دنیا روشنی کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اور میرے دیس میں آہستہ آہستہ، خراماں خراماں وقت کا پہیہ پیچھے کی جانب سفر کر رہا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ پچھلے ستر بہتر برسوں میں ہم بڑی شان و شوکت سے مغلیہ دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ میں اپنے پچھلے مضامین میں کئی دفعہ تذکرہ کر چکا ہوں کہ میری پیدائش سن 1957 میں شہر کراچی کی ہے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو کراچی ایک کُھلا ڈُھلا شہر تھا، بچپن میں ہم نے یہاں پر فصیل نام کی کوئی چیز دیکھی نہ کبھی سنی۔ میں غالباً جب ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا تو اپنے والدین کے ساتھ پہلی بار لاہور گیا۔ 1960 کی درمیانی دہائی کا لاہور آج کے لاہور سے قدرے مختلف تھا۔ اُس زمانے میں شہر کی بیشتر آبادی اندرونِ شہر رہا کرتی تھی۔ اس آبادی میں داخل ہونے کے لیے کبھی ہم دہلی دروازے سے گزرتے تو کبھی لوہاری و بھاٹی دروازے سے اور کبھی ہمارا گزر موچی دروازے سے ہوتا تھا۔ ان مختلف دروازوں کے سبب میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ اس شہر کی زیادہ تر آبادی کے گرد یہ دروازے کیوں بنے ہوئے ہیں اور اس قسم کے دروازے کراچی میں کیوں نہیں ہیں؟ میرے سوال پر والد صاحب نے بتایا کہ لاہور ایک قدیم شہر ہے، بادشاہوں کے زمانے میں بڑے شہروں کے ارد گرد موٹی حفاظتی دیوار تعمیر کی جاتی تھی جس کو فصیل کہا جاتا تھا اور اس میں شہر کے حجم کے مطابق مختلف داخلی و خارجی راستوں پر دروازے بنائے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ان دروازوں اور فصیلوں کو بنانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کی مدد سے شہر کو بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ ڈاکوؤں اور لٹیروں سے بھی بچایا جا سکے۔ ان دروازوں پر حفاظتی چوکیاں اور سپاہی بھی مامور ہوتے تھے۔ عام طور پر یہ دروازے طلوع آفتاب کے وقت لوگوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیے جاتے تھے اور غروب آفتاب کے وقت ان دروازوں کو بند کر دیا جاتا تھا۔ والد صاحب کے اس تفصیلی جواب کے بعد میں نے اُن سے مزید پوچھا کہ کراچی میں لاہور کی طرح کے دروازے اور فصیلیں کیوں نہیں ہیں جس پر انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ کراچی میروں اور تالپوروں کی حکمرانی کے زمانے سے پہلے تک مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی جو سندھ میں انگریزوں کے قبضہ کرنے کے بعد آہستہ آہستہ ایک چھوٹے سے بندرگاہی شہر کا روپ دھارنے لگی۔ چونکہ انگریزوں کا زمانہ ایک مہذب زمانہ تھا، ڈاکوؤں، لٹیروں اور بیرونی حملہ آوروں کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس لیے کراچی میں فصیل اور اس کے دروازے بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ سترھویں صدی کے اواخر میں کراچی شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کی گئی تھی۔ اُس فصیل میں دو دروازے بنائے گئے تھے۔ ایک دروازے کا رُخ سمندر کی طرف تھا جس کو کھارادر کا نام دیا گیا جبکہ دوسرے دروازے کا رُخ لیاری ندی کی طرف تھا اور ندی کے میٹھے پانی کی نسبت سے اس کو میٹھا در کے نام سے منسوب کیا گیا۔ کم سے کم 1947 میں نہ تو اس فصیل کا کوئی نام و نشان تھا اور نہ ہی میٹھا در و کھارا در کے دروازوں کے کوئی آثار باقی تھے۔ بہرحال اس تمام صورتحال سے یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ انگریزوں کا نظم و نسق اتنا عمدہ تھا کہ کسی قسم کی لوٹ مار کا اندیشہ تک نہ تھا اور شہروں پر بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کا تو تصور ہی مٹ گیا تھا۔
قیام پاکستان کے وقت انگریزوں کا جاری کردہ انتظامی طریقۂ کار ہی اپنایا گیا۔ 1947 کے بعد کراچی کی نئی نئی آبادیاں وجود میں آئیں اور آزادی کے ابتدائی زمانے کے ساڈھے چار لاکھ نفوس کی آبادی کا یہ شہر 1980 کی دہائی تک آتے آتے غیرسرکاری اندازے کے مطابق لگھ بھگ ایک کروڑ نفوس تک پہنچ چکا تھا لیکن اُس وقت بھی نہ شہر کے ارد گرد کسی فصیل کی ضرورت پڑی اور نہ ہی داخلی و خارجی دروازوں کی۔ کراچی میں نئی نئی بستیاں آباد ہوتی رہیں جس میں لاکھوں لوگ رہائش پذیر ہوتے رہے۔ ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشنِ اقبال، لانڈھی، کورنگی، نئی کراچی، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی، اورنگی ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن اور انگنت بستیاں وجود میں آئیں لیکن کسی فصیل کی ضرورت نہیں پڑی۔
تقسیم ہند سے صدی قبل جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کر کے یہاں پر اپنے دورِ حکمرانی کا آغاز کیا تو انہوں نے پورے برصغیر کو جدید دنیا کے تمام لوازمات سے بہرہ ور کر دیا تھا۔ پکّی سڑکیں تعمیر کیں اور پورے برصغیر میں ریلوے کا مضبوط جال بچھا دیا۔ آبپاشی کا جدید نہری نظام تعمیر کیا جس کی وجہ سے خصوصاً پنجاب تو گُلِ گلزار بن گیا۔ اس کے علاوہ نئے نئے شہر بھی تعمیر کیے گئے مثلاً لائل پور (فیصل آباد)، منٹگمری (ساہیوال)، ایبٹ آباد اور جیکب آباد وغیرہ، لیکن ان میں سے کسی بھی شہر کے گرد فصیل نہیں تعمیر کی گئی۔ بدقسمتی سے پھر ہم اسّی کی دہائی کے درمیانی دور میں پہنچے جب پاکستان پر ایک فوجی آمر کی حکمرانی تھی، کراچی شہر کے ایک علاقے اورنگی ٹاؤن میں نامعلوم دہشت گردوں نے باقاعدہ ایک جتھے کی شکل میں نہتی آبادی پر جدید ہتھیاروں سے حملہ کر دیا. مکانوں کو آگ لگا دی گئی اور مکینوں کو لوٹ لیا گیا۔ کہتے ہیں کہ اس منظم دہشت گردانہ حملے میں غیر سرکاری اندازے کے مطابق کم از کم تین سو نہتے شہری مارے گئے۔ یہ افسوسناک سانحہ 14 دسمبر 1986 کو پیش آیا جس کی بنیاد وہ آپریشن تھا جو کہ سہراب گوٹھ میں منشیات فروش دہشت گردوں اور اسلحہ مافیا کے خلاف 12 دسمبر 1986 کو شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منشیات فروشوں اور اسلحہ مافیا کے خلاف کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس آپریشن کی آڑ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں کو مزید مضبوط کیا تھا، اس دوران کچھ خطرناک دہشت گرد مفرور ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور پھر سہراب گوٹھ کے اُن مفرور اسلحہ و منشیات فروشوں نے اورنگی ٹاؤن اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہولناک خون ریزی شروع کر دی تھی۔ مورخہ 14 دسمبر 1986 کی صبح تقریباً چھ بجے پولیس اور انتظامیہ کی سرپرستی میں منشیات و اسلحہ مافیا کے دہشت گرد سینکڑوں کی تعداد میں جدید ترین ہتھیاروں، ہینڈ گرینیڈ اور آتشی پاوڈر سے لیس ہو کر پہاڑوں سے اترے اور انھوں نے اورنگی ٹاون کے علاقے قصبہ کالونی اور علیگڑھ کالونی کے مکینوں پر حملہ کر دیا. مسلح دہشت گرد بے گناہ شہریوں پر گولیاں برساتے رہے، جیتے جاگتے بچوں کو دہکتی آگ میں جھونکتے رہے اور کئی گھنٹوں تک بےخوف ہو کر بربریت اور درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن ان دہشت گردوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ بے گناہ شہریوں کی جان و مال عزت و آبرو سے کھیلنے والے دہشت گرد بلا خوف و خطر انتہائی درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے اور سینکڑوں گھروں کے چراغ گل کر کے، اُن گھروں میں صف ماتم بچھا کر اور بزرگ والدین سے ان کے سہارے چھین کر، درندہ صفت دہشت گرد پہاڑیوں پر چڑھ کر فرار ہو گئے۔
مجھے نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آج بحریہ ٹاؤن، ڈی-ایچ-اے-09، مختلف شہروں میں واقع عسکری کی رہائشی اسکیموں اور دوسرے رہائشی کمپلیکسس کی طرف سے پرنٹ میڈیا میں دیے گئے اشتہارات میں یہ عبارت فخریہ طور پر لکھی ہوتی ہے؛
"مکمل طور پر گیٹڈ کمیونٹی"
اس عبارت کو دیکھ کر میرا دھیان پرانے بادشاہوں خصوصاً مغلیہ دور کی طرف چلا جاتا ہے جب بڑے شہروں کے ارد گرد فصیلیں تعمیر کی جاتی تھیں اور ان میں بڑے بڑے دروازے نصب کیے جاتے تھے، دراصل یہ اُس زمانے کی گیٹڈ کمیونیٹیز ہی تو تھیں۔
پرانے زمانے کی فصیلوں اور دروازوں کے اندر مقامی حکمرانوں کے محل ہوا کرتے تھے۔ سرکاری عمال، وزراء، اور امراء کے محلات ہوا کرتے تھے۔ تفریح وطبع کے لیے بازار حُسن ہوا کرتے تھے۔ فصیل زدہ شہروں کی دس سے پندرہ فیصد آبادی اُن غریب طبقات کے افراد پر مشتمل ہوتی تھی جو بالادست طبقات کی خدمت پہ مامور ہوا کرتے تھے۔ وہ افراد جو زراعت کے شعبے یا اس زمانے کی صنعت و حرفت کے شعبوں سے وابستہ تھے بڑے شہروں کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی بستیوں اور دیہاتوں میں رہتے تھے جن کے لیے کوئی حفاظتی انتظامات نہیں ہوا کرتے تھے۔ چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں اور بیرونی حملہ آوروں کے لیے سب سے پہلے فصیل زدہ شہروں کے باہر کی یہ آبادیاں، بستیاں اور دیہات ہی لقمہ تر بنا کرتے تھے۔ لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ بیرونی حملہ آور شہر کی فصیل کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اس صورت میں فصیلوں کے اندر قلعوں اور محلوں میں رہنے والے لوگ یا تو مارے جاتے تھے یا پھر پہاڑوں اور جنگلوں کی جانب فرار ہونے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
میں ڈرتا ہوں کہ اگر من حیث القوم پیچھے کی جانب ہمارا سفر اسی طرح جاری رہا تو ہم بیرونی حملہ آوروں کی آمد کے دور میں نہ پہنچ جائیں کہ ہماری گیٹڈ کمیونیٹیز کی دیواروں پر شگاف پڑنے لگیں اور حکمرانوں کو پہاڑوں و جنگلوں کی جانب راہِ فرار نہ اختیار کرنی پڑ جائے۔
اللّلہ نہ کرے کہ آج کی گیٹڈ کمیونیٹیز پر کبھی ایسا کڑا وقت آئے۔ یاد رہے جیسا کہ تاریخ کی معتبر کتابوں میں درج ہے؛
احمد شاہ ابدالی کا پوتا شاہ زمان جب رنجیت سنگھ کے دور میں پنجاب پر حملہ آور ہوا تو پنجاب میں افراتفری پھیل گئی۔ حد تو یہ ہے کہ امرتسر میں واقع عبادت گاہ کی حفاظت کے لیے مُٹھی بھر محافظ رہ گئے۔ دہلی میں مغل دربار میں متعین انگریز ریذیڈنٹ کولنز نے لکھا ہے کہ سکھوں نے بدترین بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ صاحب سنگھ بھنگی گجرات چھوڑ کر بھاگ گیا۔ افغانوں نے شہر کو لوٹ لیا اور شہر کو تہ تیغ کر ڈالا۔ ہندو اور سکھ تو پہلے ہی فرار ہو چکے تھے۔ افغانوں کا شکار ہونے والے پنجابی مسلمان تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی گوجرانوالہ سے فرار ہو گیا۔ افغانوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے گوجرانوالہ میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور نہّتے شہریوں کا کُھل کر قتلِ عام کیا۔
(نوٹ؛ اس مضمون کی تیاری میں جنگ اخبار، وکیپیڈیا اور خوشونت سنگھ کی کتاب "مہاراجہ رنجیت سنگھ" سے مدد لی گئی ہے)
“