فاٹا کا فیصلہ یقیناً بہت بڑی فتح ۔
فاٹا والے رو رہے تھے فوجی چوکیوں کے خلاف ، چوکیوں تو کیا ان کو عید کے تحفہ کی صورت میں انگریزوں کے چھوڑے ہوئے بابؤں (پولیٹیکل ایجینٹوں ) خداؤں سے جان چھُٹنے کا پروانہ مل گیا ۔ مولانا فضل اور عوامی نیشنل پارٹی اور بہتوں کی دوکان بند ہوگئ ۔
کاش اگر اسٹیبلشمنٹ جس نے یہ سب کچھ کروایا، جاتے جاتے اس اسمبلی سے کالا باغ ڈیم کا بھی کچھ کروا جاتی تو کیا خوب ہوتا ۔ خورشید شاہ میٹر ریڈر کی اور زرداری کی شہ رگ پر تو نیب سندھ کا ہاتھ ہے ہی کیا مشکل تھا ۔ کل شاہد خاقان آباسی صاحب فرما رہے تھے کہ آنے والے وقتوں میں پانی ایک بہت سنگین مسئلہ ہو گا پاکستان کے لیے ۔ جناب آپ ہی کے سیاستدان اور بابو ، ہندوستان اور پرائیوٹ تھرمل پاور پلانٹ والوں سے پیسہ لے کر اس کو یہاں تک لے آئے ۔ آپ نے تو صاف پانی کے نام پر بھی اربوں لُوٹ لیا ، بُلٹ پروف کاریں خرید کر ۔ انتہا کی بے وفائ ہے ریاست سے۔
پچھلے دنوں یہاں امریکہ ، واشنگٹن ہی میں اس سلسلہ میں ہندوستان کی زیادتیوں پر ورلڈ بیینک کی میٹنگ ہوئ ۔ جس پر آپ نے اتنا پیسہ خرچ کیا اشتر اوصاف جس کو ہمارے دوست کلاسرا صاحب ٹھیک اشتروُ کہتے ہیں ، ایک ٹیم لے کر یلغار کیے ہوئے تھے ، انہوں نے بھی آپ کی جھنڈی کروا دی۔ ورلڈ بینک کا موقف ٹھیک تھا ، کہ آپ کو ڈیم بنانے سے کون روک رہا تھا ؟ اب آپ ہمارے پاس منہ اٹھا کہ چلے آئے ہیں جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت ۔
آج سے دس سال پہلے میں ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چھوٹوں ڈیموں سے ہی دریائے سندھ سے ۵۰،۰۰۰ میگا واٹ بجلی جینریٹ کی جا سکتی ہے ۔ لیکن ادھر آپ کو فورا ہندوستان اور پراؤیٹ پاور پلانٹ والوں سے کمشن نہیں ملنا تھا وہ شاید اگلی حکومت لیتی ۔ میٹر ریڈر نے تو ترکی کا بجلی بنانے والا بحری جہاز پر یونٹ لا ساحل سمندر کراچی کھڑا کیا ۔ پیسہ بھی گیا بجلی بھی نہ ملی ، جسٹس افتخار کی مہربانی ۔
میں ایک طویل مدت کی نگران حکومت کا حامی ہوں، جو یہ ۷۰ سال کا گند صاف کرے ۔ اس میں کوئ وقت نہیں لگے گا ۔ صرف نیت اور ارادہ چاہیے ۔ پاکستان پھر ایک با غیرت آزاد ریاست کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے ۔ ابھی بھی تو اسٹیبلشمنٹ ہی جب معاملہ پھنس جاتا ہے تو پیچھے سے ڈوریاں ہلاتی ہیں ۔ اس ٹیم کو بھی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی حمایت چاہیے ہو گی ۔ عوام تو آخری سانسوں پر ہے وہ تو نوالے کے انتظار میں ہں چاہے وہ نوالا ان کے منہ میں کوئ فوجی ڈالے ، چیف جسٹس یا سیاستدان ۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں اس ضمن میں بڑے فیصلے متوقع ہیں ، ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے اپنے ملک کے لیے جان تک دینے کو تیار رہنا چاہیے ۔ جنرل باجوہ ایک بہت بڑے محب وطن پاکستانی ہیں ان کی ایمانداری اور پاکستان کی یکجہتی کے لیے کوششوں کی مثالیں میرے بہت سارے دوست احباب بتاتے ہیں ۔ اللہ ان کو خوش رلھے ، صرف سابقہ جرنیلوں کی گندگیوں کا بوجھ یا burden ان کو اکثر پریشان کرتا ہے ۔ مشرف کے مکے ، کیانی کی وارداتیں اور راحیل کے ناجائز رابطے ان کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ رہیں ہیں ۔ کیونکہ وہ ایک پروفیشنل فوجی ہیں اور ایسے ہی رہنا چاہتے ہیں ، لیکن جنرل صاحب ، کچھ کرنے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔ انگریزی کی بڑی مشہور کہاوت ہے ۔
You can’t have your cake and eat it too..
پاکستان انشاء اللہ جیتے گا ۔ قوموں پر مشکلیں آتی ہیں ۔ ان کا مقابلہ کرنا ہوتاہے ۔ صرف ہمیں اچھے رول ماڈل چاہییں ۔ دیکھیں پھر قوم کیسے جاگتی ہے اور آپ کا ساتھ دیتی ہے ۔
پاکستان پائندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔