کیا خوب لگتی ہو
بڑی سندر دکھتی ہو
پھر سے کہو کہتے رہو
اچھا لگتا ہے
جیون کا ہر سپنا
اب سچا لگتا ہے۔
اس گیت کو اندیور نے تخلیق کیا، كلیان جی آنند جی نے اس کی موسیقی ترتیب دی اور مکیش نے کنچن کے ساتھ مل کر بڑی خوبصورتی سے گایا تھا۔ یہ نغمہ ہندوستان کی فلمی صنعت بولی وڈ کے مشہور اداکار، فلمساز و ہدایت کار فیروز خان کی فلم "دھرماتما" کا ہے۔ فیروز خان کی بطور پروڈیوسر و ڈائریکٹر اور اداکار یہ پہلی بلاگ بسٹر فلم تھی۔ اس فلم کا مرکزی خیال ماریو کوزو کے لکھے ہوئے مشہور ناول "گاڈ فادر" سے لیا گیا ہے۔ اس ناول کی کہانی فلموں کے لیے اس قدر موزوں تھی کہ اس ناول پر دنیا کی کئی زبانوں میں فلمیں بنائی گئیں اور بعض اوقات ایک ہی زبان میں ایک سے زائد مرتبہ فلم بنائی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی 1976 میں بنائی گئی فلم "ان داتا" کی کہانی اسی ناول سے ماخوذ تھی۔
آج چار دانگِ عالم افغانستان اور طالبان کا بڑا چرچا ہے اور اتفاق سے فلم "دھرماتما" کی تمام تر آؤٹ ڈور شوٹنگ افغانستان میں کی گئی تھی۔ یہ بالی وڈ کی تاریخ کی پہلی فلم تھی جس کی شوٹنگ افغانستان میں ہوئی۔ اُس وقت افغانستان ایک پُرامن ملک ہوا کرتا تھا اور وہاں سردار داؤد کی حکومت تھی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب پاکستان بھی کسی شخصی و جرنیلی آمریت سے آزاد تھا اور یہاں پر ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت قائم تھی۔
فلم دھرماتما کے ہیرو فیروز خان تھے اور ہیروئن ہیما مالنی تھی۔ اس کے علاوہ فلم کی کاسٹ میں ریکھا، پریم ناتھ، ڈینی، فریدہ جلال اور ہیلن وغیرہ بھی شامل تھے۔ فلم کی زیادہ تر شوٹنگ بامیان اور بند امیر جیسے مقامات پر کی گئی تھی اور اس فلم کا گیت "کیا خوب لگتی ہو" بند امیر کی مختلف لوکیشن پر فلمایا گیا تھا۔ سماجی و سیاسی طور پر وہ زمانہ موجودہ افغانستان کے شورش زدہ علاقوں سے قدرے مختلف تھا۔ اُس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آنے والی کچھ دہائیوں بعد افغانستان کے حالات میں اس قدر ابتری آجاے گی اور بامیان کے تاریخی ورثے کو تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ بامیان سن دو عیسوی سے بدھ مت کا مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔ بامیان کا مقام پرانی روایتی شاہراہِ ریشم پر واقع ہے۔ شاہراہِ ریشم کا یہ حصہ تاریخی طور پر بہت قدیم زمانے سے ایک تجارتی راستے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ یہ راستہ بنیادی طور پر چین کو مغربی دنیا سے ملاتا تھا۔ ویسے تو بامیان کے دونوں جانب میلوں تک اس راستے پر بدھ مت کے مذہبی آثار نظر آتے ہیں لیکن دو بہت ہی خوبصورت اور قوی الحبثہ مہاتما بدھ کے سنگی مجسمے ہیں جو پہاڑوں کو تراش کر بنائے گئے تھے۔ جس میں سے ایک کی اونچائی 58 میٹر اور دوسرے مجسمے کی اونچائی 38 میٹر ہے۔ سن 2001 میں کابل کی طالبان حکومت نے ان دونوں مجسموں کو بارود کے ذریعے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی رائے عامہ کے دباؤ کے باوجود طالبان نے ان تاریخی مجسموں کے تمام آثار کو بھی مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن دسمبر 2001 میں افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور افغانستان میں حامد کرزئی کی صدارت میں امریکا کی سر پرستی میں ایک نیم جمہوری حکومت قائم ہوئی تو ان مسمار شدہ مجسموں کو ازسرِ نو تعمیر کیا گیا۔
فلم "دھرماتما" نہ صرف افغانستان میں فلمائے گئے خوبصورت مناظر سے مالامال ہے بلکہ اس فلم میں افغانی ثقافت کو بھی خاصا نمایاں مقام دیا گیا ہے۔ جن میں بزکاشی میچ اور رومال ڈانس کے مناظر بھی شامل ہیں اور فلم کی موسیقی میں افغانی ساز رباب کا بھی خاصا استعمال کیا گیا ہے۔ دھرماتما کے ہیرو فیروز خان کے کردار کو شائقین نے بیحد پسند کیا تھا۔ فیروز خان 25 ستمبر 1939 کو ایک افغانی پشتون تنولی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے خاندان کے گھر ہندوستان کے شہر بنگلور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام صادق علی خان تنولی تھا۔ جنہوں نے 1920 کی دہائی میں افغانستان کے صوبے غزنی سے ہندوستان کے شہر بنگلور ہجرت کی تھی۔
فیروز خان کا اصل نام صادق علی شاہ خان تنولی تھا۔ چونکہ فیروز خان کے والد افغانی تھے اس لیے فیروز خان کو افغانستان سے ایک خاص قسم کا جذباتی لگاؤ تھا۔ افغانستان میں اس فلم کو شوٹ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
فیروز خان سن 1955 میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بمبئی کی فلم انڈسٹری میں اپنی قسمت آزمانے پہنچ گئے۔ بڑی جدوجہد کے بعد 1956 میں آئی ایس جوہر نے ان کو اپنی ایک ملٹی اسٹار فلم "ہم سب چور ہیں" میں ایک چھوٹا سا کردار دیا۔ انہوں نے اس فلم کے ایک گانے کے دوران جو کہ ایک چلتی ہوئی کار میں فلمایا گیا تھا، کار ڈرائیور کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کی کاسٹ میں آئی ایس جوہر، محمود، پران، شمی کپور اور دیگر شامل تھے۔
فیروز خان مئی 2006 میں پاکستان تشریف لائے تھے لیکن ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے بلیک لسٹ کرتے ہوئے فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ
"میں ایک قابل فخر ہندوستانی ہوں۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ وہاں کے مسلمان پاکستان کے برعکس بہت ترقی کر رہے ہیں۔ ہمارا صدر ایک مسلمان اور ہمارا وزیر اعظم ایک سکھ ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا، لیکن دیکھو کیسے مسلمان یہاں مسلمانوں کو مار رہے ہیں"
یاد رہے کہ فیروز خان نے اپنے کیریئر کی سب سے بڑی ہٹ فلم 1980 میں بنائی۔ اس فلم کا نام "قربانی" تھا اور اسی فلم سے پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن بھی شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گئیں تھیں۔
“