فاٹاکا ایشو اور ہزارہ برادری کا قتل عام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نظر
تحریر : اجمل شبیر
پاکستان کے عالم و فاضل میڈیا پر گزشتہ روز سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر لندن سے پاکستان کے لئے جہاز پر بیٹھ گئے ،جہاز اب پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہو گیا ،اب اسلام آباد میں کیپٹن صفدر نامی جہاز لینڈ کر گیا ،دونوں جہاز سے باہر نکل آئے ہیں ،اب ائیر پورٹ پر NAB والے آگئے ہیں ،مریم نواز گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد کے ایک بنگلے میں چلی گئی ،جہاں وہ آج رات رہائش رکھیں گی ،نیب والوں نے کیپٹن صفدر کو گاڑی میں بٹھایا تو مسلم لیگ کے سرگرم ورکرز گاڑی کے سامنے لیٹ گئے اور گاڑی کو روک دیا ،ساتھ یہ بھی کہتے رہے کہ گاڑی چلا سکتے ہو تو چلاو،یہ تھی ہمارے عالم فاضل میڈیا کی گزشتہ روز کی بریکنگ نیوز ،جیو نے سب پر میدان مار لیا ،بہترین کوریج کی ۔باقی تمام میڈیا بھی جیو کی دیکھا دیکھی اور ریٹنگ کے چکر میں اسی طرح کتا بنا رہا ۔کیا کمال میڈیا ہے ہمارا جو گھٹیا پن کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر ؟جس دن میڈیا کی اسکرینوں پر یہ خبریں آن ائیر تھی یعنی گزشتہ روز ،اسی وقت فاٹا یعنی قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ اسلام آباد کے ڈی چوک پر ایک مارچ کررہے تھے اور دھرنا دیئے ہوئے تھے ۔ان کا مطالبہ تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کیا جائے ،حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرے گی ،لیکن وعدہ وفا نہیں کیا جارہا ۔فاٹا والے خیبر پختونخواہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں ،ان کا حصہ بننا چاہتے ہیں ،سویلین حکومت کئی مرتبہ وعدے کر چکی ہے کہ وہ جلد از جلد فاٹا کو خیبر پختونخواہ کا حصہ بنا دے گی ،لیکن ہمیشہ ہی وعدہ وفا نہیں ہوتا ۔مارچ میں شریک فاٹا کے پارلیمنٹ کے ارکان وزیر اعظم سے بھی ملے ،لیکن انہوں نے پھر ایک مرتبہ وعدے پر ٹرخا دیا ۔فاٹا اسٹودنٹ فیڈریشن کے سینکڑوں طلبا ،وہاں کی بزنس کمیونٹی کے لوگ بھی اس مارچ کا حصہ تھے ۔کہا جارہا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ فاٹا خیبر پختونخواہ میں ضم ہو جائے ،لیکن مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی ایسا نہیں چاہتے ،کیونکہ دونوں موجودہ سویلین حکومت کے اتحادی ہیں اس لئے حکومت فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرپارہی ہے۔فاٹا سیکٹریٹ کے ڈیپارٹمنٹس پشاور میں ہیں ،فاٹا کا سب سے بڑا حاکم ایڈیشنل چیف سیکریٹری جو کہ خیبر پختونخواہ کے چیف سیکریٹری کے نیچے کام کرتا ہے ،اس کا دفتر بھی پشاور میں ہے ،یعنی وہ پشاور میں بیٹھ کر فاٹا کی نمائندگی کرتا ہے ۔پھر بھی فاٹا کو کے پی کے میں ضم نہیں کیا جاسکتا؟جب فاٹا کے پی کے میں شامل ہو جائے گا اس سے عدالتوں کا دائرہ کار بڑھے گا اور قانون کی عمل داری مستحکم ہو گی ،فاٹا کو ضم کرنے کے حوالے سے کابینہ کئی مرتبہ بل کو منظور کرچکی ہے ،یہ بل پارلمان میں پڑا ہے ،لیکن منظور نہیں دی جاتی ۔سمجھ نہیں آتی حکومت کیوں فاٹا کو کے پی کے میں ضم نہیں کرنا چاہتی ؟کچھ ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اگر فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں شامل کیا گیا تو NFC کے وہ سو ارب فاٹا کو دینے ہوں گے جو اس علاقہ کا شئیر ہیں ،لیکن حکومت یہ سو ارب ڈالر فاٹا کو دینا نہیں چاہتی ،اسی لئے کے پی کے میں ضم نہیں کررہی ۔ان کے مطابق یہ اصل مسئلہ ہے؟اب فاٹا والے سنا ہے ابھی بھی اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ۔حکومت وضاحت بھی نہیں دیتی کہ کیوں وہ ایسا نہیں کررہی اور خوشخبری بھی سنا دیتی ہے کہ جلد ایسا کردیا جائے گا؟بھیا ساری سیاسی جماعتیں فاٹا کا کے پی کے میں ضم چاہتی ہیں ،عوامی نیشنل پارٹی اور پی ٹی آئی بھی اس مسئلے پر ایک ساتھ ہیں ۔فاٹا کا ایشو ایک نیشنل ایشو ہے ،پچاس لاکھ افراد کا مسئلہ ہے ،پورے پاکستان کا ایشو ہے ،وہ جمہوریت میں آنا چاہتے ہیں ،مین اسٹریم سیاست کا حصہ بننا چاہتے ہیں ،لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ،کیوں ؟بھائی ہر روز سیاست ،جمہوریت اور آئین کی بات کرتے ہو ،فاٹا والے یہی چاہتے ہیں ،کیوں انہیں جاہل پسماندہ اور دہشت گرد بنانا چاہتے ہو،خود ہی ریاست کو banana republic بنا رہے ہو اور کہتے ہو یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے ؟یہ writ of the state کا مسئلہ ہے ،انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور تم اپنے آپ کو جمہوریت کے سپہ سالار کہتے ہو ،لیکن ایک جمہوری مسئلہ حل نہیں کررہے ہو ۔نوازشریف اور بے نظیر کے درمیان ایک چارٹر آف ڈیموکریسی ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں شامل کیا جائے گا تاکہ جمہوریت مستحکم ہو ،پھر ایسا کیوں ؟نیشنل ایکشن پلان کا ۱۱واں اصول یہ تھا کہ فاٹا کو main stream میں لایا جائے گا ؟کہاں گیا نیشنل ایکشن پلان ؟نیشنل سیکیورٹی ایشو کی وجہ سے انٹرنیٹ وہاں بند ہے ،کیبل وہاں نہیں جاتی ،بنیادی انسانی حقوق سے وہ محروم ہیں ،بچے ان کے مرر ہے ہیں ،تم اسلام آباد میں بیٹھ کر صرف جمہوریت جمہوریت کھیل رہے ہو ؟لیکن وہ جو جمہوریت کی طرف آنا چاہتے ہیں ،دہشت گرد نہیں بننا چاہتے ،اسلام آباد مین دھرنا کررہے ہیں کہ انہیں جمہوری حقوق دو ،مین اسٹریم میں لاو ،ان کی بات تم سنتے نہیں ،لعنت ہے تمہاری جمہوریت اور اس منافقت پر ۔جمہوریت کا صرف نواز شریف کا نام ہے ؟الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ووٹروں کی تعداد میں 11 ملین کا اضافہ ہوا ہے ۔فاٹا میں یہ اضافہ سب سے زیادہ ہوا ہے یعنی 23 فیصد اور باقی پاکستان میں 13 فیصد ۔فاٹا میں ووٹوں کی تعداد میں سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے ،چھتیس فیصد خواتین ووٹرز کی تعداد فاٹا میں بڑھی ہے ۔وہ جمہوریت کے لئے بیقرار ہیں ،وہ جمہوریت کا ھصہ بننا چاہتے ہیں ۔میڈیا کو چاہیئے کہ انہیں اگر کیپٹن صفدر اور مریم نواز سے فرصت ملے تو وہ اس حوالے سے بھی آگے بڑھے۔ایک اور خبر جس کو میڈیا نے تو لفٹ نہیں کرائی ،چلیئے ہم ہی بات کر لیتے ہیں ،گزشتہ روز کوئٹہ اللہ دینو روڈ پر ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ۔سبزی لینے کے لئے ایک گاڑی منڈی کی طرف جارہی تھی کہ کچھ مسلح افراد نے جو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے ،اس گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔اس فائرنگ کے نتیجے میں ہزارہ برادری کے پانچ افراد شہید ہو گئے ۔بیچارے اب لاشین سڑک پر رکھ کر احتجاج کررہے ہیں ،کوئی سننے والا نہیں ،جھل مگسی کے بعد یہ بڑا کونی واقعہ تھا ،لاشیں اب سڑک پر ہیں اور احتجاج جاری ہے ،یہ ہے پاکستان ۔ہزارہ برادری مسلسل نشانے پر ہے ،ان کا قتل عام سالوں سے جاری ہے ،ان کے بچے جوان مرر رہے ہیں ،کسی کو پرواہ نہیں ،کونسے وہ لاہور یا ااسلام آباد سے ہیں ،میڈیا بھی خاموش ،اسٹیبلشمنٹ بھی خاموش اور حکومت تو پہلے دن سے ہی خاموش ہے۔اسی طرح کا ایک واقعہ دس ستمبر کو بھی پیش آیا تھا جب کچلاک میں ایک فیملی افغانستان سے آرہی تھی ،ان پر فائرنگ کی گئی اور چار افراد شہید ہوئے ،سنا ہے وہ بھی بیچارہ ہزارہ برادری سے تھے ،اس وجہ سے میڈیا نے زیادہ لفٹ نہیں کرائی ۔یہ ہے پاکستان ،اب اور کیا کہوں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔