ف۔س۔اعجازکی ’’چین یاترا‘‘
ماہنامہ’’انشاء‘‘کلکتہ کے مدیر ف۔س۔اعجاز کی جانب سے ۱۹؍اکتوبر ۲۰۱۷ء کو ایک ای میل ملی،اس کا ایک حصہ یہاں درج کر رہا ہوں۔
’’جناب حیدرقریشی صاحب میں آپ کو اپنا سفرنامہ’’چین یاترا‘‘رجسٹرڈ ڈاک سے بھیجنا چاہتا ہوں،اس درخواست کے ساتھ کہ آپ اس پر ایک عالمانہ مضمون تحریر فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ اجازت دیں تو روانہ کر دوں؟‘‘
میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی۔طے ہوا کہ وہ مجھے کتاب کی ان پیج فائل بھیج دیں گے اور میں اسے پڑھ کر اپنی رائے لکھ دوں گا۔سو اب کہ میں ان کی کتاب’’چین یاترا‘‘پڑھ چکا ہوں توجناب ف۔س۔اعجاز کے حکم کی تعمیل کے ساتھ اپنے اس مطالعہ میں اپنے قارئین کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں۔
’’چین یاترا‘‘کے آغاز میں ف۔س۔اعجاز لکھتے ہیں:
’’ادبی سلسلے سے مجھے کئی ملکوں کے سفر کا موقع ملا۔ اس بار چین جانے کا اتفاق ہوا۔ ہند چینی ثقافتی تبادلے کے پروگرام کے تحت چائنا رائٹرز ایسوسی ایشن کی دعوت پر ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی کے ذریعہ ادیبوں کا ایک وفد اکادمی کے سکریٹری کے سرینواسا راؤ کی قیادت میں بیجنگ اور شنگھائی کے چھ روزہ دورے پر روانہ ہوا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ سابق صدر ساہتیہ اکادمی (اکادمی کے موجودہ ریسرچ فیلو) نے ازراہ نوازش میرا نام اس سفر کے لئے اکادمی کے موجودہ صدر جناب وشوناتھ پرسادتیواری کو تجویز کیا تھا۔ اس عنایت کے لئے میں نارنگ صاحب اور ساہتیہ اکادمی کا ممنون ہوں۔(ص۔۷)
’’ میرے علاوہ پروفیسر اوَدھیش کمار سنگھ (ہندی ادیب و اسکالر، ڈائرکٹر، اسکول آف ٹرانسلیشن اسٹڈیز اینڈ ٹریننگ، نئی دہلی، پروفیسر چترنجن مشرا (ہندی ادیب و اسکالر، پرووائس چانسلر انترراشٹریہ ہندی وِشوودیالیہ، وِدربھ، مہاراشٹر)، (ڈاکٹر دھینوواکونڈا راما مورتھی تیلگو ادیب اور ماہر آیوروید، حیدرآباد)، (پرکاش بھٹمبریکر مراٹھی ہندی ادیب و مترجم، ممبئی) اور ڈاکٹر کے سرینو اساراؤ (سکریٹری، ساہتیہ اکادمی) شامل تھے۔(ص۔۸)
پروفیسر گوپی چندنارنگ کی ریکمنڈیشن کے نتیجہ میں، چین یاترا کرنے والے وفدمیں، شمولیت کے اعزاز کے ساتھ ف۔س۔اعجاز کو بیجنگ میں قیام کے لیے مخصوص ہوٹل میں پہنچتے ہی کس مشکل کا سامناہو گیا؟انہیں کے الفاظ میں دیکھتے ہیں۔
’’میں نے کہا ’’اچھا۔ میرا روم نمبر کیا ہے؟‘‘۔
’’420‘‘۔ جواب ایک ساتھ میرے ساتھیوں نے دیا۔
میں نے کہا ’’یہ کیا؟۔ 420 !۔ میں یہ کمرہ نہیں لوں گا‘‘۔ میری تیوری پر بل پڑ گئے۔ ’’میری عزت کا سوال ہے۔ راؤ صاحب ہُوویئی سے کہیں، کوئی دوسرا کمرہ مجھے دلائے‘‘۔
’’ارے بھئی یہاں دفعہ 420 نہیں چلتی۔ اور نہ یہ نمبر یہاں بدنام ہے۔ آپ جائیے، 420‘‘۔ پرکاش بھٹمبریکر نے مشفقانہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔ راؤ صاحب نے بھی تائید کی۔بدمزگی کا احساس لئے میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔‘‘(ص ۱۲)
چین پہنچتے ہی ادیبوں کے اس وفد کو استقبالیہ دیا گیا۔پھرچین میں عالمی کتاب میلہ سجا ہوا تھا ،اسی نسبت سے چائنا رائٹرز ایسوسی ایشن نے دوسرے چینی ہندوستانی لٹریچر فورم کے انعقاد کا اہتمام کر رکھا تھا۔جو در اصل ’’معاصر ادب میں مقامی اور عالمی‘‘کے موضوع پر ایک سیمینار تھا۔چین کے چنیدہ پبلشرز،سرکاری ادیبوں اور ادبی اداروں سے متعلق شخصیات سے انڈین ادیبوں کا بعض میٹنگز میں رابطہ ہوا۔ان سب کا حال بھی معلوماتی ہے لیکن مجھے ’’آسمانی مندر‘‘کی یاتراپڑھ کر تجسس ہواہے۔اس بارے میں ف۔س۔اعجاز بتاتے ہیں۔
’’آسمانی مندر بیجنگ کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ چین کا قدیم دھرم تاؤ (Tao) ہے۔ اس دھرم کے ماننے والے آسمان کی پوجا کرتے ہیں۔ مِنگ (1368-1644ء) اور چِنگ (1644-1911ء) عہد کے بادشاہ آسمانی مندر (Temple of Heaven) میں اچھی فصل کے لئے پوجا کرنے آتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم چین کی معیشت میں زراعت اور کسانوں کی کیا اہمیت تھی۔ آسمان پوجا کا چلن جہاں رائج ہے یہ دنیا کا وہ سب سے بڑا مقام ہے۔
قدیم چینی قوم فطرت کی پوجا کرتی تھی۔ اسی سے آسمان پوجا کی رسم نے جنم لیا۔ اور یہ چینی کلچر کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ چین میں زمیندارانہ سوسائٹی کا عقیدہ تھا کہ آسمان دیوتا ہے اور ساری دنیا پر اُس کی حکومت ہے جبکہ راجہ آسمان کا بیٹا ہے۔ اُسے اُس کے باپ آسمان نے فانی دنیا میں حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے۔ چنانچہ اس طرح سبھی بادشاہ آسمان کی پوجا کیلئے تقریبات منعقد کرتے تھے۔ اپنے اپنے عہد میں اُن کے حقِ بادشاہت کی نمائش کے لئے آسمان کی پوجا لازمی ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔چین میں بادشاہوں کے لئے 9 کا ہندسہ شبھ اور علامتی تھا۔ ۔۔۔۔۔آسمانی مندر کا رقبہ 27 لاکھ بیس ہزار مربع میٹر سے زیادہ ہے۔ سیڑھیوں میں جابجا کنگورے، کٹہرے لگے ہوئے ہیں۔ اور خوشبویات جلانے کے لئے سیاہ دھات کے بنے ہوئے بہت خوشنما بڑے بڑے ظروف جابجا نظر آتے ہیں۔ بادشاہ نے بیجنگ میں اپنی رہائش کے لئے جہاں محل بنایا وہ پورا علاقہ شہرِ ممنوعہ (Forbidden City) کہلاتا ہے۔ (وقت کی تنگی کے سبب شہر ممنوعہ کی سیر سے ہمیں محروم رکھا گیا حالانکہ ہمارے پروگرام میں وہاں کی سیر شامل تھی)۔ (ص۳۳،۳۴،۳۶)
زرعی معاشرے کا آسمان کی پوجا کرنا ،مجھے مزید غور کی طرف مائل کررہا ہے۔بظاہر خانہ بدوش قبائل کے لیے آسمان اور آسمانی مظاہرسورج،چاند ستارے وغیرہ زیادہ اہم تھے۔ کیونکہ ان کا سفر دن میں سورج کی روشنی کا مرہونِ منت تھا ۔رات میں سفر یا قیام دونوں صورتوں میں چاند تاروں کی روشنی ان کے لیے مددگار ہوا کرتی تھی۔اسی نسبت سے زمینی آگ کا شمار بھی روشنی کے ان آسمانی مظاہر کے ساتھ ہونے لگا۔رات کو سوتے وقت آگ کا الاؤ ان کے خیموں کو جنگلی جانوروں کے حملوں سے محفوظ رکھنے میں ممد ہوتا تھا۔سو یوں روشنی کے یہ سارے مظاہر جو خانہ بدوش قبائل کی مدد اور حفاظت کرتے تھے،تدریجاََ ان کے عقائد میں مقدس ہوتے گئے۔سورج اور چاند تاروں کی پوجا سے لے کر آگ کی پرستش تک سارے مذہبی رویے خانہ بدوش قبائل سے مخصوص تھے۔زرعی معاشرہ میں زمینی مظاہر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔درختوں،دریاؤں،پتھروں،مختلف جانوروں کی پوجا کے دھارمک رویے ایک طرح سے زمینی (زرعی)معاشرے کے زائیدہ ہیں۔قدیم چین کا معاشرہ اگرزرعی معاشرہ تھا تو ان کے ہاں آسمانی مندر کا تصورحیران کن لگتا ہے اور مزید مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے۔چونکہ بارش اور سورج کی روشنی فصلوں کی نشوونما کے لیے بہت اہم ہیں،ممکن ہے اس وجہ سے چین میں زمینی وابستگی کے باوجود آسمانی مندرنے بھی اہمیت حاصل کر لی۔
چین میں آسمانی مندرکی سیاحت کے ساتھ جب ف۔س۔اعجاز کو کلکتہ کی یاد آتی ہے تو چین میں کلکتہ اور کلکتہ میں چین یوں گھل مل جاتے ہیں۔
’’آسمانی مندر میں بوڑھوں کی خوب صورت خطاطی دیکھ کر کلکتہ کے چینی لوگ یاد آگئے۔ چینی زندگی سے میں تھوڑا بہت آشناہوں۔ نوجوانی کی ایک چینی محبت ابتک میرے حافظے سے محو نہیں ہوتی۔ اب ان یادوں کو کیا سمیٹوں۔ بس یہ شعر وہاں یاد آکر رہ گئے ؎
اِس یقیں میں بھی کوئی حسنِ یقیں ہو کہ نہ ہو
وہ مِرے دل میں تو ہے اور کہیں ہو کہ نہ ہو
میں نے بچپن میں بہت پیار کیا تھا اُس کو
چاہے اُس چینؔ کی گڑیا کو یقیں ہو کہ نہ ہو
یہ بھی کافی ہے وہ آسودہ ہے اپنے گھر سے
اُس کی آنکھوں میں کوئی خواب حسیں ہو کہ نہ ہو
وہم سے پھر بھی کوئی شکل نمایاں تو ہوئی
کوئی بُت خدا پردہ نشیں ہو کہ نہ ہو
کلکتہ میں چین کے لوگ بھرے پڑے تھے۔ اور میری نو عمری میں یہاں اردو کا ایک چینی شاعر بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کا اصل نام Liu Yong Ven تھا۔ 1965 سے 1970 کے درمیان زکریا اسٹریٹ میں دواخانہ حکیم احمد حسین سکندر پوری میں کبھی کبھی دیگر شعرا کے درمیان دکھائی دیتا تھا۔ صحتمند تاتاری حلیہ بشرے کا آدمی تھا۔ مسلمان ہوگیا تھا۔ داڑھی کی جگہ چند بال نظر آتے تھے۔ قلمی نام شیدا چینی تھا۔ اکّا دکّا رسائل اور رونامہ آزاد ہند میں اس کی غزلیں شائع ہوتی تھیں۔ پیشے سے دنداں ساز تھا۔ ایک مسلمان عورت سے شادی کرلی اور جمشیدپور منتقل ہوگیا تھا۔ ’’لکیروں کی صدا‘‘ اس کا ایک شعری مجموعہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے شیدا چینی یعنی لیو یونگ وین 1931 میں کلکتہ میں پیدا ہوا اور جمشیدپور میں غالباً 2009 میں اس کا انتقال ہوا۔ (میرا خیال ہے سنِ وفات غلط بھی ہوسکتا ہے)۔
بہرحال 230 سال کی تاریخ میں کلکتہ میں چینی جس صنعت میں بھی رہے سب سے ممتاز اور بلند تھے۔ کچّی کھالوں اور پکّے چمڑے کی صنعت میں، جوتا سازی میں، دندان سازی میں۔ لیڈیز سیلون، کپڑے دھلائی، خیاطی اور چینی ہوٹلوں کے علاوہ فوٹوگرافی، کاغذی سجاوٹ کے سامانوں میں۔ ہندوستان چین کی لڑائی نے حالات یکسر بدل دیے۔ خیر جو گذر گیا سو گذر گیا‘‘ (ص ۳۷۔۳۸)
چین میں فروغ پانے والے عقائد اور مذاہب کا ذکر ف۔س۔ اعجاز کچھ یوں کرتے ہیں۔
’’ یہ لوگ کلچر کو ہی اپنا مذہب مانتے ہیں۔ان کا کلچر تین عقائد کے اجزا پر مبنی ہے: (1)کنفیوسئینزم (Confusionism) (2) تاؤازم (Taoism) جسے داؤ ازم بھی کہتے ہیں۔ (تاؤمت اور داؤمت میں ذرا سا فرق بتایا جاتا ہے)۔ (3) بدھ ازم۔
چینی دھرم ان تین دھرموں کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ اس میں تاؤازم میں شاعرانہ خیالات اور متوازیت بھری ہوئی ہے۔ اس دھرم کی روحانی کتاب عظیم مفکّر لاؤ زُو Lao Tzu سے منسوب کی جاتی ہے۔ اس روحانی متن کا نام ہے تاؤ۔تے۔چِنگ۔ لاؤ زُو کے افکار تاؤ مفکروں نے چھٹی سے چوتھی صدی ق م میں یکجا کئے تھے۔ ان میں آسمان اور زمین، روشنی اور اندھیرا، حسن اور بھداپن، مرد اور عورت، خالی اور مکمل کے تصورات میں متوازیت پائی جاتی ہے جس کا منبع چین کا قدیم خود پرستانہ جاگیردارانہ نظام ہے۔ لاؤ زُو کے سوا تاؤ عقیدے کا دوسرا روحانی پیشوا آقا زُھوانگ زی تھا جس کا دوسرا نام چُوانگ زُو تھا۔ ’تاؤ‘ یا ’داؤ‘ کے معنی ہیں راستہ۔ اصول۔ طرزفکر۔ لاؤزُو اور چُوانگ زُو کے افکار اپنی جگہ لیکن تاؤ دھرم کی کتاب تاؤ۔تے چنگ میں آقا اور دیگر کرداروں کے مابین مزاحیہ بیانیئے اور تمثیلی مکالمات پائے جاتے ہیں۔ اور مظاہر فطرت میں جس متوازیت کا میں نے ذکر کیا اس کے لئے دو اصطلاحات ہیں۔ یِنگ اور یانگ۔ روشنی، مردانگی، عمل وغیرہ ’یانگ‘ کے زمرے میں اور اندھیرا، نسائیت، بے عملی وغیرہ ’یِنگ‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔‘‘(ص۳۹۔۴۰)
سفرنامہ کے ایک باب میں ف۔س۔اعجاز نے چینی دانش کے عظیم نام کنفیوشش کا تفصیلی تعارف کرایا ہے۔ان کے دستیاب حالات اور افکارکو بیان کیا ہے۔کنفیوشش کے چند افکاریہاں درج کردیتا ہوں۔مجھے کنفیوشش کو ادھر اُدھر جستہ جستہ جتنا پڑھنے کا موقعہ ملا ہے،مجھے اس میں اسلامی تعلیمات سے ملتی جلتی باتیں محسوس ہوئی ہیں۔مثلاََ کنفیوشش کا یہ فرمان کہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔یہ بات اس حدیث شریف سے بہت ملتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔بہر حال اب یہاں ف۔س۔اعجاز کے منتخب کردہ اقوالِ کنفیوشش سے مزید انتخاب کر کے چند اقوال پیش ہیں۔
**’’آپ دیکھیں ایک شخص کے دماغ میں کیا ہوتا ہے جب اس کا باپ زندہ ہوتا ہے۔ اور پھر دیکھیں کہ اُس کا باپ مر جاتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے۔ اگر تین سالوں میں وہ اپنے باپ کے طریقوں میں کوئی تبدیلی نہیں لاتا تو اسے ایک اچھا بیٹا کہا جاسکتا ہے۔ (1.11)
**(مرشد) زیوؔ نے خدا ترسی کی بابت دریافت کیا۔ آقا نے کہا ’’آجکل ایک شخص کے لئے اِس کے معنی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کو غذا فراہم کر دے۔ تو غذا تو کتّوں اور گھوڑوں کو بھی فراہم کی جاتی ہے۔ آدمیوں میں باہمی تعظیم دکھائی نہ دے تو فرق کہاں پڑا؟‘‘۔ (2.7)
**’’اپنے باپ اور ماں کی خدمت کے دوران تجھے چاہئے کہ تو اُن کی کسی غلط بات سے انہیں انتہائی شریفانہ طریقے سے باز رہنے کو کہے۔ جب دیکھے کہ تیرا مشورہ نظرانداز کیا جا رہا ہے تو تجھے نافرماں بردار نہیں بن جانا چاہئے، پھر بھی تجھے خدمت گذار رہنا چاہئے۔ تُو برباد ہو جائے تب بھی تجھے شکایت نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ (4.18)
**’’مہان آدمی دیکھتا ہے اخلاق کیا ہے۔ چھوٹا آدمی دیکھتا ہے منافع بخش کیا ہے‘‘۔ (4.16)
**’’زندگی آسان ہے۔ البتہ ہم اسے الجھانے پر مُصِر ہو جاتے ہیں‘‘۔
**’’جو آدمی پہاڑ ہٹا سکتا ہے، چھوٹے پتھر ہٹانے سے شروعات کرتا ہے‘‘۔
**’’بڑا آدمی جو ڈھونڈتا ہے وہ اُس کے اندر ہوتا ہے۔ چھوٹا آدمی جو ڈھونڈتا ہے وہ دوسروں کے اندر ہوتا ہے‘‘۔
** ’’اُس برائی پر حملہ کرو جو تمہارے اندر ہے بجائے اُس برائی کے جو دوسروں کے اندر موجود ہے‘‘۔
**’’جو شخص ایک سوال کرتا ہے وہ ایک منٹ کا بے وقوف۔ جو سوال ہی نہ کرے وہ عمر بھر کا‘‘۔
** ’’موسیقی سے ایک مسرت پیدا ہوتی ہے جس کے بغیر انسانی فطرت کا کام نہیں چلتا‘‘۔
**’’بغیر رگڑ کے چمکایا نہیں جاسکتا۔ آدمی آزمائشوں کے بغیر کامل نہیں بن سکتا‘‘۔
**’’صرف عقل مند ترین اور بے وقوف ترین انسان ہی کبھی نہیں بدلتے‘‘۔
کنفیوشش کی قوم کی دانش کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے کتاب میلہ کے موقعہ پر ’’معاصر ادب میں مقامی اور عالمی‘‘کے موضوع پر سیمینارکا اہتمام کر رکھا تھا۔یہ بالکل آج کے وقت کا نہایت اہم علمی مسئلہ ہے۔اس سیمینار میں کس نے کیا کہا،ف۔س۔اعجاز کے توسط سے جو کچھ معلوم ہوا، یہاں مختصراََ پیش کرتا ہوں۔
’’ہندوستانی ڈیلی گیشن کے لیڈر پروفیسر اوَدیش کمار سنگھ نے اپنی بھرپور تقریر میں ہمعصر ادب میں مقامی اور عالمی کی معنویت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بدھ اور کنفیوسیئس کے پیغامات اگر ایک سے دوسرے ملک میں نہ پہنچتے تو بدھ ہندوستان میں اور کنفیوسئس چین میں مقامی بن کر رہ جاتے۔‘‘(ص ۔۶۶)
ف۔س۔اعجاز نے اپنے مضمون میں کہا:
’’دانش و عقل کو امپورٹ یا ایکسپورٹ لائسنس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جدید دنیا میں ورلڈ وائڈ ویب www ایک منظم انٹرنیٹ کی پکڑ میں ہے۔ کائنات کے تئیں ادب کی ذمہ داریاں بھی ابتک بڑی تبدیلیوں سے گذر چکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں تمام مقامی، قومی یا اجنبی ادب ایک خطہ سے دوسرے خطہ میں ترجمہ کے عمل کے ذریعہ آزادانہ گھومتا پھر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے یاد ہے میرے اردو ادبی و ثقافتی رسالے ’’ماہنامہ انشاء‘‘ جو اب اپنے تیسویں سال میں ہے ‘کے سرورق پر اب سے تقریباً دس سال قبل سرنامے کے نیچے میں نے ایک نئی عبارت کا اضافہ کیا تو قارئین ایک کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ عبارت تھی ’’دنیا کا مقامی اردو رسالہ‘‘۔ اس مختصر عبارت کو سراہنے میںانھیں کئی سال لگ گئے اور یہ ان کے لئے پُر اسرار یا مبہم بنی رہی۔‘‘(ص۔۶۸)
’’اپنے محدود وسائل کے باعث مقامی کو عالمی سے ہمیشہ اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ پھر بھی عالمی مقامی کے وجود کو ختم نہیں کرسکتا۔ مقامی کی کشش اس کی انفردیت میں ہے نہ کہ عالمیت میں۔‘‘(ص۔۶۹)
چینی نثر نگارزھو یونگ کے بقول:
’’عالمی‘‘ نے ہمارا طرز زندگی بدل ڈالا ہے۔ اور یقینا ہمارے طرز تحریر کو تبدیل کر دے گا۔ پچھلی تین دہائیوں میں چینی ادب کی ترقی کی ذمہ دار یہ بات بھی ہے کہ قلمکار اپنے مقامی تجربات کو عالمی سسٹم سے جوڑ کر دیکھتے آئے ہیں۔ میں اپنی تحریروں میں شعوری طور پر ’عالمی‘ کو ’’دیگر‘‘ (The Other) کے معنی میں لیتا ہوں۔ یوں تو ’عالمی‘ ایک اَن دیکھا ماجرا ہے سوائے انٹرنیٹ، امریکی ڈالروں، ایئرپورٹس، chain stores اور مترجمہ ادب کے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ عالمی ایک وجود رکھتا ہے اور ہم سے بہت دور نہیں ہے۔ انسانی تاریخ باہمی’’ دوسرے وجود‘‘ (The Other) کے مقام کے احساس کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے۔
زھو یونگ نے اپنے چینی مقالے میں مقامی اور آفاقی ادب کی پیچیدگی کو واضح کیا۔ انہوں نے چینی اور ہندوستانی تہذیبوں میں مماثلتیں تلاش کرتے ہوئے ہندوستانی تہذیب کو چینی تہذیب کا حصہ بتایا کیونکہ چینی خطے کی طرف سے ماضی میں جو قومیں ہندوستان پہنچیں وہ اپنی چینی بودوباش اور طور طریقوں سے ہندوستان کو متاثر کئے بنا نہ رہیں۔‘‘(ص ۷۱۔۷۲)
’’ہندوستان سے تیلگو ادیب ڈاکٹر دھینوواکونڈاسری راما مورتھی نے اپنے مضمون میں تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ گلوبلائزیشن سے ایک طرح کا یک رُخا پن آجاتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے تحت ادب لکھنے سے علاقائی حقیقتیں دب جاتی ہیں۔ راما مورتھی نے کہا علاقائیت گلوبلائزیشن کا متبادل ہے۔ ہندوستانی ادبیات نے ہمیشہ مقامیت کو فوقیت دی ہے کیونکہ اپنے اصل مسائل کی تصویر کشی علاقائی ادب میںہوتی ہے۔ جُھمپا لاہری اور ارُن دھتی رائے نے بھی گلوبلائزیشن کے تحت جو ادب لکھا ہے اس میں ہندوستانی ماحول اور مسائل کو ہی نمایاں کیا ہے ۔ سماجی حقیقت کو پہچا نتے اور سمجھتے ہوئے علاقائی امور کو ادب میں اولیت دینا چاہئے۔ بنیادیں علاقائی ہی ہوتی ہیں۔‘‘(ص۔۷۲)
چینی ادیبہ جے جِنگ Gejing نے اپنے مقالہ میں کہا:
’’ ایک کام کی تعریف کرتے ہوئے لوگ چاہتے ہیں کہ کوئی پہچانی ہوئی، اپنے کلچر سے جڑی ہوئی چیز دیکھیں جو پہلے سے ان کے دل و دماغ میں بسی ہوئی ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایسی ایکنادربات بھی اس میں ہو جو تبدیل ہوتی ہوئی اس دنیا کا ہمقدم اُسے بنا دے۔ آج کی عظیم اطلاعاتی صورت حال میں مقامی کلچر کو رفتہ رفتہ ساری دنیا میں اس طرح پھیلایا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی کلچر کا ایک انگ بن جائے۔ ہر شخص مقامی اور عالمی کلچر کی موافقت کے ماحول میں جی رہا ہے اور اس کے لئے بہ یک وقت دو صلاحیتوں کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ دنیا کے لئے اپنی آنکھیں کھلی رکھنا اور جڑوں کو مقامی زمین میں محفوظ رہنے دینا۔ لیکن اکثر ان دونوں امکانات میں ٹکراؤ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘(ص۔۷۲۔۷۷)
’’پرکاش بھٹمبریکر نے کہا کہ ہندوستان میں قدیم اور متوسط عہد کے صوفیوں سنتوں کے ادب سے لے کر جدید، مابعد جدید عہد تک ہر زبان کی ہر کلاسک کا مواد آفاقی حیثیت رکھتا ہے، وہ اپنی زبان کی روح میں ساری دنیا کو لپیٹ لیتا ہے اور انسان کے باطن کو روشن کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسلیشن کے فن نے ہی ہندوستان کے مقامی لٹریچر کو فرانسیسی، جرمنی، چینی، جاپانی، عربی وغیرہ زبانوں میں منتقل کر ڈالا۔ بھگوت گیتا کا ترجمہ چینی زبان میں حال میں پروفیسر وانگ جوہوابنگ اور سری بنگ ہیلے نے کیا ہے اور سیچوان پیپلز پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا ہے۔ مقامی ادب اس طرح عالمی بن جاتا ہے۔‘‘(ص۔۷۸)
آخر میں بیئتا (Bei Ta) نے اپنا چینی پرچہ پڑھ کر سنایا۔۔۔۔۔بئیتا نے کہا کہ مقامی ادب گلوبل ادب کا ایک حصہ ہے اور گلوبل لٹریچر غیرملکی ادب کا مترادف نہیں ہے۔ چینی لوگوں میں سے کئی مقامی ادب کو فطرتاً عالمی ادب کا برعکس سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ’’عالمی‘‘ کو ’’غیروطنی‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جدید اور ہم عصر تاریخ کے طویل عرصہ میں چین وقتاً فوقتاً اپنی سرحدوں پر ترسیل و گفتگو بند کرتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ دوسرے ملکوں سے خود کو الگ کرلیا کرتا تھا۔ لہٰذا وہ گلوب پر الگ ہوکر رہنے کے احساس میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ بئیتا نے کہا کبھی کبھی باہمی بقائے امن کی کوشش سے بڑھ کر مختلف کلچروں کی سنگت ادب کی پرورش میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ 1912-1949 کے درمیان چینی ادب نسبتاً زیادہ پروان چڑھا کیونکہ وہ حقیقت کے دباؤ میں تھا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ادب نے روایتی چینی کلچر اور مغربی کلچر کے درمیان ہونے والی کُشتی سے بڑی طاقت پائی۔
بئیتا نے کہا میرے اندر، میں سمجھتا ہوں، مشرق اور مغرب کا جمالیاتی نظریۂ ستائش بڑے طور پر تکمیل پاتا ہے۔ میں جو دو کرسیوں پر خود کو بیٹھا ہوا محسوس کرتا ہوں، میرے نزدیک مشرق اور مغرب کے پانیوں میں بہت بڑا فرق نہیں ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ علاقائیت میرے نکتۂ نظر سے نہ صرف حقیقت پسندانہ ہے بلکہ ایک سوچنے کا ثقافتی یا نفسیاتی طریقہ ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ بوتل نہیں بلکہ اُس کے اندر کا پانی ہے۔ آپ اسے انڈیلیں گے تو یہ پھیلے گا۔(ص۔۷۸۔۷۹)
مقامی اور گلوبل کے درپیش مسئلہ کے حوالہ سے میں نے بھی تھوڑا بہت غور کیا ہے۔اس سلسلہ میں اپنی دو مختلف تحریروں کے اقتباسات پر اکتفا کرتاہوں اور اسی بہانے چین میں ہونے والے سیمینار میں شریک ہوجاتا ہوں۔
’’ بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ادب میں ’’پیرویٔ مغربی‘‘کا رجحان غالب تھا۔اس کے نتیجہ میں بعض نئی اصناف متعارف ہوئیں اور اردو ادب کا حصہ بنیں۔نئے افکار وخیالات نے بھی ادب پر اپنے اثرات مرتب کئے لیکن ایک عرصہ کے بعد ’’پیرویٔ مغربی‘‘کا رویہ فیشن اور نقالی کی حد تک چلا گیا۔مغربی معاشرے کے اپنے تقاضے اور اپنی ترجیحات ہیں اور ہمارے معاشرے کی تمام تر خامیوں کے باوجود کچھ اپنی روایات ہیں۔علوم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ایک زمانے سے مختلف اقوام ایک دوسرے کے علوم سے استفادہ کرتی آرہی ہیں۔لیکن جب اچھے بھلے دانشور اور تخلیقی اذہان بھی دوسروں کے افکار اور ادب کی محض نقالی کرنے لگیں تو اس سے نہ تو وہ کسی عالمی سطح پر خود کو جوڑ پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی مقامی جڑیں مضبوط رکھ پاتے ہیں۔
مغربی دانشوروں نے ایک طویل عرصہ تک مشرقی افکار وخیالات سے استفادہ کیا ہے لیکن ان سے فیض یاب ہونے کے باوجود انہوں نے نقالی کی راہ نہیں اپنائی جبکہ ہمارے ہاں یہ المیہ ظاہر ہوا کہ ہمارے بعض دانشوراور تخلیق کار مغربی چکا چوند سے مرعوب ہو کر ان کا’’ترجمہ‘‘ بن کر رہ گئے ۔ادب کے کسی بھی بڑے دھارے میں ہماری شمولیت ہماری اپنی مقامیت اور اپنی جڑوں کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔متعدد منفی رویوں کے دوش بدوش ہمارے ہاں یہ صحت مند رویہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ہمارے بعض دانشوروں اورتخلیق کاروںنے مغربی افکار سے استفادہ تو کیا لیکن ان کے نتائج اپنے طور پر اخذ کئے۔مغربی اصناف سے اردو زبان کو فیض یاب تو کیا لیکن اس انداز میں کہ ان اصناف کو اپنی دھرتی سے جوڑا،ان اصناف کے بنیادی خدوخال کو قائم رکھتے ہوئے ان پر اپنا مقامی رنگ چڑھایااور یہ سب کچھ تخلیقی ریاضت کے ساتھ کیا۔
اور اب کہ بیسیوں اپنے اختتام کے آخری کنارے پر کھڑی ہے تو اردو ادب میں یہ خوش کن منظر دیکھنے میں آرہا ہے کہ پیرویٔ مغربی کے رویے کے ساتھ ساتھ ہمارے دانشوراور تخلیق کار اپنی مقامیت اور اپنی لوک جڑوں کی طرف بھی خصوصی توجہ کرنے لگے ہیں۔بیسویں صدی کی آخری دَہائی میں پنجاب کے لوک گیت ماہیے کی اردو ادب میں وسیع پیمانے پر پذیرائی اسی رویے کی ایک روشن مثال ہے۔توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے تخلیق کار اپنی مقامیت کی طرف مزید توجہ کریں گے،اس اعتماد کے ساتھ کہ ان کی جو بھی عالمی شناخت بنے گی،اپنی مقامیت اور اپنی جڑوں سے پھوٹنے والی شناخت سے ہی بنے گی۔ (جدید ادب جرمنی۔دور اوّل۔ شمارہ نمبر ۱۔مئی ۱۹۹۹ء)
’’انسان کی انسان سے محبت کو صرف برِ صغیر تک ہی کیوں محدود رکھا جائے۔کرّۂ ارض ،اس بے پناہ کائنات میں ایک بے حد چھوٹی سی دنیا ہے۔اس دنیا میں ساری جغرافیائی اکائیاں اپنی اپنی جگہ ایک سچ ہیں۔لیکن کرّۂ ارض خود ایک بڑی جغرافیائی اکائی بھی ہے۔اس دھرتی کے سارے انسان اپنے قومیتی،علاقائی اور مذہبی تشخص کے ساتھ ۔ ۔ ۔۔۔اپنے اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوئے پوری دھرتی کو ایک ملک بنا لیں اور اس ملک کے باشندے کہلانے میں خوشی محسوس کرنے لگیںتو شاید ایٹمی جنگ کے سارے خطرات ختم ہو جائیں۔لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟
پوری دھرتی کو ایک ملک بنانے کا خواب اور وحدتِ انسانی کی آرزو شاید بہت دور کی منزل ہے۔یہ دوری قائم رہے یا ختم ہوجائے، اس کا انحصار تو ساری دنیا کے ملکوں کے باہمی اعتماد اور یقین پر ہے۔ایک عام آدمی کے لیے شاید یہ کسی دیوانے کا خواب ہو،پھر بھی آئیے ہم سب مل کر دعا کریں۔
دنیا میں محبت کے فروغ کی دعا!
دھرتی پر نسلِ انسانی کے قائم رہنے کی دعا!‘‘
(’’ایٹمی جنگ‘‘از حیدرقریشی ،کا پیش لفظ۔کتاب مطبوعہ معیار پبلی کیشنز۔دہلی۔۱۹۹۹ء)
چین یاترا کے دوران کھانے پینے کے مسائل بھی در پیش رہے۔اس کی ایک جھلک اس اقتباس میں دیکھیں۔
’’یولن روسٹ ڈک ہوٹل میں میزبانوں نے مہنگے سے مہنگے پکوان ہمارے لئے منگوائے۔ ہمیں ان ڈِشوں کے نام بھی نہیں معلوم۔ معلوم ہوا کہ جو چینی کھانے ہم انڈیا میں کھاتے ہیں یہ لوگ ان کے ناموں سے بھی ٹھیک واقف نہیں ہیں۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ جو دو چار چینی آئٹمیں ہم اپنے وطن میں کھاتے آ رہے ہیں وہ شاید Indianized چینی کھانے ہیں، چینی کھانے نہیں ہیں۔ لہٰذا اب ہم دیارغیر میں دو چار چمچے چاول، سبز سلاد یا ایسی دو ایک اور چیزیں کھانے پر اکتفا کرتے رہے۔‘‘(ص۔۸۳)
چین کے ادیبوں سے ملاقات کے دوران ہند چین مراسم کی نوعیت بھی کسی نہ کسی انداز میں اپنی جھلک دکھلاتی رہی۔ف۔س۔اعجاز کے بیان کردہ اس اقتباس سے میرے اس تاثر کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’زھویونگ نے اپنا ایک تجربہ بیان کیا۔ کہا ایک بار ہم اونچائی پر اپنی سرحد پر کھڑے اِدھر اُدھر چل رہے تھے۔ پہاڑ سے نیچے نظر گئی۔ ہندوستانی فوجیوں نے ہمیں دیکھا۔ زیادہ فاصلہ پر وہ نہیں تھے۔ ان کے پاس بندوقیں تھیں لیکن وہ ہمیں دیکھ کر صرف مسکرائے۔ دیر تک مسکراتے رہے۔ مسکراتے رہے۔ ایک بار بھی بندوق ہماری طرف نہیں تانی۔ اب تک اس بات پر میری حیرت نہیں جاتی۔
میں نے کہا ’’وہ ہمارے ملک کے تھے نا‘‘۔ لیکن زھویونگ کی سوئی اٹکی رہی ’’تعجب ہے، کسی فوجی نے بندوق کیوں نہ تانی اور کیا مسکراہٹ تھی اُس کی!‘‘۔
ہمارے اودھیش کمار سنگھ جی نے کہا مجھے چینی شاعر لی بائی کی نظمیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بہت اچھی شاعری کرتا تھا۔ ہمیشہ نشے میں دھت رہتا تھا۔ آسمان پر ایک رات اس نے پورا چاند دیکھا۔ چاند نے اس پر جادو کر دیا۔ لی بائی اس وقت ایک دریا میں کشتی میں تھا اور نشے کے زیر اثر تھا۔ شفاف پانی کی لہروں میں اسے چاند مسکراتا دکھائی دیا۔ وہ پانی کو آسمان سمجھ بیٹھا۔ مستی میں اس نے کشتی سے دونوں ہاتھ دریا میں بڑھا کر چاند کے عکس کو ہاتھوں کے کٹورے میں لینے کی کوشش کی۔ کشتی پانی میں الٹ گئی اور وہ ڈوب گیا۔
سنگھ جی کی بات کا ترجمہ چینی میں کرنے کے بعد ہُوویئی زھویونگ کا جواب ہم سے انگریزی میں بیان کر رہا تھا ’’وہ فوجی بھی شاید اُس چاند کی طرح مسکرا رہا تھا‘‘۔
’’شکر ہے آپ نے لی بائی کی طرح اُس فوجی کی مسکراہٹ کو منظر سے توڑنے کی کوشش نہ کی۔ ورنہ گولی چل جاتی‘‘۔ میں نے جواب دیا۔ میری بات کا ترجمہ سن کر میزبان کھلکھلا پڑے۔‘‘(ص۔۸۳۔۸۴)
پانی میں چاندکو دیکھنے پر ردِعمل کے کئی لطیفے مشہور ہیں۔نشے کے زیرِ اثر ایک نوجوان نے ایک رات دریا کے پل پرسے گزرتے ہوئے دریا میں چاند کا عکس دیکھا تو اپنے ساتھی سے کہا ،ہائیں ہم چاند سے بھی اوپر پہنچ گئے ہیں۔غالباََ یہ لطیفہ بعد میں کسی فلم میں بھی فٹ کر دیا گیا تھا۔فلم کے ذکر سے ’’پاکیزہ‘‘کا گانا یاد آگیا’’چلو دلدار چلو،چاند کے پار چلو‘‘۔گانے کے آغاز ہی میں ہیرو، ہیروئن ایک کشتی میں سواردریا میں موجود ہیں،رات کا سماں ہے اور محبت کا اظہار ہورہا ہے۔پہلی بار جب یہ گانا دیکھا تو بے ساختہ منہ سے نکلا یہ اچھا سائنسی تجربہ ہے ہم کسی ہوائی و خلائی نہیں بلکہ بحری رستے سے چاند پر یا چاند کے بھی پارجائیں گے۔
کنفیوشش کے ساتھ ایک اچھی ملاقات کرانے کے بعد ف۔س۔اعجاز ہمیں دیوارِ چین کی تاریخ بتاتے ہوئے اس کی بھر پور سیر کراتے ہیں۔اس سلسلے میں یہ چند اقتباس دیکھیں۔
’’عظیم دیوارِ چین کئی صوبوں سے گزرتی ہے۔ ہر صوبے میں اس دیوار کا ایک الگ نام ہے۔
ایک مہیب داستانی سانپ (Dragon) کی طرح نیچے سے اوپر تک صحراؤں، میدانوں اور پہاڑوں میں اپنے وجود میں لپٹی ہوئی چین کی دیوار عظیم مشرق سے مغرب تک 13170 میل لمبی ہے۔ دیوار کے جس حصے پر ہم پہنچے اُس کا نام مُتیان یو ہے۔ جو سطح سمندر سے 640 میٹر اونچا ہے۔ زمین سے دیوار پر نظر دوڑائی تو یہ ڈریگون ہی نظر آئی تھی۔ جیسے ایک اژدہا پہاڑ کے شانے پر سر رکھے بیٹھا ہو۔‘‘(ص۔۹۱۔۹۲)
’’سانپ جیسی دیوارِ چین کی تعمیر 476 ق۔م سے 221 ق۔م تک اور پھر مِنگ سلطنت میں 1368 سے 1644 کے درمیان ہوئی۔ جو دیوار اب ہم دیکھتے ہیں زیادہ تر مِنگ عہد میں بنائی گئی تھی۔ مشرق میں ہُوشان سے لے کر مغرب میں لیاؤننگ، ہے بیئی، بیجنگ، تیانجِن، شانزی، اندرونی منگولیا، نِنگزیا، جان سُو اور جِن گھائی صوبوں تک اس کا سلسلہ دراز ہے۔
اوّلاً یان، زھاؤ اور چن (Qin) ان تین صوبوں میں فوجی تحفظ کے لئے اسے بہار اور خزاں کے موسموں میں تعمیر کیا گیا تھا۔ بعد کی بادشاہتوں میں مسلسل اس کی توسیع اور مرمت کی جاتی رہی۔ چِن بادشاہت سے پہلے یہ مختلف صوبوں کے جداگانہ تحفظ کے لئے الگ الگ بنائی گئی تھی۔ چِن بادشاہت میں اسے جوڑ کر ’’عظیم دیوار‘‘ قرار دیدیا گیا۔ شمال میں ہُن (Hun) قوم حملہ آور ہونے لگی۔ تب چِن شی ہُوانگ نے ہُن قبیلوں سے بچاؤ کے لئے ان دیواروں کو جوڑ کر ایک کر دیا تھا۔ اُس کے بعد سے پوری تاریخ میں دیوار عظیم چینی قوم کی ایک تاریخی یادگار بن گئی۔
اتنی بڑی دیوار کی تعمیر کا بھید کافی دلچسپ بھی ہے۔ تعمیر کے لئے سامان اور لوازمات مقامی وسائل سے حاصل کئے جاتے تھے اور تعمیر کے معاہدے اور معماروں کا انتخاب مقامی حالات کا پابند ہوا کرتا تھا۔ سپاہیوں، قیدیوں اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک بڑی فوج نے اسے بنایا۔ آج عظیم دیوار کو دیکھ کر قدیم چینیوں کی عقل و دانش اور تعمیری صلاحیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دیوار گرینائٹ پتھروں اور اینٹوں اور سفید گارے سے مرتب نظر آتی ہے۔‘‘(ص۔۹۷)
’’سیاح چپے چپے میں رک رک کر فوٹو کھنچوا رہے تھے۔ بتایا گیا کہ اس عظیم دیوار کی آخری بڑی تجدید 1408 میں ہوئی تھی۔ 1987 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔ اُسی سال جرمنی معمار Hekal نے یہاں ایک بڑا سنگ یادگار نصب کیا جس پر خود دیوار کی جانب سے اس مفہوم کی عبارت انگریزی میں تحریر تھی: ’’انسانوں نے ایک دوسرے کو تقسیم کرنے کے لئے مجھے بنایا لیکن آخرکار میں دنیا کے لوگوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگئی‘‘۔
یہ بات سچ ہے۔ دنیا کی ساری قوموں کے سیاح یہاں آتے ہیں اور اس سے انسانی اتحاد کا احساس جاگتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس عظیم دیوار کی چوٹی پر پہنچا جائے!‘‘۔(ص ۔۹۸)
دیوارِ چین کے حوالے سے ف۔س۔اعجاز نے اچھی معلومات فراہم کی ہے،تاہم اگر وہ قرآن شریف میں حضرت ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوارکے حوالے سے بھی کچھ بات کرتے توشایدان میں کوئی مطابقت نکل آتی۔سورہ کہف میں ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج سے بچانے کے لیے اپنی قوم کی درخواست پر ایک عظیم دیوار تعمیر کرائی تھی اور ساتھ ہی پیش گوئی بھی فرمائی کہ جب یہ دیوار ختم ہو جائے گی تو یاجوج اور ماجوج کے لشکر نکل کر ساری دنیا میں پھیل جائیں گے۔بعض مفسرین نے سرمایہ دار انہ نظام اور سوشلسٹ نظام کو یاجوج ماجوج سے تعبیر کیا ہے۔
علامہ اقبال کا بھی یہی خیال تھا جیسے کہ ان کے ان اشعار سے ظاہر ہے۔
محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے
دیکھیے ہوتا ہے کس کس کی تمناؤں کا خون
حکمت و تدبیر سے یہ فتنۂ ا ٓشوب خیز
ٹل نہیں سکتا ’’وقد کنتم بہ تستعجلون‘‘
’’کھل گئے‘‘یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ’’ینسلون‘‘
’’ جدید چینی ادب میوزیم دیکھنے میں ف۔س۔اعجاز کو کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن جب وہ اس میوزیم کو دیکھ کر باہر آئے تو ان کا تاثر تھا کہ
’’ہم یہ میوزیم نہ دیکھتے تو یہ نہ جان پاتے کہ چینی سوسائٹی میں جدید ادیبوں کا کیا اعلیٰ مقام ہے۔ واقعی یہ قوم ڈیجٹل سانس لے رہی ہے!‘‘۔(ص۔۱۰۳)
اس سفرکے دوران ہندوستانی وفد کو شنگھائی بھی لے جایا گیا۔وہاں ان کی جن ادبی لوگوں سے ملاقات ہوئی اور بات چیت ہوئی اس کا کچھ حال بھی ملاحظہ کر لیں۔
’’اس سوال پر کہ کیا شنگھائی رائٹرز ایسوسی ایشن اور ساہتیہ اکادمی میں کسی طرح کا مستقل اشتراک ممکن ہے۔ مثلاً کیا سال میں ایک سرگرمی مل کر انجام دی جاسکتی ہے زھاؤلی ہونگ نے خاموشی اختیار کرلی۔
اودھیش کمار سنگھ نے ہندوستانی منظرنامے میں چند سوالات پوچھے۔ مثلاً ہندوستان میں دلت لٹریچر اور کمیونٹی لٹریچر کے مقابل کیا چین میں بھی طبقاتی یا کمیونٹی لٹریچر لکھا جاتا ہے؟۔ عورتوں کے ادب، فیمنزم کی تحریک اور سماجی امور پر چینی ادب کیا رویہ پیش کرتا ہے۔ جواب ملا کہ ہمارے یہاں مرد اور عورت کا ادب الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہے۔ عورتیں محبت اور گھریلو اتحاد اور بچوں کے کردار کی تعمیر کے مقصد سے زیادہ لکھتی ہیں۔ اس بات کی تائید وہاں موجود خاتون مضمون نگار زھان ہوئی مِن نے کی اور چین کی اس و