’’تانیثی تنقید‘‘کے بعد ڈاکٹر شہناز نبی کی اسی موضوع سے متعلق نئی کتاب’’فیمینزم۔تاریخ و تنقید‘‘
بھی منظرِ عام پر آگئی ہے،پہلی کتاب مضامین کا مجموعہ تھی تو ۴۳۲ صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب یک موضوعی ہے۔ اس میں اس موضوع سے متعلق بیشتر مباحث کو نہ صر ف سمیٹ لیا گیا ہے،بلکہ اس کی ایک تاریخ بھی مرتب کر دی گئی ہے۔اس کے مطالعہ سے مجھے اس تحریک اور تنقیدی رویے کو مزید سمجھنے کا موقعہ ملا ہے۔
پیش لفظ کے بعد یہ کتاب پانچ ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔پہلے باب میں ’’تانیثیت کی تعریف‘‘کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ’’فیمینسٹ کسے کہتے ہیں؟‘‘۔دوسرے باب میں’’تانیثیت کی ابتدا و ارتقا‘‘کے بیان کے ساتھ’’تانیثیت۔بحیثیت تحریک‘‘جائزہ لیا گیا ہے۔تیسرے باب میں ’’مختلف ممالک اور تانیثی تنقید‘‘کے حوالے سے مغربی،مشرقی،جنوب مشرقی ایشیا،شرق اوسط اور شرق بعید کے ممالک تک احاطہ کیا گیا ہے اور وہاں تانیثی تحریک کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کی کاوش کی گئی ہے۔یہ باب باقی تمام ابواب سے زیادہ تفصیلی ہے۔چوتھے باب میں’’تانیثیت کی تھیوریوں‘‘کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ان میں ’’حریت پسند،مارکسی،انتہا پسند،تحلیل نفسی،سماجی،وجودی،مابعد جدیدتانیثیت‘‘سب پر بات کی گئی ہے۔پانچویں باب میں ’’تانیثی نظریات‘‘کے باہمی’’ اختلاف،اتفاق اور اثرات‘‘کو بیان کیا گیا ہے۔آخر میں جملہ حوالہ جات درج کیے گئے ہیں۔
پیش لفظ میں شہناز نبی نے چند بنیادی سوال اُٹھائے ہیں ان پر مجھے بھی غور کرنے کا موقعہ ملا ہے۔
’’کیا عورتوں کا لکھا ہوا ادب ہی تانیثی کہلائے گا یا پھر عورتوں کے زاویۂ نگاہ سے لکھا گیاادب،چاہے مَردوں نے ہی کیوں نہ لکھا ہو نسائی یا تانیثی کہلائے گا‘‘(پیش لفظ۔ص۔۷)
اسی طرح شہناز نبی بتاتی ہیں کہ:
’’اکثر محققین کا یہ ماننا ہے کہ تانیثیت یا فیمینزم ایک ایسی اصطلاح ہے جو اپنے اندر بے پناہ گنجائشیں رکھتی ہے اور جس کی کوئی ایک تعریف ممکن نہیں ہے‘‘(پیش لفظ۔ص۔۱۱)
’’فیمینزم تحریکات کے مجموعے کا نام ہے جس کا مقصد عورتوں کو مردوں کے برابر سیاسی،سماجی اور معاشی حقوق دینا ہے‘‘(پہلا باب:تانیثیت کی تعریف۔ص ۱۷)
اپنے اندر بے پناہ گنجائشیں رکھنے کی وجہ سے ’’تانیثی ادب‘‘کی کوئی ایک تعریف معین نہیں کی جا سکی۔اس میں کوئی حرج نہیں۔لیکن یہ مسئلہ بہر حال اپنی جگہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ خواتین کے حقوق کے حصول کی جنگ میں یہ تحریک
عورت اور مرد کے یکساں انسانی حقوق کی منزل سر کرنا چاہتی ہے یا اس سے آگے جا کر مردوں پر عورت کی بالادستی قائم کرنا چاہتی ہے؟یہ الجھن مجھے’’تانیثی تنقید‘‘کے مطالعہ کے بعد بھی درپیش ہوئی تھی اور اب بھی اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں مل پایا۔اسی طرح جو خواتین مردادیبوں کی طرف سے عورتوں کے زاویۂ نگاہ سے لکھے گئے ادب کو بھی تانیثی ادب میں شمار کرنا چاہتی ہیں۔،ان کے لیے میری طرف سے سوال ہے کہ اگر مرد ادیبوں نے اس حوالے سے خواتین قلم کاروں سے زیادہ دلچسپی لے کر لکھنا شروع کر دیاتو کہیں پھر مردوں پر یہ الزام تو نہ لگ جائے گا کہ مرد ادیبوں نے چالاکی سے اس میدان میں بھی اپنی اجارہ داری بنا لی ہے۔؟
یہاں یہ تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ اردو شاعری میں’’ریختی‘‘کی شعری صنف میں مردوں نے عورت کی زبان میں عورت کے جذبات کا بے محابااظہار کر رکھا ہے۔عورتوں کے زاویۂ نگاہ سے پھر ریختی کے سارے قدیم دیوان ’’تانیثی ادب‘‘ میں شمار کیے جانے چاہئیں۔کتاب کے ص۔۳۸۳ پر اس کا ہلکا سا ذکر کیا گیا ہے۔تاہم اس پرمزید غور کی ضرورت ہے۔لگ بھگ سو سال پہلے کی معاشرت میں عورتوں کا ایک زاویۂ نگاہ محسن خانپوری کے دیوانِ ریختی کے اس ایک شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دن کو ٹرایا مُوا ،پر مجھ سے ہارا رات کو
ڈھونڈتا پھرتا تھا تنکے کا سہارا رات کو
تانیثیت کی ابتدا کے بارے میں ڈاکٹر شہناز نبی لکھتی ہیں:
’’عورتوں پر ظلم و ستم اور جبرواستبدادکی روایت بہت پرانی ہے‘‘۔(دوسرا باب۔تانیثیت :آغاز و ارتقا۔ص ۳۱)
’’عورت نے پہلی بار بغاوت کب کی۔اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔تاہم Ellen Key کہتی ہے کہ نسائی تحریک کی شروعات وہاں سے ہوئی جب پہلے پہل حوّا نے شجر ممنوعہ کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔غرض
عورت کا اپنے مجوزہ حدود سے تجاوز کرنا ہی نسائی تحریک کی ابتدا تھی‘‘(دوسرا باب۔تانیثیت :آغاز و ارتقا۔ص ۳۲)
ظلم و ستم کی روایت تو بلاشبہ بہت پرانی ہے،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی ابتدا کا سرا شجرِ ممنوعہ کی طرف ہاتھ بڑھانے سے جوڑنا شاید مناسب نہیں۔ایلن کی یہاں چوک گئی ہیں۔جبرواستبداد کے خلاف بغاوت ہوتی تو سر آنکھوں پر۔لیکن شجرِ ممنوعہ والی بغاوت سے پہلے تو کسی ظلم و ستم کے شواہد نہیں ملتے۔نہ کسی مذہبی روایت میں نہ کسی غیر مذہبی روایت میں۔اس لیے اگر یہ بغاوت تھی تو کسی ظلم و ستم کے بغیر ہی برپا کر دی گئی تھی۔وگرنہ یہ کوئی بغاوت نہیں تھی بلکہ آدم و حوا کا مشترکہ طور پر شعور و آگہی کا پھل چکھنے کا عمل تھا۔نسلِ انسانی کے پھلنے پھولنے کی راہ نکالنے کی طرف دونوں کا مشترکہ پہلا قدم تھا۔
تیسرا باب’’مختلف ممالک اور تانیثی تحریک’’کے عنوان سے ہے،یہ باب باقی تمام ابواب سے زیادہ تفصیلی ہے۔بلکہ باقی چار ابواب کی مجموعی ضخامت سے بھی زیادہ ہے۔اس میں برطانیہ،امریکہ،جرمنی،فرانس،چین، جاپان،اٹلی،ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش،عرب دنیا کے ممالک،ایران اور جنوب مشرقی ایشیا کے انڈونیشیا ، ملائیشیا،ماریشس،اور فلپائن میں اس تحریک کے اثرات کو دیکھا گیا ہے۔عمومی طور پر ہر ملک کے سیاسی و سماجی پس منظر سے شہناز نبی نے وہاں اس تحریک کی ابتداسے لے کر اب تک کی صورتِ حال کو اپنا موضوع بنایا ہے۔یوں ان سارے خطّوں کی سیاسی و سماجی ہی نہیں فکری ومذہبی روایات کا ایک تاثر بھی سامنے آتا ہے۔بدھ معاشرت ہو یا ہندو،مسلم معاشرت ہو یامسیحی۔۔۔ان پر بات کرتے ہوئے شہناز نبی نے عورت کے حوالے سے مختلف مذہبی احکامات کے مثبت پہلوؤں کو عمدگی سے اجاگر کیا ہے ۔احکامات سے انحراف کرتے ہوئے سماجی سطح پر خرابیاں کہاں پیدا ہوئیں،پھر اس پر بھی بات کی ہے۔بہر حال یہ وسیع مضمون ہے جسے شہناز نبی نے بڑی حد تک وسعتِ قلبی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس سلسلہ میں مزید مکالمہ کی راہ کھول دی ہے۔
چوتھے باب میں’’تانیثیت کی تھیوریاں‘‘کے زیر عنوان سات تھیوریزکا تعارف کراتے ہوئے بحث کی گئی ہے۔ان سات تھیوریزکے نام یہ ہیں۔حریت پسند تانیثیت(Liberal Feminism )،مارکسی تانیثیت(Marxist Feminism )،انتہا پسند تانیثیت(Redical Feminism)،تحلیل نفسی تانیثیت (psycho-analytic Feminism )،سماجی تانیثیت(Social Feminism )،وجودی تانیثیت(Existentialist Feminism )،مابعد جدید تانیثیت(Post Modern Feminism )۔
ان ساتوں تھیوریوں کو بیان کرنے سے پہلے شہناز نبی نے برملا طور پر اقرار کیا ہے کہ:
’’مختلف عہد میں تانیثیت سے متعلق مختلف تھیوریاں وضع کی گئی ہیں۔چند لوگ اس بات پہ متفق ہیں کہ تانیثیت کی کوئی ایک تھیوری نہیں ہو سکتی۔پدری سماج میں عورتوں پر جبر واستبداد کی مختلف وجہیں تھیں۔تمام حالات و واقعات کے پیش نظر تانیثیت کو اپنے اپنے طور پر سمجھنے کی کوششیں ہوئیں‘‘(چوتھا باب:تانیثیت کی تھیوریاں۔ص ۳۰۹)
حریت پسند تانیثیت والے عورت کے حقوق مرد کے مساوی کرنے کے لیے کوشاں رہے۔مارکسی تانیثیت نے سماجی ناہمواری کے تناظر میں اشرافیہ کی عورتوں کے مسائل کے مقابلہ میں عام خواتین کے مسائل کو مختلف قرار دیااور انہیں کے حق میں آواز بلند کی۔انتہا پسندتانیثیت والے اپنے نام کی مناسبت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ’’عورتوں پر ظلم و ستم کی روایت اتنی پرانی ہے کہ اسے سماج سے طبقاتی فرق مٹا کربھی ختم نہیں کیا جا سکتا‘‘(ص ۳۳۸)۔یہ سارے حقوق مل جانے کے بعد بھی ھل من مزید کا نعرہ ہے۔گویا ایک استحصالی طبقے کے خاتمہ کے بعد دوسرے استحصالی طبقے کو جنم دینا مقصود ہے۔تحلیل نفسی تانیثیت میں نام کے عین مطابق فرائڈکے جنسی اور نفسیاتی حوالوں کو بنیاد بنایا گیا۔سماجی تانیثیت نے پہلی چاروں تھیوریزپر غور و فکر کرتے ہوئے ان کی بعض باتوں سے اختلاف اور بعض سے اتفاق کرتے ہوئے کسی حد تک امتزاجی رویے کو اہمیت دی۔وجودی تانیثیت میں وجودی فلسفے کی بنیاد پرعورت کی شخصی آزادی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔وجودی تانیثیت کی تھیوری سیمون دی بوار(Simon de Beauvoir )کی عطا سمجھی جاتی ہے۔
انہوں نے ژاں پال سارتر کے ساتھ دوست بن کر ساری زندگی گزاری تھی۔مابعد جدیدتانیثیت والے اتنے ہی الجھے ہوئے ہیں جتنا مابعد جدیدیت کا تصور الجھا ہوا ہے۔ ان کے ہاں تانیثیت کی کوئی بنیادی بات کرنے کی بجائے اپنی مخصوص لسانی فلسفے کی اصطلاحوں کے ساتھ اسے جوڑنے کی کاوش دکھائی دیتی ہے۔
تانیثیت کی ان سات تھیوریز کا تعارف کرانے کے بعد ڈاکٹر شہناز نبی اس رائے کا اظہار کرتی ہیں:
’’غرض تھیوری کی ضرورت اور اہمیت پر مختلف رائیں پیش ہوئی ہیں۔کسی کے لیے یہ اہم ہے تو کسی کے لئے غیر اہم۔اس بات پر اتفاق ہونا ہی چاہئے کہ کسی تحریک کی تاریخ لکھنے کے دوران ان تھیوریوں کا مطالعہ ناگزیر ہوجاتا ہے،جنہوں نے تحریک کو تقویت عطا کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے‘‘
(چوتھا باب:تانیثیت کی تھیوریاں۔ص ۳۷۸)
پانچویں باب ’’تانیثی نظریات:اختلاف۔اتفاق۔اثرات‘‘میں شہناز نبی نے ایک طرح سے اپنے پورے مقالہ کا محاکمہ پیش کیا ہے۔تانیثیت کی بحث میں کہاں کہاں کیا اختلاف ابھرے،کہاں ایک مجموعی نوعیت کی ہم آہنگی سامنے آئی اور دنیا بھر میں ہونے والی عملی جدو جہد کے کیا اثرات ظاہر ہوئے۔کتنی کامیابیاں ملیں۔ان ساری باتوں کو خلاصہ کے رنگ میں پیش کر دیا گیا ہے۔جہاں تک عورتوں کے مساوی حقوق کی بات ہے،بے شمار اہلِ دانش نہ صرف اس کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے جدو جہد کا حصہ بھی بنے ہیں۔ تمام شعبہ ہائے حیات میں مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کی بات اب عملی زندگی میں تدریجاََ بہتر ہوتی جا رہی ہے۔اسے مزید بہتر کیے جانے کی ضرورت ہے۔لیکن اس سے آگے کیا ہونا چاہئے؟
شہناز نبی نے Stephen Heath کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
’’مرد چاہے کتنی ایمانداری سے اس تحریک میں شامل ہوں،ان کی نیت پر شبہ برقرار رہے گا۔‘‘(ص۔۳۸۰)
ایک طرف تو یہ کہا گیاکہ تانیثیت کے حوالے سے کام کرنے والے مرد بھی تانیثی تحریک کا حصہ ہیں۔اور دوسری طرف ان کے حوالے سے شک کی اتنی بڑی دیوار کھڑی کر دی گئی۔
ادب کے معاملہ میں بھی ایسا ہی کنفیوژن سامنے آتا ہے۔ایک طرف کہا جاتا ہے کہ خواتین کے ادب کے بارے میں، خواتین سے متعلق معاملات پر لکھنے والے ادیب بھی تانیثی ادب کا حصہ ہیں۔دوسری طرف شہناز نبی خواتین کے لیے الگ ڈبے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے جائزہ میں لکھتی ہیں:
’’ادب میں خواتین کے ادب کی علاحدہ شناخت کا مطلب تھاان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا۔تانیثیت کے مخالفین کا کہنا تھا کہ ادب کو آخر مرد اور عورت کے خانے میں کیوں بانٹا جائے۔لیکن عورتوں کی ایک بڑی تعدادعلاحدہ شناخت کے حق میں تھی اور ہے‘‘(ص۔۳۸۳)
چونکہ معاملہ فیمینزم کا ہے ،اس لیے میں اس میں دخل اندازی نہیں کروں گا۔تاہم اگر خواتین لکھاری اپنے لیے الگ خانہ بنا کر آگے چلنا چاہتی ہیں توبسم اللہ۔چشمِ ماروشن،دلِ ماشاد!تاہم کم از کم ادبی حوالے سے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد خواتین رائیٹرز کو خود احساس ہوگا کہ اپنے لیے الگ شناخت پر اصرار کرکے انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ادب کے مرکزی دھارے سے الگ کر لیاہے۔پردے کا خاتمہ کرنے کے باوجود خود ہی ٹرین جیسے زنانہ ڈبے میں الگ ہو کر بیٹھ گئی ہیں۔لیکن چونکہ فیمینسٹ خواتین کواس کا حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے مطالبہ کریں ،وہ سب ان کا حق ہے،اس لیے میں بھی ان کے اس مطالبہ کی مخالفت نہیں کروں گا۔خود ہی بھگتیں گی!
مرد اورعورت اپنی جسمانی ساخت کے اعتبار سے جو امتیازی اوصاف رکھتے ہیں وہ دونوں کی اپنی اپنی شناخت ہیں ،دونوں کا امتیازی وصف ہیں۔ان میں سے کسی کے وصف کونہ تو کمتر سمجھا جانا چاہئے اور نہ اس کی وجہ سے کسی کو احساسِ کمتری میں مبتلا رہنا چاہئے۔بلکہ تخلیق آدم کے بعد حوا کی تخلیق کی روایت کو سامنے رکھا جائے تو مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کا گم شدہ حصہ ہیں۔ان گم شدہ حصوں کا باہم ہوناباعثِ خیر ہے،اور نسلِ انسانی کے پھلتے پھولتے رہنے کی ضمانت۔انسانی زندگی کا تسلسل در حقیقت مذہبی زبان والی ابدی زندگی ہی ہے۔سماجی سطح پر مرد اور عورت کا رشتہ قائم رہنا ہی معاشرے کی بھلائی کا موجب ہے۔باقی دوسری جنسی بے راہروی کی تحریکیں اپنی تمام تر کشش کے باوجودمرد اور عورت کے فطری رشتے کے سامنے ہیچ ہیں،لغو اور بے معنی ہیں۔
اس لیے عورتوں کے تمام بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہدسر آنکھوں پرلیکن اس سے آگے جا کر بچے کی پیدائش سے انکار کرنا،سماجی بندھنوں کورد کرنا اور یکسر آزاد زندگی پر اصرار کرنا کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ انسانی تہذیبیں دریاؤں کے کناروں پر آباد ہو کر پھلی پھولی ہیں اور یہ ساری تہذیبیں ہمیں دریا کے پانی کااپنے کناروں کے اندر رہنے کاسلیقہ سکھاتی ہیں۔دریا کبھی کبھار اپنے کناروں سے چھلک جاتے ہیں توخانہ خرابیاں اور بربادیاں لاتے ہیں۔سو انسانی سوسائٹی سے نا انصافی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔اس کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رہنی چاہئے۔لیکن اس سب کے ساتھ مرد اور عورت کا فطری رشتہ سماجی ضوابط کے ساتھ قائم رہنا چاہئے۔یہ بات تانیثیت کے حق میں جائے یا نہ جائے،لیکن یہ انسانیت اور انسانی سوسائٹی کے حق میں ضرور جاتی ہے۔اور ہاں انسانی سوسائٹی میں ایک طبقہ پیدائشی مخنثوں کا بھی ہے۔یہ طبقہ مظلومیت میں عورت سے کہیں بڑھ کر مظلوم ہے ۔ تانیثی تحریک کے سنجیدہ ترجمانوں کو اس مظلوم کے مساوی حقوق کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
فیمینزم کے موضوع پر اردو میں ایک عرصہ سے تھوڑا بہت لکھا جا رہا ہے تاہم مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹرشہنازنبی کی کتاب ’’فیمینزم۔تاریخ و تنقید‘‘اس موضوع پر پہلی بھر پور کتاب ہے۔شہناز نبی نے اپنے جائزہ میں ایک عمدہ نتیجہ
نکالا ہے،اسی پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
’’فیمینزم کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات بھی محسوس کی گئی کہ نہ تمام عورتیں مجبور و محکوم ہیں،نہ تمام مردظالم و جابرہیں۔‘‘(ص۔۳۹۸)