سینکڑوں باغی چودہویں صدی کے آخری حج کے بعد مکہ پہنچے۔ نجد کے بدو قبائل سے تعلق رکھنے والے زیادہ تھے۔ ملک بھر سے طلباء جس میں سے کئی اہم خاندانوں سے تھے۔ ایک صوبے کے گورنر کا بیٹا، ایک سعودی سفیر کا بیٹا، ایک انگریزی کا استاد جس نے برطانیہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ کچھ مکہ کے رہائشی اور کئی دوسرے ممالک سے بھی۔ دو امریکی نومسلم۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے عالمِ دین نورالدین شیخ بدیع الدین۔
چالیس ہزار ریال کی رشوت دے کر ان باغیوں نے مسجد کے تہہ خانے میں تین ٹرک لانے کی اجازت لے لی تھی۔ یہ ٹویوٹا پک اپ، ڈاٹسن اور سرخ رنگ کا جی ایم سی کا ٹرک تھا۔ یہ ٹرک اسلحے اور راشن سے لدے ہوئے تھے۔
باغیوں نے مسجد الحرام پر قبضہ کر لیا۔ سید القحطانی نے مائیکروفون سنبھال لیا۔ “قیامت قریب ہے۔ اسلام کی آخری فتح کا وقت آن پہنچا ہے۔ ٹی وی کی حرکت کرتی تصویریں لوگوں کو گناہ کی طرف لے جا رہی ہے۔ خواتین گھر چھوڑ کر ملازمت کر رہی ہیں۔ کرپشن زوروں پر ہے۔ فٹ بال جیسے شیطانی کھیلوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ ہم سعودی شہری کی حیثیت سے اپنی بیعت واپس لیتے ہیں۔ شاہی خاندان کافروں کی کٹھ پتلی ہے۔ لیکن اب ہمیں حل مل گیا ہے” اس کے بعد سید نے امام مہدی کے ظہور کی احادیث پڑھیں اور نشانیاں بتائیں۔ محمد عبداللہ کا نام، ان کے گال پر سرخ نشان کا بتایا اور پھر ڈرامائی اعلان کیا، “امام مہدی اس وقت ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ اس گناہوں سے بھری دنیا میں انصاف لے کر آئیں گے۔ ہم سب بھائی ہیں۔ صرف قرآن اور سنت کے طریقے پر واپس جانا چاہتے ہیں۔” اور پھر محمد عبداللہ ہاتھ میں مشین گن تھامے مقامِ ابراہیم سے نمودار ہوئے۔ ایک ایک کر کے ان کا ہاتھ چوم کر ان سے بیعت لی جانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زائرین کی بڑی تعداد کو ایک روشن دان کے راستے نکلنے دیا گیا۔ اس میں نکل جانے والوں میں امامِ کعبہ ابنِ سبیل بھی تھے، جو انڈونیشی باشندے کے بھیس میں نکلے تھے۔ انڈونیشیائی یرغمالی باغیوں کے کام کے نہیں تھے۔
صبح آٹھ بجے مکہ کی پولیس نے اس واقعے کی طرف پہلی بار ریسپانڈ کیا۔ ان کو سمجھ بھی نہیں آئی تھی کہ ماجرا کیا ہے۔ پولیس کی پہلی نفری کے آتے ہی مسجد الحرام کے میناروں سے ماہر نشانہ بازوں کی گولیاں برسنے لگیں۔ آتھ پولیس والے وہیں دم توڑ گئے، چھتیس زخمی ہو گئے۔ پولیس نے پسپائی اختیار کی۔ صحرا کی گرمی میں اسفالٹ کی سڑک پر بہنے والا انسانی خون جلد ہی پکنے لگا تھا۔
ریاض میں شاہ خالد کو یہ اطلاع نیند سے بیدار کر کے دی گئی۔ ان کے پہلے اقدامات میں ہر قسم کی انفارمیشن کو مکمل طور پر روک کر اس خبر کو پھیلنے سے روکنا تھا۔ سعودی عرب نے بیرونِ ملک سے تمام رابطے منقطع کرنے کی ہدایت فوری طور پر ٹیلی فون کمپنی کو جاری کر دی۔ ملک سے باہر کسی کو بھی اس بات کا علم نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی ریڈیو اور ٹی وی اس بارے میں بالکل خاموش تھے۔ معمول کی نشریات جاری تھیں۔ یہ بلیک آوٗٹ غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ اس سے گیارہ برس بعد جب عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا تھا تو سعودی عرب کے شہریوں کو اس واقعے کی خبر تین دن بعد ہوئی تھی۔ لیکن یہ فائرنگ اور خطاب تو حرم شریف کے قریب رہنے والوں نے اپنے کانوں سے سنا تھا۔ مکہ کے بازاروں میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ امام مہدی آ گئے ہیں۔ یہ خبر پھیلنے لگی۔
ان افواہوں میں پولیس والے اور فوجی بھی کچھ کرنے میں جھجک رہے تھے۔ اگر یہ سچ ہوا تو؟ کیا واقعی مہدی کی آمد ہو گئی ہے؟ کہیں ہم ان کا مقابلہ کر کے عظیم گناہ میں تو نہیں مبتلا ہو جائیں گے؟ اور اگر نہیں بھی تو کیا مسجد الحرام جیسی مقدس جگہ پر ہتھیار لے جائے جا سکتے ہیں؟ یہاں پر گولی چلانا تو حرام ہے۔ اگر اس دوران مارے گئے تو کہیں یہ جہنم کا ٹکٹ تو نہیں ہو گا؟
وزیرِ دفاع پرنس سلطان فوجیوں کے مورال سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے فوجیوں سے کہا تھا، “اگر تم لوگ خدا کے گھر کی حفاظت نہیں کرو گے تو کون کرے گا؟ کیا مجھے اس کے لئے بھی پاکستانیوں کو بلوانا پڑے گا؟
سعودی حکومت کو اس وقت علماء کی سپورٹ کی اشد ضرورت تھی۔ ان کو فتویٰ چاہیے تھا۔ شاہ خالد نے فوری طور پر تیس علماء کو ریاض میں طلب کر لیا۔ اس میں ابنِ باز، ابنِ سبیل اور ابنِ راشد بھی شامل تھے۔ علماء نے پہنچنے میں وقت لیا اور انہوں نے اس کے بدلے میں جو طلب کیا، وہ ارزاں نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء کو سپیشل فلائٹس میں ریاض لایا گیا تھا۔ میٹنگ کا آغاز شاہ خالد نے معاملے کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ اسلام کے مقدس ترین مقام کو محفوظ رکھنا ہم سب کا اولین فرض ہے۔ اس وقت کعبے کا طواف موقوف ہے۔ نمازیں نہیں پڑھی جا رہیں۔ اس وقت فوری عمل کی ضرورت ہے۔ فوجیوں کو آپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء نے سب سے پہلے اس پر بحث شروع کی کہ کیا امام مہدی کا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔ روایات سے نشانیوں کو دیکھا گیا۔ کسی نے کہا کہ کچھ ٹکڑے مِسنگ لگتے ہیں۔ ستر ہزار یہودیوں والی بات پوری نہیں ہوئی۔ یا پھر وہ دمشق کی دیوار کے دروازے جہاں پر مہدی نے چھپنا تھا؟ ابنِ راشد نے کہا کہ آج کے دمشق کی تو کوئی دیوار ہی نہیں۔ یہ تو پہلے ہوا کرتی تھی۔ لمبی بحث کے بعد نتیجہ نکالا گیا کہ یہ دعویٰ درست نہیں۔ اب شاہ خالد کی فتوے والی بات پر غور کیا جا سکتا ہے۔
یہ علماء باغیوں کے مطالبات سے ہمدردی رکھتے تھے۔ ان کو باغیوں سے اصولی اختلاف نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی بحث میں مکہ کے گورنر اور شاہ کے بھائی شہزادہ فواز کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فواز لبرل سوچ رکھتے تھے۔ علماء نے انہیں اس واقعے کا قصوروار ٹھہرایا کہ ان نوجوانوں کے جذبات اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے بھڑکے ہیں۔ جب ایک جذباتی نوجوان ایسے لوگوں کو دیکھتا ہے تو دینی حمیت کا تقاضا ہے کہ وہ اس پر کوئی ری ایکشن دے۔
علماء نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اب آگے کا ایک ہی راستہ ہے۔ شاہی خاندان کو، اس کی کمزوریوں کے باوجود، سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ ان باغیوں کے خلاف فتوے پر دستخط کرنے کو تیار ہوں گے لیکن حکومت کو بھی کچھ چیزوں کی یقین دہانی کروانا ہو گی۔ انہیں اسلام کے نفاذ کی ذمہ داری پوری کرنی ہو گی۔ خواتین کا ٹی وی پر آنا بند۔ فلمیں ختم۔ شاہ فیصل کے سوشل لبرلائزیشن کے پروگرام کو نہ صرف ترک کرنا ہو گا بلکہ اس کے اقدامات کو واپس پلٹانا ہو گا۔ سعودی پیٹروڈالرز کا استعمال دنیا میں اسلام پھیلانے کیلئے کئے جانے کا کام کرنا ہو گا۔ اس پروگرام کے لئے اربوں ڈالر مختص کئے جانے کی شرط رکھی گئی۔
عملی طور پر علماء نے باغیوں کی ہی شرائط شاہ کے آگے رکھ دی تھیں۔ اس سب عمل میں خاصا وقت لگا لیکن آخر کار تیسرے روز کی صبح کو علماء کا دستخط کردہ فتویٰ سعودی حکومت کے پاس تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سعودی حکومت نے پہلی بار سرکاری طور پر اعلان کر دیا کہ مسجدالحرام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ اعلان صرف چار فقروں پر مشتمل بیان کے ذریعے کیا گیا۔ اس واقعے میں جو چیز نمایاں رہی، وہ یہ کہ اس پورے بحران کے درمیان علماء نے ان باغیوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ حملہ آوروں کو بھی دہشت گرد یا گمراہ کہنے سے احتراز کیا۔ اپنے فتوے میں ان کو صرف “مسلح افراد” کہا گیا۔ سعودی حکومت کے لئے یہ رویہ خطرے کی گھنٹی تھا۔ حکومت اندر سے علماء کی حمایت سے محروم تھی۔ اس واقعے کے بعد انہیں یہ عائد کردہ شرائط من و عن ماننا پڑیں۔ وہ بغاوت کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ریاض میں یہ سب جاری تھا، باغیوں نے مسجدالحرام کے تہہ خانے میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کر لیا تھا۔ ہر چیز ان کے پلان کے مطابق ہوئی تھی۔ کوئی مزاحمت نہیں ملی تھی۔ حکومت کی طرف سے وہ جس لڑائی کی توقع کر رہے تھے، وہ بھی نہیں ہو رہی تھی۔ اگر ان میں سے کسی کو محمد عبداللہ کے امام مہدی ہونے پر شک بھی تھا تو اس آسان کامیابی سے رفع ہو گیا ہو گا۔
مسجد کی بجلی کاٹ دی گئی تھی اور پانی بند کر دیا گیا تھا۔ ٹوائلٹ تک نہیں جایا جا سکتا تھا کیونکہ یہ احاطے سے باہر تھے۔ اس کیلئے مسجد کے اندر کچھ کمروں کو ہی عارضی لیٹرین بنا دیا گیا۔ مسجد کی راہداری میں انسانی فضلے کی بدبو پھیلنا شروع ہو گئی۔ جو زائرین نکل نہیں سکے تھے، ان میں وہ بھی تھے جو بوڑھے تھے اور لوگوں کے کاندھوں پر سوار ہو کر روشن دان کے ذریعے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والے پچھتر سالہ محمد ستاج ضعیف تھے، وہ اندر انتقال کر جانے والوں مین سے پہلے شخص تھے جو اپنی جگہ لیٹے لیٹے فوت ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ روشن رہنے والی یہ بڑی مسجد تاریکی میں تھی۔ روشن شہر کے درمیان کا تاریک حصہ بن گئی تھی۔ مسجید کے میناروں پر بیٹھے ماہر نشانہ بازوں کو پورا شہر صاف نظر آ رہا تھا۔ کسی بھی حرکت کرتی چیز کو نشانہ بنانا آسان تھا۔
علماء سے فتویٰ آ جانے کے بعد ابھی لڑائی شروع ہونی تھی۔ ابھی جس چیز کا ادراک سعودی حکومت کو نہیں تھا، وہ یہ کہ یہ باغی اس کے لئے کتنے زیادہ تیار اور اپنے مقصد کے لئے کتنے پرعزم تھے۔ اور دوسری طرف سعودی فوج اس صورتحال سے نپٹنے کا طریقہ بالکل بھی نہیں جانتی تھی۔