فاٹا میں محنت کش عوام کا نیا ہیرو؛ علی وزیر
اسلام آباد میں پشتون دھرنا کو مذید منظم کرنے کے لئے سوموار 5 فروری کو دھرنے کے منتخب جرگہ کے عمائدین نے وزیرستان کے انقلابی راھنما علی وزیر کے ذمہ لگایا گیا کہ وہ وزیرستان سے مزید قافلوں کو اسلام آباد روانہ کریں۔
علی وزیر جنوبی وزیرستان کی ایک مقبول سیاسی و سماجی شخصیت ہیں۔ علی وزیر عرصہ دراز سے انقلابی سیاست سے وابسطہ ہیں اور انقلابی سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرتے ہیں، 2013 کے عام انتخابات میں وہ وانا سے سیٹ جیت چکے تھے لیکن بعدازاں دھاندلی سے انہیں ہرا دیا گیا۔ انہوں نے ان انتخابات میں 8750 ووٹ لئے اور مسلم لیگ ن کا امیدوار کو چند سو ووٹوں کی اکثریت سے جیتا دکھایا گیا۔ جو مسلم لیگ آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باتیں کرتی ہے اس دور میں یہی نواز لیگ مقتدر قوتوں کی بڑی چہیتی تھی۔
جنوبی وزیرستان کے عام لوگوں کا درست خیال ہے کہ علی وزیر کو اس کے سوشلسٹ نظریات اور عوام دوست سیاست کی وجہ سے ہروایا گیا تھا۔ لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل ٹھیلے والے غریبوں سے لیکر کچی آبادیوں کے باسیوں تک کی تحریکوں کو منظم بھی کیا اور ان کی قیادت بھی کی۔ وہ ہمیشہ غریب قبائلی عوام اور نوجوانوں کی آواز بنا ہے۔ اس کو رجعتی قوتوں کی دھمکیاں بھی جھیلنی پڑیں اور سامراجی گماشتوں کے جبر کا بھی شکار رہا لیکن محنت کش طبقات کی قوت پر یقین اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد سے اس کی جدوجہد جاری رہی۔
جب علی وزیر جنوبی وزیرستان میں اسلام آباد دھرنے کے لئے عوام کو موبلائز کر رھا تھا تو اسی دوران رجعتی دہشت گرد مزھبی قوتوں نے ایک نوجوان ادریس وزیر کو جو دھرنے کے لئے اسلام آباد جا رہا تھا، کو قتل کر دیا۔
اس بیہیمانہ قتل کے خلاف مقامی آبادی نے زبردست فوری احتجاج کیا۔ سینکڑوں نوجوان باھر نکل آئے۔ بس بہت ہو چکی تھی صبر کا پیمانہ لبریز تھا۔ طالبان جنہوں نے ادریس کو قتل کیا تھا اس عوامی احتجاج کی لپیٹ میں آگئے اور ریاستی پشت پناہی رکھنے والے اِن قاتلوں کے ٹھکانے کو مشتعل نوجوانوں نے آگ لگا دی۔ غصہ تھا کہ ٹھنڈا ہی نہ ہو رھا تھا۔ یہ طالبان کے خلاف ایک موثر عوامی ردعمل تھا۔ کل کے یہ لاڈلے آج دوڑیں لگا رھے تھے۔ ان کی ایک گاڑی بھی نذرآتش کی گئی۔
ان مظاہروں کو منظم کرنے کا الزام لگا کر علی وزیر کو گرفتار کیا گیا اور ایک بکتر بند گاڑی میں کسی خفیہ مقام پر لے گئے۔ اس گرفتاری کے خلاف ایک زبردست ردعمل سامنے آیا۔ مقامی آبادی اور اسلام آباد دھرنے کے شرکا کا مطالبہ تھا کہ علی وزیر کو رھا کرو اور ادریس کے قاتل گرفتار کرو۔
اسلام آباد کے دھرنے میں منگل کی شام کو علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف بار بار مذمتی اعلانات ہوئے اور انکی گرفتاری کے خلاف قرار دادیں پیش کی جارہی تھیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی عوام کا دباؤ کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا۔ چنانچہ نتیجہ عوامی ردعمل کی کامیابی کی صورت نکلا اور رات گئے علی وزیر کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
طالبان سے ٹکر لینا کوئی آسان بات نہیں۔ اب علی وزیر کی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس تحریک میں لانگ مارچ سے اسلام آباد دھرنے تک کی جدوجہد نے عام لوگوں کو بیدار کر دیا ہے، علی وزیر اس بیداری کا ایک ہیرو بن کر ابھرا ہے۔
نقیب اللہ کے بہیمانہ قتل کے خلاف نہ صرف پشتونوں بلکہ پورے ملک کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اس دھرنے پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر آکر اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شرکا ان کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں اور گروپس عوامی ورکرز پارٹی، مزدور کسان پارٹی، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین اور دیگر اسلام آباد دھرنے میں اپنا انقلابی کردار ادا کر رھے ہیں۔
ایک نیا ابھار ہے۔ ایک نئی انوکھی تحریک ہے جو کبھی پہلے سامنے نہیں آئی۔ جو ٹارگٹ کلنگ کا بہادر نشان سمجھا جاتا تھا۔ جو پیپلز پارٹی کا پیارا پولیس افسر تھا اب چھپتا پھرتا ہے۔ یہ جو روز چار چھ لوگوں کو نکال کر گولیوں سے بھون کر انہیں دھشت گرد کہ کر جعلی پولیس اور رینجرز مقابلوں میں مار دیا جاتا تھا اب یہ سلسلہ عوام کی نظر میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ کل کے ہیرو آج زیرو بن گئے ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کو بھی صفائیاں دینی پڑ رھی ہیں۔ یہ نقیب شہید کو خراج تحسین ہے کہ اس کی شہادت نے ایک عوامی تحریک کو جنم دیا۔
اسٹیبلشمنٹ ننگی جارحیت کا اب دفاع کرنے سے قاصر ہے۔ جو دھشت گرد ہے اس کو پکڑو اور قانون کے مطابق اسے عدالتوں کے زریعے سزا دو۔ یہ جو پولیس افسران خود ہی مدعی اور جج بنے ہوئے تھے اب بجا طور پر قاتل ٹھرائے جا رھے ہیں۔
علی وزیر رھا ہوا ہے۔ مگر نہ تو ڈرا ہے اور نہ ہی چھپا، وہ میدان عمل میں ہے ہزاروں کی عملی یک جہتی کے ساتھ۔ وہ محنت کش طبقات کا فاٹا میں ایک نیا ہیرو بن کر ابھرا ہے۔ جدوجہد جاری ہے۔ کس کے رکے رکا ہے سویرا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“