فینیش افسانہ
فائٹ کلب
( Fight Club )
[ from ' Himokone ' ( Desire machine ) ، 2012 ]
ٹووی آرو (Tuuve Aro)
ترجمہ ؛ قیصر نذیر خاورؔ ، لاہور ، پاکستان
( یہ ترجمہ اردو کے ان نئے لکھنے والوں کے نام ، جو ناشروں کے بہیمانہ استحصال کا شکار ہیں اور انہیں اپنا مقام بنانے میں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ )
کیرولینا اس بات پر غور کر رہی تھی کہ کیا اس کا نام ایک مشہور شاعرہ کے لئے موزوں تھا ؟
اس کا پہلا نام تو ٹھیک تھا کیونکہ اس میں چار ’ واوین ‘ آتے تھے اور یہ کچھ پرانے فیشن کا بھی تھا ۔ لیکن ’ جاروی‘ کسی بھی جذبے کو نہیں اُبھارتا تھا ۔ کیا اسے اپنے پہلے مجموعے کے چھپنے سے پہلے اسے بدل لینا چاہیے ؟ کیا اس کے لئے ابھی وقت تھا ؟ ماہ ِستمبر آنے تک اُس کے پاس چار ماہ تھے ۔
گو ’ پھول میرے راز کا ‘ * کسی پرانی فلم کا نام تھا لیکن کیرولینا نے اپنے مجموعے کے لئے اپنے منتخب کردہ اِسی نام کو اپنائے رکھا ۔ یہ کتاب کی کثیر جہتی ، شہوت کے تڑکے والی حِس اور نظموں میں فطرت کی لازم حیثیت کو بخوبی بیان کرتا تھا ۔ کیرولینا کو جنگل میں دور تک پیدل چلنا بہت پسند تھا ۔ وہ بعض اوقات درختوں سے باتیں بھی کرتی تھی ۔
وہ نئے لوگوں سے ملتی رہتی ۔ ’ ادیب کے ساتھ ایک شام ‘ جس کا اہتمام اُس کے ناشر نے کیا تھا ، میں اسے ’ مارتھا فیگرلُنڈ ‘ کے ساتھ بٹھایا گیا تھا ۔ کیرولینا نے فیگرلُنڈ کی نظمیں تب سے پڑھی ہوئیں تھیں جب ابھی وہ بیس برس کی بھی نہ ہوئی تھی اور اس نے اس کی مقناطیسی شخصیت کو ٹی وی کے کلچرل پروگراموں میں بھی دیکھا تھا ۔
پہلے تو کیرولینا کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل پایا ۔ اس کا چہرہ تمتما اٹھا اورگھبراہٹ میں اس نے اپنی گود میں شوربہ بھی گرا لیا لیکن جوں جوں یہ شام لمبی ہوتی گئی تو مارتھا اسے ایک عام عورت لگنے لگی ۔ اور وہ ، پھر، اسے مارتھا کہہ کر بلانے لگی اور اسے فیس بُک پر بنے اپنے ایک نئے دوست کے بارے میں بھی بتا دیا ، جو کہتا تھا کہ مارتھا حد سے بڑھ کر مضحکہ خیز تھی ۔ اصل میں ، مارتھا اپنی کٹیلی آواز اور یونان کے لئے اپنے جوش و ولولے کی وجہ سے قدرے خشک مزاج تھی اور ’ سفید وائن ‘ کے تین گلاس پینے کے بعد ہی بیزارگی اور اکتاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی لیکن کیرولینا نے اس کا ذکر کسی اورسے نہ کیا کیونکہ وہ خود ایک کینہ پرور عورت نہ تھی ۔
پبلشرکی ایڈیٹر ’ آئرس سووانتو ‘ کیرولینا کو’ سٹار‘ بنانا چاہتی تھی ۔
” تمہارے اندر ایسی روشنی جگمگا رہی ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے ۔“ ، اس نے ، ایسا ، تب کہا تھا جب وہ کوسموس ریسٹورنٹ میں ایک میز کے گرد بیٹھیں اپنی ادارتی میٹنگ ختم کر چکیں تھیں ۔ کیرولینا کو یہ لمحہ تب سے یاد تھا ۔ وہ اِن الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہتی تھی ۔ یہ بہار کی ایک شام تھی جس کی روشنی میں ان کے سامنے پڑے چاندی کے کانٹے چمک رہے تھے اور ’ کونیک ‘ سے بھرے گلاسوں کی اطراف بھی دمک رہی تھیں ۔ وہ ، اگر ، کچھ بھولنا چاہتی تھی تو صرف اتنا کہ آئرس کے سامنے کونیک کے چار گلاس خالی پڑے تھے اور اس کی آواز فریبی تھی ۔
وہ ، آسالمی (Iisalmi) سے تعلق رکھنے والی ، کیرولینا ، کوسموس ریسٹورینٹ میں ایک ناشر کی ایڈیٹر کے ساتھ بیٹھی ’ کلاﺅڈ بیریز ‘ (Clouded Barries) کے جلو میں سجے ونیلا ’موسی‘ ( mousse) کے میٹھے سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔ جب اُس نے اِس ’ ڈش‘ پر دھیان کیا تو سوچا کہ ’ کلاﺅڈ بیریز‘ کے بستر پر عریاں لیٹی ، اُس کی تصویر کتاب کے سرورق کے لئے ایک اچھا آئیڈیا ہو گا ۔ اس نے ، بہرحال ، ناشر کی ایڈیٹر کو یہ مشور ہ نہ دیا ۔
کیرولینا نے اپنے ’ ویب پیج ‘ پر تصویروں کا ایک انتخاب رکھا ہوا تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ جب اس کی کتاب شائع ہو جائے گی تو لوگ اس سے تصویروں اور انٹرویو کی درخواستیں کریں گے ۔ اس نے غیر ضروری دوستوں کو وہاں سے ’ ڈیلیٹ ‘ کر دیا تھا جن کے ساتھ اس کی تصاویر بھی کھنچی ہوئی تھیں ۔ ۔ ۔ وہ مخمصے میں تھی کہ لوگ کہیں شاید اِن سب کو اُس کے حقیقی دوست نہ سمجھ لیں ۔ اس کے بدلے میں اس نے وہاں کچھ وہ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر لگائیں جو اس نے ایک دلکش لباس میں کھنچوائی تھیں ، یہ لباس اس نے بارسلونا سے خریدا تھا ۔ اِن تصویروں میں ایک عسیر الفہم ، یا شاید ہلکی سی اداسی جھلکتی تھی ۔
وہ اپنا ’ بلاگ ‘ تندہی اور جاں فشانی سے لکھتی ، یہ اس کی کتاب ’ پھول میرے راز کا ‘ کے ریلیز ہونے کی تاریخ کا ایک طرح سے ’ کاﺅنٹ ڈاﺅن ‘ بھی تھا ۔ وہ حالات حاضرہ پر کمنٹ کرتی اور اُن پر ہوشیاری سے جملے کستی ، لیکن یہ کچھ زیادہ اشتعال انگیز نہ ہوتے ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وقت سے پہلے ہی اس پر ’ سیاسی ‘ ہونے کا لیبل لگ جائے ۔
ویسے بھی اسے سیاست سے کچھ خاص لگاﺅ بھی نہ تھا ۔ وہ عام طور پر فنی سوالات پر کمنٹ کرتی اور کبھی کبھار فیشن یا کسی ایسے پرانے واقع کا ذکر کرتی جس نے اس کے شاعرانہ دل کو تیز دھڑکنے پر مجبور کیا ہوتا ۔ بعض اوقات یہ صرف طلوع آفتاب کا ذکر ہی ہوتا ، جس کی کرنیں اس بات کا اعلان کرتیں کہ ستمبر آنے تک کے انتظار کی گھڑیوں میں ایک دن اور کم ہو گیا تھا ۔
*******
ستمبر چڑھا اور کیرولینا کے ویب پیج پرموٹا موٹا لکھا تھا ؛ ’ بڑا دھماکہ ‘ (THE BIG BANG) ۔ یہ اس کی کتاب کی اشاعت کی تاریخ تھی ، وہ اس سے پہلے کچھ چھوٹے چھوٹے دھماکے بھی کر چکی تھی ؛ پہلا ، حتمی مسودے کا ناشر کو بھیجا جانا ۔ ۔ ۔ تا ۔ ڈا !!! (: (: ۔ ۔ ۔ پھر تبصروں کے لئے خانہ ۔ ۔ ۔ مدد!!! ( HELP!!! ) ۔ ۔ ۔ اور آخر میں ’ حتمی مسودے کا چھپائی کے لئے بھیجنا ۔ ۔ ۔ وفف!
اس بڑے اور اہم دن کی صبح کیروکینا نے اپنا فون آف کیا اور جنگل میں لمبی سیر کے لئے نکل پڑی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ابھی آنے والی پوچھ تاچھ ، جو ہونی ہی تھی اور کتاب کے حصول کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔ وہ ، بہرحال ، پگڈنڈی پر چلتے ہوئے خود کوایسا سوچنے سے روک نہ پائی کہ بطور ’ فطرت کی دلداہ اور پرستار ‘ اس کا ’ امیج ‘ کیسا ہو گا اور اسے کس میگزین کو انٹرویو دینا تھا اور کس کو نہیں ۔ زرد ہوتے درخت لہرا کر اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور کائی کے لچھوں پر پڑتے ، اس کے ہلکے قدم آگے بڑھتے رہے ۔
” برِچ ( birch ) درختوں کا ریشمی دھیما پن “ ، اس نے اپنی کالی نوٹ بُک میں لکھا اور اپنی سیر اسی جملے کو گنگناتے ہوئے جاری رکھی ۔
وہ ، جب گھر پہنچی اور اس نے اپنا فون آن کیا تو ’ اینی ‘ کی طرف سے ایک پیغام آیا ہوا تھا ؛
” کیرو! کتاب کی اشاعت پر مبارک باد ہو ۔ میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے۔ میں اپنے لیے ، اس کی ایک جلد ، کب حاصل کر سکتی ہوں ؟ “
کیرولینا نے اسے جواب دینے کا تردد نہ کیا ؛ اس کی دو وجوہات تھیں ؛ اولاً اینی ابھی بھی آسالمی (Iisalmi) میں رہتی تھی اور ’ سنیکرز‘ پہنتی تھی اور دوم اس لئے بھی کہ وہ اپنے بچپن کے چھوٹے نام ’ کیرو‘ سے نفرت کرتی تھی ۔
اس کے علاوہ اور کوئی پیغام نہ تھا لیکن وہ اس پریشان نہ ہوئی اور اپنے بلاگ پر اپنا تازہ ترین احساس لکھنا چاہتی تھی ۔ یہ احساس جوشیلے پن اورسُکھ کے سانس کا امتزاج تھا ۔ فیس بُک پر اس نے اپنا تازہ ’ اَپ ڈیٹ ‘ یہ لگایا ؛
” بالآخر آ ہی گئی ! “
وہ اپنے فیس بُک پیج پر کچھ دیر نظریں جمائے بیٹھی رہی اور اس دوران اپنی اُس نظم کا ڈرافٹ لکھا جو اس پر صبح کی سیر کے دوران اتری تھی ۔
’ بالآخر آ ہی گئی ! ‘ پر کسی نے کمنٹ نہ کیا تھا ۔
آخر ’ پیتری پاپونن ‘ نے لکھا ؛ ” کون آئی اور کہاں سے ؟ “
کیرولینا اتنی تیزی سے اٹھی کہ اُس کی کرسی الٹتے الٹتے بچی ۔ اسے غالیچے پر بیٹھ کر آگے پیچھے ہلنا پڑا تاکہ خود کو شانت کر سکے ۔ پہلے تو اس کے ذہن میں آیا کہ کسی کا نام ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور پھر دوسرا یہ بھی کہ اُس نے اس کی ایک خوشخبری پر ایسا بیہودہ اور لایعنی کمنٹ کیوں کیا ؟
کیرولینا نے ایک گہری سانس لی اور لکھا : ’’ بھول میرے راز کا ، بس یہی ہے ! (: “
وہ اپنی نامکمل نظم پر دھیان مرکوز نہ کر سکی اور فطری طور پر یہ دیکھتی رہی کہ کوئی اور پیغام آیا کہ نہیں ۔ کئی منٹ گزر گئے ، پھر آدھ گھنٹہ بھی ۔ تب پیتری نے لکھا ؛ ” ؟ ؟ ؟ “
کیرولینا نے اپنا ہونٹ چبایا اور لکھا ؛ ” یہ میری نظموں کا پہلا مجموعہ ہے جس کا نام ’ پھول میرے راز کا ‘ ہے اور میرا دماغ اب اُن بادلوں سے بھرا ہے جن سے میں اپنے اگلے مجموعے کو ترتیب دے رہی ہوں ! “
کئی منٹ اور گزر گئے تب پیتری نے لکھا ؛ ” آہا ، واﺅ ، لگتا ہے کہ یہ پورنو شاعری ہے ! “
کیرولینا نے پیتری کا کمنٹ اپنی ’ وال ‘ سے ڈیلیٹ کر دیا ۔ اس نے اپنا موبائل دیکھا اور جب وہ شاور لینے کے لئے گئی تو اسے بھی ساتھ لے گئی کہ شاید ۔ ۔ ۔ اس نے لکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے ذہن میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔ جیسے ہی شام ڈھلی ، اس نے چائے کی کیتلی اٹھائی ، پھر اسے واپس رکھا اور وائٹ وائن کی بوتل کھولی ۔ آخر ، یہ دن تو جشن منانے والا تھا ۔
*******
نومبر چڑھا ۔ گلیوں اور بازاروں میں آرٹک ہوائیں گردش کرنے لگیں ۔ اس کے مجموعے کی سات کاپیاں نکل چکی تھیں جن میں سے تین کیرولینا کی ماں ، تین اس کی نانی اور ایک اینی کو گئی تھیں ۔ اس کی کتاب پر دو ’ ریویو‘ چھپے ، ان میں ایک جو قدرے مثبت تھا آسالمی کے مقامی اخبار ’ Pohjois-Savon Sanomat ‘ میں تھا اور دوسرا ، اس کے بارے میں تو اسے سوچنا ہی گوارا نہ تھا ، بہرحال’ رِسٹو ہیکوری ‘ کے زہریلے الفاظ ساری رات اس کے دماغ پر آسیب کی طرح چھائے رہے ۔ یہ الفاظ زن بیزاری کے تیر تھے جن پر بس ہلکا سا ہی پردہ ڈلا ہوا تھا ۔ یہ بار بار ابھر کر سامنے آتے اوران کے بارے میں یہی کچھ تھا ، خالص زن بیزاری ! کیرولینا نےاپنے بلاگ پر لکھا ؛ ”ہیکوری کے لکھے اس ریویو سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ہمعصر شاعری پر عبور حاصل نہیں ہے ، یہ ریویو نہیں اس سے کمتر ایک ایسا مضمون ہے جس میں لکھاری ایک ابھرتی اور عمدہ شاعرہ سے کسی وجہ سے بدلہ لینا چاہتا ہے ۔ “
” کتاب پڑھنے کے لئے زیادہ انتظار اب ممکن نہیں ! “ ، پیتری نے لکھا ، ” زن بیزاری کا طعنہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے ، وہ شاید کچھ زیادہ ہی شہوت کا شکار ہو رہا ہے ! “
کیرولینا نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر جواب دیا ؛ ” میں ریویو پڑھنے کا مشورہ نہیں دوں گی لیکن کتاب ’ اکیڈیمک بُک سٹور ‘ پر موجود ہے اور اس کی قیمت 23 یورو ہے ۔ “
پیتری نے جواب دیا ؛ ” یہ تو بہت مہنگی ہے ! ؟ میرا خیال ہے کہ مجھے انتظار کرنا ہو گا کہ یہ کسی لائبریری سے مل سکے ۔ “
آئرس سووینتو نے کیرولینا سے کئی ہفتوں تک رابطہ نہیں کیا تھا ۔ وہ کیرولینا کی ای ۔ میلز کا جواب بھی نہیں دے رہی تھی اور رِسٹو کے ریویو کے بعد حوصلہ افزاء کمنٹ بھی آنا بند ہو گئے تھے ۔ کیرولینا ، بِنا بتائے اشاعت گھر پہنچ گئی اور راہداری کے شور شرابے میں کسی ایک کا چہرہ بھی نہ پہچان سکی ۔ ۔ ۔ ایسا لگتا تھا کہ چند ہی مہینوں میں سب پرانے لوگوں کو نئے سٹاف سے بدل دیا گیا ہو ۔ آئرس سووینتو کے کمرے کا دروازہ بند تھا لیکن اندر سے دبی دبی سی گفتگو سنائی دے رہی تھی ۔ کیرولینا نے دروازے کو دکھیلا اور دیکھا کہ ایک نوجوان ادیبہ ’ سووی ۔ کوکا سلین ‘ ( سابقہ ہائیٹونن ) نے شیمپین کا ایک گلاس تھام رکھا تھا ۔ آئرس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی ایک گلاس تھا اور اس کے چہرہ سے شہوت ٹپک رہی تھی ۔ سووی ۔ کوکا کے روشن چہرے کا عکس آئرس کی عینک کے شیشوں میں نظر آ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دونوں سووی۔ کوکا کی کتاب کے پانچویں ایڈیشن کی چھپائی کا جشن منا رہی تھیں ۔’ پِگ بیچز‘ ( Pigbitches ) ہاتھوں ہاتھ بک رہی تھی گو کیرولینا کا خیال تھا کہ یہ خاصی مایوس کُن تھی ۔
جب وہ گھر لوٹی تو اس نے دیوار پر ٹنگے ’ Pohjois-Savon Sanomat ‘ میں چھپے ریویو کے تراشے پر نظر ڈالی ۔ اس میں اس کی چُست لباس میں بلیک اینڈ وائٹ تصویر بھی لگی تھی جس پر جلی الفاظ میں لکھا تھا ؛
” اے مقامی لڑکی ، ہمیں تم پر یقین ہے! ، کیرولینا ؛ اب وسیع و عریض دنیا میں ۔ “
اس ریویو کے بارے میں پہلے اسے یہ خیال آیا تھا کہ یہ چھوٹا ، بھدا اور پھوہڑ طریقے سے لکھا گیا تھا لیکن جوں جوں اس نے اسے پھر سے پڑھا تو اُسے اس میں اور بھی بہت کچھ نظر آیا ۔ اس نے اینی کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ اس کے فون میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی تھی اس لئے اسے اس کا پیغام دیر سے موصول ہوا لیکن اسے یہ پیغام پا کر اچھا لگا ۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ کیا اُسے ’ پھول میرے راز کا ‘ کی کاپی مل پائی یا نہیں ؟
اینی نے فوراً جواب دیا ؛ ” او، ہاں ، اور یہ بالکل تم جیسی ہی تھی ۔“
یہ یقیناً ایک مثبت کمنٹ تھا ۔ اس نے اینی کی کافی پرانی ’ دوستی کی درخواست‘ کو منظور کرنے کا فیصلہ کیا ۔
*******
دسمبرکا مہینہ چڑھنے تک کیرولینا کی نیند اڑنے لگی اور یہ اس حد تک بڑھی کہ وہ بالکل بھی نہ سو پاتی ۔ وہ کھانا پینا بھی بھول گئی اور سارا سارا دن اندھیرے میں پڑی فیس بُک پر اپنے ’ پیج ‘ کو دیکھتی رہتی ۔ وہ رات میں بھی اسے گھورتی رہتی گو اس وقت برازیل سے دو پرانے قلمی دوستوں کے سوا کوئی بھی رابطے میں نہ ہوتا ۔ وہ سوچتی کہ وہ کیا ’ جوآن ‘ کو دوستوں میں سے نکال دے ، جو اس سے اکثر یہ پوچھتا رہتا تھا کہ وہ کن کپڑوں میں سونے لگی تھی ۔
وہ خود کو کمپیوٹر کی گنگناتی جھمک میں زیادہ محفوظ سمجھتی بجائے اُس گہری خاموشی کے ، جو اس کے سٹوڈیو اپارٹمنٹ میں اس وقت چھا جاتی تھی جب وہ اسے بند کر دیتی تھی ۔ اسے لگتا کہ یہ خاموشی اسے دنیا سے لاتعلق بنا دیتی تھی ۔ وہ ، چنانچہ ، کمپیوٹر کو اس وقت بھی آن ہی رکھتی جب وہ اپنی ناہموار نیند میں ڈوبنے کی کوشش کرتی ۔
اس کے نئے دوست اسے رسالوں میں اس کے بارے میں لکھے گئے مضامین کے بارے میں تازہ اطلاعات دیتے رہتے ۔ وہ اسے یہ بھی بتاتے رہتے کہ انہیں کیا کیا انعامات ملے اور یہ بھی کہ بہت سے بدیسی ناشر اُن کے کام کے ترجمے کے حقوق مانگ رہے تھے ۔
” میرا خیال ہے کہ وہ میرے جیسے ہی ڈَچ گدھے ہیں ! “ ، ایک ایسی مُصنفہ نے لکھا جس نے اپنے ناول میں ، اپنے ہی کپڑے اتارنے ، سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا ۔
سووی۔ کوکا سیلن کے بلاگ پر فرینکفرٹ بُک فئیر کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک ویڈیو ڈائری پڑی تھی ۔ وہ اس میں سلمان رشدی کی گود میں بیٹھی اپنا لکھا پڑھ کر سنا رہی تھی اور اس نے خاصا فحش لباس پہن رکھا تھا ۔ اس ویڈیو پر 385 لائیکس اور داد بھرے کمنٹس کا انبار لگا تھا ۔
کیرولینا اپنے بلاگ پر کم کم ہی لکھتی ۔ ۔ ۔ اس کی ایک پوسٹ ’ ایک شاعرکی موسم سرما کی رسد ‘ پر کسی نے کمنٹ نہیں کیا تھا ، اسی طرح اس کی پوسٹ ' نومبر مجھے نیچا نہیں دکھا پائے گا ۔ ' پر بھی یہی صورت حال تھی ۔ اِس کے برعکس ، اس کی پوسٹ ’ کمرشلائزیشن کی بہتات نے کرسمس برباد کر ڈالی ہے‘ پر طویل اور فصیح و بلیغ جواب آئے لیکن ان سب کی ٹون ہراساں کرنے والی تھی ۔ وہ ، غالباً ، اور باتوں کے علاوہ ایک پاگل ، ہم جنس پرست اور منکر ِ خدا بھی سمجھی جا رہی تھی ۔
اس نے خود کو یاد دلایا ؛ ” چلو کم از کم کسی نے یہ پڑھا تو سہی ۔ ۔ ۔ “
ناشر کی کرسمس پارٹی پر اسے کارڈرائے جیکیٹس کی ایک ایسی دیوار کا سامنا کرنا پڑا جو بہت مضبوطی سے بنائی گئی تھی اورجس میں گھسنا ممکن نہ تھا ۔” یہ بہت ہی مضحکہ خیز بات ہے ! “ ، اس نے خود کے لئے کسی طرح کی مطابقت نہ پاتے ہوئے ، کہنی سے دیوار میں راستہ بناتے اور گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے کہا ؛
” مضحکہ خیز کیسے ہے؟ “ ، لمبے بالوں والے ایک ادیب ، جس کی داڑھی میں چقندر کا ایک ٹکڑا پھنسا ہو تھا ، نے پوچھا ، ” کیا تم طنز کر رہی ہو ؟ “
” نہیں ۔ “ ، کیرولینا بڑبڑائی ۔
اس بندے نے ایک پیچیدہ ’ مونو لاگ ‘ شروع کیا جو گرانٹ دینے والے سسٹم میں موجود بُری درزوں کے بارے میں تھا اور پھر وہ اچانک زور زور سے رونے لگا ۔
اس استقبالیے میں ماحول اور بھی کئی وجوہات کی بِنا پر تناﺅ کا شکار تھا ۔’ کرسٹا اوسپاوانیمی ‘ کا شاعر خاوند اپنے تعلق کی حدیں پار کرکے’ سارا وِکیپارٹا ‘ سے رشتہ جوڑنے کے لئے کھیل رہا تھا ، سارا جو پہلے ہی کرائم فکشن لکھنے کے لئے مشہور، ’ آرٹو مائینامو‘ اور ایک 76 سالہ جنگی ناول نگار کے ساتھ ہم بستری کر چکی تھی ۔ ” میں یہیں تو لکیر کھینچ دیتی ہوں ۔“ ، کرسِٹا نے کہا ، اس کی آواز سے یقیناً ایک سرد آہ کا تاثر عیاں تھا ۔
برف نے شہر کو تو ڈھانپا ہی تھا لیکن ساتھ میں کیرولینا کی روح کو بھی لپیٹ لیا ۔
*******
ایک بے رنگ بدھ کی رات کو کیرولینا اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر ان پیغامات کو دیکھ رہی تھی جو ایک دوجے کے نیچے قطار میں پڑے تھے ۔ یہ کمنٹس ایسے تھے جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔
اچانک کمپیوٹر ’ کریش ‘ کر گیا ۔
کیرولینا چیخی اور رو پڑی ۔ اس نے ’ کی بورڈ ‘ کی ساری کیز کو دبا کر دیکھ لیا لیکن کچھ نہ ہوا ۔ وہ اپنے پہلے سے ہی جبائے ناخنوں کو پھر سے چبانے لگی ۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے گھر سے باہر نکلنا ہو گا ۔
وہ گلیوں اور سڑکوں پر اپنے برف سے ڈھکے پیروں کو دیکھتے ہوئے ، بِنا کسی سمت کا تعین کئے ، آوارہ پھرتی رہی ۔ ساری سڑکیں ، ساری گلیاں اور سارے تنگ راستے ایک جیسے اور ایک دوسرے سے جڑے تھے ۔ وہاں کوئی درخت نہ تھے ، ویسے بھی وہ ان سے باتیں کرنے کی خواہاں نہ تھی ۔ وہ چلتی گئی اور پھر ساتھ کی ایک آبادی میں ، جس سے وہ واقف نہ تھی ، گم ہو گئی ۔ یہ جگہ مشکوک سی لگتی تھی جہاں ایسی عمارتیں تھیں جن میں کوئی نہ رہتا تھا اور ان کی کھڑکیاں یا تو تاریک تھیں یا پھر ٹوٹی ہوئیں تھیں ۔ ایک کھلے دروازے سے کتے کے برابر ایک چوہا نکل کر بھاگا ۔ اسے اس جگہ سے خوف محسوس ہوا ۔
کیرولینا رک گئی ۔ ہوا اس کے دائیں کان میں سائیں سائیں کر رہی تھی ۔ وہ واپس جانے کے لئے مڑی تو اس نے ایک مانوس سا نام ایک کیچڑ بھری دیوار پر لکھا دیکھا ؛ ’ ٹریلر ایلے‘ (Trailer Alley) ۔ اس نے کسی کلب میں ادیبوں کی گفتگو میں اس کا ذکر سنا تھا ۔
اسے اس تنگ راستے کے اختتام پر روشنی کی جھلک دکھائی دی ۔ یہ جھلک ایسی تھی جیسے کوئی دھاتی دروازہ چمک رہا ہو ۔ کسی شے نے اسے مجبور کیا کہ وہ اس دروازے تک جائے ۔ ۔ ۔ شاید یہ کوسنے اور چیخیں تھیں جو دبی دبی تھیں ، وہ یہ آوازیں بمشکل سن پا رہی تھی ۔
اس نے اپنا کان دروازے سے لگایا ۔ ” اسے پکڑو ۔ ۔ ۔ اسے پکڑو۔ ۔ ۔ “ ، ایک عورت کی گھٹی ہوئی آواز ابھری ۔ ” فنون لطیفہ کی شوقین ! قلم کُش ! “ ، ایک اورعورت کی گھمبیر آواز آئی ۔ اس کے بعد کراہنے اور کھڑکھڑاہٹ کی آوازیں تواتر سے آنے لگیں ۔
کیرولینا پچھلے کئی ہفتوں سے چند ہی گھنٹے سو پائی تھی ، چنانچہ اسے لگا کہ جیسے اس نے دروازہ کھول دیا ہو اور وہ واہموں کا شکار ہو رہی ہو ۔
سیمنٹ کے کورے فرش کے وسط میں ’ مارٹا فیگرلنڈ ‘ کھڑی تھی ۔ اس کی تھرکتی چھاتیاں ننگی تھیں ۔ اس نے ایک گندی سی چمڑے کی پتلون اور سٹیل کی نوکوں والے جوتے پہن رکھے تھے ۔ ایک دبلی پتلی زخمی عورت اس کی طرف منہ کئے کھڑی تھی ۔ اس کی قمیض بھی اتری ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ کیرولینا نے اسے پہچان لیا ، وہ ایک حریف اشاعت گھر کے لئے افسانے لکھنے والی ادیبہ تھی ۔
” دروازہ کس نے کھلا چھوڑا ہے؟ “ ، دبلی پتلی عورت چلائی ، پھر اس نے تھوکا ، تھوک کے ساتھ اس کا سامنے والا ایک دانت بھی نیچے گرپڑا ۔
” یہ بے ضرر ہے ۔ “ ، مارٹا فیگرلُنڈ نے خون سے لتھڑی اپنی بھنوﺅں سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا ؛
” اسے دیکھنے دو ۔“
دونوں عورتوں نے اپنی لڑائی جاری رکھی ۔” امیچیور! “، مارٹا غرائی ، وہ کسی طرف نہیں دیکھ رہی تھی ۔ اس کا کلاسیکل جوشیلا انداز وہی تھا جسے کیرولینا پچھلے موسم ِ بہار میں دیکھ چکی تھی ۔ مارٹا نے دبلی عورت کو اپنے مضبوط پٹھوں والے ہاتھ سے پکڑا اور دوسرے سے اس کے چہرے پر مُکا مارتے ہوئے کہا ،
” حقیقت پسند ، ہونہہ ، آدھی کچی ، آدھی پکی! “ ، افسانہ نگار کی دونوں آنکھیں مار سے کالی ہو چکی تھیں اور اس کے گالوں پر کئی زخم بھی تھے ۔ کیرولینا کو البتہ ایسے لگا جیسے وہ مسکرا رہی ہو ۔
تب کیرولینا نے دیکھا کہ اس کم روشنی والے کمرے میں ایسی عورتوں کا ایک ہجوم تھا جنہوں نے قمیضیں نہیں پہنی ہوئیں اور وہ کمرے کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کھڑی تھیں ۔ ان سب کے چہروں پر بھی کالے ، لال اور پیلے زخموں کے نشان تھے ۔ وہاں’ ایلونا سوریمو‘ ، ایک سٹار ناول نگار یا کہہ لیں ابھرتا سٹار بھی تھی ۔ اس کا پچھلا ناول ’ اس کی سچائی ‘ کئی وجوہات کی وجہ سے ناکام رہا تھا ۔ اس کے ساتھ مٹھیاں لہراتی’
ایلا آرنیوا ‘ کھڑی تھی ، وہ پچھلی نسل کی ایک مانی ہوئی انشاء پرداز تھی جو معاملات اور افراد پر بے لاگ تجزیے کرتی تھی ۔ اس کے مضامین کا 37 واں مجموعہ ’ نفرت کبھی نہ ختم ہو گی‘ کی بہت تعریف ہوئی تھی ۔ وہ یہاں کیا کر رہی تھی ؟ ، کیرولینا نے سوچا ۔
تمام خواتین لکھاری لڑائی دیکھتے ہوئے ، ہانپتے ہوئے ، لقمے دے رہی تھیں اور گالیوں و کوسنوں کی بوچھاڑ کر رہی تھیں؛
” اسے کچل ڈالو“ ،’ لِلجا‘ چِلائی ، وہ ’ ٹرکو‘ سے آئی لال بالوں والی ایک نوجوان شاعرہ تھی ۔ کیرولیا کا خیال تھا کہ لِلجا کو صرف بڑے بڑے ہیٹ ، ’ باڈلئیر‘ * (Baudelaire ) اور ’ رِلکی ‘* (Rilke) پسند تھے لیکن وہ وہاں ایک باکسر کی طرح اچھل کود کر رہی تھی اور وہ ہوا میں مُکے چلا رہی تھی ۔ اس کی پسینے سے بھری چھاتیاں بری طرح تھرک رہی تھیں ۔
” سرکار کا خون چوسنے والی جونک ! مالی امداد اور گرانٹ کی بھوکی !“ ، وہ چِلائی ، اس کے چہرے اور گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں ۔
کیرولینا نے یہ بھی دیکھا کہ چھت سے ایک پھٹا پرانا مُکے بازی کا مشقی تھیلا لٹک رہا تھا جس کے ایک طرف رِسٹو ہیکوری کی ننگی تصویر بنی ہوئی تھی ۔ یہ جگہ جگہ سے چِھدا ہوا تھا اور اس پر خون کے دھبے بھی تھے ۔
مارٹا نے دبلی پتلی ادیبہ کو مار گرایا تھا ، جس کا سوجے ہوئے چہرے کے نقوش اب واضح دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن جیسے ہی مارٹا نے اپنی گرفت ڈھیلی کی ، دبلی پتلی عورت ہرنی کی سی تیزی سے اچھلی ۔
” سَنڈی ! تم یہ راﺅنڈ جیت گئی ہو ۔ تم اپنی تحریروں میں کم مارتی ہو لیکن یہاں تمہاری ضربیں زیادہ زوردار ہیں ۔“ ، اس نے کہا اور اس کی عجیب ہنسی فضا میں پھیل گئی جو سب کے دل کو لگی ۔
” اب میری باری ہے ۔“ ، ایلا آرنیوا چِلائی اور چلتی ہوئی فرش کے وسط میں پہنچ گئی ، اس کی چھاتیاں بری طرح ہِل رہی تھیں ؛
” کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا ؟ “
” میں کروں گی ۔ “ ، کیرولینا نے جواب دیا ۔
اس نے اپنی قمیض جھٹکے سے یوں پھاڑی کہ بٹن ہوا میں بکھر گئے ۔
سب کی نظریں اس کی طرف مڑیں ۔ نیند ، اب ، اس پر حاوی نہیں تھی بلکہ اسے سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا ۔
پہلے ہی مُکے نے اس کے گال کے خون کو گرما دیا اور یہ گرمائش اس کے پورے جسم میں سرایت کر گئی اور کیرولینا نے اس کا مزہ لیتے ہوئے زور سے قہقہہ لگایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ’ پھول میرے راز کا ‘ = ایک ہسپانوی فلم ’ La flor de mi secreto ‘ کا نام جو 1995 ء میں بنی تھی ۔
* ’ باڈلئیر‘ = Charles Baudelaire ، فرانسیسی شاعر ( 1821 ء تا 1867ء )
* ’ رِلکی ‘ = Rainer Maria Rilke ، بوہمین آسٹرین شاعر اور ناول نگار ( 1875ء تا 1926 ء )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹووی آرو ( Tuuve Aro) 19 مئی 1973 ء کو ہیلسنکی ( Helsinki ) میں پیدا ہوئی ، وہیں پلی بڑھی اور وہیں رہتی ہے ۔ اب تک کئی کتابیں لکھ چکی ہے جن میں تین ناول ، افسانوں کے تین مجموعے ، افسانچوں کا ایک مجموعہ اور بچوں کے لئے دو ناول شامل ہیں ۔ وہ فلموں کے حوالے سے بطور ناقد بھی لکھتی ہے ۔ اس کی کئی کہانیاں فلموں کے لئے بھی استعمال ہوئیں جب میں ’Sirocco ‘ اہم ہے ۔ یہ 2012ء میں بنی تھی ۔ چودہ منٹ کی یہ مختصر فلم ایک ایسی تنہا عورت کی کہانی ہے جسے اپنے اپارٹمنٹ کے پاس کچرے کے ڈھیر پر ایک نومولود بچہ پڑا دکھائی دیتا ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ ٹووی آرو کو اس فلم کے لئے 2013 ء میں انعام بھی ملا تھا ۔ اس کے افسانوں کے مجموعے ’ Himokone ‘ میں ساری کہانیوں کے عنوان کسی نہ کسی فلم کے عنوان سے ماخوذ ہیں ۔ اس کی آخری کتاب ’ قصاب اور دوسری کہانیاں ‘ ( Lihanleikkaaja ) سن 2017 میں سامنے آئی تھی ۔