شمالی وزیرستان پرفوج کشی ایک لاحاصل مہم ہوگی اور کوئی کوتاہ اندیش ڈرون حملوں کے حق میں ہے تو وہ ملک کی سالمیت گروی رکھنے کا حامی ہے!
پاکستانی عساکر کوشمالی وزیرستان میں جھونکنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ اتحادیوں کی افواج قاہرہ ان علاقوں میں امن قائم کرنے میں بدستور ناکام ہیں‘ جو شمالی وزیرستان کی سرحد کے پار افغانستان میں واقع ہیں۔ مولانا فضل اللہ اور اس کے ساتھی افغانستان میں کمین گاہیں بناکر بیٹھے ہوئے ہیں اور پاکستان میں مسلسل دراندازی کررہے ہیں۔ کافرستان کی سیرگاہیں غیرمحفوظ ہوچکی ہیں۔ وہاں اب کسانوں اور چرواہوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ سرحدیں پامال ہورہی ہیں۔ پاکستان کے مسلسل احتجاج کے باوجود امریکہ اور نیٹو کے لشکر صورت حال کو جوں کا توں رکھ رہے ہیں۔ نیچے جنوب میں ان علاقوں میں جو شمالی وزیرستان سے متصل ہیں، نیٹو کے ٹینک غلبہ پانے میں بدستور ناکام ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان سے لشکر کشی کا مطالبہ دھاندلی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک دلدل ہے جس میں پاکستانی فوج اتر گئی تو نکلنا مشکل ہوگا اور غالباً مطالبہ کرنے والوں کا مطلوب و مقصود بھی یہی ہے۔
اور ڈرون حملے؟ اگر ان حملوں کے نتیجہ میں دہشت گرد مارے جارہے ہیں تو آخر میڈیا کو وہاں کیوں نہیں جانے دیا جارہا ؟ لیکن اصل مسئلہ ہماری فضاﺅں کی حرمت کا ہے۔ کسی غیرملکی طاقت کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ پاکستان کی حدود کے اندر دندناتی پھرے۔ جس طرح بھارت ہماری مشرقی فضاﺅں میں نہیں داخل ہوسکتا بالکل اسی طرح مغرب میں بھی کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
پاکستان کی فضائیں مقدس ہیں۔ بالکل اسی طرح پاکستان کی زمین کا ایک ایک انچ مقدس ہے اور ہمارا اپنا ہے۔ ہم کسی امریکی کسی افغان اور نیٹو کے کسی اطالوی‘ جرمن یا ہسپانوی سپاہی کو پاکستان کی سرزمین پر قدم دھرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ بالکل اسی طرح ہم کسی عرب، کسی ازبک اور کسی چیچین کو بھی اپنی سرزمین کا تقدس پامال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ آخر کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ قانونی اجازت نامے کے بغیر ہماری سرزمین میں گھس آئے۔ یہاں رہنا شروع کردے۔ مسلح ہوکرعسکری سرگرمیاں شروع کردے اور ہماری حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے لگے۔
افسوس ہے ان قلم کاروں پر جو پاکستانی فضاﺅں کی تقدیس پر تو الفاظ کے دریا بہا دیتے ہیں لیکن پاکستانی زمین کی حرمت پر لکھتے ہوئے ان کا سانس پھول جاتا ہے۔ کیسے محب وطن ہیں جو اپنی سرزمین غیرملکیوں کے حوالے کردینے پر تیار ہیں۔ مسلح غیرملکی ہمارے علاقوں میں آبادکاری کرنے لگ جائیں ، ہمارے لوگوں کو یرغمال بنالیں، ان پر تسلط قائم کرنے لگ جائیں اور پاکستانی اس پر تشویش کا اظہار نہ کریں، کتنی عجیب بات ہے!
ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پاکستان اسلامی مملکت ہے اس لئے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آسکتے ہیں بالکل درست دلیل ہے۔ ضرور آئیں۔ سرآنکھوں پر ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں
درین خانہ ہر کس کہ پا می نہد
قدم بر سر و چشم ما می نہد
اس گھر میں جوکوئی پاﺅں رکھتا ہے، وہ ہمارے سراور آنکھوں پر رکھتا ہے ۔ہم تو وہ ہیں جو اپنے مہمان سے اس
طرح مخاطب ہوتے ہیں
یا ضیفنا لو زُرتنا لوجدتنا
نحن الضّیوف وانت رب المنزل
اے مہمان! تو اگر ہمارے ہاں آتا تو تجھے معلوم ہوتا کہ ہم تو خود مہمان بن جاتے ہیں اور مہمان کو گھر کا مالک بنادیتے ہیں!
لیکن اگر کوئی مسلمان بھائی آنا چاہتا ہے تو سامنے کے دروازے سے آئے‘ پچھواڑے کی دیوار سے چھلانگ لگاکر نہ آئے۔ ہمارے قانون کی پابندی کرے اور وہ دستاویزات دکھائے جو سرحد پار کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔
اہم ترین اسلامی ملک سعودی عرب ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا وہاں کوئی مسلمان سفری دستاویزات کے بغیر اندر آسکتا ہے؟ کیا وہاں مسلح لوگوں کو اجازت دی جارہی ہے کہ وہ سرحدی علاقوں میں حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے پھریں؟ کیا وہاں جہاد کے لئے نجی لشکروں کی حوصلے افزائی کی جاتی ہے؟ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے قبضہ سے آزاد کرانا تو ہرمسلمان پر فرض ہے تو آخر جہادی لشکر سعودی عرب میں کیوں نہیں جمع ہوجاتے؟ اس لیے کہ ہرملک کے قوانین ہیں اور کوئی ملک اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے قوانین کو پامال کرکے لوگ سرحدیں پھلانگنا شروع کردیں اور اسلحہ کے زورپر حکومت وقت کو چیلنج کرنے لگ جائیں ۔ سعودی عرب میں تو تبلیغی جماعت کے وفود بھی نہیں جاسکتے۔ کیا اس بنیاد پر آج تک کسی عالم دین نے سعودی حکومت کے خلاف کوئی فتویٰ دیا ہے؟ نہیں! اس لئے کہ یہ سعودی حکومت کی اپنی صوابدید ہے۔ جس کو چاہے اپنے ملک کے اندر آنے کی اجازت دے۔ جس کو چاہے روک لے۔ چند سال پہلے پاکستان کی ایک ”تنظیم“ نے متحدہ عرب امارات میں، ایک گھر کے اندر، درس قرآن کا سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کی۔ وہاں کی حکومت کے کارندے اس سرگرمی کے ذمہ دار افراد کو اس گھر سے سیدھا ایئرپورٹ پر لائے اور ملک سے نکال دیا۔ ان کا قانون یہ ہے کہ درس اور وعظ کے لئے مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ ان مسجدوں میں سرکارکی طرف سے واعظ، خطیب اور علما مقرر ہیں۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ یہ سلسلے گھروں میں شروع کردے۔ یہ کالم نگار عینی شاہد ہے کہ ملائشیامیںحکومت کی اجازت کے بغیر کوئی قرآن پاک نہیں پڑھا سکتا‘ یہاں تک کے اپنے گھر میں بھی نہیں۔ بچے صرف ان اساتذہ سے کلام پاک پڑھنا سیکھ سکتے ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے لائسنس ملا ہوا ہے۔
یواے ای اور ملائیشیا کی بات چل نکلی ہے تو یہ بھی عرض کردیا جائے کہ ان سارے ملکوں میں، اور ترکی میں بھی، مسجدیں نجی شعبے کی تحویل میں نہیں۔ بلکہ ریاست کی تحویل میں ہیں۔ آئمہ اور خطیب حکومت کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں۔ انہیں موضوعات بھی ہدایت کیے جاتے ہیں۔ کسی کو اجازت نہیں کہ فرقہ واریت پھیلائے۔ دوسروں کے عقیدے پر طعن و تشنیع کرے یا من گھڑت داستانیں مذہب کے نام پر سناتا پھرے۔ نہ ہی حکومت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ باپ رخصت ہوتو بیٹا مسجد کو وراثت کے طورپر سنبھال لے۔ یہ تو صرف ہمارے ملک میں ہورہا ہے کہ مسجدیں خاندانوں کے لئے وقف ہوکر رہ گئی ہیں اور مختلف مسالک‘ مسجدیں فتح کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں! اگر ایک طریق کار سعودی عرب، متحدہ امارات ، ترکی اور ملائشیا میں رائج ہے اور اس پر کسی عالم دین کو اعتراض نہیں تو پاکستان میں کیوں رائج نہیں ہوسکتا!
پاکستان کی فضا مقدس ہے۔ کسی ڈرون کو اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کی زمین بھی مقدس ہے۔ کسی غیر ملکی کو، خواہ وہ سفید فام ہے یا گندمی رنگ رکھتا ہے، یا زرد ہے یا سیاہ چمڑی والا ہے، پاکستان کی زمین پر، قانونی دستاویزات کے بغیر، قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی!