اجو گائوں سے آیا، شہرمیں حسب گنجائش تعلیم حاصل کی اور ایک پرائیویٹ فرم میں چھوٹی موٹی نوکری کرلی۔ دفتری کام کاج، آفس بوائے سے لے کر کلرکی، سٹور انچارج سمیت کئی عہدوں پر مشتمل تھا جو اسے اکیلے ہی کرنا پڑتا۔
ماں باپ کبھی کے اللہ کو پیارے ہوچکے، بہن بھائی جیسی نعمتوں سے ناآشنا،اکیلی تنہا زندگی اور خوابوں کے رنگ برنگ جزیرے، پاس پڑوس میں اچھی سلام دعا تھی۔اکیلے بندے کا خرچہ ہی کیا ہوتا ہے۔ سو تھوڑا بہت آس پاس کے لوگوں پر بھی خرچ کردیتا تھا۔ اسی وجہ سے محلے میں شہرت تھی۔ نیک نامی کا پھل سمجھئے، سکینہ اس کی زندگی اور گھر میں آگئی۔
اجو گائوں میں پلا بڑھا۔ قد کاٹھ ، نین نقش ، رنگت،کسی طرح سے مار نہیں کھاتا تھا جبکہ سکینہ ہر طرح سے اس کی ضد،گہری سانولی رنگت،چھوٹا قد، کھردرے بال، مگر اجو نے خوش دلی کے ساتھ نبھایا۔وہ جہاں جاتے ، لوگ رک رک کر اس بے جوڑ کوحیرت سے دیکھتے ۔
اجو کو لگتا ہر کوئی اس کی دلہن پر نظریں جمائے ہوئے ہے، خاص طور پر فیکا قصائی۔اس کی دزدیدہ نگاہیں۔۔۔ اجو کا دل کرتا کہ پھٹے سے بگدا اٹھا ئے اور فیکے کی بوٹی بوٹی کردے مگر ایسا وہ صرف سوچ سکتا تھا، اس لئے دانت پیستے ہوئے تیزی سے سکینہ کو لے کر آگے بڑھ جاتا۔ اکثر بازار سے گھر جاتے ہوئے وہ راستہ ہی بدل لیتاتھا۔
آتی سردیوں کی ایک رات وہ برآمدے میں بستر لگائے سکینہ سے اٹھکیلیاں کررہا تھا ۔ ایک دوسرے کی بانہوں میں پھسلتے ہوئے کب نیند کی آغوش میں جاسویا ، پتہ ہی نہ چلا۔
بچپن سے خوابوں کی دنیا میں پناہ لینے والا اجو ، اس رات جو اپنی دل پسند وادیوں میں اترا تو وہاں کارنگ ہی بدل چکا تھا۔
پھولوں اور پھلوں سے لدے باغات کی بجائے سفید، کالے رنگ کے بکروں کی فصل اگی ہوئی تھی اور سکینہ کی جگہ فیکا قصائی اس کا ہم نشین تھا۔فیکے کے دونوں ہاتھوں میں تیز دھار کٹاریاں تھیں ۔
لمبی اور نوکیلی چھریاں۔
اس کے دونوں ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے اور دونوں طرف سے کالے اور سفید بکرے ایسے کٹ کٹ کر گر رہے تھے جیسے گند م کی فصل میں تھریشر چل رہا ہو۔
خون کے ابلتے فواروں سے اس کا سارا خواب لہو لہو ہوگیا۔
اجو غصے سے چیخ رہا تھا۔
فیکے ۔۔ ! تم میرے خواب میں کیا کررہے ہو۔ دفع ہوجائو، جا کر اپنے پھٹے پر اپنا قصائی پن دکھائو۔
یہاں میری خوب صورت خوابوں سے بھری وادیوں کو خون آلود مت کرو۔
جائو فوراً یہاں سے چلے جائو
وہ دھاڑتا رہامگر فیکا ٹس سے مس نہ ہوا ۔
اجو نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا اور جھنجھوڑنے لگا۔
فیکے نے اس کی طرف دیکھا اور پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا۔
اجو ! کیا تم پاگل ہوگئے ہو۔ میں تمہارے خواب میں نہیں آیا۔
میں اپنا خواب دیکھ رہا ہوں۔
دیکھو، کالے ،سفید بکروں کی صحت مند اور جوان نسل،
کیا زبردست نظارہ ہے۔
تم یہاں کیا کررہے ہو۔
نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو۔
تم میرے خواب میں ہو اور انہیں برباد کردیتے ہو۔
مجھے پتا ہے تم شروع سے ہی سکینہ پر بری نظررکھتے ہواور اب موقع ملتے ہی مجھے تنگ کرکے اسے اپنے ساتھ لے جانے آئے ہو۔
اجو کی بات سن کر فیکا زور زور سے ہنسنے لگا۔
ہا ہا ہا۔۔۔
سکینہ۔۔۔۔!
مجھے اپنے بکروں سے زیادہ کوئی خوب صورت دکھائی نہیں دیتا۔
تمہیں میرے خواب میں نہیں رہنے ،مت رہو ، اپنی نیند کی وادیوں میں واپس چلے جائو۔
نہیں ، تم جائو۔۔۔۔
دونوں بحث کرنے لگےاورگتھم گتھا ہوگئے۔
سفید اور کالے بکرے دونوں کی لڑائی دیکھ کر ڈر سے چلانے لگے۔
شور بڑھا اور اجو کی آنکھ کھل گئی۔
سکینہ شب خوابی کے لباس میں اس کے بدن سے چپکی، ٹھنڈی ، بھیگتی رات میں حرارت جذب کررہی تھی۔
اجو نے ایک بھرپور نگاہ ڈالی ، اٹھ کر چادر درست کی اور پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
پھریہ کہانی ایک رات کا قصہ نہ رہی ۔
اب ہررات جیسے ہی اجو نیند کی وادیوں میں اترتا، فیکا قصائی اپنے سفید ، کالے بکروں کی فصل لے کر اس کے خوابوں کاستیا ناس کرنے آجاتا۔
اجو نے کئی بار سمجھایا۔
لڑائی جھگڑا کیا،
منت سماجت بھی کرلی مگر وہ پھر بھی نہ مانا،
تنگ آکر ایک روز وہ فیکے کی دکان پرہی چلا گیا۔
اس نے ہچکچاتے ہوئے سارا ماجرا بیان کیامگر فیکے نے اسے وہی جواب دیا جو وہ ہر روز خواب میں سنتا تھا۔
اجو میاں۔۔ میں جو بھی خواب دیکھتا ہوں، تم اس میں خود آ ٹپکتے ہو۔
میری بلاسے، مت آیا کرو،
میں خود بھی پریشان ہو۔
اجو کو جب کوئی راستہ نہ سجھائی دیا تو اس نے تھانے جا کرفیکے کے خلاف درخواست دیدی۔
فیکا قصائی ایک بدمعاش، بد نیت اور چور ہے ۔
وہ روزانہ میرے گھر گھس آتا ہے اور میرے خواب چوری کرلیتا ہے۔
اس کی دھونس اور دھاندلی دیکھئے ، میرے منع کرنے پر بھی وہ باز نہیں آرہا اور اس کی سینہ زوری بڑھتی جارہی ہے۔
محرر نے اجو کو غور سے دیکھا،
تمہاری طبیعت ٹھیک ہے، لگتا ہے تم اعصابی دبائو کا شکار ہو۔
کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائو۔
بھلا کوئی کسی کے خواب کیسے چرا سکتا ہے ۔
ارے وہ کوئی اٹھار ہ بیس سال کی دوشیز ہ ہے کیا ۔۔۔
جو تمہارے ہوش لوٹ لے،
تمہاری نیند چرالے،
محرر نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
نہیں جناب! ایسا نہیں، یہ ایک روز کی بات نہیں ، پچھلے کئی ماہ سے مسلسل میرے ساتھ ایسے ہی ہورہا ہے ۔
اچھا مجھے بتائو،
فیکا تمہارے خواب میں کیسے آتا ہے اور تم کیا دیکھتے ہو۔
اجو نے سارا خواب سنا دیا۔
محرر نے خواب سنا اور اسے پھر سے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔
اجو مایوس ہو کر گھر آگیا۔
اس رات جب محرر اپنے برآمدے میں بیوی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سویا تو اچانک فیکا قصائی اسے دور سے آتا دکھائی دیا۔
اس کے دونوں ہاتھوں میں تیز ، نوکیلی کٹاریاں تھیں۔
فیکے نے محرر کو اپنے ساتھ لیا ۔ کالے اور سفید بکروں کی نوخیز اور توانا فصل ، فیکے کے دونوں ہاتھ تیزی سے چلنے لگے ۔ دونوں طرف سے کالے اور سفید بکرے ایسے کٹ کٹ کر گررہے تھے جیسے چارہ کاٹنے والی مشین پوری رفتار سے کام کررہی ہو۔
خون کےچھینٹو ںسے محرر کا بدن بھی سرخ ہوگیا۔
وہ فیکے پر چنگھاڑا،
تم کہاں سے میرے خواب میں آگئے ہو۔۔۔
چھوٹے تھانیدار جی۔۔
میں اپنا کام کررہا ہوں، اپنے خواب میں۔
آپ ہی اپنے خواب سے میرے خواب میں کود پڑے ہیں۔
ناراض کیوں ہوتے ہو، پسند نہیں تو واپس چلے جائو۔
محرر نے اسے ڈانٹا، لاٹھی ماری مگراسے اپنے خواب سے نہ بھگاسکا،
اسی قضیے میں اچانک محرر کی آنکھ کھلی،
اس کی بیوی، آدھے ادھورے کپڑوں میں اپنے بدن کو اس کے ساتھ جوڑے بے خبر سورہی تھی۔
اس نے چادر اوڑھائی اورپھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
پھر اس رات سے محرر بھی اسی خواب کا اسیر ہو کر رہ گیا۔
ایک روز وہ ڈاکٹر کے پاس چلا گیا، اجو بھی وہیں موجود تھا۔
اجو اسے وہاں دیکھ کر مسکرا اٹھا۔
دونوں نے اپنی اپنی کہانی سنائی ۔
ڈاکٹر نے دونوں کو سکون آور دوائیں لکھ دیںاور ہفتے بعد آنے کا کہا۔
اسی رات ڈاکٹر اپنے کمرے میں بیگم کے ساتھ سورہا تھا کہ اچانک فیکا دونوں ہاتھوں میں نوکیلی چھریاں لے کر کالے ، سفید بکروں کی فصل کاٹنے آپہنچا
ڈاکٹر نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا ، فیکا مسکراتے ہوئے اپنا کام کررہا تھا اور ڈاکٹر بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا
جب اس کی آنکھ کھلی تو ا س کی بیوی نائٹی پہنے اس کے ساتھ چپکی ہوئی تھی اور نیند کی وادیوں میں گم تھی۔
ڈاکٹر نے سر جھٹکا اور پھر سے سونے کی کوشش کی ۔
ایک ہفتے بعد جب محرر اور اجو دوبارہ کلینک گئے تو ڈاکٹر کی سرخ ، متورم آنکھیں سارا حال بیان کررہی تھیں۔
ڈاکٹر صاحب، نیند آور گولیوں کے باوجود فیکا ہمارے خوابوں میں دراندازی سے باز نہیں آرہا، ہمارے سارے خواب چوری ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹرکچھ بڑبڑایا، ایک نظر کھڑکی پر ڈالی،
محلے کے تقریباً سبھی لوگ فیکے قصائی کی تیز دھار چھریوں سے زخمی دکھائے دے رہے تھے۔
محلے والوں نے فیکے قصائی کوعلاقہ بدر کردیا مگر وہ ان کے خوابوں میں کالے اور سفید بکروں کی فصل کاٹتا دکھائی دیتا رہا۔
اجو کئی بار خواب میں بھی جاسویا مگر وہاں بھی فیکا قصائی باز نہ آیا،
اجو، محرر، ڈاکٹر اور باقی محلے والے جاگتی آنکھوں سے اپنے گم شدہ خواب ڈھونڈتے رہے مگر رات پڑتے ہی فیکے قصائی اور کالے سفید بکروں کا سحر ان کی نیند کو اپنے قابو میں کرتا رہا۔ فیکے قصائی نے کبھی کوئی خواب نہیں دیکھا اور یہ بات صرف وہی جانتا تھا۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...