انسان اور انسان کا جسم خالقِ کائینات کی تخلیق ہے ۔لیکن اُس میں جھانکنے اور اُس کو سمجھنے کا علم کسی لسانی بندش کا محتاج نہیں ۔ اور نہ ہی مذہب کی ڈوریوں میں جکڑا گیا ہے ۔ ہر مذہب اور لسان کے عالم ، اپنے مذہب کی روشنی میں انسانی، جسم ، سوچ اور افعال پر غور و خوض کرکے دوسرے انسانوں کو علم دیں گے ۔
اوپر کی بحث سے قطع نظر واستو شاستر کے نام سے یہ علم ہند میں پایا جاتا ہے اور وہاں کے لوگ عام طور پر اس عمل بھی کرتے ہیں۔ میرا ایک ہندو دوست دوبئی میں تھا اس نے ایک بار بتایا تھا کہ ہم نے ایک نئے بننے والے منصوبے میں گھر لینے کا ارادہ کیا تھا مگر واستو کے ماہر نے دیکھ کر منع کیا کہ یہ یہ مسئلہ ہے اس لیئے ہم نے منسوخ کر دیا۔ واستو میں اس علم میں بہت چیزیں ہیں جیسے دروازے، کھڑکیوں روشن دانوں کی سمت باتھ رومز کی سمت اس کے علاوہ کمرے میں فرنیچر کی ترتیب۔ کمرے میں بعض چیزیں جیسے کرسٹل خاص مقام پر رکھنا نمک کی بنی چیز اور اسی قسم کی چیزیں سب کے ماقامات مخصوص ہوتے ہیں۔ اور ایک بات کہ یہ علم صعف ہند اور ہندووں تک محدود نہیں ہے مختلف ممالک میں پایا جاتا ہے۔ یہ جاپان اور یورپ وغیرہ میں فینگ شوئی کہلاتا ہے۔
بشکریہ:
فینگ شوئی ایک قدیم سائنس ہے اس کا تعلق چین سے ہے۔ فینگ شوئی کے ذریعے آپ اپنے گھر کی تزئین و آرائش میں معمولی تبدیلی سے فطرت کے اصول آپ کے گھر میں روبہ عمل ہوجائیں گے۔ذہنی یکسوئی میں اضافہ ہوسکتا ہے رزق میں آسانی اور آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ہر انسان ایک خوش وخرم ، صحتمند اور پر سکون آسودہ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔کوئی باہوش شخص یہ نہیں چاہتا کہ اسے بیماری کا سامنا کرنا پڑے یا غربت و فلاس میں بنیادی ضروریات کے لئے تڑپنا پڑے، کسی کو بوڑھا ہونا، کمزور پڑنااچھا نہیں لگتا ۔کوئی نہیں چاہتا کہ اہل و عیال دوست اس سے روٹھیں یا ان سے کوئی ناچاقی ہو۔ انسانی جدوجہد، دن و رات سخت محنت و مشقت کا اولین مقصد اپنے لیے آسائشوں اور سہولیات کا حصول رہا ہے۔ سخت محنت کے بعد جب جسم تھکن سے چور اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگتی ہیں تو پہلی جائے پناہ جو اسکے ذہن کے اسکرین پر ابھرتی ہے وہ ہے اپنا گھر، گھر جس کے ہونے کا احساس ہی آدھی تھکن اتار دیتا ہے۔ویسے گھر کے ہونے کا احساس بھی صرف انکی تھکن اتارتا ہے جن کا گھر سکون او آشتی کا مرکز ہو، جہاں محبت کا بسیرا ہو۔اب ہم اپنی بات ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
ملک صاحب نے شہرکے ایک پوش علاقے میں نے زمین خریدی۔ اﷲ تعالیٰ نے پیسہ اور وسائل سے خوب خوب نوازا تھا اس لئے بنگلہ بھی صحت و صفائی اور تزئین و آرائش کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر بنوایا۔ ایک ہزار گز پر مشتمل یہ پلاٹ چوکور تھا لیکن اس کا تعمیراتی حصہ دائرے کی صورت میں تھا۔یہ اس کی خاص انفرادیت تھی ، چند سال پیشتر کسی وجہ سے اس بنگلہ کو فروخت کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اس کا مناسب گاہک نہ ملتا تھا چنانچہ ملک صاحب نے اس بنگلے کے درمیان سے دو حصے کر کے فروخت کردیا ۔ بنگلہ درمیان سے اس طرح الگ الگ ہوا کہ دائروی تعمیر مثلث ہوگئی۔
ہمارے ایک عزیز نے ایک حصہ خرید لیا۔ یہ لوگ یہاں رہائش سے پہلے خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے لیکن یہاں آتے ہی ساس بہو،کے جھگڑوں نے سر اٹھایا اور اہل خاندان ایک دوسرے سے برگشتہ رہنے لگے۔ بیماریوں نے علیٰحدہ گھیرا تنگ کردیا۔ کبھی ایک بیمار تو کبھی دوسرا۔جو پیسہ آتا علاج معالجے میں نکل جاتا،پھر بھی افاقہ نہ ہوتا۔ دائرے کی تقسیم کی وجہ سے وہ بنگلہ دو تکونی حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ یہ اور اس نوعیت کے دوسرے کئی واقعات دیکھنے کے بعد ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا رہائشی مکان سے ہماری صحت یا ہمارے رویئے پر اثر پڑتا ہے؟ کیا اس کا ہماری معاش اور سکون سے کوئی تعلق ہے؟بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ گھر اور رہائش کا ہماری زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ ایک ہی گھر کسی کو راس آتا ہے اور کسی کو نہیں۔ ہمارے یہاں عموماًاسے مکان کا بھاری ہونا کہا جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے….؟
کسی انسان کے لیے اس کی رہائش یا کاروبار کے لیے کوئی جگہ غیر موزوں یا عام زبان میں بھاری ہوسکتی ہے۔ یہ غیر موزوں ہونا یا بھاری ہونا دراصل کسی جگہ یا فرد کی کسی کے ساتھ عدم مطابقت Incompatibilityہے۔سائنسی انداز میں بات کریں تو اس طرح کہیں گے کہ زمین سے، یا کسی انسانی وجود سے یا کسی اور شئے سے خارج ہونے والی لہروں اور کسی خاص شخص (یا اشخاص) کی لہروں میں فریکوئینسی کا بہت زیادہ فرق اس عدم مطابقت کا سبب بنتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے مقامات کا ذکر کسی ایک علاقے یا کسی ایک قوم تک محدود نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، عرب ممالک سمیت ایشیا کے تقریبا ہر ملک میں، افریقی ممالک، یورپ، امریکہ، آسٹر یلیا غرض دنیا کے ہر خطے کے لوگوں میں کسی مکان یا کسی جگہ پر منفی اثرات کے حوالے سے کوئی نہ کوئی تذکرہ مل جاتا ہے۔ ایسے مقامات کی مثال ان جگہوں سے بھی د ی جاسکتی ہے جہاں کوئی کاروبار نہ جم سکا۔ ان مقامات پر کاروبار کرنے والوں کو ناصرف مالی نقصانات ہوئے بلکہ انہیں یا ان کے گھر والوں کو کئی اور تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
کسی جگہ کے بھاری پن کے اثرات مختلف صورتوں میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔ ان میں افراد خانہ کی صحت کے مسائل، روزگار کی طرف سے پریشانیاں یادیگر معاملات میں رکاوٹیں ہوسکتی ہیں۔
زندگی گزارنے میں اگر فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے تو اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شہری اور دیہاتی زندگی میں بہت فرق ہے۔
فینگ شوئی کیا ہے؟
فینگ شوئی نام ہے معیار زندگی کو بہتر بنانے کا، جس میں جسم، ذہن و روح کو ایک اکائی کے طور پر ڈھالا جاتا ہے۔ گھر اور انسان کے مابین نظم و ضبط کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس عمل سے مزاج و ماحول میں ترتیب و ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ شوئی کا محور انسانی زندگی اور ماحول کو بہتر بناتا ہے۔ فینگ شوئی زندگی میں بہتری لانےکا علم ہے۔
فینگ شوئی ایک قدیم سائنس ہے، جو چینی علم و دانش کی دین ہے۔ ہزاروں سال قبل یہ علم اب مغرب میں بھی بہت تیزی سے فروغ پارہا ہے ۔ چین کے لوگ عام طور پر اپنی پرانی روایات اور عقائد سے لپٹے نظر آتے ہیں اس بارے میں بہت محتاط ہوتے ہیں کہ مکان کہاں ہو، کس سمت میں ہو، اس مکان کی تزئین و آرائش کس طرح کی جائے، فرنیچر کیسے ترتیب دیں اور گھر کے ہر حصے کا استعمال کس طرح کریں۔ ہر چیز کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ فطرت کے عین مطابق ہو۔ ان تمام چیزوں کے لئے جس طریقہ ہائے زندگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اسے ‘‘فینگ شوئی’’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فینگـ شوئی کے اصولوں کے مطابق آراستہ کیے گئے گھر فطری طریقہ زندگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ایسے گھروں میں رہائش پذیر لوگ خوشحال اور معاش کی تنگی سے محفوظ رہتے ہیں۔ وہاں والدین اور بچوں کے تعلقات بہتر رہتے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان رومانوی اور ہم آہنگی کے جذبات رہائشی اور کاروبار ی عمارتوں میں فینگ شوئی کے اصولوں پر عمل کرنے سے بڑھ جاتے ہیں۔ آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے بچے تعلیم میں دلچسپی لیتے ہیں۔ معاشی منصوبہ بندی کی صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ عبادات میں ذہنی یکسوئی بڑھ جاتی ہے اور تمام افراد خانہ صحت مند اور سکون آ ور ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
فینگ شوئی تکنیک ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مکان ، کمروں، صحن ، گارڈن ، آفس اور دکان میں اپنی ضرورت کے سامان کو کس طرح رکھا جائے کہ اس کہ جمالیاتی حسن بھی نکھر کرسامنے آئے ،ہماری صحت بھی ٹھیک رہے اور ہمارے رزق اور مال و منال میں بھی اضافہ ہو۔
فینگ شوئی کا علم گھر، دروازوں، الماریوں اور اسٹورز میں غیر ضروری سامان کو توانائی کے بہاؤ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ فینگ شوئی اصولوں پر قائم گھروں میں مختصر فرنیچر اور کھلے ہوادار کمرے بہت ہیں، جن میں روشنی کا بہاؤ گھر کو کشادگی عطا کرتا ہے۔ یہ گھر کھلے، ہوادار اور روشن ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انسان کے اندر کی منتشر لہریں نفرت، غصہ، حسد جارحیت و مایوسی کو ان گھروں سے باہر نکلنے کے لیے راستہ چاہیے۔ ان گھروں میں پودے،آئینے اور ڈور بیلز کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پودے فطری توانائی کا بہاؤ ہیں، مدھُرموسیقی منفی اثرات کو زائل کرتی ہے اورآئینے قوت کی رو کو مزید متحرک کرتے ہیں، جو ذات کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں۔آئینوں کے عکس میں وسعت اور کشادگی کا احساس ملتا ہے۔
یوں تو فینگ شوئی پر ابھی تک جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے کسی تحقیقاتی ادارے نے مہرِ تصدیق ثبت نہیں کی لیکن پھر بھی یہ تکنیک چین کی سرحدوں سے نکل کر مغرب میں پہنچ کے بہت پذیرائی حاصل کررہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔
مشرق کے بہت سے طریقے اپنی مفید خصوصیات کے باعث اب مغربی ممالک میں بھی رواج پارہے ہیں۔ مختلف طبقوں کے لوگ جن میں معروف و مقبول شخصیات بھی شامل ہیں، انھیں اپنا رہے ہیں۔ ان میںعلاج معالجے کے متبادل طریقوں اور جسمانی و ذہنی ورزشوں کا بھی خاصا حصہ ہے۔ جڑی بوٹیوں سے علاج، ریکی، تائی چی، آکوپنکچر، یوگا اور فینگ شوئی، کا تعلق زمانہ قدیم کے مشرق سے ہے جنہیں اب تیزی سے مغرب میں اپنایاجارہا ہے۔
ان طریقوں میں سے اکثر کی بنیاد ‘‘چی’’ کے قدیم فلسفے پر ہے۔ اس فلسفے کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ‘‘چی’’ وہ توانائی ہے جو انسانی جسم کو توزان برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ جب یہ توانائی جسم میں رواں دواں ہوتی ہے تو انسان جسمانی جذباتی اور روحانی طور پر توازن برقرار رکھتا ہے‘ لیکن جب اس توانائی کی روانی میں رکاوٹیں پیدا ہونے لگتی ہیں صحت و سکون میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یوگا ایک قدیم فلسفہ ہے، ہے اور آجکل مغربی ممالک میں زیادہ مقبول ہے۔ اس کا مقصد بھی چی توانائی کے ذریعے سے جسم میں توازن پیدا کرنا اور اسے قائم رکھنا ہے۔ ریکی، آکوپنکچراور شیاتسو کے ذریعےتوانائی کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے اورجسمانی‘ جذباتی اور روحانی توازن کو بحال کیا جا سکتا ہے، جب کہ فینگ شوئی ایک ایسا فن ہے جو ہمارے اردگرد کے ماحول میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہ تکنیک فطری اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔ موجودہ دور کا انسان فطرت سے دور ہوتا جارہا ہے اور فینگ شوئی طریقہ کار اسے بڑی حد تک فطرت سے قریب کردیتا ہے۔
جاری ہے-
بشکریہ: روحانی ڈائجسٹ
انتخاب:
ثناءاللہ خان احسن