میں نے اُس کی پھٹی ہوئی پینٹ کی طرف دیکھا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے… !!!
پچھلے دنوں جب شدید بارش ہوئی تو دفتر سے واپسی پر مجھے فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں میری گاڑی کشتی میں نہ تبدیل ہو جائے۔ اچانک ذہن میں آیا کہ گاڑی دفتر میں ہی کھڑی کر دیتا ہوں اور خود آن لائن ٹیکسی پر چلا جاتا ہوں۔ دو دن پہلے ہی میں نے ثمریز سے آن لائن ٹیکسی منگوانے کا طریقہ سیکھا تھا۔ موبائل نکالا اور ٹیکسی کے لیے آرڈر کیا۔ دس منٹ بعد ایک گاڑی قریب آ کر رک گئی۔ میں نے موبائل سے گاڑی کا نمبر چیک کیا‘ ڈرائیور کی شکل دیکھی‘ نام پوچھا اور اطمینان سے بیٹھ گیا۔ گاڑی نئے ماڈل کی تھی اور کافی آرام دہ‘ اے سی بہت شاندار کولنگ کر رہا تھا۔ ڈرائیور ایک نوجوان لڑکا تھا‘ عمر یہی کوئی ستائیس اٹھائیس سال ہو گی۔ گاڑی مین روڈ پر آئی تو میری نظر اچانک اُس کی پینٹ پر پڑی جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی… میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں سمجھ گیا کہ حالات سے تنگ یہ نوجوان مجبوراً کسی اور کی ٹیکسی چلانے پر مجبور ہے۔ مجھے یہ بھی سمجھ آ گئی کہ رات کو یہ ٹیکسی چلاتا ہو گا اور صبح یونیورسٹی جاتا ہو گا۔ اس کی ایک بیمار ماں اور اپاہج باپ بھی ہو گا‘ سر پر دو بہنوں کی شادی کا بوجھ بھی ہو گا‘ اسی لیے بیچارا نئی پینٹ تک نہیں لے سکتا۔ میں نے اپنی شرٹ کی آستین سے آنسو پونچھے اور بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا ''بیٹا! ایک بات کہوں‘ برا تو نہیں منائو گے؟‘‘۔ اس نے چونک کر مجھے آنسو صاف کرتے ہوئے دیکھا اور جلدی سے بولا ''پلیز اب یہ نہ کہئے گا کہ آپ کے پاس کرایہ نہیں‘‘۔
میں سٹپٹا گیا ''نہیں نہیں بیٹا… یہ میں نے کب کہا ہے‘ میں اپنی نہیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
''میری مدد… کیوں؟‘‘
''بس میرا دل کر رہا ہے… ایسا کرو جب تم مجھے ڈراپ کرکے جانے لگو تو جینز کی پینٹ لیتے جانا‘ میں نے زیادہ نہیں پہنی‘ چھ ماہ پہلے پانچ ہزار کی لی تھی…‘‘ میری بات سنتے ہی اس کا چہرہ لال ہو گیا‘ چلا کر بولا ''میں کیوں لوں آپ کی پینٹ؟‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ بچہ انا پرست ہے‘ تسلی دی ''بیٹا! میں تمہاری خود داری کی قدر کرتا ہوں لیکن تمہیں پینٹ لینا ہی ہو گی‘ کسی کی اتنی اچھی گاڑی میں یہ پھٹی ہوئی پینٹ پہن کر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا‘‘۔ اس نے زور سے گاڑی کو بریک لگائے اور دانت پیستے ہوئے بولا ''اوئے… یہ میری اپنی گاڑی ہے اور میں شوق سے فارغ وقت میں اسے بطور ٹیکسی چلاتا ہوں اور جس پینٹ کو تم پھٹی ہوئی کہہ رہے ہو وہ آج کل کا فیشن ہے‘ یہ پھٹی ہوئی پینٹ دس ہزار کی ہے…‘‘ میں یکدم سہم گیا اور گھر کے باہر پہنچتے ہی ''نیواں نیواں‘‘ ہو کے اندر چلا گیا۔
میں فیشن ایبل تو ہونا چاہتا ہوں لیکن ہو نہیں پاتا۔ موٹے فریم والی عینک آج کل کا فیشن ہے لیکن اللہ جانتا ہے ایسی ہی عینک میری نانی پہنا کرتی تھیں‘ میں نانی کی عینک کو بطور فیشن کیسے پہن لوں؟ آپ نے کبھی لال رنگ کی پینٹ پر گہرے پیلے رنگ کی شرٹ اور پائوں میں نیلے بوٹ دیکھے ہیں؟ کہتے ہیں یہ بھی فیشن ہے۔ میں نے ایک فیشن ایبل دوست سے پوچھا تھا کہ میرے لیے کوئی ہلکا پھلکا سا فیشن تجویز کرو۔ اس نے غور سے میرا جائزہ لیا اور کہنے لگا ''تم بال کھڑے کر لو‘‘۔ میرے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ کیوں‘ میں کوئی…‘‘ اس نے جلدی سے میری بات کاٹی ''یقین کرو‘ کچھ کچھ فیشن ایبل لگو گے‘ چھوڑو یہ ڈریس شرٹس اور فارمل ڈریسنگ‘ کچھ مختلف نظر آئو۔ میں نے خوش ہو کر اس سے درخواست کی کہ وہ خود ہی میرے بال سیٹ کروا دے۔ موصوف مجھے ایک زنانہ نما مردانہ پارلر پر لے گئے۔ واپسی پر میں نے شیشہ دیکھا تو کانپ گیا‘ میرے بال کانٹوں کی طرح کھڑے تھے۔ اپنے گھر کی گلی کا موڑ مڑتے ہی ایک محلے دار کی نظر پڑ گئی‘ پہلے تو آنکھیں پھاڑے میرے بال دیکھتا رہا‘ پھر قریب آ کر اِدھر اُدھر دیکھ کر آہستہ سے بولا ''بھابی سے لڑائی ہوئی ہے؟‘‘
میں ہونٹ سکیڑ کر سیلفی بھی بنانا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے موبائل ہی ٹھیک سے نہیں پکڑا جاتا‘ پتا نہیں لوگ کیسے ایک ہاتھ سے موبائل سیدھا کرکے سیلفی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو جب بھی سیلفی بنانے کی کوشش کی موبائل پر نیا گلاس پروٹیکٹر لگوانا پڑا۔ میں جھینگے اور کیکڑے بھی کھانا چاہتا ہوں تاکہ شکل سے نہ سہی‘ کھانے سے ہی فیشن ایبل نظر آئوں لیکن پتا نہیں کیوں کسی چائنیز ریسٹورنٹ جاتے ہوئے راستے میں کسی چھوٹے سے ہوٹل پر دال ماش اور تندور کی تازہ روٹیاں دیکھتا ہوں تو غش پڑ جاتا ہے اور پھر میرے لیے آگے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں بات بات پر انگریزی بھی بولنا چاہتا ہوں تاکہ یکدم سامنے والے پر حاوی ہو جائوں لیکن یہاں بھی بڑی مشکل پیش آتی ہے‘ گرائمر کے اعتبار سے بولتا ہوں تو سامنے والا چکرا جاتا ہے۔ ایک دفعہ چائنیز ریسٹورنٹ میں چکن سوپ پیا تو بہت مزیدار لگا‘ منیجر نے رائے پوچھی تو میں نے جدی پشتی انگریز کے لہجے میں کہا ''Taste has come‘‘۔ اُس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا‘ اب میں اس جاہل کو کیا سمجھاتا کہ میرا مطلب ہے ''مزا آ گیا‘‘…!!
مردانہ کانوں میں بالی پہننا بھی فیشن ہے‘ بغیر جرابوں کے بوٹ پہننا بھی فیشن ہے‘ شرٹ کا اوپر سے دوسرا بٹن کھلا رکھنا بھی فیشن ہے حالانکہ پہلے یہ لفنگا پن کہلاتا تھا۔ کھانے پینے سے لے کر بول چال‘ گھرکی بناوٹ‘ چہرے کے تاثرات‘ بالوں کی تراش خراش تک ہر چیز فیشن کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک فیشن شو میں تو میں نے ایسے ماڈل لڑکوں کو بھی دیکھا جنہوں نے ''غرارے‘‘ پہن رکھے تھے۔ غرارے مجھے بھی پسند ہیں لیکن صرف گرم پانی کے۔ مجھے لگتا ہے میں کبھی فیشن ایبل نہیں بن سکوں گا‘ یہ دُکھ مجھے کھاتا جا رہا ہے۔ میں ٹنڈ کروا کے اپنے بازو پر ''ٹیٹو‘‘ بنوانا چاہتا ہوں… ٹی شرٹ اور شارٹ کے نیچے جوگر پہن کر کانوں میں ہینڈز فری لگا کر‘ ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل پکڑ کر شاپنگ کرنا چاہتا ہوں… باتھ ٹب میں نہانا چاہتا ہوں… کڑوی کسیلی کافی پینا چاہتا ہوں… بلکہ یہ سب تو کچھ نہیں‘ میں تو کانٹے سے چائے پینے کا بھی پروگرام بنا رہا ہوں لیکن تاحال کامیابی نہیں ہو رہی۔ جتنا فیشن ایبل ہونے کی کوشش کرتا ہوں اُتنا ہی روایتی زندگی میں دھنستا چلا جاتا ہوں۔ میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ بیکری میں میرا ہاتھ چاکلیٹ کی طرف اٹھ جائے لیکن دوسری طرف کریم رول بھی رکھے ہوتے ہیں… ''لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے‘‘…‘ کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے… پھر میں‘ میں نہیں رہتا‘ تم ہو جاتا ہوں… کسی فوڈ چین سے سات سو روپے کا برگر کھا لوں تو گھر پہنچتے ہی پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوں۔ سو طے ہوا کہ میں فیشن سے کوسوں دور ہوں۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ میں صرف اسی صورت میں فیشن ایبل بن سکتا ہوں اگر میں کسی کی پروا نہ کروں۔ یہ طریقہ بھی میں آزما کر دیکھ چکا ہوں‘ ایک دفعہ اُس نے مجھے فیشن ایبل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے سختی سے تاکید کی کہ کل میرے ہاں کھانے پر صرف جینز اور ٹی شرٹ پہن کر آنا… میں نے ایسا ہی کیا‘ لیکن جب وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ لوگ جوتے بھی پہن کر آئے ہوئے تھے…!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“