(Last Updated On: )
وہ لوگ جن کے عزائم بلند ہوتے ہیں
وہی عظیم وہی ارجمند ہوتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے ہمیں ادبی ذوق و شوق مشائخِ شاہ آباد کے فیضانِ نظر خصوصاً علامہ سیّد محمد فاروق القادری رحمتہ اللہ علیہ کی شفقت ، عنایت اور بندہ پروری سے نصیب ہوا۔ اس خصوصی عنایت و محبت کو قائم رکھنے میں اُستادِ محترم صادق جاوید صاحب کی انسان دوستی اور ادب پروری نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اُستادِ محترم اپنے طلباء میں تحریک پیدا کرنے کے لیے مختلف رول ماڈلز کے تذکرے ، تجاویز اور مثالیں سامنے رکھ کر راہِ عمل میں پیش قدمی کے نت نئے طریقے آزماتے رہتے ہیں ۔
بلاشبہ محمد یوسف وحید‘ مدیر ’’ شعوروادراک ‘‘ کو بھی ہمارے سامنے رو ل ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا جو غائبانہ تعارف سے کہیں زیادہ ہمہ صفت اوصاف کی حامل شخصیت ثابت ہوئے ۔ فروغِ ادب کے لیے ہمہ وقت تیار ، مختلف ادبی شہ پاروں کی تلاش ، نئے اور پرانے لکھنے والوں سے سماجی رابطہ اور بے لوث خد مات ایسے کام انہیں دوسرے ادیبوں سے ممتاز ثابت کرتے ہیں ۔محمد یوسف وحید جس طرح حوصلہ افزائی ، تھپکی میدان میں اُترے لوگوں کی مثالیں دے دے کر وہ بندے کو عمل اور پھر ادب سے جوڑتے ہیں‘ وہ بے مثال و باکمال ہے ۔ محمد یوسف وحید کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ایک عارف کا شعرملاحظہ فرمائیں:
ارادوں کی اُڑانیںہیں ، فلک تسخیر کرتی ہیں
جہاں میں ورنہ کوئی بھی، کبھی اُڑتا نہیں دیکھا
محمد یوسف وحید سے ابتدائی تعارف اور شرفِ ملاقات ’’ شعوروادراک ‘‘ کا شمارہ نمبر ۵ ‘میںشامل علامہ سیّد محمد فاروق القادری کے لیے خصوصی گوشے کے حوالے سے ہوا ۔ محمد یوسف وحید نے کمال شفقت سے ترغیب دلائی ، حوصلہ بڑھایا ، رہنمائی فرمائی اور علامہ سیّد محمد فاروق القادری کی شخصیت کے حوالے سے ایک مضمون لکھنے کا اعزاز مجھ ایسے طفلِ مکتب کو حاصل ہوگیا ۔ جس کے لیے میں اُن کا تہہ دل سے مشکو ر ہوں ۔
اُستادِ محترم صادق جاوید صاحب نے آئندہ ملاقات پر ’’شعوروادراک ‘‘ کا شمارہ نمبر ۶۔’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘عنایت فرمایا اور شمارے پر تبصرے لکھنے کا بھی فرمایا ۔ گزشتہ ملاقات کے نہایت خوش گوار تجربے سے یہ بات تو معلوم ہوچکی تھی کہ محمد یوسف وحید جو ٹھان لیتے ہیں وہ مکمل کرکے ہی دَم لیتے ہیں ۔ شعوروادراک کا تازہ شمارہ ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ کا سرورق دیکھا ۔ سرورق پر موجود حفیظ شاہد کی تصویر ایک واضح پیغام دے رہی تھی کہ مذکورہ شخصیت کا جو فیاضی خاکہ بن رہا ہے۔ وہ بھی ادب کے خزینوں کے مترادف مواد ملے گا اور بعد میں ہمارا یہ خیال صد فی صد درست ثابت ہوا ۔
تازہ شمارے کی حُسنِ ترتیب پر نظر ڈالی تو جن نامور لکھاریوں نے ہمیں براہِ راست یا بالواسطہ مدّاح اور مثبت طرزِ تحریر سے متاثر کر رکھا تھا‘ اُن کے اَسمائے گرامی دیکھ کر ’’ شعوروادراک ‘‘ کے علمی، ادبی، تحقیقی اور ذوق نواز ہونے کا یقین ہوگیا ۔ جس کو بعدازاں مکمل مطالعہ نے عین الیقین میں بدل دیا ۔البتہ ان میں محمد یوسف وحید ، یاور عظیم ، نذیر احمد بزمی ، شاہد اِقبال جتوئی ، مرز احبیب ، صفدر بلوچ اور نصرت جہاں صاحبہ سے تعارف بہت عرصے سے ہے ۔
’’حفیظ شاہد نمبر ‘‘ کا مطالعہ مدیر محترم کی ’’ اپنی بات ‘‘سے شروع ہو کر دلوں کی دنیا بدل کر رکھ دینے والے اشعار تک پہنچا تو ہمیں بے حد خوشی ہوئی اور ساتھ ہی محمد یوسف وحید کا ادبی قد کاٹھ ہماری نظر میں مزید اونچا ہوگیا ۔ خصوصی شمارہ میں مدیر محترم نے واقعی علمی اور ادبی سرمایہ محفوظ کر دیا ہے جو زندگی کرنے والوں کے لیے یقینا ایک کار آمد پند نامہ بھی ہے ۔ تمام تحریریں نہایت عمدہ اور قابلِ ستائش ہیں ۔ شمارے کی اہمیت و افادیت کومزید بہترسمجھنے کے لیے فہرست ملاحظہ فرمائیں :
فہرست …خصوصی شمارہ ’’حفیظ شاہد نمبر‘‘۔ شعوروادراک شمارہ نمبر۶ (اپریل تا جون ۱۲۰۲ء)
عنوان
مصنف
صفحہ
٭ حمدیہ / نعتیہ کلام
حمد /نعت/مناجات/دُعا
حفیظ شاہد ؔ
5-9
اپنی بات مدیر کے قلم سے ….
محمد یوسف وحید -(مدیر)
13
٭ شخصیت
حفیظ شاہد …شخص و عکس
سعدیہ وحید
17
حفیظ شاہد کا ادبی سفر
محمد یوسف وحید ( مدیر)
20
دبستانِ خان پور کا قیمتی اثاثہ …حفیظ شاہد
میگزین رپورٹ
22
حفیظ شاہد ۔ کچھ یادیں
اظہر ادیب
25
میں اور اُستاذی
یاور عظیم
26
اُردو غزل کا فخر …حفیظ شاہد
نذیر احمد بزمی
33
یادوں کی کہکشاں اور حفیظ شاہد
اظہر ادیب
39
سادہ مزاج دوست …حفیظ شاہد
سعید شباب
41
اُردو غزل کا معتبر حوالہ …حفیظ شاہد
مرزا حبیب
43
اُستاد الشعراء …حفیظ شاہد
شاہد اقبال جتوئی
47
ادب کا سرمایہ …حفیظ شاہد
رانا نصر اللہ ناصر
49
مشرقی روایات کا امین …حفیظ شاہد (تاثرات)
محمد اکرم /اختر رسول چودھری
51
عمدہ تخلیق کار …حفیظ شاہد
اکمل شاہد کنگ
52
حق و صداقت کا پیامبر …حفیظ شاہد
صفدر بلو چ
55
ہمہ جہت شاعر …حفیظ شاہد
نصر ت جہاں
58
٭ فنی و فکری جہات
منفرد اُسلوب کا شاعر …حفیظ شاہد
غلام قادر آزاد
61
حفیظ شاہد کے کلام کا موضوعاتی جائزہ
یاور عظیم
66
حفیظ شاہد کا فکری و فنی سفر
سعدیہ وحید
69
حفیظ شاہد…فن و شخصیت
مظہر عباس
75
حفیظ شاہد اور ’’ سفر روشنی کا ‘‘
ڈاکٹر ارشد ملتانی
78
تازہ دم اور تازہ کار شاعر …حفیظ شاہد
حسن اکبر کما ل
80
حفیظ شاہد کی کتب کا مختصر تعارف
مظہر عباس
81
شاندار روایات کا امین …حفیظ شاہد
ڈاکٹر ندیم احمد شمیم
88
حفیظ شاہدکی وطن سے محبت
مجاہد جتوئی
92
حفیظ شاہد اور فنِ تاریخ گوئی
نذیر احمد بزمی
94
محسنِ ادب و سفیرِ محبت …حفیظ شاہد
معظمہ شمس تبریز
97
٭ خصوصی مطالعہ
زندہ حقیقتوں کا شاعر…حفیظ شاہد
سیّد عامر سہیل
101
توانا لب ولہجے کا شاعر…حفیظ شاہد
پروفیسر ڈاکٹر نواز کاوش
106
روشنی کا سفیر …حفیظ شاہد
حیدر قریشی
112
تاریخ گوئی کی روایت اور قطعاتِ تاریخ کا مطالعہ
مظہر عباس
117
معانی در معانی کا جہاں …حفیظ شاہد
محمد صادق جاوید
127
شاعر میرے شہر کا
زاہدہ نور
132
حفیظ شاہد…اہلِ فن کی نظر میں
سعدیہ وحید
137
٭ خراجِ عقیدت
حفیظ شاہد… انسان دوست شخصیت
حسنین ارشد
186
اُستادِ محترم حفیظ شاہد کے نام /حفیظ شاہد کی یاد میں
اظہر عروج /شہباز نیئر
187-88
٭ مدیر کے نام! (تبصرے/تجزیے/تاثرات)
189-221
حفیظ شاہد …فکر و فن
سعدیہ وحید
222
٭ حفیظ شاہد کا غیر مطبوعہ کلام
حفیظ شاہد کا غیر مطبوعہ کلام …م۔ ی ۔ و
227
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ اُردو غزلیات
231
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ گیت ‘ملی نغمے
248
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ پنجابی غزلیات
250
’’حاصلِ غزل‘‘غیر مطبوعہ فلمی گیت
257
منتخب اُردو غزلیات … سعدیہ وحید
265
مجھے بتا کہ مرا حوصلہ کہاں کم ہے
مری اُڑان کے آگے تو آسماں کم ہے
جس طرح ہر چیز کی ایک مقامی اور بین الاقوامی قیمت ، اہمیت ، افادیت اور ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح ہر انسان کے قول ، فعل ، عقل ، شعور ،ظہور ، ذہانت ، ذکاوت اور فہم و ادراک کی عملی شکل اُس کے تخلیقی اور فکری شعور کی آگہی کا نام ادراک ہے ۔ جب ہم کسی بارے جان لیتے ہیں تو گویا وہ بات ہمارے علم میں اضافے کا باعث ہوتی ہے ۔بلاشبہ محمد یوسف وحید کی تخلیقی اور فکری شعور و آگہی کی عمدہ مثال مجلہ ’’ شعوروادراک‘‘ ہے ۔
لسانیات اور ادبیات کے فروغ کے تحت الوحید ادبی اکیڈمی کے فورم سے مجلہ ’’ شعوروادراک ‘‘ میں حفیظ شاہدکے غیر مطبوعہ اُرد واور پنجابی کلام کو’’ حاصلِ غزل‘‘ کے عنوان سے ترتیب دینا نہایت عمدہ علمی و ادبی کارنامہ ہے ۔ اس اہم کام کو سر انجام دینے میں محمد یوسف وحید ایسے انسان دوست اور ادب پرور شخصیت ہی کو اوّلیت حاصل ہوسکتی تھی کہ جنہوں نے خالصتاً فروغ علم و ادب ، خلوص و محبت اور نیک نیتی کو شاملِ حال رکھتے ہوئے اور حفیظ شاہدکے ساتھ وفا داری نبھاتے ہوئے حالیہ شمارہ ’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ ترتیب دیا ہے ۔ خصوصی شمارہ نئے اور پرانے لکھنے والوں کی حفیظ شاہد سے محبتوں کا عکاس ہے ۔
اُردو غزل کو جدید آہنگ و اُسلوب عطا کرنے والے حفیظ شاہد واقعی ایک نامور شخصیت ہوگزرے ہیں۔ حفیظ شاہد نے اپنے تخلیقی سفر سے کسی ایک فرد یا ایک جماعت کو متاثر نہیں کیا بلکہ علمی ادبی ،سماجی ،تعلیمی ،ثقافتی اوردیگر ہمہ جہت شعبوں اور ان سے منسلک طبقوں کوبھی متاثر کیا ہے ۔
حفیظ شاہد کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں :
کیا دیا جائے ہمیں انعام زیرِ غور ہے
سُن رہے ہیں ہم، ہمارا نام زیرِ غور ہے
ریت کے ٹیلے اُڑا کر لے گیا طوفانِ باد
ساکنانِ دشت کا انجام زیرِ غور ہے
دیکھیے کیا رنگ لائے منصفوں کا فیصلہ؟
میرے بارے میں تِرا الزام زیرِ غور ہے
موسمِ نا مہرباں کو اس زمیں پر بھیج کر
وقت نے بھیجا ہے جو پیغام زیرِ غور ہے؟
جو نگاہِ غیر میں بھی قابلِ تحسین ہو
کیا کریں دنیا میں ایسا کام زیرِ غور ہے؟
ایک دوراہے پہ آ کر رُک گیا ہے کارواں
کون سی ہے شاہراہِ عام ، زیرِ غور ہے؟
پوچھتے ہیں مجھ سے شاہدؔ میرے سارے ہمنشیں
ان دنوں کیوں تلخیِ ایّام زیرِ غور ہے؟
ان دو اشعار میں حفیظ شاہد نے شعو ر اور زمانے کے مسائل سے آگاہی کا انتظام کرد یا ہے ، ان اشعار میں شاعر کا پیغام دیکھئے کہ ایک تو وقت کی آندھی بے سرو سامان کر گئی ہے دوسرا پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے اورہرطرف سے دِکھاوے کی خیر خواہی نظرا ٓتی ہے ۔ ہمیں انسان ہونے کا احترام بھی نصیب نہیں ۔بس ہمارا کیا بنے گا اس پر غور ہے ، کیسے بنے گا اس کی پروا نہیں ۔موجودہ حالات سے پوری دنیا پریشان ہے ۔ اپنے اور دوسرے معلوم ہونے کے باوجود بھی پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ؟جب کہ مقامی اورملکی سطح پر مسائل سب کے سامنے ہیں اور پھر حفیظ شاہد وقت کے ہر پیشوا کو احساس باور کر ارہے ہیں کہ لوگ اس سے خوش نہیں ہیں ۔ یہ تازہ او ر ہر فرد کے مسائل ہیں ۔ یہ ایک آگہی ہے ۔ یہ ایک نوحہ ہے ۔ یہ ایک احساسِ زیاں ہے ۔ یہ خود کچھ کر نے کی ترغیب ہے اورہمیں خوشی ہے کہ یہ سارا پیغام محمد یوسف وحید کے وسیلے سے پھیل رہا ہے اور اصلاح و احوال کے راستے اور امکانات کا پتا دے رہا ہے ۔
حالیہ خصوصی شمارہ میںحفیظ شاہد کے کلیات کے بعد کا غیر مطبوعہ کلام بھی پہلی مرتبہ ’’ حاصلِ غزل ‘‘ کے عنوان سے مدیر محترم محمد یوسف وحید نے ترتیب دیا ہے ۔حفیظ شاہدکے غیر مطبوعہ کلام کی دستیابی ، جملہ ترتیب ، پروف ریڈنگ اور خصوصاً کلام کے حُصول کے لیے صبر آزما مراحل اور مشکلات سے گزر کر محمد یوسف وحید نے اس اہم ذمہ داری کواحسن طریقے سے مکمل کیا ہے ۔ یقینا یہ عمل نہایت اہمیت کا حامل اور صد لائقِ تحسین ہے ۔
اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے’’ حفیظ شاہد نمبر ‘‘ کوملنے والی پذیرائی اصل میں اس عمل سے منسلک محنت ، جدوجہد اور خواب کی تکمیل کا حاصل وُصول ہے ۔ماشاء اللہ اس کامیابی ، پذیرائی اور عزت افزائی کا سہرا ’’شعوروادراک‘‘ کے ساتھ قلبی ، قلمی ، فکری اور شعوری طور پر وابستہ مخلصینِ ادب اور خصوصاً محمد یوسف وحید اور سعدیہ وحید کے سَر ہے ۔اللہ کریم محمد یوسف وحید کے خلوص ،جذبے اور حوصلے کو سلامت رکھے اور مزید استقامت نصیب فرمائے ۔ آمین
محمد یوسف وحید کی نذر حفیظ شاہد کی ایک غزل کے چند اشعار :
کٹھن حالات میں اپنے ارادوں کو جواں رکھنا
ہمیں آتا ہے دل میں شعلہ ٔ غم کو نہاں رکھنا
ہماری فکر تم چھوڑو ہمیں یہ کام آتا ہے
اندھیروں میں بسر کرنا نظر میں کہکشاں رکھنا
کہاں آسان ہے اہلِ سخن کی بھیڑ میں شاہدؔ
جدا اَوروں سے اپنا طرزِ گفتار و بیاں رکھنا
’’حاصلِ غزل ‘‘ سے ایک اُردو غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
اس طرف اندھیرا ہے ، اُس طرف اُجالا ہے
یہ مرا حوالہ ہے ، وہ ترا حوالہ ہے
منتظر کبھی کا میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوں
اور یہ نہیں معلوم کون آنے والا ہے
اس زمین پر کتنے قتل روز ہوتے ہیں
جانے کیوں خموش اب تک آسمان والا ہے
غور سے ذرا دیکھو ہر کتاب چہرے کی
اک نیا صحیفہ ہے ، اک نیا حوالہ ہے
اُس کو غیر ہم سمجھیں ، یا اُسے کہیں اپنا
اُس کی بے نیازی نے مخمصے میں ڈالا ہے
خود سے لا تعلق ہوں ، آپ اپنا دشمن ہوں
کسی عجیب سانچے میں اُس نے مجھ کو ڈھالا ہے
کیا ڈرے گا دل شاہدؔ وقت کے مصائب سے
گردشوں کا خوگر ہے، سختیوں کا پالا ہے
پنجابی غزل بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
جندڑی ٹھیڈے کھاندی رَہ گئی
منزل کول بُلاندی رَہ گئی
وگدا رہیا چناں دا پانی
سوہنی غوطے کھاندی رَہ گئی
سونا لے گئی نال جوانی!
والاں دے وچ چاندی رَہ گئی
قسمت ، پلّے ککّھ نئیں چھڈیا
اوہدی آس دی جاندی رَہ گئی
دیمک موت دی ہَولے ہَولے
جسم دا بُوٹا کھاندی رَہ گئی
روڑھ کے لے گیا ہَڑ دا پانی
خلقت رَولا پاندی رَہ گئی
روندے رَہ گئے بُکھّاں مارے
دُنیا جشن مناندی رَہ گئی
یاد کسے دی دل دے ویہڑے
شاہدؔ پیلاں پاندی رَہ گئی
حفیظ شاہد نے زندگی کے آخری ایام میں کہی گئی غزلوں میںسے ایک غزل جو مضمون اور ابلاغ کے لحاظ سے منفرد اور کلاسیقیت سے بھر پور ہے ۔ ’حاصلِ غزل ‘‘ میں ’’حفیظ شاہد کی آخری غزل ‘‘ کے عنوان سے شامل غزل ملاحظہ فرمائیں :
اے میری زندگی، خدا حافظ
پھر ملیں گے کبھی، خدا حافظ
اِک نیا گھر بسَا رہا ہوں میں
اے مری بے گھری، خدا حافظ
پھر نہ تجھ کو گلے لگائوں گا
اے غمِ عاشقی، خدا حافظ
جانے والے تجھے مبارک ہو
اک نئی زندگی، خدا حافظ
چُھپ گیا چاند ، بُجھ گئے تارے
اے مِری چاندنی، خدا حافظ
وقتِ رُخصت کسی کے ہونٹوں پر
بس دُعا تھی یہی، خدا حافظ
جس پہ تم ہوگئے خفا اتنا
بات کچھ بھی نہ تھی، خدا حافظ
آگئی تیرے سامنے شاہدؔ
پھر سفر کی گھڑی، خدا حافظ
الغرض ’’ شعوروادراک ‘‘اُردو ، پنجابی اور سرائیکی زبان و ادب کا بہترین ترجمان ہے ۔’’ شعوروادراک ‘‘ مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح کا اعلیٰ ادبی اقدار کا پاسبان ، عکاس اور بالخصوص ہمارے خطے میں تخلیق ہونے والے ادب کا نمایاں اور نمائندہ حوالہ ہے ۔اللہ کریم اس علمی و ادبی کارواں کو قائم و دائم رکھے ۔ مدیر محمد یوسف وحیدکے عزم وحوصلے اور جواں جذبوں کی نذرشکیل اعظمی کا ایک شعر پیش ہے ۔
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
٭٭٭