"شمس ادب غروب ہوا۔"
"فاروقی کے جانے کے بعد زبان و ادب کے نقصان کی تلافی ناممکن ہے۔"
"آہ فاروقی!"
"فاروقی صاحب کے جانے سے اردو زبان و ادب یتیم ہوگئے۔" وغیرہ وغیرہ۔
25 دسمبر کو سوشل میڈیا پر اس طرح کی مبالغہ آرائی کرنے والوں میں سے شاید ایک نے بھی 'وہ جو چاند تھا سر آسماں' نہیں خریدی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بچے کی پیدائش پر مبارکباد اور کسی کے انتقال پر 'اناللہ و اناالیہ راجعون' کا اسٹیکر چپکا کر اپنا ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں ، یہ وہ بھیڑ ہے جو کبھی کسی سیاسی لیڈر کی تقریر کے دوران نظر آتی ہے تو کبھی کسی کتاب کی رسم اجرا پر۔ انھیں نہ پڑھنے پڑھانے میں دلچسپی ہے اور نہ کسی عہد ساز ادیب و دانشور کو اس کے شایان شان خراج عقیدت پیش کرنے میں۔
متذکرہ کتاب کی ریلیز کے دن بھی لوگوں نے مجھے کافی مبارک باد دی، میری ہمت کو سراہا، میری جانفشانی پر ایسے ایسے الفاظ میں مبارکباد دی کہ میں شرما گیا لیکن افسوس ان میں سے بیشتر نے صرف زبانی جمع خرچی کی۔ خیر، یہ سب ایک زمانے سے دیکھ رہا ہوں، کوئی نئی بات نہیں۔ میں بھی غضب کا ڈھیٹ آدمی ہوں، کتاب ترتیب دیتا رہوں گا، رسالہ نکالتا رہوں گا، انھیں شائع کرتا رہوں گا اور اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک انھیں پڑھنے والا ایک آدمی بھی اس دنیا میں موجود ہو۔ خیر، میری کتابوں سے محبت کرنے والے ہند و پاک میں ایک سے بہت زیادہ ہیں لیکن افسوس ہوتا ہے ان پر جن کی پوری زندگی صرف سلیبرٹی کے ساتھ سیلفی نکالتے یا ان کا آٹو گراف لیتے گزر گئی اور میڈیوکریٹی ہی ان کا کُل سرمایہ حیات ہے۔
فاروقی صاحب اور زبان و ادب سے عملی محبت کرنے والوں کے لیے 'تراجم فاروقی' پر مشتمل ایک اور کتاب جو اس وقت زیر ترتیب ہے، جلد منظر عام پر آنے والی ہے ۔ اس کتاب میں فاروقی صاحب کے 250 تراجم شامل ہوں گے جو شاعری، فکشن، ڈرامہ، مضامین اور دیگر اصناف ادب کے ترجموں پر مشتمل ہوں گے۔ یہ دراصل فاروقی صاحب کے تراجم کی کلیات ہوگی۔
اگر آپ مجھے اس کتاب پر بھی حسب سابق مبارک باد دینا چاہتے ہیں تو بہت شکریہ لیکن ایک بار یہ طے کرلیجیے کہ کیا آپ اس کتاب کو پڑھنا بھی چاہتے ہیں؟
“