اردو کے شعراء میں فیاض ہاشمی بہت بڑے باصلاحیت اور باکمال شاعر گزرے ہیں جن کو قدرت نے بے شمار خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔ ان بے شمار خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کے باعث انہیں کئی قابل فخر اعزازات حاصل ہیں ۔ ان کے بارے میں جان کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ کس مٹی سے بنے ہوئے تھے کہ انہوں نے شاعری اور موسیقی کی دنیا میں اتنے کمالات کر دکھائے ۔ اگر کسی سے یہ بات کہی جائے کہ فلاں شخص نے فلاں شخصیت کو فلمی یا موسیقی کی دنیا میں متعارف کروایا تو وہ حیران رہ جائے گا اور یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ " بھئی کمال ہے " ۔ لیکن فیاض ہاشمی کے یہاں کوئی ایک دو نہیں بلکہ کئی کمالات ہیں ۔ فیاض ہاشمی صاحب کے بارے میں صرف اتنا ہی بتانا کافی ہوگا کہ انہوں نے برصغیر کے عظیم گلوکار طلعت محمود کو گائیکی میں متعارف کروایا صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے دیگر کئی نامور گلوکاروں جگ موہن، پنکج ملک، ہیمنت کمار اور معروف گلوکارہ جوتھیکا رائے کو بھی متعارف کروایا ۔ جوتھیکا رائے کو بھجن کی شہزادی کا خطاب مل چکا ہے ۔ جوتھیکا رائے کی آواز میں فیاض ہاشمی صاحب کا یہ گیت
چپکے چپکے یوں ہنسنا
بہت مشہور ہے ۔ یہ وہ گلوکارہ اور گلوکار ہیں جن کو فیاض ہاشمی نے ہندوستان میں متعارف کروایا جبکہ پاکستان میں انہوں نے عظیم گلوکارہ فریدہ خانم اور اس کے علاوہ منور سلطانہ، زینت بیگم، سائیں اختر حسین اور سائیں مرنا کو بھی موسیقی کی دنیا میں گمنامی سے نکال کر مشہور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔
فیاض ہاشمی جب لاہور میں فونو گرام کمپنی کے ڈائریکٹر بنے تو انہوں نے کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی سے وابستہ اساتذہ کرام، استاد فتح علی خان، استاد حسیب خان ببن، استاد بڑے غلام علی خان، استاد مبارک علی خان، ماسٹر غیاث حسین، استاد محمد شریف پونچھ والے، شاعر حزیں قادری اور مشیر کاظمی کو گرامو فون کمپنی میں ملازمت دلوا کر ان کی شہرت اور ذرائع آمدن میں بھی اضافہ کرنے کا باعث بنے ۔ فیاض ہاشمی کی شاعری بہت متاثر کرنے والی تھی ۔ انہوں نے فلموں کے لیے ایسے ایسے خوب صورت گیت لکھے کہ وہ وہ ہر عام و خاص میں یکساں مشہور اور مقبول ہو گئے۔ ان کے گیت اور نغمے گانے والوں میں گائیکی کی دنیا میں شہنشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، طلعت محمود، ناہید اختر، ناہید نیازی، مالا، زبیدہ خانم و دیگر شامل ہیں ۔
فیاض ہاشمی 18 اگست 1920 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کلکتہ میں حاصل کی جس کے بعد ہومیو پیتھک ڈاکٹر کا کورس کیا مگر شاعری سے دلچسپی کے باعث ڈاکٹر کے بجائے شاعر بن گئے جبکہ موسیقی سے بھی انہیں کافی آگاہی حاصل تھی ۔ انہوں نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کی۔ کلکتہ کے مشاعروں میں ان کو کمسن شاعر کے طور پر مدعو کیا جاتا تھا۔ انہوں نے فلمی غزلوں اور گیتوں میں زیادہ دلچسپی لی اس لیے انہوں نے گرامو فون کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر کلکتہ میں گرامو فون کمپنی کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ ہجرت کر کے لاہور پاکستان چلے آئے۔ ان کو یہاں بھی گرامو فون کمپنی کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ فیاض ہاشمی کی بہترین شاعری کے باعث ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے گلوکار ان کے گیت، نغمے اور غزلیں گانے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے ۔ فیاض ہاشمی لاہور کے بعد مستقل طور پر کراچی منتقل ہو گئے۔ وہ 29 نومبر 2011 کو 91 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ " راگ رنگ" کے نام سے شائع ہو چکا ہے انہوں نے 3 شادیاں کی تھیں جن سے انہیں اولاد میں 12 بچے پیدا ہوئے ۔ ان کی ایک بیوی اپنے بچوں سمیت امریکہ منتقل ہو گئی تھی ۔ مختلف گلوکاروں کی آوازوں میں فیاض ہاشمی کے گائے ہوئے گیتوں، غزلوں، نغموں اور ملی نغموں کی بڑی تعداد ہے جن میں سے یہاں کچھ درج ذیل ہیں ۔
1 ۔ تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے۔ آواز ایس بی جون فلم سویرا
2 ۔ آج جانے کی ضد نہ کرو۔ آواز حبیب ولی محمد فلم بادل اور بجلی
3 ۔ تصویر تیری مرا دل بہلا نہ سکے گی۔ آواز طلعت محمود
4 ۔ چلو اچھا ہوا تم بھول گئے آواز نورجہاں فلم لاکھوں میں ایک
5 ۔ گاڑی کو چلانا بابو آواز زبیدہ خانم فلم انوکھی
6۔ قصہ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے آواز مہدی حسن فلم داستان
7۔ یہ کاغذی پھول جیسے چہرے آواز مہدی حسن فلم دیور بھابی
8 ۔ نشان کوئی بھی نہ چھوڑا آواز مہدی حسن فلم نائلہ
9 ۔ لٹ الجھی سلجھا رے بالم آواز نورجہاں فلم سوال
10 ۔ ساتھی مجھے مل گیا آواز ناہید اختر فلم جاسوس
11۔ ہمیں کوئی غم نہیں تھا غم عاشقی سے پہلے
12 ۔ رات سلونی آئی۔ آواز ناہید نیازی فلم زمانہ کیا کہے گا
14۔ یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان۔ ملی نغمہ
15۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے۔ ملی نغمہ
16 ۔ سورج کرے سلام چندا کرے سلام۔ ملی نغمہ