جس طرح زمین تہہ در تہہ ہے بالکل ایسے ہی زمین کے اوپر فضا بھی تہوں میں بٹی ہے۔ ہر تہہ کی اپنی خصوصیات اور موٹائی ہے۔ زمین کی فضا دراصل چند گیسوں کا مجموعہ ہے۔ زمین کی فضا میں 78 فیصد نائیٹروجن، 21 فیصد آکسیجن،0.9 فیصد آرگان اور باقی 0.1 فیصد دوسری کئی گیسیں ہیں جن میں پانی کے بخارات بھی شامل ہیں۔
زمین کی فضا کو سائنسدانوں نے اسکے درجہ حرارت کے مطابق پانچ بڑی تہوں میں تقسیم کیا ہے۔ انکے زمین سے بالترتیب اوپر تک یہ ہیں: ٹروپوسفئیر، سٹراٹوسفئیر سے میزوسفئیر، تھرموسفئیر اور ایکزوسفیئر۔
ٹروپوسفئیر: فضا کی نچلی تہہ جو زمین کی سطح سے اوپر اوسطاً 12 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ زمین پر موسم اسی فضا میں تبدیل ہوتے ہیں۔ بادل، بارش، آندھی سب اسی تہہ میں آتے ہیں۔ اس تہہ میں درجہ حرارت ہر ایک کلومیٹر اوپر 6.5 ڈگری کم ہوتا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ ہوا کا دباؤ اوپر کم ہوتا جاتا ہے۔ اور جیسے جیسے ہوا اوپر جاتی ہے پھیلتی جاتی ہے۔ اس پھیلاؤ سے درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔
سٹراٹوسفئیر: یہ تہہ زمین سے 12 کلومیٹر اوپر شروع ہو کر 50 کلومیٹر تک ختم ہوتی ہے۔ اوزون لئیر اسی تہہ میں ہے۔ اوزون زمین پر زندگی کو سورج کی خطرناک الٹراوئلٹ شعاعوں سے بچاتی ہے۔
یہاں درجہ حرارت اونچائی کیساتھ بڑھتا ہے جو ٹروپوسفئر سے اُلٹ ہے جہاں درجہ حرارت اونچائی کیساتھ کم ہوتا ہے۔
کیونکہ سورج کی الٹراوائلٹ شعاعیں یہاں جذب ہوتی
جو حدت پیدا کرتی ہیں۔ یہاں درجہ منفی پچاس سے تسلسل میں بڑھتے ہوئے صفر ڈگری تک ہوتا ہے۔
میزوسفیئر:
یہ تہہ زمین سے 50 سے 80 کلومیٹر اوپر تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں درجہ حرارت پھر سے کم ہوتا جاتا ہے اور منفی 90 تک پہنچ جاتا ہے۔
اس تہہ کی حد جسے میزوپاز کہتے ہیں وہاں درجہ حرارت منفی 143 تک چلا جاتا ہے اور یہ حصہ زمین کی پوری فضا کا سب سے ٹھنڈا حصہ ہوتا ہے۔ وجہ یہاں فضا کی کثافت کا کم ہونا ہے اس لیے یہاں سورج کی حرارت جذب کم ہوتی ہے۔یہ فضا کا وہ حصہ ہے جہاں خلا سے تیزی سے آئے شہابِ ثاقب رگڑ کھا کر بھسم ہو جاتے ہیں۔
تھرموسفئیر:
زمین پر 80 سے 700 کلومیٹر اوپر تک پھیلی فضا کی تہہ کو تھرموسفیئیر کہتے ہیں۔ یہاں درجہ حرارت 500 ڈگری سے 2000 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسے جیسے اس تہہ میں اوپر جاتے ہیں درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے۔رات میں یہاں درجہ حرارت دن کی نسبت 200 ڈگری کم کو جاتا ہے۔اس تہہ میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ یہاں سورج سے نکلنے والی ایکس ریز اور الٹراوئلٹ شعاعوں کی وجہ سے ہے۔
تھرموسفئیر کا نچلے حصے کو آئینو سفئیر کہتے ہیں۔
یہاں سورج کی تابکاری شعاعوں سے گیس کے مالیکولز میں سے الیکٹرانز خارج ہوتے ہیں جس سے یہ آئنز بن جاتے ہیں۔ آئنوسفئیر سے ریڈیو ویوز منعکس ہوتی ہیں۔
ہبل ٹیلی سکوپ اس تہہ میں ہوتی ہے۔
ایکزوسفئیر:
زمین سے 500 کلومیٹر اوپر خلا میں 10 ہزار کلومیٹر تک فضا کے اس حصے کو ایکزوسفئیر کہتے ہیں۔ یہاں محض ہائیڈروجن اور آکسیجن ایٹم ہوتے ہیں مگر یہ ایٹم اتنی دور ہوتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی ہی آپس میں ٹکراتے ہیں۔ یہاں
سے ایٹم زمین کی گریوٹی سے نکل کر خلا میں بکھر جاتے ہیں۔
سو یہ ہیں زمین کی فضا کے حصے مگر رکیے ایک تہہ اور بھی ہےجو تہہ تو نہیں البتہ حصار سا ہے یہ زمین کا مقناطیسی حصار یے جسے میگنیٹو سفئیر کہتے ہیں۔ یہ زمین سے 3 ہزار سے 16 ہزار کلومیٹر اوپر ، موناطیسی حصار ہے جو زمین کو سورج سے نکلے تابکار چارچڈ پارٹیکلز کو زمین پر آنے سے روکتا ہے۔
یہاں زیادہ تر کمینوکیشن سٹلائٹس گھومتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...