فارسی زبان وادب کاشماردنیاکےقدیم ترین ادب میں ھوتاھے۔فارسی زبان وادب کاوجودظہوراسلام سےصدیوں پہلےتھامگراسےقابل رشک رفعت اورعظمت14سوسال قبل اسوقت نصیب ھوئی جب عہدخلافت61ھ میں سعدبن ابی وقاص رض نےجنگ قادسیہ میں آخری ساسانی بادشاہ یزدگردکوفاش شکست دی۔
ایران کےپایہ تخت مدائن پر اسلامی پرچم لہرانے کی دیر تھی دیکھتے ہی دیکھتے عرب کےکاملان قرآن نے ایران کی کایاپلٹ کر رکھ دی۔ وہ ایسے کہ تمام ایرانی حلقہء بگوش اسلام ھوئے۔ انکارسم الخط، لباس، طرزبودوباش، زبان، ادب آداب عرض سب کچھ بدل گیا۔ مختصرا یہ عرب ایرانی تمدن کا امتزاج بن گئے۔
پھرخودمختارحکومتوں،طاہریوں،صفاریوں کےتوسط سےفارسی ادب کادوبارہ سلسلہ شروع ھوا۔ سامانی دورکوتاریخ فارسی زبان وادب کےاحیاءکادورکہتی ھے۔ اسی دورمیں ایران میں فارسی کےسب سےپہلےشاعر رودکی سمرقندی اورپاکستان میں فارسی شاعرہ رابعہ بنت کعب خضداری پیداھوئے۔ رودکی(884-941ھ)کو'آدم الشعرا'کا لقب دیاگیا۔رودکی کےبعد نصراللہ مستوفی نے'کلیہ دمنہ' کافارسی ترجمہ کیا۔ خواجہ فریدالدین عطار(1116-1230ھ) نےتصوف کےاسرارورموزکوبطورتمثیل بیان کیا۔
1230میں ایک منگول کےقاتلانہ حملےسےآپ114سال کی عمرمیں فوت ھوئے۔ فارسی صوفیانہ شاعری کےاقانیم ثلاثہ حکیم سنائی،جلال الدین روم،خواجہ عطار کوکہاجاتاھے۔شیخ سعدی رح کا کلام سنجیدگی اور شیرینی کےساتھ ساتھ مزاح کی نمکینی قاری کوگرویدہ کرتی ھے۔ فارسی شعروادب میں شیخ مصلح الدین شیرازی رح کامرتبہ بہت بلندھے۔گویاآپ فارسی زبان وادب کے پیغمبرہی نہیں بلکہ ایک بااصول اورنیک طینت انسان رھے۔ آپ سےبڑامعلم ایران میں پیدانہیں ھوسکا۔
"سبط حسن صادق ہدایت کو جدید ایران کے چوٹی کے ادیبوں میں شمار کرتے ھیں۔ صادق ہدایت کا شہرہ آفاق افسانہ'سگ آوارہ' جس میں محبت کے بھوکے کتے'پات' کوزہردےکرماردیاجاتاھے نہایت متاثر کن ھے۔ 'سبط حسن صادق ہدایت کے ناول 'بوف کور' خو دور حاضر کا بہترین ناول خیال کرتے ھیں۔ 1970 میں پہلوی حکومت نے ترقی پسند ادیبوں کی انجمن 'کانون نوپسندگان' پر پابندی لگائی تو بزرگ علوی، صمد بہرنگی، جلال آل احمد، خسرو گل سرخی جیسے شعراءکو سخت اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
جانوروں اورپرندوں کی زبانی کہانیاں بیان کرنے کا رواج فارسی کلاسیکی ادب میں شروع سے رائج ھے۔ تمثیل نگاری کا آغاز حکیم سنائی کی 'حدیقہ' اور عطار کی 'منطق الطیر' سے ھوتا ھے۔ مولانا جلال الدین رومی رح حضرت شمس الدین تبریز کے مرید تھے جو ایران کی بلکہ عالم اسلام اور ادب کی نہایت شہرہ آفاق ادبی شخصیت ھیں۔ گویا ایران میں داستاں نویسی کی روایت بہت پرانی ھے"
حاصل کلام، فارسی کی یہ نامور ہستیاں نہ صرف ایران کی بلکہ عالم اسلام کا کل اثاثہ ھیں جو تسبیح کے دانوں کی مانند ھیں۔ جنہیں ہر آنےوالی نسل پڑھنے کی پابند ھے۔ گویا یہ ہستیاں نہیں شعرو ادب کی نہیں بلکہ آئندہ نسلیں اور زمانے ان کے محتاج رھیں گے۔
ماخذ
انقلاب ایران از سبط حسن، 1988
صادق حسن:سگ آوارہ از (مترجم) بزل حق محمود،1974