فاشزم ماپنے کا بیرومیٹر
فاشزم اِک طرزحکومت ہے جسے ہم اردو میں فسطائیت کہتے ہیں ۔پولیٹیکل سائنس کے معروف پروفیسر ڈاکٹر لارنس برٹ نے جرمنی میں ہٹلر ،اٹلی میں مسولینی ،اسپین میں فرانکو ،انڈونیشیا میں سہارتو اور چلی میں پنوشے کے ادوار کا باریک بینی سے مشاہدہ و مطالعہ کرنے کے بعد2003ء میں ایک ناول لکھا جس میں 14ایسی علامات تحریرکیں جو حیرت انگیز طور پر ان سب فاشسٹ حکومتوں کے ہاں مشترک تھیں ۔اس ناول کے بعد بحث و تمحیص کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوگیا اور ماہرین سماجیات اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈاکٹر لارنس برٹ کے بیان کردہ ان 14نکات کو فاشزم ماپنے کے لئے بطور بیرومیٹر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔لارنس برٹ کے مطابق فسطائی طرز حکومت کی 14 خصوصیات کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1۔ فاشسٹ حکومتیں جذبہ قومیت کو ابھارنے کے لئے ایسی علامات ،نشان ،نعرے اور اصطلاحات کو فروغ دیتی ہیں جو حب الوطنی کا استعارہ سمجھی جائیں ۔مثال کے طور پر قومی پرچم بڑے پیمانے پر بنائے اور لہرائے جاتے ہیں ،عوامی مقامات پر قومی پرچم پینٹ کئے جاتے ہیں،خاص مواقع پر جوش و جذبہ بڑھانے والے ترانے ریلیز کئےجاتے ہیں ،یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ کون محب ِوطن ہے اور کون غدار ؟
2۔دشمن کا خوف مسلط کرکے اور پھر قومی سلامتی کا ڈھنڈورا پیٹ کر لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے دستبردار ہونے پر تیار
کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے رائے ہموار کی جاتی ہے کہ وطن عزیز کی خاطر اگر قوانین کو پامال بھی کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ آئین سے زیادہ یہ ملک اہم ہے اور اسے بچانے کے لئے اذیت رسانی ،سمری ٹرائل اور سخت سزائوں سمیت تمام وہ باتیں گواراہ کیا جا سکتی ہیں جو عام حالات میں قابل قبول نہیںہوتیں ۔سیاست نہیں ریاست ضروری ہے جیسے سنہری سلوگن دیئے جاتے ہیں۔
3۔حب الوطنی کے جذبے کو ہذیان اور پاگل پن کی مانند طاری کرنے کے لئے کسی مشترکہ دشمن یا خطرے کی آڑلی جاتی ہے ۔لوگوں کو ساتھ ملانے کے لئے کوئی بھی دشمن ڈھونڈا جا سکتا ہے مثلاً ملک کو لبرلز سے خطرہ ہے یا دہشتگرد قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دشمن ہمیں ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔
4۔معاشرے پر فوج کی ہیبت طاری کی جاتی ہے، عسکریت پسندی کو ابھارا جاتا ہے ،مقامی مسائل کتنے ہی گمبھیر اور سنگین کیوں نہ ہوں انہیں نظر انداز کرتے ہوئے دفاعی اخراجات کو فوقیت دی جاتی ہے ،سپاہیانہ شان و شوکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اوربتایا جاتا ہے کہ یہی لوگ آپ کے حقیقی مسیحا،محافظ اور نجات دہندہ ہیں۔
5۔فسطائیت پسند معاشرے میں مردوں کو برتری اور فوقیت حاصل ہوتی ہے ،مردانگی کو قابل فخر جنس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ،مردانگی پر مشتمل میلانات و رجحانات کو فروغ دیا جاتا ہے،جنس کی بنیاد پر روایتی تقسیم شدید تر ہو جاتی ہے اور اسقاط حمل کی مخالفت کی جاتی ہے ۔
6۔سنسرشپ فسطائی طرز حکومت کا بنیادی جزو ہے ،بسااوقات میڈیا کو حکومت براہ راست کنٹرول کرتی ہے ،بعض حالات میں سخت قوانین کے ذریعے میڈیا کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سب حربے کامیاب نہ ہوں تو میڈیا کی صفوں میں موجود اپنے کاسہ لیسوں اور گماشتوںکے ذریعے رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ متبادل بیانیہ وجود میں ہی نہ آسکے۔
7۔فسطائی طرز اقتدار کا ایک اور مہلک ہتھیار ڈر یا خوف ہے جسے ہر قیمت پر برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لوگ ایک انجانے خوف کے حصار میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔یہ احساس اجاگر کیا جا تا ہے کہ کبھی ،کہیں بھی ،کسی کے ساتھ ،کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔یہ ڈر ہی بااثر حلقوں کی اصل طاقت ہوتا ہے۔
8۔رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کیلئے فسطائی معاشرے میں مذہب کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔مذہبی بیانیہ اور اصطلاحات کو فسطائی ایجنڈے کو فروغ دینے کیلئےیوں استعمال کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں ۔جو باغیانہ روش اختیار کریں ان پر کفر کے فتوے لگا کر راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
9۔فاشسٹ حکومتیں صنعتکاروں اور کاروباری شخصیات پر مشتمل اشرافیہ کے بغیر نہیں چل سکتیں ،یہ سرمایہ کار انہیں اقتدار اور اختیار برقرار رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں اور بدلے میں کاروباری فائدے حاصل کرتے ہیں یوں ان کا گٹھ جوڑ کسی کو سر نہیں اٹھانے دیتا ۔
10۔فسطائی ریاست میںمزدوروں کو منظم کرنے والی لیبر یونین کو کسی قیمت پر نہیں پنپنے دیا جاتا ۔انہیں یا تو سختی سے کچل دیا جاتا ہے یا پھر مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے غیر موثرکر دیا جاتا ہے ۔
11۔فسطائی طرز حکومت میں اختلاف رائے رکھنے والے دانشوروں اور فنون لطیفہ کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔علم و ادب اور اعلیٰ تعلیم کو کسی قیمت پر گوارہ نہیں کیا جاتا ،اظہار رائے کی آزادی پرسرِعام حملے ہوتے ہیں،پروفیسروں، اہل قلم ،تخلیق کاروں اور تنقید کرنے والے دیگر افراد کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے ۔
12۔سپاہ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ ادارے حب الوطنی کے نام پر سول آزادیاں چھین لیتے ہیں اور تشدد کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے۔ لوگ ان حالات کو روزمرہ زندگی سمجھ کر نہ صرف قبول کرنے لگتے ہیں بلکہ اگر کہیں کسی کو کوئی ریلیف ملتا ہے تو اسے اپنا حق سمجھنے کے بجائے ان اداروں کا حسن ِسلوک جانا جاتا ہے ۔
13۔فسطائی طرز اقتدار کی ایک اور واضح نشانی یہ ہے کہ جو گروہ آپ کا ہمنوا یا دوست ہوتا ہے اس کی سب غلطیاں اورتمام گناہ معاف ہوتے ہیںجبکہ احتساب صرف سیاسی مخالفین کا ہوتا ہے ۔حقیقی اقتدار کا حامل ٹولہ اپنے دوستوں کو نوازتا ہے ،انہیں قومی وسائل اور قومی خزانہ لوٹنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے ،یہ سب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔
14۔فسطائی نظام کی آخری علامت یہ ہے کہ وہاں انتخابات تو ہوتے ہیں مگر برائے نام ۔من مانی حلقہ بندیوں ،ترامیم اور انتخابی قوانین کے ذریعے نتائج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا تی ہے ۔انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے عدلیہ سے من پسند فیصلے کروائے جاتے ہیں ۔میڈیا کے ذریعے سیاسی مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جاتی ہے،ان کی کردار کشی کی جاتی ہے ،ان پر قاتلانہ حملے ہوتے ہیں ،انہیں انتخابی مہم چلانے نہیں دی جاتی اور یوں من پسند نتائج حاصل کر لئے جاتے ہیں ۔
وطن عزیز پاکستان میں تو الحمد اللہ پارلیمانی جمہوریت رائج ہے اور ہم سب بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں مگر ڈاکٹر لارنس برٹ کا یہ بیرومیٹر لیکر فاشزم ماپنے نکلیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھوٹان نامی ملک میں فاشزم کی شرح سب سے زیادہ ہے اور کم و بیش یہ ساری خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“