فرض کیجئے ایک دن اچانک تمام ٹی وی چینلز پر ملی نغمے چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کسی نیوز چینل کی تلاش میں ریموٹ کے بٹن دباتے چلے جاتے ہیں لیکن نیوز کہیں نظر نہیں آتی۔ ہر طرف سوہنی دھرتی‘ جیوے جیوے پاکستان اور جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ لگے ہوئے ہیں۔آپ فوراً تاریخ پر دھیان ڈالتے ہیں‘ پتا چلتا ہے کہ نہ تو یہ 14 اگست کا موقع ہے‘ نہ 6 ستمبر اور نہ 23 مارچ۔ پھر اچانک ہر ٹی وی چینل پر ملی نغمے کیوں چلنا شروع ہو گئے ہیں؟ آپ فیس بک کھولنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کچھ پتا تو چل سکے کہ معاملہ کیا ہے‘ لیکن انٹرنیٹ بھی نہیں چل رہا۔ اسی اثناء میں اچانک لائٹ بھی چلی جاتی ہے۔ لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں‘ آپ دوستوں یاروں کو فون کرکے صورتحال پوچھتے ہیں اور اچانک آپ کو بریکنگ نیوز ملتی ہے کہ ''پولیس نے مُلک پر قبضہ کر لیا ہے‘‘۔
فرض کیجئے ایسا ہو جائے تو کیا منظر ہو گا؟ اخبارات کی ہیڈنگ کچھ یوں ہو گی 'مسلح پولیس نے حکومت ختم کرکے فوری طور پر ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے‘‘۔ ایسی صورت میں اگلے دن اخبارات میں سرکاری ٹی وی کی عمارت کی جو تصاویر شائع ہوں گی اُس میں عین ممکن ہے ایلیٹ فورس کے جوان گیٹ پھلانگتے دکھائی دیں‘ اسمبلیاں ٹوٹ جائیں گی اور ملک کا نظام 'آئی جی صاحب‘ سنبھال لیں گے۔ اگرچہ یہاں یہ بڑی الجھن ہے کہ کون سے آئی جی صاحب نظام سنبھالیں گے؟ ہر صوبے کا اپنا آئی جی ہے۔ چلیں ایک بار پھر فرض کر لیتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے چونکہ پنجاب بڑا صوبہ ہے لہٰذا آئی جی پنجاب بطور 'پولیس ایڈمنسٹریٹر‘ قوم سے خطاب فرمائیں گے‘ اس موقع پر اُنہیں پولیس بینڈ کے 21 سازندوں کی سلامی پیش کی جائے گی۔
کیا چشم کشا منظر ہو گا جب ہر طرف پولیس کے جوان موبائلوں میں گشت کر رہے ہوں گے‘ سڑکوں اور بازاروں میں ڈیوٹی دینے والے اہلکار یکدم سب کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے‘ تاہم یہ سوال اہم ہے کہ کیا عوام اُس دن بھی مٹھائیاں بانٹیں گے؟ لگتا ہے بانٹیں گے۔ اُس روز ٹی وی پر ٹاک شوز دیکھنے والے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کسی ٹاک شو میں آپ کو یہ جملہ بھی سننے کو ملے کہ ''پولیس کو عوام نے اقتدار میں آنے پر مجبور کیا‘‘۔ پھر ہر جگہ پولیس اہلکار ہی نظر آئیں گے‘ عین ممکن ہے کچھ کی ڈیوٹیاں واپڈا‘ واسا‘ پی ٹی سی ایل اور ڈاکخانے میں بھی لگ جائیں۔ اِس ''پولیس کُو‘‘ کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کچھ جمہوریت پسند عوام ڈولفن فورس کی موٹر سائیکلوں کے آگے لیٹ جائیں یا پولیس کے 'ڈالے‘ پر چڑھ جائیں لیکن اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے‘ پولیس والوں نے اوپر سے ڈالہ بھی گزار دینا ہے اور کارِ سرکار میں مداخلت کا پرچہ بھی کاٹ دینا ہے۔ جمہوریت جمہوریت کرنے والوں کے لیے اگلے دن آئی جی صاحب بیان جاری کریں گے کہ 90 روز میں الیکشن کروا کے اقتدار منتخب حکومت کے سپرد کر دیا جائے گا۔ لوگ یہ بیان سنیں گے اور ایک دوسرے کے کانوں میں کہیں گے 'او دِن ڈُبا‘ جد گھوڑی چڑھیا کُبا‘‘۔ پھر پولیس راج ہو گا۔ ہر سیاسی مخالف کو پولیس مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو عقل مند ہوں گے وہ نعرہ لگا کر پولیس کو نجات دہندہ قرار دیں گے اور ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ''آئین کی دفع دور‘‘ کے تحت پولیس نہ صرف اقتدار سنبھال سکتی ہے بلکہ جب تک چاہے حکومت کر سکتی ہے۔ سڑکوں پر جابجا لکھا ہوا ملے گا ''قدم بڑھائو آئی جی! ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ غیر ملکی اخبارات میں نمایاں سرخیاں لگیں گی کہ 'پاکستان میں پولیس نے حکومت کا تختہ الٹ دیا‘۔
چوتھی دفعہ فرض کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو چوراہوں میں آئی جی صاحب کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہو جائیںگی۔ ایک دم سے دانشوروں کی زبانیں انکشافات کرنے لگیں گی کہ کیسے ملک ڈوبا ہی چاہتا تھا کہ آئی جی صاحب نے آ کر پیچھے سے کھینچ لیا اور گھسیٹ کر کنارے پر لے آئے۔ اخبارات میں اس اقدام کے حامی کالم نگاروں کے کالم شائع ہوں گے جن کے عنوانات کچھ یوں ہوں گے ''پولیس تیرا شکریہ… پولیس یہ نہ کرتی تو کیا کرتی؟ …پولیس زندہ باد‘‘۔ آئی جی صاحب بھی بیان داغیں گے کہ الحمدللہ سب کچھ ٹھیک ہے‘ پولیس اور عوام ایک پیج پر ہیں۔
مجھے نہیں پتا کہ کیا پولیس کو اسٹیبلشمنٹ کہا جا سکتا ہے؟ حساس ادارہ کہا جا سکتا ہے؟ میرا خیال ہے نہیں کہا جا سکتا… تو پھر پولیس کو ڈھکے چھپے الفاظ میں ہدف تنقید کیسے بنایا جائے گا؟ ہو سکتا ہے اس مقصد کے لیے ''سکیورٹی ادارے‘‘ کا لفظ استعمال کر لیا جائے‘ یہ خاصا مبہم سا لفظ ہے‘ کام چل جائے گا۔ اب ذرا آگ بڑھیں۔ ملک میں پہلی دفعہ پولیس کی قربانیوں کا ذکر ہو گا‘ پولیس ہیڈ کوارٹر سے نئی نئی دھنوں والے ترانے بن کر نشر ہوں گے اور عوام کا خون گرمائیں گے۔ پھر قوم کو پولیس سے کوئی شکایت نہیں رہے گی۔ ہر بندہ یہی کہتا نظر آئے گا کہ پولیس ہماری قوم کی ہیرو ہے۔ تھانے یکدم' ٹھکانے‘ لگ جائیں گے۔
کابینہ کچھ یوں تشکیل پائے گی۔ وزیر خارجہ‘ ڈی آئی جی مختار گھمن… وزیر داخلہ‘ ایس ایس پی سلمان پاشا… وزیر قانون‘ ایس پی شاکر راٹھور… وزیر ریلوے ڈی ایس پی یاسر ملک… وزیر کھیل انسپکٹر طارق شاہ بگڑ… وزیر پانی و بجلی‘ اے ایس آئی مسکین سولنگی… وزیر صحت‘ محرر غلام رسول… اور وزیر مملکت‘ ہیڈ کانسٹیبل اللہ بخش… معافی چاہتا ہوں ایک بار پھر فرض کرنا پڑے گا کہ ایسی صورت میں سیاستدان کہاں جائیں گے؟ میرا خیال ہے سیاستدان وہیں جائیں گے جہاں سے پولیس والے آئیں گے… یعنی تھانے!!
ذرا تصور کیجئے! کیا دلفریب منظر ہو گا جب آئین کی رٹ لگانے والے رونی صورت بنا کر کہہ رہے ہوں گے 'آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا‘۔ ہو سکتا ہے آگے سے جواب ملے' 'آئی جی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا‘۔
پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے اگر ایسا ہو گیا تو ہر طرف نہایت امن و امن ہو جائے گا۔ لاکھ ڈکیتیاں ہوں لیکن ایف آئی آر نہیں درج ہو گی‘ ایسی وارداتوں کی خبریں بھی شائع نہیں ہوں گی کیونکہ ہر اخبار شائع ہونے سے پہلے پولیس ہیڈ کوارٹر میں چیک کرانا پڑے گا۔ جو صحافی پولیس کے خلاف خبر لگائے گا اسے سرعام 'منجی‘ لگائی جائے گی۔ جو جمہوریت کا راگ چھیڑے گا اسے ''پانجہ‘‘ لگایا جائے گا۔ پھر ہم تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھیں گے کہ فیس بک پر پولیس کے خلاف ہر پوسٹ غائب ہو جائے گی‘ پولیس کا ذکر صرف اچھے الفاظ میں ہو گا۔ جوشیلے اینکر پرسن رات کو ٹی وی ٹاک شوز میں دلائل کے ساتھ بتایا کریں گے کہ پاکستان اصل میں پولیس نے بنایا تھا اور ایٹم بم کا فارمولہ بھی پولیس نے ایک مشکوک شخص کی جیب سے برآمد کرکے ڈاکٹر قدیر خان کو دیا تھا کہ پلیز اس کے مطابق بم بنا لیں۔ فرض کیجئے… لیکن ٹھہریے… مجھ سے اب مزید فرض بھی نہیں ہو رہا… میرا فرض ہے کہ میں ایسی کسی بات کو فرض بھی نہ کروں… سنا ہے کوئی قبولیت کی گھڑی بھی ہوتی ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“