کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جو نیند کے محتاج نہیں ہوتے۔ جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خوابوں کی ایک قسم وہ ہےجو بہت نازک حساس ہوتے ہیں ۔اگر انھیں دیکھنے والا،انکے خمار میں مبتلا ہو کرآنکھیں موند لے تو وہیں شکستہ ہو کر دم توڑ دیتے ہیں ۔چونکہ ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیوں کی تدفین دل کے مقام پر کی جاتی ہے چنانچہ انکی چبھن سے دل ہمیشہ خون کے آنسو روتا ہے۔ دوسری قسم وہ ضدی خواب جو آنکھ کے کسی گوشے میں سانس لیتے رہتے ہیں اور چپکے چپکے ناسور کی طرح انسان کے دل و دماغ حتی کہ اعصاب تک جکڑ لیتے ہیں ۔ اس ناسور کا علاج تو موجود ہے مگر انتہائی مہنگااور بے حد طویل ۔ مہنگا یوں کہ اسکی قیمت ایک ایک لمحے سے چکانی پڑتی ہے اور طویل یوں کہ کبھی کبھی ایک لمحہ بھی صدیوں کے برابر ہو جاتا ہے۔ جیسے زہر کو زہر کاٹتا ہے ویسے ہی خواب کے مرض کا علاج یہ ہے کہ اسکی تعبیر ڈھونڈ کر اسکے رو برو کر دی جائے۔ تعبیر وہ نایاب جڑی بوٹی ہے جس تک رسائی “زندگی” کے مہیب، گھنےاور پر خطر جنگل کا صبر آزما اور اعصاب شکن سفر طے کئے بغیر ممکن نہیں ۔اس کٹھن راستے کے بیچ و بیچ” مجبوریوں اور مصلحتوں کی دلدل “نامی گھات بھی ہے۔یہی سب سے کڑا اور جان لیوامرحلہ ہے جہاں اکثر مات ہوتی ہے۔ یوں تو رشتے ناتوں کی طاقت کشش ثقل سے کہیں زیادہ ہے مگر یہاں اس کا الٹا اثر ہوتا ہے اور بس اسی مقام پر اگر رشتوں سے وابستہ بندھن اس دلدل سے نکال کر اس پار لے جائے جہاں گوہرمقصود سامنے ہو تو یقینا شفا ء ممکن ہے۔
جاگتی آنکھوں کے خوابوں سے جڑی یہ تمہید ہی دراصل ” فصیل ضبط ” کا پیش لفظ ہے۔ پیش لفظ کی رسمی بندش،کتاب کی اشاعت میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ خود کو لکھنے پر آمادہ کرنے کے مرحلے کے دوران یہ(خود ساختہ) عقلی توجیہہ ان سوالات کے تسلسل کے ساتھ آڑے آتی رہی کہ اپنے ہی لکھے کے بارے میں مزید کیا لکھا جائے؟ کس حد تک لکھا جائے؟ اپنے نظریے یا تخیل کی وضاحت کے انداز میں اپنے دل کی تسلی کی حد تک؟ یا پھر اپنے کلام کے بارے میں قاری کی رائے کے جملہ حقوق کے احترام کی حد تک؟ عموما شعر میں ڈھلے خیال کی نزاکت ،اسکی تشریح کے دوران متائثر ہو جایا کرتی ہے،خواہ وہ شرح اسکے خالق کی جانب سے ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ اسی سوچ کے تحت،میں اپنے کلام کے بارے میں وضاحتی بیان کے طور پر صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ” برسوں پہلے رشتےاور ان سے جڑی ذمہ داریاں ” نبھاتے نبھاتے،میں شعر وسخن کی محبت سے بے وفائی برتتی رہی۔ کبھی کچھ لکھا تو قرینے سے سنبھالا نہیں اورکبھی کچھ کہا تو سنایا نہیں ۔ اب جبکہ میری ذمہ داریاں میرے شوق کا وزن اور ناز اٹھانے کے قابل ہیں تو جی چاہا کہ جان سکوں کہ میرا شوق ہنر کہلانے کے لائق ہے یا نہیں؟ سخنوری کی روایتی اور رسمی تربیت سے محروم رہ جانے کے سبب، میں اس بارے میں زیادہ پر امید نہیں کہ میرا کلام تکنیکی لحاظ سے ناقدین کے معیار پر پورا اترے گا۔ بس زندگی سے جو کچھ براہ راست سیکھا،اسے اظہار رائے کا مارجن لیتے ہوئے،اشعار میں ڈھال دیا۔ اس جرات اظہار کے پیچھےبے شمار محبتیں اور بہت سا خلوص کار فرما ہے۔ جبھی تو فصیل ضبط کے حصار میں قید،ایک عام خانہ دار عورت آج فخر سے یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ” شوق کا مول،کم از کم، رشتے نہیں ہوتے”