" فاطمہ جناح کا قاتل کون ہے " ؟
پاکستان آج جس نہج پر کھڑا ہے ۔۔۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے تقسیم کا ناقابلِ فراموش المیّہ اور 65 سال سے زائد کا جبر و استحصال پر مبنی دورانیہ ہے ۔۔۔
ہم عموماَ محمد علی جناح کی فکر اور شخصیت پر بات کرتے ہوئے ان کی شفیق بہن ، غمگسار ساتھی اور سیاسی رفیق فاطمہ جناح کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔۔ ان کے کردار کو پسِ پشت ڈالنے میں اور تاریخ سے کھرچنے میں کون سے کردار ملوّث ہیں ۔۔ اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے ۔۔
پاکستان کے قیام کے فوراََ بعد محمد علی جناح کی وفات ہو گئی تھی ۔۔ محمد علی جناح اپنے آخری ایام میں اپنے احباب کو ناقابلِ اعتبار قرار دے چکے تھے ۔۔( ان کی وفات جن حالات میں ہوئی یہ قصّہ ایک الگ بحث کا متقاضی ہے ۔۔۔) اس صورت میں ان کی فکر اور وژن سے متعلق فاطمہ جناح سے زیادہ کون جان سکتا تھا ۔۔ اور وہی اس کی اہل تھیں کہ ان کی سیاسی سوچ کو آگے بڑھاتیں ۔۔۔ لیکن ہوا کیا ۔۔۔ اس ضمن میں قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب " شہاب نامہ " کے باب چہارم میں لکھتے ہیں کہ:
" قائد اعظم کی وفات کے بعد محترمہ مِس فاطمہ جناح اور حکومت کے درمیان سرد مہری کا غبار چھایا، اور قائد کی دو برسیاں آئیں اور گزر گئیں۔ دونوں بار مِس جناح نے برسی کے موقع پر قوم سے خطاب کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی شرط یہ تھی کہ براڈ کاسٹ سے پہلے وہ اپنی تقریر کا متن کسی کو نہیں دکھائیں گی، جبکہ حکومت شرط ماننے پر آمادہ نہیں تھی۔ غالباً اسے خوف تھا کہ نہ جانے مِس جناح اپنی تقریر میں حکومت پر کیا کچھ تنقید کر جائیں گی ۔۔
آخر خدا خدا کر کے قائد اعظم کی تیسری برسی پر یہ طے پایا کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی تقریر پہلے سے سنسر کروائے بغیر ریڈیو سے براہ راست نشر کرسکتی ہیں۔ تقریر نشر ہورہی تھی کہ ایک مقام پر پہنچ کر اچانک ٹرانسمیشن بند ہوگئی۔ کچھ لمحے ٹرانسمیشن بند رہی، اس کے بعد خود بہ خود جاری ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مِس جناح کی تقریر میں کچھ فقرے ایسے تھے جن میں حکومت پر کچھ تنقید تھی۔ وہ تو بدستور ان فقروں کو مائک پر پڑھتی گئیں، لیکن ٹرانسمیشن بند ہوجانے کی وجہ سے وہ فقرے براڈ کاسٹ نہ ہوسکے " ۔۔۔۔۔
اس کے بعد فاطمہ جناح کا سیاسی کردار 1965 کے الیکشن میں نظر آتا ہے ۔۔۔
7 اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور اسکندر مرزا نے کمانڈر انچیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا ۔۔۔ لیکن 24 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے اسکند مرزا کے تمام اختیارات لے لیے اور ملک میں فوجی حکومت قائم کر دی ۔۔۔
2 جنوری 1965 کو انتخابات ہونا قرار پائے تو حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے فاطمہ جناح کو متفقہ امیداوار کے طور پر ایوب خان کے مقابل صدارت کے لیے پیش کیا ۔۔
فاطمہ جناح نے انتخابی مہم کے دوران ایوب خان کو آمر قرار دیتے ہوئے ان کی حکومت پر کڑی تنقید کی ۔۔ ڈھاکہ میں ان کی انتخابی ریلی میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی ۔۔۔ اور لاکھوں افراد ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک کے روٹ پر ان کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔۔۔ ان کی ٹرین 22 گھنٹے لیٹ ہوئی کیونکہ لوگ ہر اسٹیشن پر ٹرین کو روک لیتے اور فاطمہ جناح سے اصرار کرتے کہ وہ خطاب کریں ۔۔ فاطمہ جناح کی مقبولیت ملک کے طول وعرض میں موجود تھی ۔۔
ایوب خان حکومتی مشینری کے بے دریغ استعمال اور بھرپور پروپیگنڈے کے باجود فاطمہ جناح کی الیکشن مہم کو متاثر کرنے میں ناکام رہے ۔۔۔
اس الیکشن نے واضح کیا کہ عوام میں فاطمہ جناح کی پذیرائی موجود ہے ۔۔ اور لوگ کسی خاتون کو بھی صدرِ پاکستان کے طور پر قبول کر سکتے ہیں ۔۔ عوامی رجحانات کو دیکھتے ہوئے جماعتِ اسلامی جیسی رجعت پسند جماعت نے اپنا مؤقف تبدیل کر لیا ۔۔ اور فاطمہ جناح کی پھرپور حمایت کی ۔۔ حالانکہ اس سے قبل وہ بارہا کہہ چکے تھے کسی اسلامی ملک میں سربراہءمملکت کوئی عورت نہیں ہو سکتی ۔۔۔
جب الیکشن ہوئے تو حکومتی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے ۔۔ جوڑ توڑ ، دھاندلی ، جبر اور دھمکی سمیت تمام حربے آزمائے گئے ۔۔۔ اور یوں یہ الیکشن ایوب خان جیت گئے ۔۔۔
فاطمہ جناح کا انتقال 9 جولائی 1967 کو ہوا ۔۔ سرکاری طور پر اس کی وجہ دل کا دورہ بتائی گئی ۔۔۔
فاطمہ جناح کی وصیت تھی کہ انھیں مرنے بعد ان کے بھائی محمد علی جناح کے پاس دفن کیا جائے ۔۔ حکومت اس حق میں نہیں تھی ۔۔ وہ چاہتے تھے کہ فاطمہ جناح کو کسی گمنام جگہ دفن کر دیا جائے ۔۔ لیکن عوام فاطمہ جناح کی اس وصیت سے آگاہ تھے اس لیے عوام کا شدید دباؤ تھا ۔۔ جس کو حکومت برداشت نہ کر سکی اور طے پایا کہ انھیں مزارِ قائد کے احاطے میں دفن کیا جائے ۔۔
ان کی نمازِ جنازہ اور تجہیز و تکفین میں چھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی ۔۔۔ نمازِ جنازہ اور تدفین کا سارا عمل سرکاری طور پر انجام پایا ۔۔ رسومات شیعہ مکتب فکر کے مطابق ادا کی گئیں ۔۔۔۔
کسی کو فاطمہ جناح کے آخری دیدار کی اجازت نہیں دی گئی ۔۔۔ جب کچھ لوگوں نے میّت کے قریب آنے کی کوشش کی تو انھیں پیچھے دھکیلا گیا ۔۔بعد ازاں لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا ۔۔۔ جس پر ہنگامہ آرائی ہوئی ۔۔۔ ان ہنگاموں میں درجنوں سپاہی زخمی ہوئے ۔۔ ایک پٹرول پمپ اور ایک ڈبل ڈیکر بس کو آگ لگا دی گئی ۔۔ایک شخص ہلاک اور کئی عورتیں اور بچے زخمی ہوئے ۔۔۔۔
سابق اٹارنی جنرل اور قائد اعظم کے سیکرٹری جناب شریف الدین پیرزادہ کہتے ہیں کہ
" مس جناح ایک شادی سے گھر واپس دیرسے آئیں اورانہوں نے گھر میں تالا لگایا اورچابی کودرازمیں رکھ دیاحسب عادت پھرسونے کے لیے چلی گئیں ۔۔۔
صبح کوجب وہ نہ اٹھیں تو ان کی پڑوسن بیگم ہدایت اللہ نے پولیس کمشنر آف کراچی او رانسپکٹر کی موجودگی میں دروازہ کھلوایا اور انہیں مردہ حالت میں پایا۔۔۔جناب پیرزادہ کہتے ہیں قائداعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے جو بمبئی سے خصوصی طور پر پاکستان آئے تھے ۔۔۔ ایوب خان سے کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے، مگرتحقیقات کے لئے ان کی درخواست مسترد کردی گئی تھی شریف الدین پیر زادہ کے بقول پیر بھائی نے ایوب خان سے ملاقات ان کی موجودگی میں کی تھی ۔۔"
فاطمہ جناح کا قتل کیسے ہوا ۔۔۔ اس کے لیے جنگ اخبار کا تراشہ پوسٹ کے ساتھ منسلک ہے ۔۔۔ اس لیے اس پر مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔۔۔
سوال وہی ہے کیا ہم اپنی تاریخ کو درست طور پر لکھنے ، سمجھنے اور اپنی اگلی نسل کو بتانے پر تیار ہیں ۔۔۔۔
شاید نہیں ۔۔۔۔۔
کیونکہ جب ہم نے تاریخ کو درست طور سمجھ لیا تو ہم مستقبل کو درست کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“