جاوید اقبال نے محمد اقبال اور سردار بیگم کے گھرانے میں 5 اکتوبر 1924 عیسوی کو جنم لیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی والدہ محترمہ کا انتقال پرملال جب ہوا تو جاوید اقبال اُس وقت کمسن تھے۔ آپ کی نگہداشت ایک عیسائی عورت کی زیر سرپرستی ہوئی۔ چودہ سال کی عمر میں آپ کے والد بھی چل بسے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم والد صاحب کی نگرانی میں حاصل کی۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے ہفتم جماعت کے امتحان والے دن الف لیلیٰ پڑھنا شروع کر دی۔ ساری رات ناول پڑھتے رہے۔ پھر ہفتم جماعت کے امتحان کامیاب نہ ہو سکے۔ علامہ اقبال نے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی اتنا کہا بعد از امتحان پڑھتے تو بہتر تھا۔ آخری رات ڈاکٹر اقبال نے جاوید اقبال سے کہا تھا کہ جاوید بن کر دکھاؤ تو تمھیں مانیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایم انگلش اور ایم اے فلسفہ کیا۔ ایم اے فلسفہ میں گولڈ میڈلسٹ رہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی۔
یورپ سے واپسی پر آپ نے سیاسی میدان میں جدوجہد کا آغاز کیا۔ سیاسی جدوجہد میں آپ نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ مگر کامیاب نہیں ہو پائے۔ سیاسی میدان میں ناکامی کے بعد عدلیہ سے وابستگی اختیار کی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ کے جج بن کر ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ن لیگ کی طرف سے سینیٹر بھی رہے۔ دوسری مرتبہ سینیٹر شپ کی آفر خرابی صحت کے باعث قبول نہیں کی ۔ اور بقیہ زندگی لکھنے پڑھنے میں بسر کی۔
آپ نے ڈرامہ نگاری بھی کی۔ آپ کا ڈرامہ جس کا اصل تصور یہ تھا کہ حیات بعد الموت فقط تخلیق کار کے لئے ہے اس کو نشر نہیں کیا گیا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
آپ نے اپنے والد محترم کی حیات کے متعلق کتاب لکھی زندہ روود یہ واحد تصنیف ہے کسی ممتاز اقبالیات کے بندے کی جس میں کچھ حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
اپنا گریباں چاک، لمحات جاوید، افکارِ اقبال، خطبات اقبال تسہیل و تفہیم، مئے لالہ فام، منٹو کی خاکہ نگاری ڈاکٹر جاوید اقبال کی تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب زندہ رود کے تین ایڈیشن ہیں جو جاوید اقبال نے تین، تین سال کے وقفے سے لکھے۔ اس کتاب کا ترجمہ آٹھ زبانوں میں کیا گیا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے نہ صرف پاکستان بلکہ مختلف ممالک تقریباً کوئی ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں لیکچرز دئیے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب اجتہاد کے قائل تھے آپ کے نزدیک بدلتے وقت کے ساتھ ہمیں بدلنے کی ضرورت پڑے گی۔ سیکولر، لبرل پاکستان کے خواہشمند تھے۔ فرماتے تھے کہ تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے غازی علم دین کا مذہبی کارڈ کھیلا تھا اور لاہور ہائی کورٹ میں اس کی معافی کی درخواست موجود ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے پہلے دو برٹش جج صاحبان کے سامنے غازی علم دین نے قتل کا مرتکب ہونے سے انکار کیا تھا۔ بعد میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور وکیل تسلیم کیا کہ قتل کیا ہے اور دلائل پیش کیے۔ جج صاحبان نے سابقہ بیان کے پیش نظر تضاد کودیکھتے ہوئے رد کرکے سزا سنائی۔ ان کی نظر میں یہ مذہبی کارڈ تھا تحریک پاکستان کی طرف سے اس لئے انہوں نے اپنی حیات میں قاتل ممتاز قادری کی حمایت سے اجتناب کیا۔ لہٰذا اس سے قطع نظر ہمیں لبرل سیکولر پاکستان ہی ترقی کے راستے پر چلا سکتا ہے۔ آپ طالبان کے اسلام کے سخت خلاف تھے اور اس کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کو قتل ہی اس لئے کیا گیا کہ وہ اسلام پھیلانا چاہتے تھے لوگوں کو مسلمان کرنا چاہتے تھے۔ یوں کفار کی تعداد کم ہونے سے کفار سے موصول ہونے والا جزیہ کم ہونے کا خدشہ تھا۔ آپ کے نزدیک اسلام کا اپنا کوئی معاشی، اقتصادی نظام نہیں تھا۔ زکوٰۃ، عشر، جزیہ وغیرہ پر اسلامی ریاست چلتی تھی۔ آپ کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کو سب سے بڑی حمایت ملائیت کی ہے۔ جب تک ملاء ہیں جاگیردار آباد رہیں گے۔ ملائیت کے خاتمے سے ہی انقلاب لایا جا سکتا ہے جس کے آپ خواہاں تھے۔ آپ کے نزدیک ڈاکٹر اقبال نے نہ تو پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی اسلامی ملک کا تشخص چاہتے تھے بلکہ وہ مسلم اکثریتی آبادی والے صوبے کا قیام چاہتے تھے۔ آپ کے نزدیک قائد اعظم محمد علی جناح نے کیبنٹ مشن پلان کی منظوری دی۔جس کا واضح موقف پاکستان کو ترک کرنا تھا۔ جس پر مولانا حسرت موہانی نے ان سے اظہارِ ناراضگی بھی کیا۔ ایک انڈین چینل کے انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے اس بات کا اعتراف کیا۔ آپ کے نزدیک پاکستان ہندوؤں نے بنایا تھا اور ہم نے نہیں بنایا۔ میں آپ کے اس خیال سے اتفاق تو نہیں کرتا تھا البتہ آپ کی حق گوئی کا معترف ہوں۔ آپ کشمیر کی آزادی کے یوں قائل تھے کہ اس کو علیحدہ ریاست بنا دیا جائے۔ آپ بطور فرد کبھی بھی کشمیر کو اپنے یعنی پاکستان کے ساتھ ملانے کے قائل نہیں تھے۔ آپ کا بطور کشمیری اگر ہوتے کشمیر میں تو یہی تھا کہ کشمیر بطور علیحدہ ریاست تسلیم کیا جانا چاہئے۔ اگر پاکستان، بھارت، روس کشمیر بطور آزاد ریاست تسلیم کرلیں تو یوں ہم کشمیر کو سوئٹزرلینڈ بنا سکتے ہیں۔ یہ آپ کی فکری تجاویز تھیں جو آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں پیش کی تھیں۔ آپ نے اپنے والد کے عالم استغراق کی حکایات پر حقائق سے پردہ اٹھایا کہ وہ نفسیاتی بیماری کا شکار تھے۔ جس کے متعلق ان کے رفیق خاص چوہدری محمد علی نے آپ کو آگاہ
کیا ۔
آپ اس بات پر خفا تھے کہ ہم نے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی بجائے طالبان کی ریاست بنا دیا ہے۔ ہم طالبان کے اسلام کی طرف مائل ہیں۔ ہمارے ادارے لبرل روشن خیال پیدا کرنے کی بجائے طالبان پیدا کریں گے۔
آپ نے زندگی کے آخری ایام سرطان کے ساتھ جنگ میں گزارے۔ اس جنگ میں ہار گئے۔
جاوید اقبال سے اختلاف سہی مگر جاوید اقبال حق گو تھے اور آپ کے نظریات نے یہ بات واضح کی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...