فیڈرل کاسترو کی ایک یادگار تقریر
ہم انسانی ارتقا کے ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں نہ تو کبھی انسانوں نے سائنس اور ٹکنالوجی میں اتنی زیادہ ترقی کی تھی اور نہ ہی وہ اتنی تیزی سے تنزل کی طرف رواں دواں تھے۔ نہ تو ان میں اتنی دولت اور خوشحالی پیدا کرنے کی صلاحیت تھی اور نہ ہی وہ اتنی غربت اور بدحالی کا شکار تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان بعد دن بدن بڑھتا جا رہا ہے امیر ممالک امیر سے امیر تر اور غریب ممالک غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
بین الاقوامی طور پر ہم ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔جہاں مواصلاتی نظام کی ترقی کی وجہ سے ساری دنیا سکڑتی جا رہی ہے وہیں ترقی یافتہ ممالک اور زوال پذیرممالک میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
گلوبلائزیشن کی عالمی معیشت اب ایک حقیقت بن چکی ہے اور اب ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں لیکن اس کشتی کے مختلف مسافر مختلف طبقوں اور مختلف حالات میں سفر کر رہے ہیں۔ان مسافروں کی اقلیت آرام دہ کیبنوں میں سفر کر رہی ہے جہاں اسے انٹرنیٹ اور سیل فون کی سہولتیں میسر ہیں اور ساری دنیا سے رابطہ قائم رکھ سکتی ہے اس کے پاس اعلیٰ خوراک اور صاف پانی کی بہتات ہے اسے علاج کی سہولتیں بھی میسر ہیں اور وہ مختلف ثقافتوں کے فنونِ لطیفہ سے بھی محظوظ ہو سکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں مسافروں کی اکثریت کی حالت اتنی ناگفتہ بہہ ہے وہ ہمیں ان مسافروں کی یاد دلاتی ہے جو افریقہ سے غلام بنا کر کشتیوں اور جہازوں میں لاد کر شمالی امریکہ لائے گئے تھے۔ اس اکثریت کی تعداد ۸۵ فی صد ہے۔ ان مسافروں کے کیبن غلیظ ہیں اور انہیں بھوک‘ بیماری اور ناامیدی کا سامنا ہے۔
اس کشتی میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ وہ کسی آئس برگ سے ٹکرائے گی اور سب مسافر ڈوب جائیں گے۔ خوشحال بھی اور مفلوک الحال بھی۔
آج یہاں جن لوگوں کے سربراہ جمع ہوئے ہیں وہ پسماندہ اکثریت کا نمائندے ہیں ان پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اس ناانصافی کے خاتمے کی کوشش کریں۔ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ پوری سعی کریں کہ تمام مسافروں کو بنیادی حقوق اور مراعات حاصل ہوں اور وہ امن‘ سکون‘ انصاف اور برابری کی زندگی گزار سکیں۔
پچھلی دو دہائیوں سے تیسری دنیا کے عوام پہلی دنیا سے ایک ہی پیغام سن رہے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ وہ قومی ملکیت افراد اور پرائیویٹ کمپنیوں کو دے رہے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کی ضامن ہے۔
امیر ممالک نے‘ جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے‘غریب ممالک کے لئے IMF..International Monetory Fund قائم کر رکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے وہ ادارہ غریب ممالک کے معاشی مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے۔
گلابلائزیشن نیو لبر لزم Neoliberalism کی دین ہے جس کی وجہ سے ترقی کی بجائے غربت ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور غریب ممالک کی عزتِ نفس بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ اس نام نہاد گلو بلائزیشن کی وجہ سے دنیا مزید تنزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم سب معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا رہے ہیں۔یہ تیسری دنیا کے سیاستدانوں اور سیاسی رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عوام کو نیو لبر لزم کے عذاب سے بچائیں اور تباہی کی طرف جاتے ہوئے راستے سے ہٹائیں۔ لاطینی امریکہ کو نیو لبر لزم کی پا لیسیوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہم پر کوئی قرض نہ تھا لیکن اب ان پالیسیوں کی وجہ سے ہم ایک ٹریلین ڈالروں کے مقروض ہیں۔اب لاطینی امریکہ میں غریب‘ بے روزگار اور بھوکے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ تاریخ میں پہلے کبھی اتنے نہ تھے۔
نیو لبر لزم کا دعویٰ ہے کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا معاشی طور پر ترقی کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امیر شمال اور غریب جنوب کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔غریب ممالک مزید بے اطمینانی اور عدمِ تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں اور عالمی صورتِ حال کسی بھی وقت بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ غریب ممالک سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کاروباری امور کی کاروائی نہ چھپائیں لیکن امیر ممالک اپنے فیصلوں کی نہ تو تفاصیل بتاتے ہیں اور نہ ہی وجوہات۔
اس وقت دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کے ۷۲۷ بلین ڈالر کا سرمایہ امریکہ میں موجود ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ غریب ممالک کی ایک بڑی رقم امریکہ جیسے امیر ملک کی تجوری میں پڑی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اس دولت سے غریب ممالک کے عوام کے بہت سے سماجی اور معاشی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
کیوبا نے اپنی آزادی کے بعد اپنی توجہ تعلیم‘ صحت‘ کھیل‘ ثقافت اور سائنس پر صرف کی اور ایسی ترقی کی جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔یہ علیحدہ بات کہ ہماری مدد کرنے سے بہت سے سرمایہ دار ممالک نے انکار کر دیا۔ہماری کامیابی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم IMF سے قطع تعلق رہے۔ اس ادارے سے درپردہ غریب ممالک کی دولت سے امیر ممالک کی مدد کی جاتی ہے۔
IMF کی کارکردگی کا ایک سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اس کے فیصلوں میں امریکہ ویٹو پاور veto power استعمال کرتا ہے۔اس ادارے کی وجہ سے بہت سے غریب ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے رہنمائوں کو چاہئے کہ اس ادارے سے قطع تعلق کر لیں جس سے انہیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ اس ادارے کے نمائندے امریکہ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہیں۔جب اس ادارے کی دخل اندازی کی وجہ سے غریب ممالک بحران کا شکار ہوتے ہیں جیسے انڈونیشیا اور ایکو ڈور Ecuodor ہوئے تو اس کی ذمہ داری کون لیتا ہے۔
ہمیں ایک ایسے بین الاقوامی ادارے کی ضرورت ہے جس میں کسی ملک کو ویٹو کی طاقت استعمال کرنے کو اختیار نہ ہو اور وہ صرف سرمایہ دار ممالک کے حقوق کا ہی تحفظ نہ کرے بلکہ غریب ممالک کے حقوق کا بھی خیال رکھے۔ IMF کی وجہ سے غریب ممالک کا قرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔جب امریکہ سود کی شرح بڑھاتا ہے تو غریب ممالک غریب تر ہو جاتے ہیں اور انہیں سود ادا کرنے کے لئے مزید قرض لینا پڑتا ہے اس طرح ان کی حالت بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
اب ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ غریب ممالک کا قرض معاشی مسئلے سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے جس کا ہمیں مل کر ایک سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔وہ قرض ایک بم بن چکا ہے جو ایک دن پھٹ کر غریب ممالک کی معیشت اور ترقی کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔
یہ سیاسی مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے۔اگر امیر ممالک ہر سال جنگ‘ اسلحہ اور فوج پر ۸۰۰ ملین ڈالر اور منشیات پر ۴۰۰ ملین ڈالر خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے غریب ممالک کی مدد کا فیصلہ کریں تو بہت سے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ تیسری دنیا کا قرض حد سے بڑھ چکا ہے اور پانی سر سے گزر چکا ہے۔ امیر ممالک نے نیو لبر لزم کا سہارا لے کر عالمی تجارت سے غریب ممالک کو محکوم کر رکھا ہے جس سے ظلم‘ستم اور نا انصافی بڑھتی جا رہی ہے۔
امیر ممالک غریب ممالک سے کاروبار کی پابندیاں ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان پابندیوں کو ختم کرنے سے امیر ممالک کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔۔ہم اس حقیقت کو ایک مثال سے واضح کر سکتے ہیں
۱۹۹۸ء میں برازیل نے جس کی
آبادی: ۱۶۸ ملین
رقبہ: ۳۰۲ ملین مربع میل ہے
صرف 51.1 بلین زرِ مبادلہ کمایا
اسکے مقابلے میں اسی سال نیدر لینڈ Netherland نے جس برازیل سے کئی گنا چھوٹا ہے جس کا
آبادی: 15.7ملین ہے
رقبہ: ۱۲۹۷۸ مربع میل
198.7 بلین زرِ مبادلہ کمایا
امیر ممالک غریب ممالک کی چیزیں نہیں خریدتے لیکن اپنی چیزیں بڑے منافع سے بیچتے ہیں۔اسی طرح OECD کے ممالک غریب ممالک سے خرید و فروخت کے وقت اپنے ممبران ممالک سے چار گنا زیادہ محصول وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک منافقانہ رویہ ہے جس کی وجہ سے غریب ممالک کو اپنی چینی‘ کوکو اور کوفی بیچنے میں دقت ہوتی ہے۔
WTO کی سئیٹل Seattle کی میٹنگ میں امریکہ نے ایک دفعہ پھر غریب ممالک پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی لیکن غریب ممالک نے نیو لبر لزم کے خلاف احتجاج کیا۔ اس احتجاج سے واضح ہو گیا کہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اس موجودہ بحران میں تیل کی خرید و فروخت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ساری دنیا کا ۸۰ فی صد تیل تیسری دنیا میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس تیل کا ۸۰ فی صد پہلی دنیا میں استعمال ہوتا ہے۔تیل کی قیمت کم رکھی جاتی ہے تا کہ امیر ممالک کو فائدہ ہو۔۔تیسری دنیا کے ممالک کو متحد ہو کر ایسا نطام قائم کرنا چاہئے کہ غریب ممالک بقدرِ استطاعت ۱۰ یا ۱۵ یا ۲۰ ڈالر فی بیرل لیکن امیر ممالک ۳۰ ڈالر فی بیرل خریدیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔
ساری دنیا کو تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی کی ضرورت ہے۔ جب سائنس اور ٹکنالوجی کا کنٹرول افراد اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے تو عوام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔پرائیویٹ کمپنیاں اکثر اوقات عوام کی بجائے مخصوص گروہوں کے مفادات کو فوقیت دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ویکسینز vaccines (جو ایک دفعہ استعمال ہوتی ہیں اور ساری عمر فائدہ پہنچاتی ہیں) کی بجائے ایسی ادویہ بنانا ہے جو بار بار استعمال ہوتی ہیں ۔ان سے کمپنیوں کو زیادہ منافع ہوتا ہے۔ ایسی ادویہ اکثر اوقات غریب ممالک کے عوام خرید بھی نہیں سکتے۔
یہ نیو لبر لزم اور گلوبلائزیشن کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں ۸۲۰ ملین لوگ بھوک اور بری صحت سے متاثر ہیں جن میں سے ۷۹۰ ملین تیسری دنیا میں رہتے ہیں اور ان میں سے ۵۰۷ ملین لوگ اپنی چالیسویں سالگرہ سے پہلے مر جائیں گے۔
تیسری دنیا کے عوام کے جو رہنما یہاں موجود ہیں انہیں اندازہ ہے کہ ان کے ممالک میں پانچ میں سے دو بچے خورک کی کمی کی وجہ سے کمزور اور لاغر ہیں ان ممالک میں ہر روز ۰۰۰،۳۰ ایسے بچے مر رہے ہیں جن کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ ان ممالک میں
۲ ملین لڑکیاں طوائف بننے پر مجبور ہیں
۱۳۰ ملین بچے پرائمری سکول کی تعلیم سے محروم ہیں اور
۲۵۰ ملین لڑکے اور لڑکیاں‘ جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے‘ مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
مختصر یہ کہ دنیا کے ۲۰ فی صد لوگ خوشحال اور صحتمند ہیں اور
۸۰ فی صد لوگ خستہ حال اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
Group of 77 کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کا حقیقت پسندانہ حل سوچیں اور متحد ہو جائیں۔
آج سے پچاس سال پہلے ہم سے امیر ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امیروں اور غریبوں کے درمیان سماجی اور معاشی فاصلوں کو کم کریں گے جس سے خوراک زیادہ ہوگی اور ناانصافی کم لیکن اب خوراک کم اور ناانصافی زیادہ ہو چکی ہے۔
جب ہم افریقہ کے غریب بچوں اور پریشان مائوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نازی جرمنی کے کیمپ اور ان کیمپوں میں ہونے والے مظالم یاد آتے ہیں جہاں سے معصوم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی لاشیں ملتی تھیں۔ان مظالم کی تحقیق کے لئے نیورمبرگ عدالت Nuremberg Trial قائم کی گئی تھی۔ اب ہمیں بھی ایک ایسی عدالت کی ضرورت ہے جو آج کے غیر منصفانہ معاشی نظام کو کٹہرے میں لا کھڑا کرے کیونکہ اس نظام کی وجہ سے ہر روز معصوم اور مظلوم عوام مر رہے ہیں۔اس ظلم کی انتہا یہ ہے کہ تین سالوں میں اتنے مرد‘عورتیں اور بچے بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں جتنے دوسری جنگ ِ عظیم کے چھ سالوں میں مرے تھے۔
اب ان مسائل کا حل تلاش کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کیوبا میں ایک ضرب المثل مشہور ہے
یا اپنے ملک کا خیال رکھو یا موت کے لئے تیار ہو جائو۔ میں غریب ممالک کے رہنمائوں کوٰ یہی آخری پیغام دینا چاہتا ہوں ۔
———————————————————–
ہوانا کیوبا میںGroup of 77 کے سمٹSUMMIT کے موقع پر
فیڈل کاسٹرو نے جو تقریر کی تھی یہ اس کے چند اقتباسات پیش کئے گئے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“