::: " فاطمہ قندیل: جدید تر عربی شاعری کی منفرد حسیّت کی انحرافی شاعرہ" :::
فاطمہ قندیل 1958 میں پیدا ہوئی۔ ان کا تعلق سوبرا الخیامہ سے ہے۔ وہ ادیبہ، ، کہانی کار، ڈرامہ نگار، ناقدہ، مترجم اور شاعرہ ہیں۔ انھوں نے لبنانی شاعر "خلیل جبران کی نثر نگاری میں بیں المعتنیت " کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ فاطمہ قندیل سپریم کونسل آف کلچر میں شاعری کے صیغے کی رکن ہیں۔ آج کا وہ ہیلوان یونیورسٹی میں جدید ادبی تنقید کی پروفیسر ہیں اور ایک ادبی عربی جریدے " فصل" (chapters) کی معاون مدیرہ بھی ہیں۔ وہ تانرا وحید کی کتاب " ذواکرالنعمان۔۔۔ چیکوسلووکیہ کے ناول نگار میلان کوندیرا کی ناول" کاٹن تحمل خفتہ" اور ایلس ہافمین کی کتاب " شادی کی اسامی " کے ناموں سے عربی میں منتقل کرچکی ہیں۔ فاطمہ قندیل کی تحریریں انگریزی، فرانیسیی، جرمن، ہسپانوی، فارسی، ترکی اور اردو میں ترجمہ ہوئی ہیں۔
ان کی شاعری میں " دروازہ " جو آزادی پر قدغن لگاتا ہےایک استعارہ ہے۔ ان کے خیال میں آزادی شتر بے مہار نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے شاعری کا بنیادی مقولہ یہ ہےکہ انسان اپنی ازادی اپنے طور پر منتخب کرتا ہے اور اس کی حدود متعین کرتا ہے۔ جو تابع ہوکر آزادی کے تالے کھولتی ہے۔
۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔
"چابی"
فاطمہ قندیل { مصر۔ عربی}
ترجمہ: احمد سہیل
چابیاں دروازے نہیں کھولا کرتی
چابیاں انھیں مقفّل کردیتی ہیں
یہ ناچتے ہوئے ناٹک کے سوا کچھ نہیں
مگر میری جیب میں چابی مر جاتی ہے
مجھے یاد آیا کہ وہ وقت
میں ایک مناسب عورت بن گئی
جو گھر میں رھتی ہے
دروازوں کے بغیر، چابیوں کے بغیر
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔