محترمہ فوزیہ اختر ردا صاحبہ کا تعلق برصغیر پاک و بھارت کے سب سے بڑے شہر کا کولکتہ سے ہے جہاں 8 اگست 1978 کو ان کا اختر حسین صاحب کے گھر میں جنم ہوا ۔ ان کا اصل نام فوزیہ اختر ہے جبکہ ردا ان کا تخلص ہے ۔ گو کہ ان کے والدین کا ادب سے تعلق نہیں ہے لیکن وہ علم و ادب کے قدر دان ضرور رہے ہیں ۔ فوزیہ صاحبہ اپنے والدین کے 3 بچوں میں سے اکلوتی بیٹی ہیں اس طرح وہ اپنے 2 بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں ۔ انہوں نے بی ایس سی بائیو سائنس میں 1998 میں کولکتہ یونیورسٹی سے کیا جس کے بعد وہ معلمہ بن کر درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں اور اس وقت سے اب تک بڑی محنت اور لگن کے ساتھ علم کی روشنی پھیلانے میں مصروف عمل ہیں ۔ ان کی مادری زبان اردو ہے اس کے علاوہ انگریزی اور بنگلہ زبان بھی روانی کے ساتھ لکھ،پڑھ اور بول سکتی ہیں ۔ ان کے خاندان میں یاسین صاحب بھارت میں اردو کے مشہور شاعر ہو کر گزرے ہیں ان کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے دور کی ممتاز سیاسی شخصیت اور وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی ان کی شاعری کی مداح تھیں اور ان کو خصوصی طور پر اپنے ہاں مدعو کر کے ان سے ان کی شاعری سنا کرتی تھیں ۔
فوزیہ اختر ردا صاحبہ خاموش طبع مگر بہت غور و فکر کی شخصیت کی مالک شاعرہ ہیں وہ نہ صرف اپنے ماحول اور معاشرے پر گہری نظر رکھتی ہیں بلکہ اردو زبان و ادب سے گہری وابستگی اور محبت کے باعث اس کا مکمل ادراک بھی رکھتی ہیں اس حوالے سے اردو کی موجودہ پوزیشن خواہ مستبقل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں یعنی وہ غور و فکر کرنے والی ایک بہت باخبر شاعرہ ہیں جو اس کے علاوہ مشاعروں وغیرہ کا بھی بھرپور مشاہدہ اور تجربہ بھی رکھتی ہیں ۔ ان کی شاعری کی تو بات ہی کچھ اور ہے ۔ ان کے الفاظ اور تراکیب کی ادائیگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کتنی خوبصورت اور دل و دماغ پر اثر انداز ہونےوالی ہے ۔ وہ اپنی خوب صورت شاعری کے باعث قاری اور سامع کو متاثر کیئے بغیر نہیں رہتیں ۔
ردا صاحبہ کا شاعری کی طرف مائل ہونے کا سبب بھی بہت دلچسپ ہے ۔لوگ شعر و شاعری کی کتابیں پڑھ کر یا ادبی گھرانے میں جنم لے کر پرورش پانے کے باعث شاعری کرتے ہیں لیکن ردا صاحبہ نے فیس بک پر شعراء کی شاعری پڑھ کر ان کے انداز بیاں اور ان کی عزت افزائی دیکھ کر متاثر ہوئیں جس سے ان کے اندر کی شاعرہ جاگ اٹھی اور خود بھی شاعری شروع کر دی ۔ شاعری کے زیادہ تر رموز انہوں نے فیس بک پر ہی پٹنہ کے شاعر عالم خورشید صاحب سے سیکھے لیکن باقاعدہ اصلاح انہوں نے جرمنی کے شاعر منظور قاضی صاحب سے لی اس طرح منظور قاضی صاحب شاعری میں ان کے استاد ٹھہرے ۔ اردو زبان و ادب کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال اور مہاراشٹر صوبے میں تو اردو میڈیم کے بے شمار اسکول ہیں جن میں اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے جبکہ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آجکل سوشل میڈیا کے باعث اخبارات اور رسائل و جرائد کی اشاعت میں کمی ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے برعکس یہاں اردو کے اخبارات اور رسائل اور جرائد کی اشاعت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو کو بھی خطرات لاحق ضرور ہیں مگر اس کے باوجود اردو زبان پنپ رہی ہے ۔جس کے لیئے ادباء اور شعراء کا کردار قابل تحسین ہے ۔ مشاعروں کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ مشاعروں کی بہت بڑی اہمیت ہے کیوں کہ ان میں سامعین شریک ہو کر شعراء اور شاعرات سے خود ان کی زبانی شاعری سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور اچھی شاعری پر بھرپور داد دیتے ہیں اور اس سے شعراء اور شاعرات کی عزت افزائی بھی ہوتی ہے اور تشہیر بھی ہوتی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ اخبارات اور رسائل و جرائد وغیرہ کے ساتھ بھی جڑے رہنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ردا صاحبہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے کہ کافی شعراء اور شاعرات اپنی کمزور شاعری کو ترنم کا جامہ پہنا کر داد اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ گانے والے اور گانے والیاں اپنے استاد شعراء سے کلام لکھوا کر مشاعروں میں گاتے ہیں جو ایک ناپسندیدہ عمل ہے اس قسم کے چھچھورے پن کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے ۔
فوزیہ اختر ردا صاحبہ نے اپنی شاعری کی ابتدا 2013 سے کی ہے ۔ ان کی شاعری جب اخبارات اور رسائل وغیرہ میں شایع ہونے لگی تو وہ اپنی شاعری اپنے والدین کو دکھاتی تھیں جس پر ان کے والدین ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے اور اپنی خوشی کا اظہار بھی کرتے تھے جس سے ردا صاحبہ کو خوب حوصلہ ملتا تھا ۔ ردا کو 2018 میں گفتگو پبلیکیشن ہندی میگزین کی جانب سے سبھدرا کماری ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ سپتک کے نام سے ان کا پہلا شعری مجموعہ بہار اردو اکیڈمی پٹنہ میں زیر اشاعت ہے توقع ہے کہ وہ جلد شایع ہو کر مارکیٹ میں آ جائے گا ۔ فوزیہ اختر ردا صاحبہ کی شاعری سے نمونے کے طور پر ایک غزل اور چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ۔
غزل
حسن کی آن بان چلتی رہی
بے خودی بے تکان چلتی رہی
آگہی بال و پر کو ملتے ہی
بے تحاشا اُڑان چلتی رہی
اِس کو رکنا محال تھا یکسر
عشق کی داستان چلتی رہی
بات دل میں ہی رہ گئ پھر بھی
زندگی بے زبان چلتی رہی
روح کو بھی قرار آ ہی گیا
اور پھر میری جان چلتی رہی
ربط سود و زیاں سے ہو نہ سکا
یوں رِدا کی دکان چلتی رہی
فوزیہ اختر ردا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب اشعار
حوصلہ دل کا مرے پہلے بڑھاتے کیوں ہو؟؟
راس آ جائے محبت تو مکر جاتے ہو
جو تمہیں بھول ہی پایا نہ کبھی پھر سوچو
تم اسے چاہو تو ہر وقت ستا سکتی ہو
خدا بھی چاہتا ہے بات اپنی اس تلک پہنچے
ہمیں لیکن دعاؤں میں مچلنا بھی نہیں آتا
ہیں ردا عشق میں سبق کتنے
یاد کرتی ہوں، بھول جاتی ہوں
ساکھ رشتوں کی پھر نہ کوئ بچی
اب جو رہنے لگی مکان میں ہوں
دنیا کے کاروبار سے کچھ واسطہ نہ تھا
میرے علاوہ کچھ بھی تو وہ سوچتا نہ تھا
ربط رکھنے کے واسطے ہمدم
فون پر گفتگو ضروری ہے
ویران رہگذر پر بھی لازم ہے اک سفر
آبادیوں کی راہ بھلا دینی چاہئے
کیوں مجھے گھورتا ہی رہتا ہے
آئینے میں یہ عکس کس کا ہے؟؟
زخم کیسا دیا ہے تُو نے مجھے
کسی مرہم سے جو بھرا ہی نہیں
لکھا تا عمر اک ایسا فسانہ
مٹاتا جو رہا قصہ ہمارا
بکھرا ہوا ہے حسن مرا چار سُو مگر
کیوں آئینے کی آنکھ میں دھندلا رہی ہوں میں
فوزیہ اختر ردا