کلپنا لاجمی کا جنم 31 مئی 1954 کو ممبئی میں ہوا۔ اُن کے والد گوپی لاجمی، نیوی میں کیپٹن تھے، جب کہ ماں للیتا لاجمی مشہور مصورہ، اور ایک اسکول میں بطور آرٹ ٹیچر پڑھایا کرتی تھیں۔ للیتا لاجمی، اداکار گرو دت کی بہن تھیں؛ اس ناتے سے کلپنا لاجمی گرو دت کی بھانجی ہوئیں۔ جب کلپنا لاجمی پیدا ہوئیں، تو اُن کے والد کی مے نوشی کی لت کی وجہ سے، اُن گھر کے مالی حالات دگر گوں تھے؛ اس لیے کلپنا لاجمی کا بچپن خاصا اذیت ناک گزرا۔ ان کے ماموں گرو دت کو اُن سے بہت محبت تھی اور وہ انھیں پیار سے ’’کپوا‘‘ کہتے تھے۔ کلپنا لاجمی جب نو برس کی تھیں، تو گرو دت نے خود کشی کر لی۔ کلپنا لاجمی اپنی دادی وجینتی کے بھی بہت قریب تھیں۔ اُن سے وہ مہا بھارت اور رامائن کے قصے سنتی رہتی تھیں۔ جب وہ کچھ بڑی ہوئیں، تو Mills And Boon جیسے رومانی ناول پڑھنے لگیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم “Convent of Jesus and Mary” اسکول سے حاصل کی۔ وہاں وہ اسکول کے ڈراموں میں حصہ لینے لگیں، لیکن جب St. Xavier’s کالج پہنچیں، تو سائیکالوجی پڑھنے لگیں۔ وہیں تھیٹر میں بھی دل چسپی لی۔ اس کالج میں اُن کے کلاس فیلوز اداکار انیل کپور، اداکارہ سمیتا پاٹیل اور گلوکارہ کویتا کرشنا مورتی، اور ان سے سینئرز میں شبانہ اعظمی اور فاروق شیخ شامل تھے۔ اِن سینیئرز نے انھیں کالج تھیٹر کرنے میں خاصا اسپورٹ کیا؛ بعد میں یہ دونوں کلپنا لاجمی کی پہلی فلم ایک پل میں بھی نظر آئے۔
1974 میں دیو آنند نے کلپنا لاجمی کو اپنی فلم ’’ہیرا پنا‘‘ میں کام کرنے کی آفر کی، لیکن کلپنا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا، کہ میں خاصی وزنی اور موٹی ہوں، جس کی وجہ سے میں خود کو ادکاری کے لیے موزوں نہیں سمجھتی۔ اُن کے انکار کے بعد، یہ کردار زینت امان نے ادا کیا۔ کلپنا لاجمی نے اپنے کیریئر کا باقاعدہ آغاز 1977 میں معروف فلم ساز شیام بینیگل کی فلم “بھومیکا” سے بطور اسسٹنٹ کاسٹیوم ڈیزائنر کے طور پر کیا۔ شیام بینگل ان کے ماں کے چچا زاد بھائی تھے؛ گرو دت اور شیام بینگل کی دادیاں آپس میں بہنیں تھیں۔ فلم بھومیکا کے لیے انھیں ماہانہ 350 روپے تن خواہ دی گئی۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ سمیتا پاٹیل اور فاروق شیخ نے کام کیا ہے۔ اگلے برس یعنی 1978 میں انھوں نے D.G Pioneer کے نام سے بنگلا فلم انڈسٹری کے بانی دھیرین گنگولی پر ڈاکیو منٹری فلم بنائی اور 1979 میں A Work Study in Tea Plucking اور 1981 میں Along the Brahmaputra جیسی ڈاکیو منٹری فلمیں بنائیں۔
1983 میں شیام بینگل نے انھیں اپنی فلم ’’منڈی‘‘ کے لیے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر لیا۔ یہ فلم غلام عباس کی کہانی ’’آنندی‘‘ پر بنائی گئی ہے؛ اس میں نصیرالدین شاہ، سمیتا پاٹیل اور شبانہ اعظمی نے کام کیا۔ بالی وُڈ میں بطور ہدایت کار ان کی پہلی فلم “ایک پل” 1986 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں شبانہ اعظمی اور نصیرالدین شاہ اور فاروق شیخ مرکزی کرداروں میں نظر آئے۔ فلم کی کہانی میں شبانہ اعظمی کا حمل گر جاتا ہے۔ اس کا شوہر نصیر الدین شاہ کچھ عرصے کے لیے گھر سے دُور ہے؛ اِس دوران شبانہ اپنے دوست فاروق شیخ سے حاملہ ہو جاتی ہے، لیکن وہ حمل گرانا نہیں چاہتی؛ گھر واپسی پر نصیر الدین شاہ سماج کی پروا نہ کرتے ہوئے، اس بچے کو قبول کر لیتا ہے۔ کلپنا لاجمی نے اس فلم کا اسکرین پلے گلزار کے ساتھ مل کر لکھا تھا، اور اس فلم کو پروڈیوس بھی خود کیا تھا۔
دو سال بعد انھوں نے بطور ہدایت کار تنوی اعظمی کو لے کر ٹی وی سیریئل “لوہت کنارے” بنائی، اور پھر پانچ سال بعد 1993 میں کلپنا لاجمی نے “رُدھالی” کے ساتھ فلم کے پردے پر واپسی کی۔ ’’رُدھالی‘‘ اس عورت کو کہا جاتا ہے، جو مرنے والے شخص کے گھر جا کر، معاوضے پر میت کے سامنے روتی ہے؛ مرنے والے شخص سے غم گین قصے منسوب کر کے بین کرتی ہے۔ راجھستان میں جب چودھری، ٹھاکروں، برہمن اور پنڈتوں کے گھروں میں کوئی مر جاتا ہے، تو گھر کی عورتوں کو سرِ عام بین کرنے کی اجازت نہیں ہوتی؛ اس لیے ماحول کو سوگ وار کرنے کے لیے بھاڑے پر بین کرنے والی رُدھالی کی خدمات حاصل کی جاتی ہے۔ رُدھالی کے حوالے سے راجھستان بہت مشہور ہے؛ جہاں آج بھی پیاروں کی موت کے سوگ میں رُدھالی کو بلایا جاتا ہے۔ زیادہ تر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی ہندو دلّت عورتیں بطور رُدھالی اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔
’’رُدھالی‘‘ میں ڈمپل کپاڈیہ، غربت اور تنگ دستی سے لڑتے لڑتے بالآخر رُدھالی بننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ وہ امیر زمین دار راج ببر کی محبوبہ ہوتی ہے، لیکن پھر بھی وہ ان سے کسی قسم کی مالی مدد نہیں لیتی۔ فلم ’’رُدھالی‘‘ بنگالی مصنفہ مہا شویتا دیوی کی ایک شارٹ اسٹوری “شانچری” سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی، جسے فلمی کہانی میں ڈھالنے کے لیے گلزار نے خاصی محنت کی۔ فلم کی کاسٹ میں ڈمپل کپاڈیہ، راج ببر، راکھی اور امجد خان شامل ہیں۔ اس فلم کی ریلیز سے قبل ہی امجد خان انتقال کر گئے تھے، اس لیے اس فلم کو ریلیز کرتے امجد خان کو خاص طور پہ خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ’’رُدھالی‘‘ کی شوٹنگ راجھستان میں ہوئی؛ وہاں پوری فلم کریو کو خاصی مشکلات سہنا پڑیں، ڈمپل کپاڈیہ کو تو نمونیہ ہو گیا تھا۔ فلم میں راکھی کا کردار مختصر کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ گلزار کا لکھا، لتا کی آواز میں، اس فلم کا گانا “دل ہوم ہوم کرے، گھبرائے؛ گھن دہم دہم کرے، ڈر جائے”، بہت مشہور ہوا۔ اسی گانے کو بھپن ہزاریکا نے بھی اپنی آواز دی۔ ’’رُدھالی‘‘ کی موسیقی بھپن ہزاریکا نے ترتیب دی ہے۔
فلم ’’رُدھالی‘‘ کی ریلیز کے چار سال بعد 1997 میں کلپنا لاجمی نے فلم “درمیان” پروڈیوس اور ڈائریکٹ کی؛ جس کی کاسٹ میں کرن کھیر، تبو اور عارف زکریا شامل تھے۔ یہ فلم، ساگر گپتا کی کہانی سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ مرکزی کرداوں کے لیے کلپنا لاجمی نے شاہ رُخ خان اور ڈمپل کپاڈیہ سے بات کی، لیکن اُن دنوں وہ بہت مصروف تھے؛ تب کِرن کھیر اور عارف ذکریا کو ان کرادروں میں لیا گیا۔ ’’درمیان‘‘ کی کہانی 1940 کی دہائی کی ایک ڈھلتی عمر کی اداکارہ زینت ” کے گرد گھومتی ہے، جس کا بچہ زنخا پیدا ہوتا ہے۔ لوگوں کے سامنے وہ اسے اپنا چھوٹا بھائی کہتی ہے، تا کہ اس کا دھندا متاثر نہ ہو۔ 1998 میں کلپنا لاجمی نے بطور ڈائریکٹر تحریک آزادی پر دور درشن کے لیے ’’ڈان‘‘ نام سے 26 قسطوں کی سیریز بنائی۔ اس کے بعد 2001 میں فلم ’’دمن‘‘ ڈائریکٹ کی، جس کی کہانی بھی انھوں نے لکھی تھی؛ اور پروڈیوسر بھی خود تھیں۔ اس فلم کے مرکزی کردار میں روینہ ٹنڈن کو لیا گیا تھا۔ فلم کی کہانی میریٹل ریپ سے متاثر بیوی اور شوہر کے گرد گھومتی ہے۔
2003 میں کلپنا نے فلم “کیوں” ڈائریکٹ، پروڈیوس کی۔ فلم کی کاسٹ میں وینے اپتے، راہول دیو، صنوبر کبیر، اور سونی رازدان شامل ہیں۔ فلم کی کہانی ایک صنعت کار کی اغوا شدہ بیٹی شلپا اور اس کی سہیلی نیہا کے قتل کی تفتیشی پر مبنی ہے، جنھیں تاوان وصول کرنے کے باوجود قتل کر دیا جاتا ہے۔ بطور ہدایت کار سال 2006 میں ریلیز ہونے والی فلم “چنگاری” کلپنا لاجمی کے کیریئر کی آخری فلم رہی۔ اس میں متھن چکرورتی اور سشمیتا سین نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔ یہ فلم بھپین ہزاریکا کے ناول “دی پروسٹیٹیوٹ اینڈ دی پوسٹ مین” (ڈاکیا اور طوائف) پر مبنی ہے۔ فلم “چنگاری” میں سشمیتا سین نے ایک ایسی کوٹھے والی کا کردار ادا کیا تھا، جو دھرم کے نام پر مندر کے پروہت کی ہوس و جبر کی شکار رہتی ہے۔ علاقے میں ایک نیا ڈاکیا آتا ہے، اور وہ اس کے پیار میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اس فلم کی کہانی کلپنا لاجمی نے لکھی تھی، اور اس فلم کی پروڈیوسر بھی وہ خود تھیں۔
فیمینسٹ ہونے کے با وصف، کلپنا لاجمی نے اپنی کم بجٹ کی فلموں میں مظلوم عورتوں کے کرداروں کو لے کر حقیقی موضوعات پر فلمیں بنائیں۔ جس کے ذریعے وہ سماج میں عورتوں کو مردوں کے ہر طرح کے ظلم کے خلاف بولنے کی ہمت دلاتی رہیں۔ ’’رُدھالی‘‘ نے انھیں بین الاقوامی پہچان دلائی، پر ’’دمن‘‘ کچھ خاص نہیں چلی؛ جس کی وجہ سے وہ دِل برداشتہ بھی ہوئیں، لیکن جب میریٹل ریپ سے متاثرہ خواتین نے خطوط لکھ کر ان کے کام کو سراہا، کِہ ہم تو آج تک چپ رہ کر شوہر کی جنسی زیادتی کو سہتی رہی ہیں، کسی سے بول بھی نہیں پاتی تھیں، آپ نے ہمارے حق میں آواز بلند کر کے ہمیں حوصلہ دیا ہے۔ اب ہم خاموش نہیں رہیں گی۔ یوں کلپنا لاجمی کو پھر سے حوصلہ ملا کہ ان کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔ مردوں کی اجارہ داری میں بالی وُڈ میں بطور خاتون ہدایت کار اور وہ بھی فیمینسٹ ہو کر کام کرنا کوئی اسان بات نہیں تھی، پر لاجمی نے یہ چیلنج قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تین فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں کو نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا؛ ان میں ’’رُدھالی‘‘ کے لیے ڈمپل کپاڈیہ، ’’دمن‘‘ کی روینہ ٹنڈن اور فلم ’’درمیان‘‘ کے لیے عارف زکریا کو نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انھوں نے ’’ردھالی‘‘ 66 ویں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھی بھیجی تھی، جہاں فلم خاصی پسند کی گئی، لیکن ایوارڈ کے لیے نام زد نہیں ہو سکی۔
کلپنا لاجمی کے اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا، وہ کشمیری پنڈت برہمن تھے، جو کشمیر سے بنگلور اور پھر بنگلور سے بمبئی (ممبئی) آ کر آباد ہو گئے تھے۔ کشمیری پنڈت اداکارہ دیپکا پڈوکون، کلپنا لاجمی کی دُور کے رشتہ داروں میں سے ہیں۔ کلپنا لاجمی کے ایک بھائی دیو داس لاجمی، جو ان سے آٹھ سال چھوٹے ہیں، وہ بھی باپ کی طرح نیوی میں کیپٹن ہیں، جب کہ ان کی ماں للیتا لاجمی کے فن پاروں کی نمایش لندن، جرمنی، امریکا میں ہو چکی ہے۔ للیتا لاجمی، عامر خان کی فلم “تارے زمین پر” میں مہمان اداکارہ کے طور پہ نظر آئیں، جس میں وہ بچوں کے پینٹنگ کے مقابلے میں جج بنی ہیں۔
کلپنا لاجمی کی نجی زندگی کی طرف دیکھا جائے، تو وہ آسام سے تعلق رکھنے والے بھپن ہزاریکا کی چالیس سال تک پارٹنر اور مینجر رہی ہیں۔ کلپنا لاجمی جب بھپن ہزاریکا سے پہلی بار ملیں، تو ان کی عمر 17 سال تھی، اور بھپن کی عمر 45 سال۔ ہزاریکا شادی شدہ تھے، ان کا بیٹا تیج ہزاریکا بھی کلپنا لاجمی سے دو سال بڑا تھا۔ اس کے باوجود کلپنا لاجمی کو ان سے محبت ہو گئی۔ کلپنا لاجمی نے اپنی پسند کا ذکر جب گھر میں کیا، تو ان کے ماں باپ عمروں کے فرق کو لے کر پریشان ہوئے، لیکن کلپنا لاجمی نے صاف کہہ دیا، کہ میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہوں، تو والدین خاموش ہو گئے۔
بھپن ہزاریکا نہ صرف ایک بہترین موسیقار تھے، بل کہ وہ ایک گلوکار نغمہ نگار ادیب اور ہدایت کار بھی تھے۔ انھوں نے ہندی اور آسامی زبان کے علاوہ بنگلا فلموں کے لیے گانے گائے۔ کلپنا لاجمی کو خود مختار بنانے والے بھی بھپن ہزاریکا تھے، جنھوں نے انھیں حوصلہ دیا۔ 1978 میں انھی کے کہنے پر کلپنا لاجمی نے اپنا پروڈکشن ہاوس بنایا، اور ڈاکیو منٹری فلمیں بنانے لگیں۔ ان دونوں کے مابین تعلق کو لے کر لوگوں نے بہت باتیں بنائیں، لیکن دونوں میں سے کسی ایک نے بھی ان باتوں کی پروا نہیں کی۔ کلپنا لاجمی کو یہ یقین تھا، کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر، انھیں اپنا لیں گے۔ یہ فوری ممکن نہ تھا۔ اس دوران کلپنا لاجمی خاصی ڈپریشن میں رہیں؛ انھوں نے ڈپریشن کو کم کرنے کے لیے اپنے من کو کام میں لگایا۔ دو سال بعد بھپن ہزاریکا نے اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کر لی اور یہ دونوں ساتھ رہنے لگے۔ اس وقت کلپنا لاجمی کی عمر انیس برس تھی۔
کلپنا لاجمی نے کبھی بھپن ہزاریکا سے نہیں کہا، کہ وہ اُن سے شادی کریں؛ نا ہی بھپن ہزاریکا نے یہ ضروری سمجھا۔ دونوں نے بچے پیدا کرنے کے بارے میں بھی کبھی نہیں سوچا۔ ایک بار کلپنا کی ماں نے انھیں کہا کہ اب تم دونوں کو شادی کر لینی چاہیے، تب کلپنا لاجمی نے جواب دیا، مجھے بھپن ہزاریکا کے ساتھ رہنے کے لیے شادی کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں، جو میں سماج کو دکھاتی رہوں۔ کلپنا لاجمی کی بہترین سہیلیوں میں سونی رازدان، نینا گپتا، اور کویتا کرشنا مورتی تھیں۔ ان سب نے بہت دیر سے شادی کی، پر کلپنا لاجمی نے آخر تک شادی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
شروعات میں بھپن ہزاریکا نے انہیں گھر واپس جانے کا کہا تھا، پر انھوں نے صاف انکار کیا کہ میں گھر واپس نہیں جاوں گی؛ لوگوں کو کہنے دو، مجھے میں کون سی آپ کی رکھیل ہوں، جو میں لوگوں کی پروا کرتی رہوں۔ بھپن ہزاریکا کے مرنے کے بعد ایک انٹرویو میں کلپنا لاجمی نے کہا، بھپن ہزاریکا نے کبھی مجھے بد صورت نہیں کہا، اور نا ہی کبھی مجھے موٹی کہا۔ اور میں بھی نے بھی کبھی ان کی عمر کو نہیں دیکھا اور نہ ہم نے شادی کی اور بچے بھی نہیں پیدا کیے، لیکن پھر بھی ہم چالیس سال تک ایک ساتھ رہے۔ ہم نے لوگوں کو غلط ثابت کیا، کہ ان سب کے بغیر بھی عمر بھر کی زندگی ساتھ گزاری جا سکتی ہے۔ میں خود کو خوش نصیب سمجھتی ہوں، جو خدا نے مجھے بھپن ہزاریکا کی خدمت کے لیے چنا۔
کلپنا لاجمی نے بھپن ہزاریکا کی شہرت کو آسام اور بنگلا کی حدود سے نکال کر، نہ صرف پورے ہندوستان میں پھیلایا، بل کہ انھوں نے بھپن ہزاریکا کو بین الاقوامی سطح پر بھی خوب متعارف کرایا۔ اسی طرح بھپن ہزاریکا نے کلپنا کی فلموں کی نہ صرف موسیقی دی، بل کہ ان کی فلموں کے لیے گانے بھی گائے۔ کلپنا لاجمی کے کچھ ادھورے پراجیکٹس ابھی باقی ہیں، جیسے کہ انھوں نے ’’سنگھاسن‘‘ فلم کا اسکرپٹ لکھ رکھا تھا، اس کے لیے وہ ایشوریا رائے کو لینے والی تھی۔
وہ ماضی کی ادکارہ پریا راج وَنش سے بہت متاثر تھیں۔ پریا اور کلپنا کی زندگی میں خاصی مماثلت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی زندگی پر فلم بنانا چاہتی تھیں۔ پریا راج وَنش نے دیو آنند کے بڑے بھائی، فلم ساز چیتن آنند کے ساتھ پوری زندگی گزار دی، جو ان سے عمر میں بہت بڑے تھے۔ پریا کو 27 مارچ 2000 میں چیتن آنند کی پہلی بیوی کے بیٹوں نے قتل کر دیا تھا۔ کلپنا لاجمی کا آخری ڈریم پراجیکٹ بھپن ہزاریکا کی زندگی پر فلم بنانا تھا، جس میں پوجا بھٹ کو خاص دل چسپی تھی۔ وہ اس فلم میں کلپنا لاجمی کا کردار نباہنا چاہ رہی تھیں۔
آخری عمر میں بھپن ہزاریکا طویل عرصے تک بیمار رہے؛ ان کے گردوں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ کلپنا لاجمی دن رات ان کی خدمت میں مصروف رہتیں، جس کی وجہ سے انھیں دوبارہ کوئی فلم بنانے کا موقع نہیں مل پایا۔ جو کچھ جمع پونجی تھی، وہ بھپن کے علاج پر خرچ کرتی رہیں۔ ممبئی کے کوکی بین دیرو بھائی امبانی اسپتال میں، 5 نومبر 2011 کو، 85 برس کی عمر میں، ان کا انتقال ہوا۔
بھپن کے انتقال نے کلپنا لاجمی کو اندر سے توڑ دیا تھا، اور وہ پہلے سے زیادہ فربہ ہو گئی تھیں۔ آخر کلپنا کو بھی گردوں کی بیماری نے آ گھیرا۔ دو سال قبل کینسر کے باعث ان کے دونوں گردے نکال لیے گئے تھے اور ان دو برسوں میں وہ ڈائیلاسس پر زندہ رہیں۔ ان کا علاج خاصا مہنگا تھا۔ پیسوں کی کمی کی وجہ سے انھیں علاج کرانے میں بھی پریشانی کا سامنا رہا، لیکن ان کی بہترین سہیلی سونی رازدان اور ان کے شوہر مہیش بھٹ، ان دونوں کی بیٹی عالیہ بھٹ نے کلپنا لاجمی کے علاج کے لیے بہت تعاون کیا۔ اس کے علاوہ کرن جوہر، روہت شیٹھی، عامر خان، سلمان خان، نینا گپتا اور انجو مہندرو نے بھی ان کی خاصی مدد کی۔
بیماری کی آخری دنوں میں کلپنا لاجمی، بھپن ہزاریکا پر کام کرتی رہیں۔ انھوں نے بھپن کی زندگی پر Bhupen Hazarika: As I Knew Him کے نام سے کتاب لکھی؛ جس کی تقریب رُو نمائی ان کے انتقال سے چند دن پہلے 8 ستمبر 2018 کو ممبئی میں ہوئی۔ اس میں ان کی ماں للیتا لاجمی، وحیدہ رحمان، ہما قریشی، مہیش بھٹ وغیرہ تو شریک تھے، لیکن وہ خود شریک نہ ہوسکیں، کیوں کہ ڈاکٹروں نے ان کی خراب حالت کو دیکھتے ہوئے، تقریب میں شریک ہونے سے منع کر دیا تھا۔ گزشتہ برس ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا، کہ میرے گردے فیل ہوئے ہیں، میں تو نہیں۔ وہ خاصی پر اُمید تھیں، کہ ٹھیک ہو کر میں اپنے محسن بھپن ہزاریکا کی زندگی پر فلم ضرور بناوں گی۔ یہ ان کی آخری خواہش تھی، لیکن افسوس، انھوں نے 23 ستمبر کو ممبئی کے اسی کوکیلا بین دھیرو بھائی امبانی اسپتال میں، آخری سانس لی؛ جہاں بھپن ہزاریکا نے اُن کے سامنے دَم توڑا تھا۔