی ادیب پیسٹر ناک نے سچ کہا ہے کہ:
” بہت عرصے سے انسان کو جو سر بلندی حاصل ہے، اس کا سبب اوزار نہیں بل کہ کچھ اور چیزیں ہیں یعنی اس کی روحانی موسیقی، مسلم صداقتوں کی نا قابلِ مقاومت طاقت اور اعلی مثالیوں سے اس کا شغف۔“
روحانی موسیقی ،مسلم صداقتیں اور مثال طلبی ہی دراصل معاشرے کی اپنی زندگی سے عبارت ہیں اور انھیں کے ذریعے کسی جماعت کا عقلی مزاج مرتب ہوتا ہے ۔ گہواروں میں پرورش پا کرشمشانوں میں جل جانے اور قبرستانوں میں دفن ہو جانے والی زندگی تاریخی اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ زندگی تو ذہن و روح کی زندگی ہے جو اپنے ساتھ قوموں اور قبیلوں کو زندہ رکھتی ہے اور جب وہ فنا ہو جاتی ہے تو قوموں اور قبیلوں کا معنوی وجود بھی ساتھ ہی ختم ہو جا تا ہے ۔
یونانیوں میں جب ان کی ذہنی زندگی نے جنم لیا تو یونان کو وہ ثبات و استحکام نصیب ہوا جس کی محرابِ عظمت و جلال میں صدیاں سر بہ سجود نظر آتی ہیں ۔ اس ذہنی زندگی کے صورت گر یونان کے حکام ، عدلیہ، اہلِ حرفہ کار پرداز اور زندگی کے عملی شعبوں سے تعلق رکھنے والے معاملہ دار افرادنہیں تھے بل کہ ایتھنز کی ہیکلوں کے وہ گلیم پوش دانش ور تھے جو اپنے گردوپیش سے بے خبر ہو کر خیر و جمال، نہایت ولا نہایت ، علّت و معلول اور حیات و کائنات کے بارے میں بحثیں کیا کرتے تھے اور جن کے بارے میں یونان کے معاملہ
داروں کا یہ خیال تھا کہ یہ لوگ پاگل ہیں اور فضول اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔ ہم جب یونان کا ذکر کرتے ہیں تو دراصل دو یونان کے دانش وروں اور تخلیقی ذہانت رکھنے والے فن کاروں کا ذکر ہوتا ہے جن کے ذہنوں سے یونان کی ذہنی زندگی نے جنم لیا تھا۔
ہومر ،سولن، تاسیس ملیٹی ،سقراط، افلاطون ، پروتاگورس اور ارسطو کے نام دراصل عظیم یونان کے عظیم ذہن کی علامتیں ہیں ۔
اسی طرح جب عرب اپنی ذہنی زندگی کی حرارت لے کر شاہراہِ تمدّن کی طرف نکلے تو نہ جانے کتنی محرابوں پر چراغاں کر گئے ۔ بغداد، قاہرہ، قرطبہ اور شیراز قصرِ تہذیب کی یہ شفق انگیز محرابیں آج تک تاریخِ تمدّن کا عنوانِ جمیل ہیں ۔ ان محرابوں کے روشن گر، محمودغزنوی ، صلاح الدین ایوبی ، اسماعیل صفوی اور سلاطینِ عثمانیہ نہیں تھے بل کہ ابنِ مسکویہ، فارابی ، ابنِ رشد ، ابنِ سینا ، طوسی ، ناصر خسرو، ابوالعلا ، خیام اور سعدی تھے جن کا ذکر اس تفصیل کا اجمال ہے جو فخروناز ،فرّوفروغ اور وقار و تمکنت کی فضاؤں میں بازو پھیلاتی ہے۔
ہم دیکھتے رہے ہیں کہ مدّتوں سے ہمارے شہروں میں دانش وفن سے معاندانہ بے گانگی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمیں چاروں طرف سے ایک ہجوم گھیرے ہوئے ہے۔ ایک ہجوم جو نہ سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ ہماری بستیوں میں ایک عجیب وغریب نسل پیدا ہوگئی ہے۔اس نسل کے پاس نہ حافظہ ہے اور نہ تخیّل جو ماضی کے قابل ہے اور نہ مستقبل کے شایان ۔اس کا مقدر یہ ہے کہ صرف حال میں معلّق رہے اس نسل کا وجود، بالکل غیر طبعی ہے۔
ان کے سامنے اگر علوم وفنون کا ذکر کیا جاۓ تو ان کے چہرے متغّیر ہو جاتے ہیں ۔
ان میں بعض ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ علوم وفنون کا ذائقہ کیا ہوتا ہے؟ ان کے خیال میں حقیقتیں صرف وہی ہیں جنھیں گزوں سے ناپا اور باٹوں سے تولا جا سکے۔ یہ لوگ ادب، فلسفہ اور شاعری کو عام زندگی کی اشیاۓ ضرورت اور اسبابِ تعیّشات کی نسبت سے جانچتے ہیں ۔ان کے گمان میں فلسفہ، ادب اور شاعری محض خسارے کا سودا اور بے کاری کا مشغلہ ہیں ۔ انھیں تو صرف عملی ضرورتوں سے سروکار ہے ۔ ان کے مصنفوں نے تفکر وتخیل کو ذہنی عیاشی سے تعبیر کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ تاریخ کی نظر میں خارش زدہ بھیٹر کی چھینک سے زیادہ ان لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ۔
جن کو ایک زندہ اور تاریخی قوم کی طرح زندگی گزارنا ہے جنھیں اپنی زندگی میں صدیوں کا رچاؤ پیدا کر کے صدیوں پر اثر انداز ہوتا ہے ان کو بہ ہر طور اپنا انداز نظر بدلنا پڑے گا اور فلسفہ، ادب،فنونِ لطیفہ اور ذہنی زندگی کے شاہ کاروں اور آفریدگاروں کے باب میں وہی موقف اختیار کرنا پڑے گا جو زندہ ، باشعور اور حسّاس قوموں کا موقف ہے ۔
کتاب: فرنود | انشائیے (اداریے) | جون ایلیا )
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...